Topics
ایک خوبصورت تخت پر لگے گاؤ تکیوں کے سہارے تینوں بیٹھ گئے۔
عاقب کے پاپا نے اس سے پوچھا۔
” تم موت کے بعد اپنے اندر کیا تبدیلی محسوس کر رہے ہو؟“
وہ مسکرا کر بولا۔” ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں خواب سے
بیدار ہو کر حقیقت کی دنیا میں پہنچ چکا ہوں۔“
اس کی ممی نے کہا۔ ” تم
ٹھیک کہتے ہو بیٹے یہی حقیقت ہے۔“
عاقب نے محسوس کیا
کہ ان تینوں کے درمیان سب رشتوں سے زیادہ دوستی کا رشتہ ہے۔ اس عالم میں سب
ایک دوسرے کےدوست ہیں۔ عاقب نے انہیں بتایا کہ دنیا میں وہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ
کر یہاں آیا ہے۔ اس کی ممی فوراً بولی۔
” ہاں ہم جانتے ہیں۔ گلبدن بہت اچھی لڑکی ہے۔ ہم نے تمہارے
بچوں کو بھی دیکھا ہے۔“
عاقب بہت حیران ہوا ۔” کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے۔ آپ انہیں
کیسے جانتے ہیں؟“
پاپا بولے۔” اس عالم میں دنیا کے بہت سارے اسرار تم اپنی
کھلی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔“
عاقب بولا۔” یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ سب سے بڑی تبدیلی تو میں
اپنے اندر محسوس کر رہا ہوں۔ دنیا میں
گلبدن اور بچوں کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور یہاں گلبدن اور
بچوں کے لئے دل میں وہ محبت اور فکر محسوس نہیں ہوتی۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اللہ
نے ان کی ذمہ داریاں مجھ پر ڈالی تھیں جو میں نے دنیا میں اپنی سکت کے مطابق
پوری کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ ذمہ داریاں
مجھ پر سے ہٹا لی گئی ہیں۔ اب میرا
ذہن ان میں اٹکتا نہیں وہ جہاں بھی
رہیں خوش رہیں۔“
ممی نے کہا۔” روح کا ادراک سمندر کی طرح ہے۔ سمندر کی
گہرائی میں بے شمار قسم کے جانور رہتے
ہیں۔ مگر سطح پر دیکھنے والی نظر گہرائی
کے بھید سے واقف نہیں ہوتی اور جب تک نگاہ سمندر کی گہرائی سے سطح پر اُبھرنے والی شئے کے بھید سے پوری طرح
واقف نہیں ہو جاتی وہ اس شئے پر اٹکی رہتی ہے۔ نگاہ کا ایک شئے پر ٹھہر جانا حواس میں شدت پیدا کرتا ہے۔ دنیاوی حواس
سطحی حواس و احساسات ہیں اور غیب کے حواس گہرائی
کے حواس ہیں۔ گہرائی میں نگاہ کا
ٹارگٹ پانی کا بہاؤ ہے۔ غیب کی نظر سب سے
پہلے روح کے ادراک کے سمندر کے بہاؤ کو دیکھتی ہے اور پھر اس بہاؤ میں بہتی ہوئی
اشیاء پر اس کی نظر جاتی ہے۔ اس طرح فرد کے حواس میں احساس کی شدت پیدا نہیں ہوتی اور وہ جسمانی درد اور
تکلیف سے بچ جاتا ہے۔“
ابھی یہ لوگ باتوں میں مشغول تھے کہ دونوں فرشتے کھانوں سے
بھری ہوئی پھر دوسری ٹرے لے آئے۔ کھانوں کی نئی نئی لذت کے شوق میں عاقب باتوں
باتوں میں تقریباً پوری ٹرے ہی کھا گیا۔ مگر اسے پیٹ بھرنے کا خیال ہی نہ آیا۔ وہ
چونکا اس وقت جب ٹرے میں چند اشیاء باقی رہ گئیں۔
” ارے میں اتنی ساری چیزیں کھا گیا۔ اور پتہ نہیں چلا اور
نہ پیٹ میں گرانی محسوس ہوئی۔“
پاپا مسکرا کر بولے۔” اس عالم میں حواس پر روشنیوں کا غلبہ
ہے۔ روشنی لطیف ہے۔ یہاں ہر شئے حواس کے دائرے میں لطافت بن کر داخل ہو رہی ہے۔ جس
کی وجہ سے گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ دنیاوی حواس پر عناصر کا گلبہ ہے۔ عناصر ٹھوس
اور بھاری ہیں۔ حواس میں داخل ہونے والی
ہر شئے اپنے ٹھوس پن کا اظہار کرتی ہے۔ جس سے حواس پر دباؤ پڑتا ہے۔ یاد رکھو! اگر
تم خوشی کو اپنی تمام کیفیات پر غالب کر لو گے تو تمہارے حواس مستقل طور پر لطیف
ہو جائیں گے۔ پھر تم اعراف کی زندگی سے بھر پور لطف اُٹھا سکو گے۔ دنیا کی طرح اس
عالم میں بھی خیال کی کارفرمائیاں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنایوی شعور خیال کو
غیر مرئی جانتا ہے ۔ مگر یہاں پر خیال کو آنکھ، رنگ اور روشنی کی صورت میں دیکھتی ہے اور تصور کے خاکوں کو رنگین
ہیولوں میں دھلتے دیکھتی ہے۔ خیال روح یعنی امرِ ربی کی روشنی ہے۔ یہ روشنی جب
اعراف کے جسم ِ مثالی کی روشنی میں جذب ہوتی ہے تو رنگ بن جاتی ہے۔ یعنی روح کی
روشنی جب جسم مثالی کے ارادے سے متصل ہوتی ہے تو تیسری چیز رنگ کی تخلیق ہو جاتی
ہے جیسے ہی حواس کے دائرے میں رنگینی پیدا ہوتی ہے۔ جسم مثالی کے حواس اس رنگینی
کو خوشی کا نام دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب روح کی روشنی جسم مثالی کے ارادے میں
جزب نہیں ہوتی تو حواس ان روشنیوں سے خالی رہتے ہیں۔ یہ خلاء حواس میں گم اور
افسوس کی کیفیات پیدا کرتا ہے۔ خلاء کی تمام کیفیات بوجھل اور بھاری ہیں۔“
عاقب بڑے غور سے پاپا کی باتیں سن رہا تھا اس اجنبی ملک میں
اسے رہنمائی کی ضرورت تھی۔ اس نے حیرت سے
پوچھا۔
” تو کیا یہاں کوئی رنجیدہ نہیں ہوتا؟“
پاپا بولے۔” دنیا کی طرح یہاں بھی خوش اور ناخوش دونوں قسم
کے لوگوں کا بسیرا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ جو لوگ اس عالم میں غمزدہ ہیں انہیں دیکھ
کر دوسرے لوگوں کو بھی افسوس ہوتا ہے مگر ان کا ذہن اللہ کی حکمت کی طرف جاتا ہے
کہ اللہ کے ہر کام میں حکمت ہے۔ اس طرح ان کی کیفیات روح کے ادراک کے سمندر میں
بہنے لگتی ہیں اور رنج و غم کا احساس شدت اختیار کرنے سے پہلے فوراً ہی گزر جاتا
ہے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ اس فرد نے روح کی کس اطلاع کو رد کر دیا ہے۔“
کچھ ہی دیر میں روشنی میں آہستہ آہستہ تاریکی میں گھلنے
لگی۔ شام گہری ہوگئی۔ ممی کہنے لگیں۔
” رات ہو گئی ہے۔ یہاں راتیں بہت اندھیری نہیں ہوتیں۔ رات کو بھی دکھائی
دیتا ہے۔ رحمٰن بابا اور خضر بابا نے تمہارے لئے خصوصی پروگرام رکھے ہیں۔
وہ تمہیں یہاں کے ملکی نظام سے متعلق سیر کرائیں گے۔“
اسی وقت دونوں فرشتے آئے آور عاقب کو اس کے بیڈ روم میں لے
گئے۔ یہ ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جس کے بیچوں بیچ ایک بڑی سی مسہری بچھی
تھی۔ دونوں فرشتے نہایت ادب سے عاقب کو اس مسہری کے پاس لائے اور کہا۔
”آپ اس پر ارام کریں۔ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ہم ہر طرح
سے حاضر ہیں۔“
جیسے ہی عاقب مسہری کے قریب آیا وہ حیرت سے ایک دم چلا
اُٹھا۔
”ارے یہ تو وہی مسہری ہے جو زمان خان نے میرے لئے بنائی تھی ۔ جس پر لیٹتے ہی میں یہاں پہنچ گیا تھا۔ یہ کیسے یہاں آگئی؟“
ایک فرشتہ بولا۔” جیسے آپ یہاں آگئے۔ آپ کا نام آپ کی ذات
کی پہچان ہے۔ آپ کے نام سے وبستہ دنیا کی ہر شئے کو آپ اس عالم میں پائیں گے۔“
عاقب نے کچھ نہ کچھ سمجھتے ہوئے زور سے سر ہلایا اور مسہری
پر دراز ہو گیا۔ ابھی اس کے حواس پر حیرت کا غلبہ تھا۔ دکھتی ہوئی چیزیں بھی اسے
حیران کر رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ مسہری پر دراز ہوا۔ چاروں طرف سے نیلے رنگ کی
روشنیاں نکل کر مسہری پر پھوار کی صورت میں برسنے لگیں۔ روشنی کی ننھی ننھی بوندیں
جسم کو چھوتے ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے ممتا کے ملائم ملائم ہاتھ اسے پیار سے
سہلا رہے ہیں۔ اس نے فطرت کی آغوش میں اپنی
آنکھیں بند کر لیں اور حقیقت کی
کھوج میں سپنوں کے دیس میں نکل کھڑا ہوا۔ زندگی ایک ہی ڈھب پر رواںرواں ہے۔ ہر
جاگنے کی حالت عقل و شعور کی انفرادی و جسمانی حرکات و اعمال کاعالم ہے اور ہر
نیند کی حالت روح کی حرکات و سکنات کا عالم ہے۔ قدرت کے قانون ازل سے ابد
کے اندر یکساں طور پر کام کر رہے ہیں۔
اعراف کی پہلی رات کا پہلا سپنا عاقب کے آئینہ دل میں
نومدار ہوا۔ اس نے دیکھا۔ اس کی نظر اپنی ذات سے آہستہ آہستہ اُٹھتی ہوئی آسمان کی
طرف جا رہی ہے۔ نظر اس کی اصل ذات ہے۔ جیسے جیسے نظر اوپر اُٹھتی جاتی ہے اسے
محسوس ہوتا ہے اور مشاہدہ ہوتا ہے جیسے وہ خود اوپر آسمانوں میں سیر کر رہا ہے۔
نظر جستجو ئے حق کی سواری پر سفر کر رہی ہے۔ ہر آسمان پر رنگا رنگ کے نظارے ہیں۔
نظر اس میں سے گزرتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہجوم تجلیات و انوار نظر کو چاروں طرف سے
گھیر لیتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے بہت
سارے ہاتھوں نے اسے ہر طرف سے تھام لیا ہے نظر اپنی ناتوانی پر لرز اُٹھی۔ نہ
آسمان نہ زمین ، یہ میں کہا ں آگئی۔ اس کے قدم اپنی بے بسی کے خوف سے لڑ کھڑا گئے۔
اسی لمحے نور کی شعاع چادر بن کر اس کے قدموں کے نیچے بجھ گئی۔ ہیبت خداوندی سے
لرزتے ہوئے بدن کو رحمت خداوندی کے بے شمار ہاتھوں نے تھام لیا۔ ندا آئی۔ اے روح!
تجھے زمین و آسمان کی رنگینیوں سے نکلنے پر کس نے مجبور کیا؟ صوتِ سرمدی نے روح کو
تقویت پہنچائی۔ اس کے کومل جسم کا لرزہ دور ہوا۔ اس نے دھڑکتے دل سے آہستہ آہستہ
جواب۔ اللہ نے۔ جیسے ہی روح کے لبوں سے آواز نکلی۔ اللہ نے اس آواز کی بازگشت ہر
سمت سے ہونے لگی۔ نور کے ہر ذرے سے ٹکرا کے یہ آواز فضا میں گونجنے لگی۔ اللہ نے،
اللہ نے، اللہ نے ۔ آواز کی ہر لہر روح کی سماعت کے اندر داخل ہو گئی اور توانائی بن کر روح کے پورے وجود میں سما گئی زمانے گزر
گئے قرن گزر گئے ۔ اللہ کی آواز روح کی سماعت میں منتقل ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ نور
کی فضاء کی یہ گونج روح کے وجود میں سما گئی۔ روح کے باطن”اللہ نے“ کی آواز گونجنے لگی۔ باطن کے شعور نے روح کے شعور کو جگا
دیا۔ دفعتاً اس کے لبوں سے ایک چیخ بلند ہوئی۔” اللہ نے“ اور وہ ہڑ بڑا کے اُٹھ
بیٹھا۔ اس نے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ اسے یاد آگیا کہ وہ مر چکا ہے۔ اس وقت دونوں
فرشتے بھی حاضر ہوگئے۔” یا اخی! آپ نے خواب دیکھا ہے۔ یہ شربت پی لیجیے۔ آپ کے حواس بحال ہو جائیں گے۔“ اس نے چند گھونٹ
شربت کے پیئے اور پھر سے بستر پر دراز ہو گیا۔ روح کی آواز ابھی تک اس کی سماعت
میں گونج رہی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے دونوں فرشتوں کو جانے کے لئے کہا اور چپ
چاپ آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ذہن میں تیزی سے خیالات آنے
لگے۔ کیا موت کے بعد کا یہ جسم بھی وہ روح نہیں ہے اللہ سے ملنے کے لئے لامحدودیت
میں داخل ہوجائے پھر وہ روح کہاں ہے؟ کیا
وہ اب بھی پردے میں چھپی ہوئی ہے؟ اس کے اندر امر ربی کی آواز ابھری۔” اے گروہ جن
و انس ! اگر تم زمین و آسمان کی سر حدوں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے
مگر سلطان کی مدد سے۔“ عاقب کے دل نے اندر ہی اندر پھر یہ آیت دہرائی۔” تم ہرگز
بھی نہیں نکل سکتے مگر سلطان کی مدد سے۔“ اس کا دل پکارنے لگا۔ سلطان، سلطان،
سلطان ۔ آئینہ دل میں خواب کے تمثلات پھر سے اُبھرنے لگے۔ زمین و آسمان کی سرحدوں
سے باہر نکلتے ہی اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ قبل اس کے وہ جلال و جبروت
کی لامحدود گہرائیوں میں گم ہو جائے ایک نور کی شعاع نے اسے اوپر نیچے دائیں بائیں
ہر طرف سے گھیر لیا۔ اس کے دل کے آئینے میں ایک لمحے کو یہ نور ٹھہر گیا۔ آنا کی
لہروں پہ نور نے اپنی پہچان دل میں منتقل
کی۔ اللہ کی تجلی و انوار سلطان ہے۔ جس نے
زمین و آسمان اور اس کے اندر بسنے والی پر شئے کو سنبھالا ہوا ہے۔ زمین و
آسمان کے اندر مخلوق کی تمام حرکات و سکنات اسباب وسائل کے ساتھ رونما ہو رہی ہے۔
انفرادی شعور اپنے تحفظ کے لئے اسباب و وسائل کا پابند اور محتاج۔ زمین کے بغیر کوئی شخص اپنے وجود کا تصور نہیں کر
سکتا۔ مگر زمین و آسمان اور اس کے اندر بسنے والی مخلوق کی تخلیق سے پہلے یہ سب
چیزیں کہاں تھیں؟ جب کچھ نہ تھا تو اللہ تھا۔ آسمان و زمین اور اس کی ہر شئے اللہ
کے علم میں محفوظ تھی۔ علم بقا ہے۔ علم لافانی ہے۔ علم قدیم ہے۔ علم لازوال ہے۔
علم لاتبدل ہے۔ علم محیط ہے۔ فرد کی آنا جب اپنے انفرادیت کے خول کو توڑ دیتی ہے
تو کائنات کے ڈائی مینشن اس کے ذہن سے نکل
جاتے ہیں۔ آنا اپنی حقیقت کی جانب پرواز کرتی ہے۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان کی سرحدوں سے باہر نکل کر اصل ذات سے
متصل ہو جاتی ہے اصل ذات اللہ ہے۔ فرد کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے سمندر میں ڈوب
کر ہمیشہ کے لئے ذاتی پہچان سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہر قطرہ
سمندر کا جز ہے۔ قطرے کی پہچان سمندر کی
پہچان ہے قطرے کی بقا سمندر پر ہے قطرے کے قیام اور قطرے کے تحفظ کی ذمہ داری
سمندر ہے۔ سمندر قیام قطروں کا مجموعہ ہے۔ ذات واحد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا
سمندر ہے۔ اس کا ہر قطرہ فرد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی یکتائی کا علمدار ہے۔ عاقب نے محسوس کیا کہ اس کے دل
کیا تھاہ گہرائی میں سمندر کا ایک قطرہ
ٹپکا۔ قطرے نے دل کو اپنی پہچان کرائی۔ دل کے خلاء میں اللہ۔۔ اللہ۔۔ کی آواز
گونجنے لگی۔ دل رازِ ہستی سے آشنا ہو کر قطرے کی آواز بن گیا۔ لبوں کی خاموشی کے
ساتھ باوجود دل سے اللہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ دل اللہ کے ذکر کے ساتھ وحدانیت
کے سمندر کی گہرائیوں میں سفر کرنے لگا۔
صبح روشن ہوگئی عاقب کے ممی پاپا ناشتے کے بعد رخصت ہو گئے۔
ان کے جانے کے کچھ دیر بعد رحمٰن بابا آگئے۔ کہنے لگے۔
”ہمارے ساتھ آؤ تمہیں اعراف کی سیر کرائیں۔“
دونوں گھر سے باہر آئے تو عاقب نے دیکھا کہ دروازے پر بڑے
ہی خوبصورت دو سفید گھوڑے کھڑے ہیں۔ وہ بے ساختہ ایک گھوڑے کی طرف بڑھا اور اسے
تھپکی دیتے ہوئے بولا۔
” ارے سمندگان تم یہاں۔۔۔ کیسے ہو میرے یار؟“ گھوڑے نے خوش
ہو کر زور زور سے گردن ہلائی۔ رحمٰن بابا خوشی سے ہنس دیئے۔ ” یہ تمہیں بہت یاد
کرتا تھا۔“
عاقب نے اس کے چہرے کو پیار سے تھپکا اور اس پر سوار ہو
گیا۔ رحمٰن بابا اپنے گھوڑے پر بیٹھ چکے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں گھوڑے ہوا سے
باتیں کرنے لگے۔ ان کی اسپیڈ انتہائی تیز
تھی۔ جہاں لوگوں کا زیادہ ہجوم ہوتا۔ گھوڑے فوراً پرندوں کی طرح ہوا میں پرواز
کرنے لگتے۔ یہاں وزن کا احساس ہی نہیں تھا۔ ہر چیز نہایت ہی ہلکی پھلکی محسوس ہوتی
تھی۔ حواس پر لطافت کا غلبہ ہونے کی وجہ سے احساس میں خوشی اور سر شاری کی کیفیت
طاری رہتی۔ عاقب کے لئے تو ہر جگہ نئی تھی۔ وہ ہر چیز کو دیکھ کر بچوں کی طرح اچھل
پڑتا۔ یہاں کی ہر شئے اسے خوبصورت رنگین اور روشن
دکھائی دیتی۔ اس نے رحمٰن بابا سے
کہا۔
”رحمٰن بابا! یہاں کی فضا ، یہاں سبزہ ، یہاں کا موسم کس
قدر دل کو لبھانے والا ہے۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ دنیا میں لوگ مرنے سے کس
قدر ڈرتے ہیں۔ کاش انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ یہ عالم اس دنیا سے ہزار درجہ بہتر ہے۔“
رحمٰن بابا بولے۔” ایسا نہیں کہ انہیں اس دنیا کے متعلق کچھ
علم نہیں ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی سے آسمانی کتابوں اور تمام پیغمبران علیہم
السلام نے لوگوں کو بہت اچھی طرح ہر زمانے
میں متعارف کرایا ہے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر لوگ دنیا کے علاوہ اور
کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔“
اتنے میں دونوں گھوڑے ایک خوبصورت پہاڑی پر ٹھہر گئے۔ رحمٰن
بابا نے گھوڑے سے اُترتے ہوئے کہا۔” عاقب آؤ تمہیں ایک خاص چیز دکھاتے ہیں۔“
عاقب بھی گھوڑے سے اتر پڑا۔ پہاڑی نہایت سر سبز تھی۔ بڑے
بڑے درخت اور رنگا رنگ پھول بھی ہر طرف کھلے ہوئے تھے۔ پہاڑی پر تھوڑا سا چل کے
ایک جگہ رحمٰن بابا رُک گئے۔ کہنے لگے۔” وہ سامنے نیچے کی جانب دیکھو۔“
عاقب نے دیکھا۔
نیچے ذرا سی گہرائی میں ایک بہت
خوبصورت وادی تھی۔ اس وادی پر ہلکی سی دھند چھائی
ہوئی تھی۔ مگر اس دھند کے پردے میں عاقب کی نظر بالکل صاف طور پر دیکھ رہی
تھی۔ اس نے رحمٰن بابا سے اس کا تذکرہ
کیا۔” رحمٰن بابا ! اس دھند کے اندر بھی
نظر کی وادی کو بہت صاف دیکھ رہی ہے۔“
رحمٰن بابا بولے۔” اعراف کی نظر مادے سے گزر جاتی ہے۔ مگر
دنیاوی نظر مادے میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔
میں تمہیں یہاں اسی چیز کا مشاہدہ کرانے آیا ہوں۔ یہ وادی جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ
اعراف کا ایک حصہ ہے۔ یہ دھند جو اس پوری وادی پر چھائی ہوئی ہے یہ دھند نیند کا پردہ ہے۔ یہ وہ مخصوص
جگہ ہے جس جگہ پر رات کو نیند کی حالت میں دنیا والوں کے جسم مثالی لائے جاتے ہیں۔
اس وادی میں تم
غور سے دیکھو تو تمہیں یہاں لوگوں کی حرکات و سکنات کا اندازہ ہوگا۔“
عاقب نے دیکھا کہ اس وادی میں جگہ جگہ
کہیں اگ کے الاؤ جل رہے ہیں۔ کہیں سر سبز قطعے ہیں ، کہیں اونچی نیچی سڑکیں ہیں، کہیں کچے راستے ہیں۔ گھر بھی
چھوٹے بڑے ، اچھے بُرے کئی قسم کے ہیں۔ جگہ جگہ استینڈ پر بڑے بڑے کینوس لگے ہوئے
ہیں اور عورتیں اور مرد اپنے اپنے کینوس پر تصویریں پینٹ کر رہے ہیں۔ اس نے جب
انہیں غور سے دیکھا تو اس پر اس بات کا
انکشاف ہوا کہ ہر شخص اپنے خیال کی تصویر کو کینوس پر پینٹ کر رہا ہے۔ تصویر میں
سمئے ہوئے رنگ اس شخص کی دلی و قلبی کیفیات
و احساسات ہیں۔ خوشی کی کیفیت میں آدمی شوخ رنگوں کا استعمال کرتا ہے اور غم کی
کیفیت میں ڈل اور اداس رنگوں کا استعمال کرتا۔ ہر شخص کی تصویر کو دیکھ کر اس کے
قلبی رح جانات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی
نظر ایک کینوس پر پڑی جس پر ایک عورت پینٹ کر رہی تھی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ
نکلا۔
”ارے یہ تو گلبدن ہے۔“ اس نے خاص توجہ کے ساتھ اپنی نگاہ اس پر گاڑ
دی۔
اس نے دیکھا کہ کینوس پر تصور زندگی کے
اس خواب کی تصویر ہے جو دنیا میں رہ کر عاقب اور گلبدن نے ایک ساتھ دیکھا تھا۔ مگر
اب گلبدن اس تصوری میں رنج و غم کے رنگ سمو رہی ہے۔ وہ جان گیاکہ اس کے مرنے سے
گلبدن پر کیا گزر رہی ہے۔ عاقب یہ دیکھ کر سخت بے چین ہو گیا۔ وہ اسے روکنا چاہتا
تھا۔ تاکہ وہ غم زدہ اور مایوس نہ ہو۔ اس نے رحمٰن بابا سے کہا۔
” رحمٰن بابا ! گلبدن سخت رنجیدہ ہے۔
میں کس طرح اس کا رنج دور کروں تاکہ وہ اس تصویر میں غلط
رنگ نہ بھرے۔“
رحمٰن بابا
بولے۔” عاقب! میں اسی لئے تمہیں اس جگہ لایا ہوں۔ دیکھو! یہ وادی جو تم دیکھ رہے
ہو۔ یہ ” وادی نوم“ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ نیند کی حالت میں عارضی طور پر جسم مثالی
پہنچتا ہے۔ نیند کی حالت یا عارضی موت میں جسم مثالی کا رابطہ مادی جسم کے ساتھ
قائم رہتا ہے۔ اس وجہ سے اسے بال کل باخبر رہنا ہوتا ہے۔
اس ڈور میں ذرا سی بھی جنبش ہوئی تو وہ
فوراً اپنے مادی جسم میں لوٹ جاتا ہے۔ یعنی جسم مثالی نیند کی حالت میں دنیا کی
حدود کو پار کرتا ہے تو وہ بھی ایک حد کے اندر پار کرتا ہے کہ مادی جسم کے ساتھ اس کا تعلق قائم رہے۔ وادی نوم پر
چھائی ہوئی دھند اسی حد کو ظاہر کرتی ہے۔
نیند کی حالت شعور کو لاشعور میں داخل کرنے کا عمل ہے ۔ شعور انفرادی شعور ہے اور
لاشعور اجتماعی یا نوعی شعور ہے۔ نیند کی حالت میں جسم مثالی کو لا کر اسے اس بات
کا عملی مشاہدہ اور تجربہ کرایا جاتا ہے کہ تم فرد کی حیثیت سے مادی شعور میں جو
روشنیاں منتقل کر رہے ہو ان کی ماہیے کیا ہے۔ وادی نوم میں دنیاوی زندگی کے تمام
اعمال کی تمثیل ہے۔ نیند کی حالت میں جب جسم مثالی اس وادی میں پہنچتا ہے تو وہ
دنیا میں کئے ہوئے اعمال کی تمثیل دیکھ لیتا ہے۔ مثلاً دنیا میں اگر اسے پریشانیوں
اور مشکلات کا سامنا پڑا تو وہ یہاں ان پریشانیوں کو حشرات الارض وغیرہ کی صورت
میں دیکھ لیتا ہے۔
اس وادی میں اعراف کے بہت سارے مخصوص
لوگ اور فرشتے اس کام پر مقرر ہیں کہ وہ نیند کی حالت میں یہاں آنے والے جسم مثالی
کو ان تمثیلات کے ذریعے سے اعراف کی زندگی سے روشناس کرائیں۔ تبدیلی حواس دیکھی
ہوئی چیزوں کو جو معنی و مفہوم پہناتا ہے ۔ اس
سے آگاہ کریں اور دنیاوی عقل اور اعراف کے حواس و عقل کے درمیان ایک ایسا
ربط قائم کرنے کی ہدایت کریں جو دونوں شعور
وحواس کو قائم بھی رکھے اور اپنے ارادے سے ان شعور وحواس کواستعمال کرنے کی
صلاحیت بھی پیدا کرے۔ تاکہ زندگی کے تمام مراحل کی حرکات و سکنات کا ریکارڈ رہے
اور زندگی کا تسلسل قائم رہے۔“
٭٭٭