Topics
یہ سنتے ہی عاقب فرشتے کے ساتھ فضا میں بلند ہوا اور وادی
نوم سے نکل کر دونوں اعراف کے بارڈر کی طرف اُڑنے لگے۔ جو بارڈر زمین سے لگتا ہے۔ ان کی ان میں دونوں اس مقام پر پہنچ گئے
جہاں مرنے کے بعد زمین سےآنے والے اعراف میں داخل ہوتے ہیں۔ فرش پر قدم رکھتے ہی
عاقب کا دل زور سے دھڑکا اور دھڑکن کے ساتھ ہی گلبدن کی صدا اس کے اندر گونج گئی۔
پاس ہی رحمٰن بابا اور خضر بابا کھڑے تھے۔ عاقب نے انھیں دیکھتے ہی بے ساختہ
پوچھا۔
”رحمٰن بابا ۔ خضر بابا۔ گلبدن آرہی ہے؟؟“
دونوں نے مسکرا کر اس کی تائید کی۔ ” ہاں بھئی تمہاری گلبدن
آ رہی ہے۔ تم اس کا خیر مقدم نہیں کرو گے۔“ عاقب ہنس پڑا۔ خوشی سے اس کا چہرہ اور
نورانی ہو گیا۔ اس کے روئیں روئیں سے خوشی کی لہر نکلنے لگیں۔ اتنے میں گلبدن زمین
کی سرنگ سے نکل کر اعراف کی زمین پر نمودار ہو گئی۔ اس کے چہرے پر سفر کی تھکان
جھلک رہی تھی۔ عاقب ایک جست میں اس کی طرف بڑھا اور گلبدن کہہ کر اس لپٹ گیا۔ موت
کی درماندگی زندگی کی قوت میں بدل گئی۔
روشنیاں اَن کہے جذبات کو خوشبو بن بن کے اڑنے لگیں۔دل شوق وارفتگی میں کہہ اُٹھے۔
موت ایسی حسین ہوگی۔ اس کا تو ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا۔ دونوں جب اپنے آپ سے نکلے
تو عاقب نے گلبدن کو خضر بابا اور رحمٰن بابا سے ملوایا۔ خضر بابا اور رحمٰن بابا
نے گلبدن کی پیشانی چومی اور اعراف میں نئی زندگی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے
دعا دی۔
عاقب گلبدن کو اپنے گھر لے آیا۔ یہاں اس کے ممی پاپا بھی آگئے۔
فرشتوں نے اپنے مہمانوں کی خوب تواضع کی۔ گلبدن سے دنیا کی باتیں ہوتی رہیں۔ گلبدن
نے ان لوگوں سے پوچھا۔
” میں سوچا کرتی تھی کہ موت کی کیفیت کیا ہوگی اور آدمی موت
کو کس طرح محسوس کرتا ہوگا۔“
عاقب نے مسکرا کر پوچھا۔” تو پھر تم نے موت کو کیسا پایا
اور کن مراحل سے گزریں؟“
گلبدن نے بتانا
شروع کیا۔
”عاقب کے انتقال کے بعد میں بہت افسردہ رہنے لگی تھی۔ دنیا
میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔ بچے میرا غم باٹنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ میں محسوس
کرتی تھی کہ عاقب یہیں کہیں میرے ساتھ ہی ہیں۔ بچوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے
کے بعد تو عاقب کی یاد اور زیادہآنے لگی۔ پھر وہ دن بھی آگیا کہ میری بیماری اپنے
عروج پر پہنچ گئی۔“
گلبدن نے دیکھا کہ سب لوگ اس کی گفتگو دلچسپی اور توجہ سے
سن رہے ہیں۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
” ایک دن بیماری کی وجہ سے مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور اس کے بعد مجھے ماورائی مخلوق نظرآنے لگی۔ چند روز کے بعد میری بیماری
بہت شدید ہوگئی۔ آخر میں نے دیکھا کہ خضر بابا میرے پاس آئے ہیں۔ خضر بابا ڈکٹروں
والا لیب کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔
” عاقب عالمِ اعراف میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہے کیا تم چلنے
کے لئے تیار ہو؟“
میں نے حامی بھر لی۔ میں بیڈ پر چت لیتی ہوئی تھی۔ میرے سامنے ایک اسکرین لگی ہوئی
تھی۔خضر بابا نے فرمایا کہ:
” اس اسکرین پر
اپنی نگاہیں مرکوز کر لو۔ “ میں نے اس اسکرین پر اپنے جسم کا باطن دیکھا جیسے
ایکسرے ۔ میں نے دیکھا کہ میں لیٹی ہوں۔ میرے جسم کے اندر روشنی بھری ہوئی ہے جیسے
گبارے کے اندر ہوا بھری ہوتی ہے۔ اس طرح
جسم کے اندر روح کی روشنی سر سے پاؤں تک
سمائی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ
جسم محض ایک خول ہے جو روح کی حفاظت کے لئے ہے۔ جیسے بچہ رحم میں بند ہوتا ہے۔ روح
جسم کے اندر اس طرح بند ہے کہ پاؤں کے اندر پاؤں، ہاتھ کے اندر ہاتھ، گردن کے اندر
گردن غرض یہ کہ جسم کے اندر روح اسی طرح
سمائی ہوئی ہے جیسے جسم دکھائی
دیتا ہے۔ خضر بابا کے ہاتھ میں روشنی کا ایک آلہ ہے۔
انہوں نے آلہ کو جسم کے پاؤں سے چھوا اس
کا لمس روح کے پاؤں نے محسوس کیا اور پاؤں کی روشنی اوپر سمٹ گئی۔ اس طرح وہ جسم
کے ہرحصے کو چھوتے اور اس کی روشنی سمٹتی جاتی۔ روح جس حصے چھوڑتی وہ حصہ جسمانی حس سے محروم ہو جاتا لیکن
روح کیروشنی بڑھ جاتی۔ جب پیٹ روح کی روشنیوں سے خالی ہوا تو بعدے کی مشینری بند
ہو گئی۔ بھوک پیاس کا احساس بھی ختم ہو گیا ۔ جیسے جیسے روح کی روشنی بڑھتی جا رہی تھی میرا موت کا خوف ختم ہو کر سکون و
اطمینان میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا۔ گویا جسم سے حس منتقل ہو کر روح میں تبدیل
ہقتی جا رہی تھی اب روح کی روشنیاں دل کے مقام سے آہستہ آہستہ اوپر کی جانب سمٹیں۔ دل کی مشین ایک جھٹکے سے بند ہو گئی
جیسے مشین روٹین میں چلتے چلتے بند ہو جائے تو کچھ جھٹکے لگتے ہیں۔ نبضیں ڈوبنے
لگیں، دل کی حرکت غیر معمولی ہوگئی پھر مجھے لگا جیسے میرا دل مردہ ہو گیا ہے۔ میں
نے سوچا کہ میں مر گئی ہوں۔ اب تو میری زندگی روح
ہے۔ میں جسم نہیں بلکہ روح ہوں اور اس خیال کے ساتھ ہی ساری توجہ روح کی
جانب مبذول ہوگئی۔ یو ں لگا جیسے روح کی روشنی ایک دم سے نہایت تیزی کے ساتھ سمٹ کر حلق میں آگئی ہے۔ میری سانسیں
تیز اور بے ترتیب ہو گئیں اسی لمحے روح کی ساری روشنیاں سمٹ کر آنکھوں میں آگئیں۔
آنکھ کی پتلی کے سوراخ سے روح کی روشنی باہر نکل آئی۔ میں نے یعنی روح کی نظر نے
دیکھا کہ نور کا وسیع و عریض سمندر ہے۔ اس سمندر کے اندر سے روح مچھلی کی طرح
آہستہ آہستہ باہر نکلتی جا رہی ہے باہر نکلتے ہی میں نے ایک نظر پانی کے اندر
دیکھا سمندر کی تہہ میں اپنا مردہ جسم بیڈ پر لیٹا دکھائی
دیا۔“
گلبدن اپنی مو کی کیفیات بتا کر خاموش
ہو گئی تو خضر بابا نے کہا۔
” جسم روح کا لباس ہے۔ جب تک روح اس
لباس میں رہتی ہے جسم چلتا پھرتا ہے جیسے بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے بچہ
اپنے تمام تقاضے ماں سے پورے کرتا ہے۔ ماں کھاتی ہے تو بچہ کھاتا ہے، ماں پیتی ہے
تو بچہ کی پیاس بھجتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہو جاتا
ہے تو بچے کے تمام تقاضے انفرادی بن جاتے ہیں۔ اب بچے کو خود اپنی نشو نما
کے لئے کھانا پینا پڑتا ہے، سانس لینا
پڑتا پے۔ موت کا لمحہ حواس کی تبدیلی کا لمحہ ہے۔ قانون قدرت کے اعتبار سے ہر شئے
دو رخوں پر مبنی ہے۔ حواس کے بھی دو رخ ہیں۔ جسمانی حواس اور روح کے حواس ۔ دونوں حواس ایک ورق کے دو
صفحے ہیں جو رُخ سامنے ہو حواس اسی رُخ میں کام کرتے ہیں۔ لیکن ایک حالت میں یہ
حواس دونوں رخوں میں کام کرتے ہیں جیسے ورق کھڑا
کر دیا جائے تو دونوں طرف کے صفحے سامنے آ جاتے ہیں۔ حواس کی اسی بلندی کو
اعراف کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
کچھ انسان اعراف کی بلندی پر بیٹھے ہوں
گے اور وہاں سے جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کریں گے۔“
اعراف وہ فصیل ہے، جہاں زمانی اور مکانی
فاصلے ایک لائن میں آجاتے ہیں۔ مکانی فاصلہ جسمانی حواس اور زمانی فاصلہ روحانی حواس کو تخلیق کرتا ہے
جہاں زمانی اور مکانی فاصلے ایک حدود پر اکٹھے ہو جاتے ہیں وہ لاشعور کی وہ حد ہے
جہاں سے شعور شروع ہوتا ہے۔اس مقام پر شعور الاشعور کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس طرح غیب
میں روح کے ساتھ پیشآنے والی کارکردگی کو دیکھ لیتا ہے۔“
کچھ دیر ہلکی پھلکی باتوں کے بعد خضر
بابا عاقب اور گلبدن سے مخاطب ہوئے:
” تم جانتے ہو کہ اصل وقت ازل سے
ابد تک کا زمانہ ہے۔ ازل میں نور خدا وندی حجاب محمود کے پردے سے نکل کر ابد کی
مسافتوں کو طے کرتے ہوئے مقامِ ابدیت پر جلوہ افروز ہوا۔ پردہ عدم سے نکل کر پرسہ
ظاہر پر ظہور پذیر ہوا۔ ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کے نور کا پھیلاؤ ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے ازل سے ابد تک کے زمانے کو مختلف اوقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے نام
فجر۔ظہر۔عصر۔ مغرب۔عشاء اور تہجد بیان کئے گئے ہیں۔ تہجد زمانہ ازل کی وہ گھڑی ہے جس
لمحے نور خداوندی ذاتِ باری تعالیٰ کے اذن پر پردہ عدم سے نکل کر لوحِ محفوظ پر
اپنی شانوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تہجد کے مقام پر ذات مطلق کا امر اپنے نور پر نزول
کرتا ہے۔ اللہ ذوالجلال والا کرام کے امر و حکم پر نور اپنی صفات کو ظہر کر دیتا ہے۔ اور زمانے کے تمام ادوار
فجر۔ ظہر۔ عصر۔ مغرب۔عشاء سے گزر کر مقام معبودیت سے مقام عبدیت میں جلوہ افروز
ہوتا ہے۔ تاکہ نور کے ذرّے ذرّے کی نظعِ ذات ِ مطلق کو پہچان کر اس کی خالقیت اور
ربوبیت کا اقرار کرے اور نور کی صفات کے
کمالات کو دیکھ کر امرِ الہٰیہ کے امور کی حکمتوں کا اعتراف کرے۔“
خضر بابا نے عاقب اور گلبدن کے کندھوں
پر ہاتھوں کا دباؤ ڈالتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا:
تم جانتے ہو کہ تمہارے سینوں میں قندیل
روشن ہے۔ یہ روشنی تمہیں زمانہ ازل کے ادوار سے گزرنے میں مشعلِ راہ بنے گی۔ جیسا
کہ اللہ تعالی ٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ سعید روحیں جب عالمِ غیب میں اللہ
تعالیٰ کے حکم سے سفر کریں گی تو ان کا نور ان کے دائیں طرف کو دوڑتا ہوگا۔ وہ
اپنے نور کی روشنی میں غیب کے عجائبات کی سیر کریں گی۔ تم دونوں پر اللہ تعالیٰ کی
خسوصی رحمت ہے۔ آج رات تہجد کے وقت تمہیں میرے ساتھ زمانے کے ادوار سے گزرنا ہے۔
تاکہ بندگی کا حق ادا کر سکو۔ یاد رکھو! بندگی کا حق معبود برحق کی پرستش اور
عبادت سے ادا ہوتا ہے۔“
عاقب اور گلبدن کے کندھوں پر خضر بابا
کے ہاتھوں کے دباؤ سے دونوں کے اندر کرنٹ کی لہریں منتقل ہونے لگیں۔ دونوں نے
محسوس کیا کہ ان لہروں کے ذریعے خضر بابا کے پیغام کی روشنی ان کے وجود کے ہر گوشے
میں پہنچتی جاتی ہے۔ ان کی نظر اپنے وجود کے اندر خضر بابا کی روشنی کی لہروں کو
پھیلتا ہوا دیکھنے لگیں۔ جیسے پانی سے بھرے شیشے کے گلدان میں پودے کی جریں
صاف دکھائی دیتی ہے۔
اس کے بعد خضر بابا نے فرمایا: ” اللہ
تعالیٰ کے خزانے اللہ تعالیٰ کے اسمائے الہٰیہ کا جمال ہیں۔ جمال کا دیکھنا ہی
جمال کی تعریف ہے۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے علوم مشاہداتی علوم ہیں۔ کتابوں
میں پڑھ کر یہ علوم اس وجہ سے حاصل نہیں ہوتے
کیونکہ الفاظ کے حروف انوار کے لئے پردہ بن جاتے ہیں۔ آدمی کی نظر پردے کو
دیکھتی ہے انوار کو نہیں دیکھتی ۔ نظر جس چیز کو دیکھتی ہے اس کا عکس دماغ میں
محفوظ ہو جاتا ہے۔ پھر یہی عکس بار بار دماغ کے پردے پر منعکس ہوتا رہتا ہے۔ یعنی
نظر کا دیکھا ہوا یہ پہلا عکس یقین کی بنیاد ہے۔ یقین کی دو سمتیں ہیں۔ ایک سمت
حقیقت ہے دوسری سمت مفروضہ ہے دونوں ہی
یقین کے لباس میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نظر دھوکہ کھا
جاتی ہے۔ مگر جیسے یقین کے پردے میں حقیقت
کی روشنی نظر آتی ہے تمام مفروضہ
نظریات ہلاک ہو جاتے ہیں۔ حقیقت کی یہی
روشنی قلب کی آنکھ بن جاتی ہے۔غیب کا ہر مشاہدہ یقین کی بنیاد پر انسان کے اندر
کام کرنے والی صلاحیت بن کر ابھرتا ہے۔
حقیقت کی ہر روشنی روح کی فطرت ہے۔ غیب کے مشاہدے سے روحانی طرزِ فکر متحرک
ہو جاتی ہے۔ تمام مفروضہ نظریات و صلاحیتیں روح کی فطرت سے جدا ہیں۔ یہ عالم ناسوت
کیروشنیوں کا ردِ عمل ہے جس کی وجہ سے عالمِ ناسوت کی حدود سے نکلتے ہی نظر پر ان
کی خرابیاں واضح ہو جاتی ہیں۔ اگر عالمِ ناسوت
کی روشنیوں کا رد عمل انسان کے
حواس کے دائروں میں شدید ہو تو آدمی کے اندر سفلی تحریکات بیدار ہو جاتی ہیں اور
وہ مرنے کے بعد اسفل میں جا گرتا ہے۔ یعنی انسانی نفس کی کمزوریاں حرکت میں آجاتی
ہیں جن کا روح کی فطرت سے کوئی واسطہ نہیں
ہے۔ روح اپنی ذات میں فطرتاً معصوم ہے۔ روح کی ذاتی حرکت امر ربی کی حرکت ہے روح
کا شعور امر ِ ربی کا شعور ہے۔ غلطی کا
مرتکب شعور و عقل بنتا ہے روحانی شعور
نہیں بنتا۔ روحانی شعور غیب کے انکشاف کرتا ہے۔“
ایک دن صبح صادق کے وقت عاقب کی آنکھ
کھلتے ہی روح کے حواس شعوری حواس سے متصل ہو گئے۔ اسی لمحے شعور میں متجسس ابھرا۔
ممتا کی نظر کیا ہے اور کس طرح دیکھتی ہے ۔ ذہن کا سوال جواب کا پیش رفت نکلا۔ اس
نے دیکھا روح آسمان کی جانب بڑے انہماک سے دیکھ رہی ہے۔ عاقب نے بھی اس کی
تقلید میں آسمان کی جانب نظر ڈالی۔ تمام
آسمان خوبصورت رنگ برنگی تصاویر سے مزین تھا۔ دل نے کہا یہ عالم تمثال کا پردہ ہے۔
اس نے اب غور سے اس پردے کو دیکھا تو یہ آسمان
دکھائی دیا۔ ذہن یا عقل بولی:
یہ پردہ ہی آسمان ہے۔ اس آسمان پر رنگین
شعاعوں سے بہت واضح اور خوبصورت تصاویر بنتی جا رہی تھیں۔ روح کی نظر بہت دیر تک ان تصاویر کو
دیکھتی رہی۔ جس طرح کیمرہ اپنے اندر تصویر محفوظ کر لیتا ہے اسی طرح روح کی آنکھ
نے بھی اپنے اندر آسمان سے نظر ہٹائی اور
نیچے زمین کی جانب نظر کی۔ نہایت ہی احتیاط سے نظر کی روشنی میں ایک انتہائی لطیف عکس جو ہو بہو آسمان کے عکس جیسا تھا،
روشنی میں نیچے اترا۔ روح کی نظر زمین پر ایک عورت پر تھی۔ نظر کی روشنی میں یہ
لطیف ترین جلوہ یا عکس اتر کر اس کے اندر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ عاقب کے لب فطرت کی
معصومیت پر مسکرا اُٹھے۔ اسی لمحے روح نے
اس کی جانب دیکھا۔ کہنے لگی:
” مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت مصور
الا رحام سے معمور کیا ہے لوح محفوظ کی تمثالیں اس پردے پر اترتی ہیں۔ دراصل یہ
تمثالیں پردے کے اندر اترتی ہیں وہاں سے
آہستہ آہستہ اس پردے پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔ عالمِ تمثال کے پردے پر تصویر کا ہر
رنگ اسمائے الہٰیہ کی صفت ہے۔ کائنات کا
ہر نقش اپنی ذات میں اسمائے الہٰیہ کی فطرت پر ہے۔لوح محفوظ کی ہر تمثال اللہ
تعالی کی بہترین صناعی ہے۔ روح اللہ کے
امر کو کائنات میں جاری و ساری رکھنے کے کام پر مقرر و مامور ہے۔ جس صناعی کو اپنے اسماء کے انوار
سے مزین
کر کے اپنی
بہترین کارکردگی کا مظاہرہ خالقیت کی شان کر رہی ہے۔ اسی صناعی کو امرِ ربی یا روح
خالق کے حکم پر دہرا رہی ہے۔ امر ربی اللہ کا ارادہ ہے۔ روح اللہ کے ارادے پر کام
کرتی ہے۔ روح کی کارکردگی میں خوئی خرابی نہیں ہے۔ “
عاقب کے ذہن میں ایک دم سے سوال پیدا
ہوا۔ پھر خرابی کہاں ہے؟ اس کے کچھ کہنے سے پہلے روح بولی:
” روح کا ہر کام اسمائے الہٰیہ کی فطرت
پر ہے۔ میں اسمائے الہٰیہ کی فطرت کے مطابق مصور ہوں۔ جس طرح اسمائے الہٰہیہ میرے
افق پر تصویر کشی کرتے ہیں میں ہو بہو اسی طرح کرتی ہوں۔“
اب اس نے عاقب کو دوبارہ وہی منظر
دکھایا کہ آسمان پر ایک نہایت ہی حسین تصویر ہے۔ روح نظر بھر کر اس کو دیکھتی ہے
پھر زمین پر نظر کرتی ہے اور نظر کی روشنی میں یہ جلوہ آسمان سے زمین کی جانب
اترتا چلا آتا ہے۔ زمین پر ایک عورت کے اندر سمٹ کر سما جاتا ہے۔ یہ حسین جلوہ ہو
بہو آسمان کی تصویر جیسا تھا۔ اب اس کی نظر روح کی نگاہ کی روشنی میں اس عورت پر
تھی۔ اس کی اندھیری کوٹھری میں ایک پائپ نما سوراخ کے ذریعے دھواں داخل ہونے لگا۔
روح کی بنائی ہوئی تصویر متاثر ہونے لگی۔
عاقب دھوئیں کو دیکھ کر پہلے ہی جان چکا تھا کہ تصویر کے اصلی رنگ میں دھوئیں کی
سیاہی کے پیچھے چھپ چکے ہیں مگر امرِ ربی کی ہر حرکت کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح
جاری و ساری ہے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔ زمین کی تخلیق دھوئیں کے خول میں کھڑی تھی۔
اس نے دیکھا روح کی نظروں میں ایک دم سے ممتا کی روشنی چمکی اور اس روشنی نے
دھوئیں کے اس خول کا احاطہ کر لیا۔ روح کی
توجہ مسلسل اسی تصویر کی جانب تھی۔ عاقب نے روح کی روشنی میں اس کی توجہ کی جانب
دیکھا۔ روح کی توجہ اور تحفظ کی فکر قطار در قطار فرشتوں کے روپ میں دخان کے اندر
اترتے چلے جا رہے تھے۔ ان فرشتوں نے اس تخلیق کو ہر طرف سے گھیر لیا تاکہ اس کی ہر
حرکت کنٹرول میں رہے۔ روح بولی۔
” جس طرح ذاتِ خالق کی صفت ِ خالقیت کا
مظاہرہ روح کے ذریعے ہو رہا ہے یعنی روح عالم تمثال کے تمثل کو اللہ کے امر کے
انوار سے سیراب کر کے جسم مثالی کی صورت میں ڈھالتی ہے۔ جسمِ مثالی روح کی تخلیق
ہے۔ یہی جسمِ مثالی مادی صورت میں دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا میں تخلیقی قانون
کے مطابق مادی وجود کے لئے عورت و مرد سبب بنتے ہیں۔ پس یہ مادی وجود جسم مثالی کے
مادی جسم تخلیق میں روح کے شریک ہیں۔ اگر عورت و مرد اپنی روح سے واقف ہوں اور
اپنے اندر کام کرنے والے امر کی حرکات سے تعاون کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کی
تخلیق میں کوئی نقص رہ جائے۔ ایسی صورت میں خلق کی کمزوری کے پس پردہ کوئی نہ کوئی
حکمت سامنے آجاتی ہے جس سے دل پر سکون رہتا ہے اور اللہ پر یقین بھی پختہ رہتا
ہے۔“
عاقب نے روح سے پوچھا۔” تو کیا صرف صلبی
اولاد ہی کی تخلیق میں انسان کے ارادے کا دخل ہے یا روح کے اور بھی کاموں میں
انسانی ارادہ شامل ہوتا ہے؟ روح بولی۔
” انسان کے ذہن پر ہر خیال جسمِ مثالی
کی ایک تصویر ہے جو روح کے امر کی صورت ہے۔ انسانی ذہن کے اندر یہ روشنیاں مدارج
سے گزرتی ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں خواہ یہ صورت مادی ہو یا ماورآئی ہو، تخلیق ہوجاتی ہیں۔ مادی صورت کو انسان کی
آنکھ دیکھ لیتی ہے یا ظاہری حواس کسی طرح پہچان لیتے ہیں مگر ماورآئی صورت کو انسان کے باطنی حواس پہچانتے ہیں اور
ظاہری حواس ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد انسان اپنے ارادے کی تخلیق کردہ
دنیا میں پہنچ جاتا ہے اسی کو اعمال کا ریکارڈ کہتے ہیں۔“
عاقب کے ذہن میں خیال گزرا کہ جانے کتنے
ہی خیالات اور اعمال ہم سے الٹے سیدھے ہوتے رہتے ہیں جن کی خبر بھی نہیں ہوتی یا
ہم توجہ بھی نہیں دیتے۔ اس میں آدمی کا کیا قصور ، یہ تو زندگی ہے بس گزر رہی ہے۔ وہ
اس کے ہر خیال سے واقف تھی۔ روح فوراً بولی:
” انسان تو ایک مشین ہے جو روح کے
خیالات کی تصویر کی کاپی بنا رہی ہے۔ مشین درست ہوگی تو کاپی صحیح بنے گی ورنہ
جیسی بھی بنے گی اسی کو دیکھنا پڑے گا۔“
نظر کی خاصیت ہے کہ وہ حسن و جمال کو پسند کرتی ہے۔ بدصورت شئے
کو زیادہ دیر دیکھنے سے دماغ پر دباؤ پڑتا ہے۔ یہی انسان کی سزا ہے۔ میری نظر دور
افق پر جا پہنچی۔ ہری بھری جنتوں میں روح اپنے محبوب کے ساتھ تھی۔ دل پہچان گیا،
اللہ کے ارادے کی تصویروں کا عکس روح کی آنکھ
میں ہے۔ روح کی آنکھ کا عکس میرا تصور ہے۔ میرا تصور میری جنت ہے۔
اب عاقب کو چلتے پھرتے ہر دم محسوس ہونے
لگا جیسے آسمان سے تجلی کا نزول ہوتا ہے اور یہ تجلی نیچے آتے آتے ساری دنیا میں
دائرے کی صورت میں پھیل جاتی ہے اور روشنی کے اس دائرے میں سارا عالم آجاتا ہے۔ اس
کا ذہن اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر غور کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی تجلیاں
سارے عالمین کو فیڈ کرتی ہیں۔ اللہ کی تجلیاں سارے سارے عالمین پر محیط ہیں۔ ان
تجلیات میں اسمائے الٰہیہ کا ادراک ہے اور یہی ادراک تقسیم ہو کر کائنات کے افراد
کا شعور بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگا۔ تجلی
کا نور ازل سے ابد تک تمام عالمین پر محیط تھا۔ میری نگاہ آفاق پر تجلیوں کو گرتا
ہوا دیکھنے لگی۔آفاق پر نمودار ہوتے ہی تجلی کی روشنی نہایت تیزی سے پھیلتی جاتی
اور اس پھیلتی اور اس پھیلتی ہوئی روشنی کے اندر نہایت چمکیلے ذرات ستاروں کی صورت
میں پھیلتے جاتے۔ یہاں تک کہ تجلی کی روشنی کے اندر تمام عالمین آ جاتے اور تجلی
کی روشنی تمام عالمین کو گھیر لیتی۔ عاقب کی نظر روشنی کی فاضا میں چمکیلے ذرات پر
گئی اور پھر وہیں ٹھہر گئی۔
٭٭٭