Topics
اس رات عاقب بہت
دیر سجدے میں گر کر اپنے رب سے دعائیں کرتا رہا۔ سب سے زیادہ اس سفر میں اسے گلبدن
کی فکر تھی۔ وہ دعا کرتا رہا کہ اس لمبے سفر میں سب کو سلامت اور خیریت سے رکھنا۔
صبح سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اس نے گلبدن کو دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ
سفر کے ارادے سے باز آجائے۔ نہ جانے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔
گلبدن بولی۔” عاقب اگر آپ کا کہیں سیرو سیاحت کا پروگرام ہوتا تو میں
ضرور رک جاتی۔ مگر چونکہ یہ صدیوں کے سوئے ہوؤں کو جگانے کا مشن ہے۔ ایسے موقعے
اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ جسے اللہ چن لے۔ کون جانتا ہے پھر
سینکڑوں سالوں میں بھی ایسا مبارک لمحہ کسی کو حاصل ہوتا ہے یا نہیں۔ میرے لئے اس
وقت کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی
ہے کہ لمحات کی اس ڈور میں اللہ نے تمہیں موتی بنا کر پرو دیا ہے۔ میں اس مبارک وقت میں ہر پل تمہارے
ساتھ رہنا چاہتی ہوں تاکہ قدرت کی نشانیوں کو مشاہدہ کر سکو۔“
گلبدن کی باتیں سن کر عاقب خوشی سے جھوم
اُٹھا۔ اس نے یقین دلایا کہ ان شاء اللہ اس مبارک سفر میں وہ ہر دم ساتھ رہے گی۔
صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی بڑی سی جیپ میں گلبدن سمیت سات آدمیوں کا یہ قافلہ اللہ
کے مشن پر مرشد کی تعمیل حکم کے لئے روانہ ہوا۔ پہاڑی مناظر سے بھر پور اس حسین
سفر میں حفاظتی اسلحہ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے ساتھ سفر کو خوب سے خوب تر بنانے
کے سامان بھی تھے۔ عاقب کے پاس بانسری تھی۔ دوسرے آدمیوں کے ساتھ دو تارا اور پہاڑی میوزک کے خود ساختہ سامان
تھے۔ جب تھک جاتے۔ کسی اچھی خوبصورت
جگہ پڑاؤ کر لیتے۔ دو دن بعد شام
کے وقت پہاڑی علاقے میں جنگل سے گزرتے ہوئے ہرن کا ایک غول سامنے آگیا۔ بس پھر کیا
تھا۔ سارے ہی خوشی سے اپنی اپنی جگہ اچھل پڑے۔ اسی وقت گاڑی روک کر دو آدمی ہرن کے
تعاقب میں دوڑ پڑے۔ چند منٹ بعد بندوق چلنے کی دھائیں سے آواز آئی جسے سن کر بقیہ سب کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھے۔
تھوڑی دیر میں دونوں ہرن کو لئے فاتحانہ انداز میں آتے دکھائی
دیئے۔ اسی وقت جنگلی کانٹوں اور پتھرں سے جگہ صاف کر کے آگ جلائی گئی۔ گوشت بھون کر سفر میں کھانے میں کیا مزا
آتا ہے۔ یہ آج سب نے جان لیا۔ رات ہو گئی تھی طے یہی پایا کہ یہیں پڑاؤ کیا جائے۔
عاقب نے بانسری سنبھالی تو دھن میں گلبدن کے گلے کے سُر شامل ہو گئے۔ سارے جنگل
میں سکوت چھا گیا۔ ہر ایک کے دل کی دھڑکن ان لمحات کو اپنے اندر سمونے میں مشغول
تھی۔ وقت ہوا کا جھونکا بن گیا۔ رات مختصر ہو گئی۔ افق پر سیاہی میں سپیدی کا
دھاگا ابھر آیا۔ سب نے صبح کی نماز پڑھی اور جلد ہی روانہ ہو گئے۔ پندرہ سولہ دن
بعد سب نے آسام کے پاس اروناچل کی پہاڑیوں میں پڑاؤ کیا۔یہاں آتے ہی عاقب کہنے
لگا۔
”مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم اب صحیح جگہ
پر آگئے ہیں۔“
طے یہ پایا کہ آج رات آرام کرنے کے بعد
صبح سے تلاش کا سلسلہ جاری کیا جائے۔ تین آدمی سارا دن پہاڑوں میں گھوم پھر کر ایسے غاروں کی تلاش کرتے رہے جہاں ان
لوگوں کی موجودگی کا امکان ہو سکتا تھا۔
تین دن کی تلاش بسیار کے باوجود سونے والوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ رات کو
سب کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ اس
سلسلے میں رحمٰن بابا سے رابطہ کیا جائے۔
سب نے عاقب سے کہا کہ آپ مراقبہ میں رحمٰن بابا سے اس جگہ کی کوئی مخصوص
نشانی پوچھیں۔ عاقب نے کہا۔” ایسا کرتے
ہیں کہ ہم سب اجتماعی مراقبہ کر کے رحمٰن بابا سے جگہ کی نشان دہی کا سراغ بتانے
کی درخواست کرتے ہیں۔“
رات کو نماز کے بعد سب لوگ ایک گول
دائرے میں بیٹھ گئے اور رحمٰن بابا کے تصور میں اپنی فکر کو جذب کر دیا۔ بیس منٹ
بعد جب مراقبہ ختم ہوا۔ تو سب نے کہا کہ ہم نے رحمٰن بابا کو دیکھا اور انہوں نے
یہ نشانی بتائی۔ عجیب بات تھی۔ سب کی نشانیاں ایک دوسرے سے مختلف تھیں کسی کی
نشانی تھی کہ غار کا دہانہ کانٹے دار جھاڑیوں سے پٹا پڑا ہے۔ کسی کو یہ دکھایا گیا
کہ غار کے تین فٹ کے فاصلے پر چھ فٹ لمبا سفید پتھر ہے۔ کسی نے دیکھا کہ غار کا رخ
شمال کی جانب ہے۔ ایک نے دیکھا کہ وہ جس
پہاڑ پر اس وقت موجود ہیں ۔ یہاں سے وہ غار
دکھائی دے رہا ہے۔ گلبدن نے دیکھا
کہ رحمٰن بابا نے اس کی پیشانی کو بڑی شفقت کے ساتھ چوما اور فرمایا۔” بیٹی
کثرت کے ساتھ انا للہ و انا الیہ راجعون
پڑھو۔“ عاقب نے دیکھا کہ وہ غار کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کے برابر میں گلبدن ہے
اور پیچھے باقی لوگ ہیں۔ وہ لاشعوری حالت میں ہے۔ اس کے قلب سے روشنی کا دھارا نکل
کر غار کے اندر جا رہا ہے۔ اس روشنی سے پورے کا پورا غار روشن ہو گیا۔ روشنی دھارے
کی صورت میں سیدھی غار کے درمیان سوئے ہوئے پانچ نوجوانوں پر پڑی۔ جس سے سب کی آنکھیں
کھل گئیں۔ جاگتے ہی ان کے منہ سے نکلا ۔ اللہ اکبر اور وہ سب اُٹھ کر بیٹھ
گئے۔
مراقبہ سے فارغ ہو کر سب کو یقین ہو گیا
کہ اب جلدہی غار کا سراغ مل جائے گا۔ رات کے اندھیرے میں تو کچھ دکھائی
دینا محال تھا۔ صبح کے انتظار میں سارے ہی پڑ کر سو گئے۔ چڑیوں کے چوچوں نے
سب کو جگا دیا۔ صبح نماز کی ادائیگی کے بعد
ناشتے سے فارغ ہو کر ٹینٹ کھول کر لپیٹ کے سارا سامان پیک کر کے پھر نئے
عزم کے ساتھ سب کے سب سفر کے لئے تیار ہو
گئے۔
گلبدن نے کہا۔” میرا دل کہہ رہا ہے آج
ہمیں ضرور کامیابی ہوگی۔“ ۔۔”ان شاء اللہ “ سب نے اس کے خیال کی تائید کی۔
جس شخص نے
مراقبہ میں دیکھا تھا کہ اس جگہ سے وہ غار
دکھائی دے رہا ہے۔ وہ کہنے لگا۔”
عاقب بھائی! میں نے دیکھا تھا کہ رحمٰن بابا نے فرمایا کہ بچے اس پہاڑ سے غار تمہارے سامنے ہے۔“
دوسرا شخص یہ سن کر بولا۔” عاقب
بھائی غار شمال کی جانب ہے۔“ سب لوگ شمال جانب منہ کر کے
کھڑے ہو گئے۔ یہ پہاڑی سلسلہ چھوٹے بڑے نشیب و فراز کے ساتھ بہت دور تک پھیلا ہوا دکھائی
دیا۔ اس کے بعد شمال رخ میں ایک دوسرا پہاڑ دکھائی
دیا۔ جو بہت اونچا تھا۔ اسے دیکھتے ہی عاقب کہنے لگا۔
ہمیں اس پہاڑ تک
جانا ہے تقریباً تین گھنٹے چلنے کے بعد یہ لوگ اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے۔
سارا وقت گلبدن رحمٰن بابا کی بتائی ہوئی
آیت پڑھتی رہی۔ پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہی وہ غار کی نشانیاں تلاش کرنے لگے۔ چھ
فٹ لمبا سفید پتھر اور خاردار جھاڑیاں تلاش کرنے میں انہیں توقع سے زیادہ وقت لگ
گیا۔ چلتے چلتے اچانک گلبدن کی نظر پہاڑ کی اونچائی پر بڑی
سی چٹان کے پیچھے چمکتے ہوئے سفید پتھر پر پڑی۔ وہ خوشی سے چلا اُٹھی۔
” وہ دیکھیں وہ سفید پتھر دھوپ میں کیسا چمک رہا ہے۔“
چٹان کے پیچھے سفید چکنے پتھر کا ایک کونہ دکھائی
دیا۔ ایک آدمی تقریباً دوڑتا ہوا اس تک پہنچا اور پھر وہاں سے سب کو ہاتھ
کے اشارے سےآنے کی دعوت دی۔ یہ پتھر پہاڑ کی پتھریلی زمین میں خوب مضبوطی کے ساتھ
گڑا ہوا تھا۔ عاقب کہنے لگا۔
” یہ پتھر ان پہاڑیوں کا نہیں ہے یقیناً یہ ان ابدال صاحب
جنہوں نے ان نوجوانوں کو سلایا تھا۔ انہوں نے نشانی کے لئے لگایا ہوگا۔“
تقریباً چھ فٹ لمبا یہ پتھر ایک ستون کی طرح زمین پر گڑا
ہوا تھا۔ اس پتھر کے پیچھے تقریباً آدھے میل تک بڑے بڑے کانٹوں والی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ جو اس بڑے پہاڑ کے ساتھ ساتھ
پھیلی ہوئی تھیں۔ بستی کے آدمیوں کے پاس جھاڑیاں کٹنے والی درانتیاں تھیں۔ سارے
آدمی اس کام پر لگ گئے۔ جھاڑیاں بہت سخت اور گھنی تھیں۔ ان کے اندر سانپ بھی چھپے
ہوئے تھے۔ لہذا زمین کو جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ سانپوں سے بھی صاف کرنا پڑ رہا تھا۔
ابھی تھوڑا سا ہی حصہ صاف کیا تھا کہ شام ہو گئی۔ ابھی رات گزارنے کے لئے ٹینٹ بھی
لگآنا تھا۔ سب تھکے ہوئے تھے۔ بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔ان جھاڑیوں سے دور صاف جگہ پر
ٹینٹ لگایا گیا اور کھانے سے فارغ ہو کر سارے لیٹ گئے تاکہ اگلے دن کے لئے تازہ دم
ہو سکیں۔ سب کا خیال تھا کہ جھاڑیاں صاف کرتے کرتے کل کا سارا دن بھی لگ جائے گا۔ سب کے اندر قدرت کی اس عظیم
نشانی دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اپنے اپنے دل میں دعا کرتے کرتے جلد ہی سب نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔
عاقب نے خواب میں
دیکھا کہ” وہ جھاڑیاں صاف کر رہا ہے اور جھاڑیاں کاٹتا ہوا اونچے پہاڑ کے بالکل
پاس پہنچ جاتا ہے۔ اتنے میں خضر بابا سامنے آجاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں خوب روشن
قندیل ہے۔ اس قندیل کی روشنی پہاڑ کے دامن میں ایک مرکز پر پڑ رہی ہے۔ اس جگہ
جھاڑیاں پہاڑ کے اندر تک اُگی ہوئی ہیں۔ جیسے ہی خضر بابا ہاتھ میں لئے اس مقام کی
جانب بڑھتے ہیں۔ جھاڑیاں خود بخود کٹ کٹ کر دو طرفہ گرتی جاتی ہیں اور درمیان سے
راستہ بنتا جاتا ہے۔ خضر بابا قندیل لئے آہستہ اہستہ اس راستے سے پہاڑ کے اندر
داخل ہوتے ہیں۔ آپ کے پیچھے پیچھے عاقب بھی چلتا ہوا غار کے اندر داخل ہو تا ہے۔
خضر بابا غار کے ایک چیمبر سے دوسرے چیمبر میں پہنچتے ہیں۔ یہ چیمبر بہت ہی وسیع
ہے۔ خضر بابا اس کا پورا راؤنڈ کرتے ہیں۔
عاقب مستقل ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہتا ہے۔ غار بالکل خالی ہے۔ اچانک چلتےچلتے
خضر بابا ایک دم سے ٹھہر جاتے ہیں اور پیچھے مڑ کر عاقب کی جانب رخ کر کے کھڑے ہو
جاتے ہیں اور تحکمانہ لہجے میں فرماتے ہیں۔” قندیل جلا“ ان الفاظ کے ساتھ ہی خضر بابا نہایت لطیف روشنیوں کے ہیولے
کی صورت میں قندیل سمیت عاقب کے اندر اتر جاتے ہیں۔ اب عاقب دیکھتا ہے کہ اس کی
حیثیت صرف بیرونی جسم کی کھال ہے۔ اس کھال کے اندر جسم خضر بابا کی روشنیوں کا
ہیولا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے کہ اس نے قندیل پکڑی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی اسے خیال آتا ہے
خضر بابا نے قندیل پکڑی ہوئی ہے۔ وہ تمکنت
کے ساتھ چلتا ہوا غار کے مرکز کی جانب بڑھتا ہے۔ قندیل کی روشنی مرکز پر ٹھہر جاتی
ہے۔ اس روشنی میں پانچ جوان گہری نیند
سوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ عاقب کے ہونٹوں سے خضر بابا کی آواز
نکلتی ہے۔” قُم باذْن اللہ“ تین مرتبہ وہ یہی الفاظ کہتا ہے اور تیسری مرتبہ اس کے
قلب سے قندیل کی روشنی کا بہت تیز اور نہایت روشن جھماکہ ہوتا ہے اور یہ جھما کہ
آسمانی بجلی کی طرح سے ان سونے والوں کے اوپر گرتا ہے۔ اسی وقت وہ پانچوں زور سے
اللہ اکبر پڑھتے ہوئے اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ خواب دیکھ کر وہ جاگا تو پردے کے پیچھے
گلبدن کی نہایت دھیمی آواز اس کے کان میں
آئی۔ وہ نماز میں اپنے رب سے دعا کر رہی تھی۔
” اے بارِ الٰہا میرے عاقب سے جو کام لینا مقصود ہے اس کام
میں اسے آسانی عطافرما۔“
عاقب بھی فوراً اُٹھ کر بیٹھ گیا اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا
دیئے اسے یوں لگا جیسے گلبدن کی صورت میں اس کی روح پردے کے پیچھے بیٹھی ہے۔ اس نے
آہستہ سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ نیا دن نئے ولولے لے کر طلوع ہوا۔ فجر کی نماز سے
فارغ ہو کر سب نے ستو کھایا اور جھاڑیاں کاٹنے میں مصروف ہوگئے۔ شام تک تمام
جھاڑیاں صاف ہو چکی تھیں۔ اب پہاڑ کا یہ حصہ بالکل صاف تھا۔ سوائے
ایک مقام کے جہاں جھاڑیاں پہاڑ کے اندر تک اُگی ہوئی تھیں۔
جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ کسی غار کا
دہانہ ہے۔ عاقب کو خواب کا سین یاد آگیا۔ وہ خوشی سے چیخ پڑا۔
” بالکل یہی جگہ تو
میں نے رات خواب میں دیکھی ہے۔ یہی وہ غار
ہے ہمیں ان جھاڑیاں کو کاٹنا ہوگا۔“
عاقب کے اشتیاق نے سب کے جوش و ولوے کو بھڑکا دیا۔ کام کی
اسپیڈ دگنی ہوگئی۔ غار کا دہانہ سرنگ نما تھا جو جھاڑیوں سے پٹا پڑا تھا۔جھاڑیاں
کٹتی جاتی تھیں اور سرنگ صاف ہوتی جاتی تھی۔ کافی دیر کام کرنے کے بعد بھی راستہ
پوری طرح صاف نہ ہوا اور ہر سو اندھیرا چھانے لگا۔ آج اتنا کام کرنے کے باوجود بھی
سب کے اندر خوشی و جوش تھا۔ کسی کو تھکن
کا خیال بھی نہ آیا۔ رات گئے تک غار والوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ صبح کیا ہونے والا
ہے کسی کو معلوم نہ تھا۔ مگر سب کا یہی خیال تھا کہ کل غار کے دہانے کی تمام
جھاڑیاں کاٹ دی جائیں گی۔ صبح سویرے ہی سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ ڈیڑھ دو
گھنٹے کے اندر ہی غار کا دہانہ پوری طرح صاف ہو گیا۔ عاقب کے کہنے پر سب نے پہلے
دو رکعت نماز شکرانہ کی پڑھی۔ پھر گلبدن نےسامان میں سے ایک قندیل نکالی۔ جو اسی
نیت سے لائی گئی تھی کہ غار میں داخل
ہونے سے پہلے خضر بابا کے حکم کی تعمیل میں روشن کی جائے۔ عاقب نے اللہ کا نام لے
کر قندیل روشن کی اور خضر بابا اور رحمٰن بابا سےآنے والے لمحات میں کامیابی کی
دعا کی اور قندیل تھامے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ سب لوگ غار کے اندر داخل
ہوگئے۔ غار اندر سے بہت وسیع تھا اور خواب میں نشاندہی کی گئی صورت کے مطابق غار
کے اندر اور چیمبر دکھائی دیئے۔ ذکر کرتے ہوئے یہ سب ایک چیمبر سے دوسرے
چیمبر میں پہنچے دوسرے چیمبر کے بیچوں بیچ
زمین پر کچھ دکھائی دیا۔ اندھیرے
کی وجہ سے صاف نظر نہ آیا۔ مگر اسے دیکھتے ہی سب کے دل دھڑک اُٹھے۔ عاقب
قندیل لئے آہستا آہستہ آگے بڑھا۔ اس کے
پیچھے گلبدن اور دوسرے لوگ تھے۔ عاقب لاشعوری غلبے کے تحت نپے تلے قدموں سے غار کے
وسط میں بڑھنے لگا اللہ ھو کی صدائیں غار کی دیواروں سے ٹکرا کے ایک عجیب منظر پیش
کر رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے درو دیوار اللہ ھو کا ذکر سب کے ساتھ مل کر کرہے
ہیں اس روح پرور ذکر نے سب کے دلوں کو مسحور کر دیا۔ سب کا دھیان مکمل طور پر قدرت
کے اس عجوبہ پر لگا تھا۔ حقیقت الحقائق کا
اہم ترین لمحہ۔ جس لمحے میں اللہ اپنی قدرت و عظمت کا مظاہرہ کرنے والا تھا۔ وسط
میں پہنچ کر عاقب کے قدم رک گئے۔ قندیل کی روشنی پوری طرح غار کے مرکز کو روشن کر
رہی تھی۔ سب کی نظریں زمین پر پڑیں۔ جو کچھ ان کی آنکھوں نے دیکھا۔ دل نے صداقت دی
اور زبانوں نے کلمہ شہادت بلند کیا۔ سب نے دیکھا کہ غار کے بیچوں بیچ چادر اوڑھے
ہوئے پانچ نوجوان گہری نیند سو رہے ہیں۔ چادر کا رنگ زمانے کی گرد سے میلا ہو چکا
تھا۔ مگر ان کے چہرے پوری طرح کھلے ہوئے تھے۔ جیسے ابھی ابھی سوئے ہوں۔ چند لمحے
روح کی گہرائیوں کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد
عاقب نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش ہونے کا حکم دیا۔ غار میں ایک سناٹا چھا
گیا۔ عاقب نے قندیل گلبدن کے ہاتھ میں دی۔ اور خود دونوں ہاتھ باندھ کر ادب سے
کھڑا ہو گیا۔ تمام لوگ اس کی تقلید میں سونے والوں کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔ عاقب
نے رحمٰن بابا کو اور خضر بابا کو دل ہی دل میں
پکارا۔ اس نے دیکھا ۔ رحمٰن بابا سامنے کھڑے اسے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ
خضر بابا اس کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بالکل سامنے آگئے اور خضر بابا کا روشن
ہیولا عاقب کے بدن میں سما گیا۔ اس نے
آنکھیں کھول دیں اور بآوازِ بلند
پکارا۔” قم باذن اللہ“ یہ عاقب کی آواز نہیں تھی۔ سب نے سنا ان کے دل اندر ہی اندر
کہنے لگے۔ یہ عاقب کی آواز نہیں ہے۔ یقیناً یہ خضر بابا کی آواز ہے اس آواز میں
امرِ ربی کا جلال تھا۔ روح کی بھر پور قوت تھی۔ قدرت ِ خداوندی کا جبرو و دبدبہ
تھا۔ روح کی قندیل کے نور نے عاقب کے چہرے کو نورانی بنا دیا۔ اس کے نور میں دمکتے
ہوئے ہونٹ پھر دوبارہ ہلے۔” قم باذن اللہ“
روح کا تحکمانہ انداز خضر بابا کی آواز میں پہلے سے زیادہ اثر تھا۔ غار والے اب
بھی مست سو رہے تھے۔ تیسری مرتبہ امرِ ربی کا جلال روح کے عالم ِ جبروت کی بلندیوں
کو چھونے لگا۔” قم باذن اللہ“ کی گہری اور لمبی تان کے ساتھ ہی عاقب کی آنکھوں سے
نور کی دو فلیش نما دھاریں نکل کر پانچوں نوجوانوں کے اندر سما گئیں۔ یوں لگا۔
جیسے بجلی چمک گئی۔ پانچوں نوجوانوں نے
آنکھیں کھول دیں۔ گلبدن سمیت تمام
ساتھیوں کے ضبط و صبر کا پیمانہ چھلک
پڑا۔ سب دھاڑیں مار مار کے رب کے حضور گڑ گڑا کر رو رہے تھے۔ سب کی زبانوں پر اللہ
کے سوا اور کوئی نام نہ تھا۔ ایک لمحے کو پانچوں نوجوان حیرانی سے سب کو تکتے رہے۔
پھر گھبرا کے اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کی
آنکھوں کی حیرت کہہ رہی تھی۔
” ہے ہے ہماری کمبختی۔ ہمیں گہری نیند سے کس نے جگا دیا۔“
عاقب نے انہیں دیکھا اور سلام کیا اور ان کی حیرت مٹانے کے
لئے بولا۔” دوستو! یہ رحمٰن کا وعدہ ہے۔
وہی سوتوں کو جگانے والا ہے۔“ پانچوں نوجوانوں کے لب ہلے اور اللہ اکبر کی دھیمی
سی آواز سب کے کانوں میں رس گھول گئی۔
عاقب کی آنکھیں تشکر کے آنسو بہانے لگیں۔ وہ بے ساختہ اپنے رب
کے قدموں میں جھک گیا۔ اور سب ساتھی اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جھک گئے۔ صدیوں کی
نیند سے جاگے ہوئے نوجوانوں کے حواس ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے۔ وہ حیران
پریشان اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کو گڑ گڑاتے اور سجدہ کرتے ٹک ٹک دیکھ رہے تھے اور دل میں سوچ رہے تھے کہ اب تک
وہ جس حالت میں تھے وہ حالت خواب کی تھی یا یہ حالت خواب کی ہے۔ انہیں حواس کی
تبدیلی کا احساس تو تھا ۔ مگر ان کے لئے احساس میں معنی پہنآنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ ابھی تک حالتِ غنود سے نکل کر پوری طرح بیداری میں داخل نہیں ہو پائے تھے۔
اِدھر سب لوگ سجدے میں رو رو کر اپنے اور دنیا والوں کی سلامتی کے لئے دعائیں کر
رہے تھے۔ سب کے دریائے احساسات اور جذبات پر بندھے بند ٹوٹ چکے تھے۔ احساس کی
طغیانی ان کے دلوں کو دنیا سے دور بہائے لئے جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد عاقب نے سجدے سے سر اُٹھایا۔ ایک لمبا اور
گہرا سانس لیا۔ اس کے اندر ٹھہراؤآنے لگا۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور پاس ہی جھکی
ہوئی گلبدن کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اسے اُٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب نے باری باری سجدے
سے سر اُٹھایا اور غار والوں کی جانب متوجہ ہوگئے۔ عاقب انہیں حیرت میں ڈوبے دیکھ
کر مسکرا کے پوچھا۔
” آپ کو پتہ ہے کہ آپ کتنی دیر سوئے؟“
ایک نوجوان بولا۔” میرے خیال میں ہم کافی دیر سوئے۔ بارہ
چودہ گھنٹے تو ضرور سوئے ہوں گے۔ مجھے تو
ایسا ہی لگتا ہے۔ کیونکہ مجھے یاد ہے۔ ہم پانچوں دوست اس پہاڑ پر بیٹھے سورج غروب
ہونے کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی سورج
غروب ہوا ہم نے وہیں پہاڑ پر نماز پڑھی۔ ابھی نماز پڑھ کر ہٹے بھی نہ تھے کہ ایک
آواز نے ہمیں متوجہ کر لیا۔ سلام کی آواز پر ہم نے دیکھا کہ ایک باریش بزرگ نورِ
شفقت کا مجسم کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں روشنی و چمک تھی۔ ہم سب نے انہیں ادب سے سلام کیا اور
اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔“
پھر وہ نوجوان پُر اشتیاق لہجے میں بولا۔ ۔'” جناب کیا آپ
نے ان بزرگ کو دیکھا ہے؟“
عاقب نے اس کے سوال کے جواب میں سوال کیا۔” ان بزرگ نے تم
سے کیا کہا؟“
” جناب وہ بزرگ ضرور کوئی بہت بڑے ابدال تھے۔ وہ کوئی عام
بزرگ نہیں تھے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔” میرا نام تو ابوالمغیث بن رزاق
ہے۔ میں اللہ پاک کا ادنیٰ غلام ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمہ کچھ کام لگائے ہیں۔
اس کام میں تم لوگ بھی شامل ہو۔ کیا تم اللہ کی رضا میں راضی ہو؟“ ان بزرگ نے ہم سب کی آنکھوں میں بیک نظر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ان کی آواز ہمیں ہمارے
دلوں میں اُترتی محسوس ہوئی۔ ہم سب نے بیک آواز
جواب دیا۔ حضرت ہم اللہ کی رضا میں ہر طرح سے راضی ہیں۔ انہوں نے فرمایا۔ ”
ٹھیک ہے پھر ان بزرگ نے چند لمحے آسمان کی
طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور منہ ہی منہ میں کچھ کہنے لگے۔ جیسے کسی غیبی ہستی سے
بات کر رہے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے پیچھےآنے کا اشارہ کیا۔ اس وقت ہم سب کی حالت ایسی
تھی جیسے ہماری عقل سلب کر لی گئی ہے۔ ذہن تمام خیالات سے خالی تھا۔ ہماری عقلیں
حضرت صاحب کے تابع فرمان تھیں۔ ہم ان کے پیچھے چلتے ہوئے اس غار کے اندر آئے۔
انہوں نے اپنے کندھے سے چادر اتاری اور زمین پر بچھا دی۔ پھر فرمایا اس پر لیٹ
جاؤ۔ ہم سب لیٹ گئے۔ پھر انہوں نے ایک
دوسری چادر ہمارے اوپر اوڑھا دی۔ اور ہماری آنکھوں میں کچھ دیر ٹکٹکی باندھ
کر دیکھتے رہے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہے۔ پھر فرمایا۔” اب تم سو جاؤ۔ جب
تم جاگو گے تو حکم الہٰی کی تعمیل کا وقت ہوگا۔“ ان کی آنکھوں کا نور بجلی بن کر ہماری آنکھوں میں جذب ہو گیا اور ہم فوراً ہی سو گئے۔ بس اب آپ کے جگانے پر جاگے ہیں۔“ وہ نوجوان پھر بڑی عقیدت کے ساتھ پوچھنے لگا۔”جناب آپ کی ہم پر
بڑی نوازش ہوگی ۔ اگر آپ نے ان بزرگ کو دیکھا ہو یا ان کے نام سے واقف ہوں۔ تو
ہمیں ضرور ان کا پتہ بتا دیں۔ ویسے ہم خود بھی انہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے
تاکہ انہوں نے جس کام کی نشاندہی کی تھی وہ ہمیں معلوم ہو جائے۔“
عاقب نے اس نوجوان کے کندھے کو دوستانہ انداز میں تھپتھپاتے
ہوئے کہا۔” دوست ہم ان بزرگ سے تھوڑے بہت ضرور واقف ہیں۔ یہ باتیں تو اب ہوتی رہیں
گی پہلے ہم ایک دوسرے کے ناموں کو تو جان لیں۔ میرا نام عاقب ہے۔ یہ میری منگیتر
گلبدن ہے۔“ عاقب نے گلبدن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔” باقی یہ سب میرے ساتھی
ہیں۔“ پھر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے نام
بتائے۔ اس کے بعد ان نوجوانوں نے نے اپنے
اپنے نام بتائے۔ پہلے والا جوان بولا۔” میرا نام مقسطین ہے“ میرے دوسرے ساتھیوں کے
نام جذبیر، اتابک، مرزوق اور ثقلین ہیں۔“
عاقب کے کانوں میں رحمٰن بابا کی آواز گونج اُٹھی رخصت ہوتے
وقت انہوں نے ان نوجوانوں کے یہی نام بتائے تھے۔ اس کا دل رحمٰن بابا کی یاد سے
بھر گیا۔ اسی وقت اتابک کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔” جناب عاقب صاحب ہم
کو تو اب بھوک لگ رہی ہے۔ اب باہر چل کر کچھ
کھانا تلاش کرتے ہیں۔“
عاقب خوش دلی سے بولا۔” ارے بھائی! اب آپ جناب نہیں ہم سب
ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ہے نا ثقلین بھائی۔“ وہ مسکرا کے کھڑا ہو گیا۔ پھر سب ہی
کھڑے ہوگئے۔ گلبدن بولی۔” ہمارے پاس کھانا ہے۔ غار سے باہر ہمارے پڑاؤ کی جگہ ہے۔
وہیں چلتے ہیں۔“
چلتے ہوئے عاقب سوچ رہا تھا نہ جانے اتنے عرصے بعد باہر کی
فضا ان لوگوں کو کیسی لگے گی۔ باہر روشنی میں آکر سب جوانوں نے گہرے سانس لئے ان
کے چہروں پر خوشی اور تازگی کے آثار تھے۔ گلبدن سوچنے لگی۔ جب انہیں یہ پتہ چلے گا کہ یہ پانچ سو سال بعد غار
سے باہر نکلے ہیں۔ تو انہیں کیسا لگے گا۔
عاقب اور ساتھیوں کا سامان زیادہ دور نہ
تھا۔ ستو اور شہد سے سب کی تواضع کی گئی۔ پہاڑ کی کھلی ہوا اور سورج کی خوشگوار
حرارت اپنا اثر دکھانے لگی۔ مرزوق کو کچھ یاد آیا۔کہنے لگا۔” دوستو! ہمیں شام سے
پہلے پہلے یہاں
سے نکل جانا چاہیئے۔“ پھر وہ عاقب کی طرف متوجہ
ہوا۔
” ہمارے خچر تو اس پہاڑی کے دامن میں چھوڑ گئے تھے۔ آپ کی
سواریاں کہاں ہیں؟“
عاقب ذرا توقف کے بعد بولا۔” ہماری سواری بھی پہاڑ کے دامن
میں کھڑی ہے۔“
عاقب کے ساتھیوں نے جلدی جلدی سامان سمیٹا اور جانے کے لئے
تیار ہو گئے۔ گلبدن کو کچھ خیال آیا۔ کہنے لگی۔” ہم سب نے اب پہاڑ سے نیچے ہی
اترنا ہے۔ کیوں نہ ہم ان جوانوں کی رہنمائی
حاصل کریں۔ جس راستے سے یہ لوگ اوپر آئے تھے اسی راستے سے ہم سب نیچے
چلیں۔“
عاقب اور اس کے ساتھی ایک ساتھ بول اُٹھے۔” ہاں یہ تو بہت
ہی اچھا آئیڈیا ہے۔ ہم تو ویسے بھی گھومتے گھامتے یہاں پہنچے ہیں۔ نیچے اترنے کا
راستہ تلاش کرتے کرتے شام ہو جائے گی۔“
جذبیر نے کہا۔” ہم تو ان پہاڑوں کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ اس کے دامن میں ہی تو ہماری بستی ہے۔ ہمیں
رات تک اپنے گھروں کو پہنچ جانا
چاہیئے۔ ورنہ ہمارے والدین پریشان ہوں گے۔“ سب مل کر جوانوں کی رہنمائی میں چل پڑے۔ چلتے چلتے وہ کئی جگہ رک کر کھڑے ہو جاتے اور ذہن پر
زور دیتے جب کچھ یاد نہ آتا تو کہہ اُٹھتے ” ارے یہ جھاڑی تو یہاں نہیں تھی۔ یہ
یہاں گڑھا کیسے ہوگیا۔ راستہ تو وہی ہے۔ ہم تو ہر ہفتے اسی راستے سے پہاڑ پر آتے ہیں۔“
گلبدن بولی۔” ہو سکتا ہے اب کے سے آپ کو بہت دن ہوگئے ہوں اس پہاڑ پر“
اتابک فوراً بولا” مگر ہم کل ہی تو یہاں آئے تھے۔“
گلبدن فوراً بولی۔” کل پانچ سو سال لمبا بھی تو ہو سکتا
ہے۔“
وہ پانچوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔ اتابک بولا۔” آپا آپ باتیں
مزے کی کرتی ہیں۔“
عاقب ہنس کے بولا۔”
مزے کی نہیں پتے کی کرتی ہیں۔“ اور سب ہنس پڑے۔ اسی طرح ہنستے ہنساتے سفر طے ہو
گیا۔ عاقب سوچ رہا تھا ۔ پہاڑ کے دامن میں تو دور دور تک کوئی بستی نہیں ہے ۔ نہ
جانے اپنے گھر نہ دیکھ کر ان کی کیا حالت ہوگی۔ وہ دل ہی دل میں ان جوانوں کے لئے
دعائیں کرنے لگا۔ نیچے اترے تو مقسطین اور اس کے سارے ساتھی حیران پریشان اِدھر
اُدھر دیکھنے لگے۔
” ارے ہم کہاں آگئے۔ ہماری بستی کہاں چلی گئی۔“
وہ گھبرا کے کبھی پہاڑ کے اوپر دیکھتے کبھی اس کے دامن میں
کھڑے دور دور تک نگاہیں دوڑاتے۔ پھر ایک دوسرے سے پوچھتے۔” یہی تو وہ پہاڑ ہے جہاں
سے ہم ہمیشہ آتے جاتے ہیں۔ یہی ہے نا۔“ سب
ایک دوسرے کی تائید کرنے لگے۔ ” پھر ہماری بستی کہاں گئی ہم کہاں آگئے۔ کچھ فاصلے
پر عاقب کی بڑی جیپ کھڑی تھی۔ مرزوق کی چیخ نما آواز گلے میں پھنستی ہوئی نکلی۔”
یہ کیا ہے؟” باقی چاروں بھی گھبرا کے
مرزوق کے اشارے پر جیپ کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی آنکھوں سے خوف جھلکنے لگا اور
چہرے زرد پڑ گئے۔
مقسطین عاقب کی طرف دیکھ کر بے یقینی کے ساتھ کہنے لگا۔”
کہیں ہم مر تو نہیں گئے۔ یہ کون سا عالم ہے۔“ عاقب ان کے حیرت زدہ چہروں کو دیکتے
ہوئے مسکرا کے کہا۔” دوستو! اتنا پریشان نہ ہو۔ ابھی تم اسی دنیا میں ہو۔ جہاں تم
پیدا ہوئے تھے۔ صرف بات اتنی ہے کہ ابدال حضرت ابو المغیث بن رزاق نے اللہ کے حکم
سے تم لوگوں کو پانچ سو سال تک کے لئے سلا دیا تھا اور اب تم پانچ سو سال کے بعد
جاگے ہو۔ اللہ تعالیٰ تم سے کچھ خسوصی کام لینا چاہتے ہیں۔ دوستو! گزشتہ پانچ سو
سال میں دنیا کہاں سے کہاں جا چکی ہے۔ ہم پر بھروسہ رکھو ہم سب تمہارے دوست ہیں۔
اللہ قادر مطلق ہے۔ اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ آپ اب ہمارے ساتھ رہیں۔
آہستہ اہستہ ہم آپ کو اس دور سے متعارف کر دیں گے۔ آپ اپنے زہنوں کو سوالوں میں
زیادہ اُلجھائیں نہیں۔ بس اپنی
آنکھیں کھلی رکھیں۔ بہت جلد آپ اس
ماحول سے مانوس ہو جائیں گے۔“
عاقب جیپ کا دروازہ
کھولتے ہوئے کہنے لگا۔” آج کل خچروں کی جگہ یہ سواریاں چلتی ہیں۔ یہ انسان کی
ایجاد ہے اور خچروں سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ آیئے اب چلتے ہیں۔ سفر لمبا ہے مگر
مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں کے لئے یہ ایک دلچسپ تجربہ ہوگا۔ ہم ڈیرہ دون جارہے
ہیں۔“
واپسی کے سفر میں انہیں کچھ زیادہ دن نہیں لگے۔ سب کو گھر
پہنچنے کی جلدی تھی۔ غار والوں کے لئے شہر کی ہر چیز نئی تھی۔ جب بھی شہر میں وہ
اترتے وہاں بازاروں کی سیر کرتے۔ اس سیر میں عاقب اور اس کے تمام ساتھی ان جوانوں
کے لئے گائیڈ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے زمانے کے دو دور ایک وقت
میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دور کی معلومات موجودہ دور میں اور موجودہ دور کی
معلومات پانچ سو سال قبل کے دور میں داخل ہو رہی ہیں۔
عاقب سوچنے لگا ۔” زمانہ تو ہمارے اندر سے گزر رہا ہے اور
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زمانے کا تعلق باہر
سے ہے۔ اگر اطلاعات
شعور و عقل میں داخل نہ ہوں تو ہم کسی چیز کو کیسے جان سکتے
ہیں۔ جاننے پہچاننے اور محسوس کرنے کا سارا عمل اطلاعات و معلومات کا عقل کے اندر
داخل ہونے اور عقل و شعور سے گزرنے کا عمل ہے۔ شعور ہی ایک سطح پر راستہ ہے تو
دوسری سطح پر مسافر ہے۔“ وہ سوچنے لگا۔” انسان اللہ تعالیٰ کی کیسی عجیب و غریب
تخلیق ہے۔ جس کو خود اپنے اندر رونما ہونے والی تحریکات کو سمجھنے میں عمریں گزر
جاتی ہیں۔ اسے رحمٰن بابا کی بات یا د آگئی وہ کہا کرتے تھے۔” بیٹا عاقب! انسان کا
وجود ایک موتی ہے۔ موتی کے اندر کا سوراخ انسان کی عقل ہے۔ جو خلاء ہے اس خلا سے
اللہ تعالیٰ کے علم کی روشنی گزر رہی ہے۔ جیسے
موتی کے سوراخ سے دھاگہ گزرتا ہے۔خلاء سے گزرنے والی علم کی روشنیوں کا ادراک
انسان ہے۔ ادراک جب اپنے وجود کے نقطے میں سمٹتا ہے تو فرد کی آنکھ بن جاتا ہے اور
جب اپنے وجود سے پھیلتا ہے۔ تو روح کی نظر بن جاتی ہے۔ جو ساری کائنات کو دیکھتی
ہے۔“ اس نے اندر ہی رحمٰن بابا کو پکارا۔” رحمٰن بابا! ہر وقت مجھے اپنی نگاہ میں
رکھنا تاکہ آپ کی نظر کی روشنی سے میری نظر کی روشنی کو تقویت ملے۔ میں بھی آپ کی
طرح ساری کائنات میں دیکھ سکوں۔“ آٹھ دن بعد وہ ڈیرہ دون پہنچ گئے۔
٭٭٭