Topics
سب اس بات سے واقف ہو چکے تھے کہ اس سانحہ قیامت سے ان کا
زندہ بچ نکلنا اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت ہے، قدرت ان سے جو کام لینا چاہتی ہے
انہیں پوری تندہی کے ساتھ اس میں لگنا ہوگا۔
عاقب نے لوگوں کے اندرحکیمانہ تفکر بیدار کرنے کی کوشش کرتے
ہوئے کہا۔
” آج ہماری پوزیشن وہی ہے جو ہمارے باپ آدم اور ہماری اماں
حوا کی تھی، جب انہوں نے پہلے پہل اس سر زمین پر قدم رکھا تھا۔ ان کے پاس وسائل کی
کمی تھی۔ مگر جنت کی زندگی ان کے حافظے میں محفوظ تھی۔ جس میں وسائل اُن کے ارادے
کے تابع تھے۔ جب وسائل آدمی کے ارادے کے تابع ہوں تو زندگی جنت ہے۔ وسائل کی
فراوانی زندگی کی آسائش مہیا کرتی ہے مگر جب اس دنیا میں آدم و حوا نے قدم رکھا تو وسائل ان کے ارادے کے
تابع نہ رہے بلکہ وہ خود وسائل کے محتاج ہو گئے۔ گویا پہلے وہ حاکم تھے اب محکوم
ہو گئے۔ مگر محکومی کی حالت میں بھی ان کے ذہن میں جنت کی حاکمیت کی زندگی کی خوشگوار یادیں اور انمٹ
نقوش باقی تھے۔ جنت کی زندگی کے ان
ہی دھندلے خاکوں میں انہوں نے دنیا میں
رنگ بھرنے شروع کر دیئے۔ اس طرح دنیاوی زندگی کو جنت کے پیٹرن پر سیٹ کرنے کی بھر
پور کو شش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کاشتکاری کر کے اور ہل جوت کے بنجر زمین کو گلستان بنا دیا۔ حافظے میں چھپے ہوئے باغ
ارم کو نگاہوں کے سامنے ظاہر کر دیا۔ عالم بالا کے حسین محلات کو تصور میں رکھ کر
زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے محفوظ پنا گاہیں بنا ڈالیں۔ زندگی کی پٹڑی پر جنت
کی ٹرین کو پکڑنے کے لئے دنیا کی ٹرین چلا دی۔ آج ہمیں بھی اپنے باپ آدم اور اپنی
ماں حوا کے نقشِ قدم پر چل کر جنت کی زندگی کے ان دھندلائے ہوئے خاکوں میں یقین کا
رنگ بھرنا ہے۔ جنہیں ہم بہت دور چھوڑ آئے ہیں۔ یقیناً ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا
ہے۔ ہم اپنے رب سے معافی کے طلب گار ہیں۔ آج ہم اپنے نفسوں کو ظلم سے چھڑانے کے
لئے وہی دعا پڑھتے ہیں جو ہمارے باپ آدم ہمیں سکھا گئے ہیں۔“
عاقب کے کہنے پر سب لوگ بآواز بلند اس دعا کا ورد کرنے لگے۔
کہ ” اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم
پر رحم نہ کیا تو ہمارا شمار نقصان اُٹھانے والوں میں ہوگا۔“
عاقب نے سب سے کہا۔” آئندہ ہم پانچوں وقت کی نماز کے بعد دس
منٹ تک اس دعا کا ورد کیا کریں گے۔ کچھ عجب نہیں کہ ہمارا رب اس بنجر زمین کو پھر
سے لہلہاتی کھیتی میں تبدیل کر دے۔“
اس نے گلبدن اور شاہدہ بیگم کے ذمے عورتوں اور بچوں کی روحانی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری
ڈالی۔ مردوں کی ایک ٹیم کو غار کے ملبے میں چھپی ہوئی چیزوں کو جمع کرنے پر لگا
دیا۔ چند مردوں کو دن بھر کی مسافت پر ارد گرد کا جائزہ لینے کے لیے بھیج دیا۔ غار
والے جوانوں کے ذمے لوگوں کی روحانی نشو ونما کی دیوٹی لگائی کہ وہ اپنے روحانی تصرفات سے لوگوں کے اندر
چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کریں۔ تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام ہو
سکے اور لوگ اور ماحول پر سکون رہے۔
جو لوگ دن بھر کی مسافت پر ارد گرد کا جائزہ لینے گئے تھے۔ جب وہ شام کو واپس لوٹے تو انہوں
نے بتایا کہ جس حد تک وہ گئے انہیں سوائے خشک زمین اور ریتیلے میدان کے کچھ نہ ملا
اور حدِ نگاہ تک پانی کا سراغ بھی
دکھائی نہ دیا۔ یہ سن جذبیر کہنے
لگا۔
” کیوں نہ ہم سب مل کر زمین میں تالاب نما گڑھا کھود لیں
اور پھر نماز ِ استسقاء پڑھی جائے تاکہ تالاب میں پانی کا ذخیرہ ہو جائے۔“
یہ تجویز سب کو پسند آئی۔ اس کام پر عورتیں بچے مرد سب ہی
لگ گئے۔ سب نے اپنے ہاتھوں میں چٹان کے پتلے پتلے پتھر لے لئے اور قریب ہی منتخب کردہ جگہ پر تالاب کی بنیاد رکھ دی۔ سب
کے اندر جوش اور ولولہ تھا۔ اسمائے الہٰیہ کے ورد اور اللہ ھو کے ذکر کے غلغلہ میں
سورج ڈھلنے تک ایک بڑا سا تالاب بن چکا تھا۔ اپنی تعمیری صلاحیتوں کے نتیجے کو
دیکھ کر سب ہی اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں پر سجدہ ریز ہو گئے۔ بلا شبہ اللہ اپنے
بندوں پر نہایت ہی مہربان ہے۔ سب لوگ سجدے میں گرے اپنے رب سے اس کی رحمتوں کے طلب
گار تھے۔ عاقب اور غار والے جوان دل ہی دل میں دعا کر رہے تھے کہ:
” اے بارِ الہٰیہ! اپنے بندوں کی محنتوں اور کوششوں کا صلہ
تیرے ہی پاس ہے۔ ہماری ناتوانیوں کو انتظار کی کلفتوں سے بچا۔ ہمارے خالی کشکول کو
اپنی دیا سے بھر دے بے شک سجدے کی حالت
میں تو اپنے بندو سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔“
اپنے بندوں کی بے کسی اور محتاجی پر شانِ کریمی جوش میں
آگیا۔ بادِل کا ایک ٹکڑا غیب سے نکل کر افق پر چھا گیا۔ رحمتِ خدواندی لہر کے برس
پڑی۔ تپ ٹپ بونودوں نے دلوں کے کنول کھلا دیئے۔ ساری رات بارش برستی رہی۔ صبح سب
نے دیکھا کہ تالاب لبا لب پانی سے بھرا ہوا ہے۔ غار کی چھت کافی حد تک کھلی ہونے
کی وجہ سے غار کے اندر بھی پانی جمع ہو گیا تھا۔ زمان خان اور اس کے دو ساتھیوں نے پتھروں کی باڑھ بنا کر پانی کے
لئے ایک بڑا حوض بنا لیا۔ غار کے ملبے سے چیزوں کا ملنا اتنا آسان نہ تھا۔ کیونکہ
پہاڑ کا نچلا حصہ تو سارے کا سارا زمین میں دھنس
چکا تھا۔ غار کا فرش بھی ٹوٹ پھوٹ کے پتھروں سے بھر گیا تھا۔ مگر حکمتِ
خداوندی نے انسان کی عقل پر تصرف کر کے موجودہ حالات سنگین ہونے سے بچا لیا۔ عاقب
کے کہنے پر سب لوگوں نے اپنے لباسوں میں تھیلے نما جیب سی کر اس میں کھانے پینے کی
اشیاء اور اناج بھر لئے تھے جو ان کے ساتھ اب بھی محفوظ تھے۔ بارش ہونے سے زمین
گیلی ہو کر کھیتی باڑی کے قابل ہو چکی تھی۔
جذبیر نے لوگوں کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی وہ کہنے
لگا۔
” اے لوگوں! اللہ ہی تو ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے
بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور وہ کارساز سزا وار تعریف ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس کلام کے مطابق تم اس کی رحمت کو پھیلانے والے ہاتھ بن جاؤ۔ وہ
ہاتھ جن کے ذریعے اس کی رحمت کی برکتیں پھر دوبارہ زمین میں شامل ہو جائیں اور
بنجر زمین کو پھر سے لہلہتای کھیتی میں تبدیل کر دیں۔ زندگی کے بے رنگ خاکوں میں
رنگ بھرنے کا وقت آ چکا ہے قدرت نے بارش کی صورت میں رنگوں کے دبے تمہاری طرف
لنڈھا دیئے ہیں۔“
جذبیر کے کہنے پر زمان خان نے سب لوگوں سے اناج کے بیج جمع
کیے۔ پتھروں کو توڑ کر زمین کے لئے اوزار بنا لیے۔ تاکہ گیلی زمین پر بیج بونے کے
لئے نشان بنائے جا سکیں۔ سب لوگ ہی خوشی خوشی کھیتی باڑی پر لگ گئے۔ دوپہر تک ایک
بہت بڑے رقبے میں بیج بوئے جا چکے تھے۔ جن میں گندم ، مکئی کے علاوہ سبزیوں کے بیج
بھی تھے۔
رات کو جب سب لوگ عبادت کے لیے جمع ہوئے تو عاقب نے کہا۔
” کائنات کی ہر شئے کا تعلق انسانی ذہن کےساتھ ہے۔ انسان کا
ذہن کائنات کی تمام انواع کے ذہنوں کا مرکز ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء کے ذہنوں کی
فریکوئنسی انسان کے ذہن سے وابستہ ہے۔ یعنی انسان کا دماغ ایک ایسی مشین ہے جو
ساڑھے گیارہ ہزار فریکوئنسیز کا مجموعہ ہے۔ ہر فریکوئنسی کائنات کی کسی ایک نوع کی
زندگی کا پروگرام ہے۔ ہر نوع کی فکر انسانی ذہن سے گزر کر کائنات میں اپنا مظاہرہ
کرتی ہے۔ بیج کے اندر اپنی نوع کی زندگی کے کل آثار موجود ہیں۔ اگر ہم بیج کے اندر
موجود زندگی سے رابطہ قائم کر لیں تو ہم اپنی قوت ارادی سے زندگی کے آثار میں تیزی پیدا کر سکتے ہیں۔ آج سے ہم
روزانہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے زمین میں بوئے ہوئے بیجوں کی طرف
دھیان کریں گے کہ زمین کے اندر بیج پھول رہا ہے اور اس میں سے کونپلیں نکل رہی
ہیں۔“
پھر حیرت انگیز طور
پر تمام بیج پانچویں دن زمین کی سطح پر پھوٹ نکلے۔ سب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
اس دن پہلی بار خوشیوں کے ترانے ان کے لبوں پر آگئے۔ زندگی اپنے معمول کی جانب قدم
بڑھانے لگی۔ رحمتِ باراں اور لوگوں کی توجہ سے کھیتی اپنے
پورے شباب پر
لہرانے لگی۔ اللہ کے فضل اور لوگوں کی توجہ نے چھ ماہ کا کام دو ماہ میں کر
دکھایا۔
ایک شام سب لوگ کھیت کے آس پاس بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف
تھے۔ بچے بھی کھیل کود میں مگن تھے کہ اچانک گلبدن نے آسمان کی طرف ادھر ادھر
دیکھا اور بولی۔
اتنا خوبصورت نظارہ ہے اور ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پرندوں
کے بغیر جنت کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟“
شاہدہ بیگم بھی ٹھنڈی سانس بھر کے بولیں۔
” دھماکے کے بعد تو چڑیا کا منہ دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔“
مقسطین پاس ہی بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔ زمین سے مُٹھی بھر
گیلی مٹی اُٹھا تے ہوئے بولا۔
” بھائی! اللہ تو مٹی کے پتلے میں جان ڈالنے والا ہے۔ “
یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں میں مٹی دبا کر ایک چڑیا کی
صورت بنائی اور اسے اپنے منہ کے قریب کر
کے اس میں پھونک مار دی۔ اگلے لمحے چڑیا ہاتھ سے نکل کر فضا میں اڑنے لگی۔ سارے
حیرت زدہ ہو کر اسے فضا میں اڑتا دیکھنے لگے۔ مقسطین ان کی حیرت کو کم کرتے ہوئے
بولا۔
” کائنات کی ہر حرکت اللہ کے امر کا مظاہرہ ہے۔ جب
اللہ کے امر میں آدمی کا ارادہ شامل ہو
جاتا ہے تو وہ فرد اللہ کے امر کے مظاہرے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اللہ نے اپنے تمام
ہنر اپنے انبیا ء علیہ السلام کو منتقل
کئے اور نبیوں کے ذریعے اللہ کے بندوں کو یہ ہنر تقسیم ہو رہے ہیں۔ روح قندیل ہے
قندیل کی روشنی اللہ کا نور ہے۔ نور امر
ہے۔ امر لامحدود لامتناہی ہے۔ انسان کی تمام صلاحیتیں اللہ کے نور کی ہنر مندی و
کاریگری ہیں۔ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات
کے ظاہر کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس نے مسخر
کر دیا ہے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ۔ سب کا سب
اپنے حکم سے۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کیا کرتے
ہیں۔ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔
پیغمبروں نے اپنے معجزات میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کی جانب لوگوں کی توجہ دلائی۔
خود آگاہی و خود شناسی کی طرف دھیان دلایا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر معجزات دکھلا کر
روح کی صلاحیتوں کا انکشاف کیا۔ بے جان
مٹی میں جان ڈالی۔ دنیا بھی روح کی ایک صلاحیت ہے۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ غیب
ہے۔ جسے انسان لاشعور کے نام سے پہچانتا ہے ۔ اور زمین میں جو کچھ ہے وہ
آدمی کے لئے شعوری حواس کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے لاشعور
اور شعور دونوں حواس کو استعمال کرنے کی پوری پوری قدرت عطا کی ہے۔ تمام پیغمبران
علیہ السلام لوگوں کو ان لاشعور سے متعارف کرانے کے لئے دنیا میں بھیجے گئے۔
پیگمبروں کے تمام معجزات انسان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہر
زندگی دریائے و حدت کی ایک موج ہے۔ جو دریائے
و حدت کے دو کنارے ازل اور ابد کے درمیان حرکت میں ہے۔ موج دریا میں رہتے
ہوئے ہی ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سفر کرتی ہے۔ دریا سے جدا ہو کر موج کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
دریا کی قوت کا اندازہ موجوں کی روانی سے لگایا
جاتا ہے۔ انسان کی تمام صلاحیتیں خالق کی صفات کی پہچان ہیں۔“
سب لوگ بڑے انہماک سے مقسطین کی باتیں سن رہے تھے۔ عاقب بھی
بڑے غور سے سن رہا تھا۔ اس نے اندر ہی اندر اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا۔ محویت
کے عالم میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ سب کے سروں پر قندیل کی روشنی کا
ایک دائرہ تھا۔ اس کے دل سے دعا نکلی۔
” اے میرے اللہ ! قیامت تک اس نور کو بڑھانا۔ ہر زندگی تیری
محتاج ہے۔“
اس کی نگاہِ بصیرت وقت کی گہرائی میں جا پہنچی۔ نظر کی روشنی لمحات کی مسافت طے
کرتی ہوئی زمین کی بساط پر دو ر سدور تک پھیل گئی۔ ہر لمحہ زمین کی ویرانیوں کو
خوبصورت بستیوں میں تبدیل کرتا دکھائی دیا۔ ہر بستی کے کنارے پر ایک آدم اور ایک حوا
کھڑی دکھائی دی۔ اس نے دیکھا۔ وقت کے اس لمحہ میں موجود
تمام کے تمام افرادآنے والے کل کے آدم
وحوا ہیں۔ جن کے لہراتے وجود کن کی تال پر ہر لمحے اپنے نغمے بکھیر رہے
ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نظروں کے سامنے زندگی کے شاداب درخت سے ایک پکا ہوا
پھل زمین پر گر پڑا۔ اس کے سارے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ جیسے یخ بستہ ہوا کا سرد
جھونکا بدن کو چھوتا ہوا گزر جائے۔ وہ چونک پڑا اور وقت کی گہرائی سے واپس سطح پر لوٹ آیا۔ اس کے کانوں میں رحمٰن
بابا کی آواز آئی۔
” اے بچے ! یاد رکھ
۔ پھل کا پکنا بیج کی زندگی کی تکمیل ہے اور زندگی کی تکمیل وہیں پر ہوتی ہے جہاں
زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ تکمیل اپنے آغاز کو بیج کی صورت میں پھل میں چھپائے ہوئے
ہے۔ ازل ابد اور آغاز چھپا ہوا ہے۔ کن کی ضرب قدرت کے ہاتھ بن کر وقت کا گھونگھٹ سرکاتے رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی
نویلی دلہن کی طرح دل کے ائینے میں نمودار ہوتا ہے اور اپنے جمال کی رونمآئی کے بعد پھر گھونگھٹ میں جا چھپتا ہے۔ آغاز اپنے
انجام سے مل کر وصل کی لذتوں سے آشنا ہو کر پھر دوبارہ اپنی خواہشات کے سفر پر
روانہ ہو جاتا ہے۔ ایک زندگی، ایک سفر، ایک جلوہ حقیقی ہے۔ وقت کے دو کنارے ازل
اور ابد۔ تقاضہ دل کا آغاز اور انجام ہے۔“
عاقب کا سارا وجود ہوا کی زد میں آئی ہوئی ٹہنی کی طرح لرز اُٹھا۔ اس کی عقل حیرت زدہ ہو کر دل سے پوچھ
رہی تھی۔ کیا اب زندگی کے دو کنارے ملنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس دن کے بعد سے اس
کی زندگی کے کاموں میں زیادہ تیز رفتاری آگئی۔ دن گزرتے رہے۔ ننھے ننھے پودے
درختوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ پانچ سال کے
عرصے میں لوگوں نے کھوئے ہوئے وسائل کو دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔ درختوں کی
لکریاں کاٹ کر گھر بنا لیے ۔ ضرورت کے لئے فرنیچر بنا لئے۔ روئی سے کپڑے بنے گئے۔
نئی روحیں زندگی کے اسرار کو پہچاننے کے لئے جنت چھوڑ کر زمین پر اُتر آئیں۔ پہاڑ
کے دامن میں ایک خوبصورت بستی آباد ہو
گئی۔ جہاں ہوائیں خوشیوں سے بھری ہوئی
ادھر ادھر لہراتی پھرتیں۔ جہاں پھول اپنی خوشبوئیں لٹانے کو ہر وقت تیار
رہتے۔ جہاں آزاد پنچھی اس ڈال سے اس ڈال پر پُھدک پھدک کر اپنی آزادی کے جشن
مناتے۔ جہاں بچے بڑے سب ایک دوسرے کے ساتھ
محبت کی ان دیکھی ڈور سے
بندھے دکھائی دیتے۔ جہاں ساون میں جھولوں پر راگ ملہار گائے
جاتے۔ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتیں۔ اس وادی فرحان میں زندگی اپنی
بھر پور اداؤں کے ساتھ اُٹھلاتی مٹھلاتی گزرتی رہی۔ انہیں دنوں زمان خان نے دن رات کی مشقتوں کے ساتھ ایک
نہایت ہی خوبصورت مسہری بنائی۔ سب اسے چھیڑتے۔ کیوں زمان خان شادی کب کر رہے ہو؟
زمان خان ہنس کر جواب دیتا۔” پہلے شب عروسی کا انتظام کر لوں۔“
اس دن شام کا وقت تھا۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر اکثر لوگ
باہر بڑے سے لان میں بیٹھے ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے۔ سب خوش باش مذاق
میں مشغول تھے۔ کہ اتنے میں زمان خان ” عاقب بھائی! عاقب بھائی!“ پکارتا ہوا عاقب
کے پاس آیا۔ اس کی آواز میں خوشی کی مَے چھلک رہی تھی۔ پاس آتے ہی اس نے عاقب کا
ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا۔
” عاقب بھائی ذرا
اِدھر تو آئیے۔“ عاقب اُٹھتے ہوئے بولا۔”
کیا بات ہے زمان خان؟ بڑے خوش دکھائی دے رہے ہو۔“
زمان خان خوشی سے
ہنستے ہوئے بولا۔” عاقب بھائی آپ چلئے تو
سہی۔ آپ کو ایک چیز دکھانی ہے۔“
یہ سن کر وہاں بیٹھے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے۔” زمان بھائی! ایسی کیا چیز ہے ہمیں بھی دکھاؤ۔“
زمان خان خوش ہو کر بولا۔” ہاں بھئی سب لوگ آجائیں۔“ زمان خان سب کو عاقب کے گھر لے گیا۔
عاقب دروازے میں قدم رکھتے ہوئے بولا۔
” ارے بھئی میرے گھر میں کیا ہے کہ مجھ ہی کو خبر نہیں۔“
زمان خان آگے
آگے بر آمدے کی جانب چلنے لگا۔
لمبے برآمدے میں بڑی سے انبوسی مسہری پڑی تھی۔ جس پر سفید چادر اور سفید تکیے
بنانے والے کی داد دیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ عاقب کے ساتھ ساتھ سب کے منہ سے یہ الفاظ
نکلے۔
” واہ! زمان
بھائی آپ نے تو کمال کر دیا۔ اتنی
خوبصورت مسہری بنا ڈالی۔“
زمان خان نے گلبدن کا ہاتھ پکڑ کر عاقب کے ہاتھ میں دیتے
ہوئے کہا۔
”عاقب بھائی اور
بھابھی یہ مسہری میں نے آپ دونوں کے لئے بڑی محبت سے بنائی ہے۔ امید ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے۔“
عاقب نے تشکر کے جذبات کے ساتھ زمان خان کو گلے لگا لیا اور
لوگوں کی تالیوں کے شور میں زمان خان نے عاقب کو بازوؤں سے پکڑ کر مسہری پر لٹا
دیا۔ عاقب کے بدن نے جیسے ہی مسہری کو چھوا۔ اسے محسوس ہوا کہ ایک پکا ہوا پھل ڈالی سے ٹوٹ کر زمین پر آن
گرا ہے۔ اس کے حلق سے چیختی ہوئی آواز نکلی۔ اللہ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی
سانسیں اکھڑنے لگیں۔ آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی بند
آنکھوں کو کھولا۔ اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں پر مسکراتی نگاہ ڈالی اور ہمیشہ کے لئے آنکھیں
بند کر لیں۔ دنیا کی آخری آواز اس کے کانوں میں گلبدن کی تھی۔ جو عاقب کا
نام لے کر چیخ رہی تھی۔
عاقب نے اپنے جسم سے نکلتے ہوئے سوچا۔ میں مر چکا ہوں۔ حیرت
اور اطمینان کی ملی جلی کیفیت میں وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
سامنے ہی اس کے ممی پاپا اور رحمٰن بابا کھڑے تھے۔ عاقب کہہ کر سب ہی اس سے خوشی
سے لپٹ گئے حیرت نے ان کے لبوں سے قوت گفتار چھین لی۔ اس وقت اُس کے ذہن میں بس
ایک ہی خیال بار بار گردش کر رہا تھا۔ ” میں مر چکا ہوں۔ میں مر چکا ہوں“ دل بار
بار یہ جملہ دہرا کے اپنی حیرت کو یقین میں بدلنا چاہتا تھا۔ اس کے ممی پاپا اور
رحمٰن بابا اس کی اس حالت کو خوب سمجھ رہے تھے۔ موت کے تجربے سے گزر کر وہ جان چکے
تھے کہ دنیاوی حواس کی تبدیلی کا نام موت ہے اور یہ تبدیلی آدمی کے اندر واقع ہوتی
ہے۔ اب تک جو حواس فردِ ذات کو دنیاوی پہچان عطا کر رہے تھے۔ وہی حواس اب فرد کو
دنیا کی بجائے اعراف کی پہچان مہیا کر رہے تھے۔
دنیاوی زندگی میں بندے کا تعلق عالم ناسوت کی جس فریکوئنسی
کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ اس فریکوئنسی پر مسلسل اسے یہی اطلاع ملتی رہتی ہے
کہ تم مادی دنیا کا ایک جُز ہو۔ تمہارا جسم اس مادے سے تخلیق ہوا ہے۔ جس مادے سے
زمین تخلیق کی گئی ہے۔ اس اطلاع پر دنیا کی ساری زندگی انسان مادی حواس کے زیرِ
اثر گزار دیتا ہے۔ موت کے لمحے میں عالم ناسوت کی فریکوئنسی سے رابطہ ٹوٹ کر عالم
ِ اعراف کی فریکوئنسی سے تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اب فرد کی پہچان دنیا کی مخلوق کی
حیثیت سے نہیں بلکہ اعراف کی مخلوق کی حیثیت سے کرآئی جاتی ہے۔ ایک لمحے پہلے کی ساری زندگی خواب بن
چکی تھی۔ حقیقت کے عالم میں آنکھ کھلنے پر ابھی
اس پر حیرت اور غنودگی کا غلبہ تھا۔ اعراف کی فریکوئنسی پر اسے مسلسل یہی
اطلاع مل رہی تھی کہ وہ دنیا سے انتقال کر کے اب اعراف کے عالم میں پہنچ چکا ہے
اور اب یہ موجود ہ جسم اعراف کی روشنیوں کے تانے بانے سے بنا ہوا ہے۔ مگر تبدیلی
حواس نے شعور کو اضمحلال و غنودگی میں
دبو دیا تھا۔ عاقب کے پاپا نے وہاں موجود ایک لڑکے کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ
فوراً ہی پاس آگیا۔ اس کے ہاتھ میں خوبصورت سلوری ٹرے تھی۔ جس میں صراحی نما بلوری
جگ اور گلاس تھے۔ اس نے جگ سے شربت گلاس میں اندیل کر بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ
مسکراتے ہوئے عاقب کے پاپا کو پیش کیا اور چلا گیا۔ عاقب کے پاپا نے یہ شربت عاقب کے منہ سے لگایا۔ بڑی مشکل سے موت کی
نقاہت و کمزوری کے ساتھ عاقب کے چند قطرے اپنے حلق سے اُتارنے میں کامیاب ہوا۔ ان
چند قطروں نے اس کے اندر جادوئی کمال دکھا دیا۔ اس کی نقاہت و غنودگی ایک دم سے
ختم ہو گئی اور وہ پوری طرح ہوش میں آگیا۔ ہوش میں آتے ہی وہ ممی
پاپا اور رحمٰن بابا کہہ کر سب سے لپٹ گیا۔ رحمٰن بابا کہنے لگے۔
”پہلے تمہیں تمہارے گھر پہنچا دیں پھر آرام سے باتیں کریں
گے۔“
یہ نہایت ہی سر سبز
علاقے میں پہاڑی پر ایک خوبصورت مکان تھا۔ مکان کے دروازے پر پہنچ کر رحمٰن بابا
نے فرمایا۔
” عاقب یہ تمہارا مکان ہے۔ تمہیں نئی زندگی مبارک ہو۔“ اندر
پہنچ کر عاقب نے خوشی خوشی سارے گھر کا جائزہ لیا۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
وہ اپنے آپ کو ایک پرندے کی طرح ہلکا پھلکا اور آزاد محسوس کر رہا تھا۔ سارا گھر
گھوم پھر کر جب وہ کمرے میں بیٹھے تو دو نوجوان نورانی صورت لڑکے ٹرے میں بہت ساری کھانے پینے کی چیزیں لئے حاضر ہوئے۔ رحمٰن بابا نے عاقب سے
۔
” عاقب میاں! یہ
لڑکے فرشتے ہیں اور آپ کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں۔ آج آپ اپنے ممی پاپا کے ساتھ
آرام کریں۔ کل سے آپ کو آپ کی ڈیوٹی بتا
دی جائے گی“ یہ کہہ کر رحمٰن بابا رخصت ہوگئے۔
٭٭٭