Topics
کلوا کو ان تین
ناگوں کے مرنے سے عاقب کے علم کی تصدیق ہوگئی کلوا خوش تھا۔ اب کلوا نے گلبدن کی
طرف اشارہ کیا کہ وہ قریب آئے۔ سرولا آگے
بڑھی اور گلبدن کا بازو پکڑ کر کرسٹل بال کے قریب لے آئی۔ کلوا نے اشارے سے
اسے کہا کہ اس پر ہاتھ رکھو۔ کلوا مستقل طور پر منتر پڑھے جا رہا تھا۔ گلبدن دل ہی
دل میں یا اللہ کا ورد کر رہی تھی۔ وہ
آزاد فضاؤں میں پلی بڑھی تھی۔ بستی کا ہر شخص اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ اس کے
اندر ایمان و یقین کی قوت تھی۔ اس نے لاپروائی
سے اپنا ہاتھ کرسٹل بال پر رکھ دیا۔ کلوا منتر پڑھتا ہوا کرسٹل بال میں
دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے چہرے پر شیطنت چمکنے لگی۔ عاقب نے اس کے اندر
کے شیطانی خیال کو پڑھ لیا کہ اماوس کی رات کو کالی دیوی کے چرنوں میں بلید ان کے لئے اس نے کنواری
لڑکی کا انتخاب کر لیا ہے اور یہ لڑکی گلبدن ہے۔ اس کے بعد دونوں کو واپس اسی جگہ
سلاخوں کے پیچھے رکھ دیا گیا۔ رات کو سرولا خوب صورت ٹرے میں کھانا سجا کے عاقب کے
پاس لائی اور اس سے محبت و پیار کی باتیں
کرنے لگی۔ عاقب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور وہ وہاں سے جاتے ہی بنی۔ مگر پھر
دوسرے دن وہ اسی طرح بن سنور کے آ گئی۔ اب کے عاقب نے سوچا کہ شیطانی ہتھکنڈے مکر
و فریب کا جال ہے۔ مکر کو مکر ہی کے ذریعے ختم کرنا چاہیئے۔ جیسے بعض بیماریوں کا
علاج زہر سے کیا جاتا ہے۔ اس نے اس کے لائے ہوئے کھانے میں سے ایک لقمہ سرولا کے
منہ میں اپنے ہاتھ سے ڈالا اور اس سے جھوٹی محبت جتاتے ہوئے کہا۔” تم ہی بتاؤ ان
سب آدمیوں کے سامنے میں تم سے کیا بات کر سکتا ہوں۔“
وہ بولی۔” پرسوں اماوس کی رات ہے۔ پرسوں
سردار مجھے تمہارے سپرد کرنے والا ہے۔ مجھے اس بچے کی خواہش ہے جو کالی ماتا کا جنم لے کر پیدا ہوگا۔ میں
چاہتی ہوں تم بھی خوشی کے ساتھ میرا ساتھ دو۔ پرسوں رات بہت بڑا جشن ہوگا۔“
عاقب نے اسے شیشے میں اتارتے ہوئے
پوچھا۔” مگر یہاں تو جشن کے آثار
دکھائی نہیں دیتے۔“
وہ بولی۔” اس غار کا ایک تنگ راستہ جو
غار کی گہرائی میں ہے۔ وہ پہاڑ کی
دوسری جانب نکلتا ہے۔ دوسری جانب پہاڑ کے
اندر بہت ہی بڑی جگہ ہے۔ ہمارے سارے جشن وہیں منائے جاتے ہیں۔ سردار کل سے وہیں
چلا جائے گا۔ تاکہ جشن کا انتظام اپنے
سامنے کرا سکے۔“
عاقب نے سرولا کو مسکرا کے دیکھتے ہوئے
کہا۔” پھر تم یہاں ہمارے پاس ا آ جانا۔ ہم
بہت ساری باتیں کریں گے۔ تمہارے سردار کی موجودگی میں مجھے حسد ہو تا ہے۔ جس نظر
سے وہ تمہیں دیکھتا ہے۔“
سرولا ہنس پڑی۔ اس نے عاقب کے گال کے
قریب اپنا چہرہ کیا ہی تھا کہ عاقب نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے یہ کہتے ہوئے
خود سے پرے کر دیا کہ۔” نہ نہ ابھی نہیں وہ گھڑی توآنے دو۔“
سرولا ہنستی ہوئی خوشی خوشی لوٹ گئی۔
دوسری رات کو جب سرولا کھانا لے کر آئی تو
اس نے بتایا کہ سردار جا چکا ہے اور اس کے ساتھ یہاں کے لوگ بھی کافی تعداد
میں چلے گئے ہیں۔ صرف دو آدمی نگرانی کے
لئے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ عاقب نے سرولا سے پوچھا۔” تمہارے سردار نے سانپوں کے مرنے پر
میری شکتی بھی تو دیکھ لی ہے کہ اللہ نے مجھے بھی کچھ قوت دی
ہے۔ پھر وہ صرف دو آدمیوں کو چھوڑ کر چلا گیا۔“
سرولا بولی۔” تم سردار کو نہیں جانتے۔
وہ بہت طاقتور ہے۔ اس کو پتہ لگ جاتا ہے۔ اصل میں تو وہ ہی تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔ اس کی توجہ ہر آن تم
لوگوں پر ہے۔“
عاقب نے مسکرا کے کہا۔” اور تمہاری توجہ
کہاں ہے؟“ سرولا بولی۔” میری توجہ بھی تم پر ہے۔“
عاقب نے اس کی آنکھوں کی گہرائی میں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔” سرولا تمہاری
پوری توجہ میری طرف ہے۔“ عاقب دراصل اُسے ہپنا ٹائز کر رہا تھا ۔” تم گلبدن کی
دوست ہو۔ بہت گہری دوست ہو۔ کلوا تمہارا دشمن ہے۔ تم گلبدن عاقب اور جیل میں بند تمام
لوگوں کی ساتھی ہو۔ ابھی تم ہوش میں آجاؤ گی۔ پھر تم دونوں گارڈ کو جیل میں بلانا
جو نگرانی کر رہے ہیں۔ اب تم ہوش میں آجاؤ۔“
آنکھیں کھولتے ہی سرولا نے ان دو
گارڈز کو زور زور سے آوازیں دیں۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ عاقب نے پہلے
ہی ایک آدمی کو کہہ دیا تھا کہ تم بے ہوش کر گر پڑنا۔ دونوں آدمی جیل میں جیسے ہی
داخل ہوئے سب نے انہیں پکڑلیا اور اہنی سلاخوں کے اندر بند کر دیا۔ خود جلدی سے
باہر آگئے۔ باہر آتے ہوئے عاقب نے ان دونوں کو ہپنا ٹائز کر کے سلا
دیا کہ اب تم دو دن تک سوتے رہو گے۔“ سرولا نے عورتوں کو رہا کیا اور خفیہ راستے
سے پہاڑ کے دامن میں اس جگہ لے آئی جہاں
بستی والوں نے اپنی جیپ کھڑی کی تھی۔ راستے بھر عاقب دعا کرتا رہا کہ جیپ کے پاس
ہی اس کے کھوئے ہوئے دوسرے ساتھی بھی مل جائیں۔ جب وہ جیپ کے پاس پہنچے تو تمام
ساتھی وہیں جیپ میں ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ کہنے سننے کا وقت نہیں تھا۔ جیپ
فل اسپیڈ سے چل پڑی اور سیدھی بستی میں جا کر
ہی ٹھہری۔ گاڑی سے اترتے ہی گلبدن
اپنے باپ سے لپٹ گئی۔ بچھڑے ہوئے ساتھیوں نے بتایا۔
” ہم دو دن تک پہاڑ میں گھومتے رہے۔
تیسرے دن ہم کلوا کا ٹھکانہ مل گیا اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ اور گلبدن
بی بی اور ہمارا ساتھی اس پاکھنڈی کی قید میں ہیں۔ ہم سب جیپ کے پاس آگئے تاکہ اس
کی حفاظت کریں اور آپ لوگوں کی رہائی کی
کوئی ترکیب کریں ہم کو پتہ چلا کہ چودہویں کی چاند رات کو کلوا جشن منا رہا ہے۔ یہ پتہ ہم کو قریب کی بستی کے ایک دکاندار نے دیا۔ جو ایک دس
سال کا لڑکا ہے۔ اس کے پاس جشن کے لئے کلوا کے آدمی کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر
گئے تھے اور مزید لے جانے والے تھے۔ ہم نے کسی طرح ان چیزوں کے اندر نشہ آور سفوف
ملا دیا۔ تاکہ اس کے کھاتے ہی سب بے
ہوش ہو جائیں اور ہم دعا کر رہے تھے کہ آپ
رہا ہو جائیں کہ اتنے میں آپ آگئے۔“
سردار قدرت اللہ کو جب تمام حالات کا
پتہ چلا تو اس نے مشورہ دیا کہ کلوا اور اس کے ساتھیوں کی پولیس میں رپورٹ کرانی
چاہیئے اور جتنی جلدی ہو سکے یہ کام ہو
جانا چاہیئے جیسے ہی کلوا اور اس کے ساتھی ہوش میں آئے وہ سرولا ، عاقب اور
گلبدن کو دھونڈنے نکلیں گے۔“
عاقب نے کہا کہ” اب میں فوراً ہی ڈیرہ
دون جاتا ہوں وہاں صفدر بھائی اس کیس کے
متعلق جانتے ہیں۔ ان کے اثر ورسوخ بھی
ہیں اور پھر اب مجھے جانا ہی ہے۔ وہ میرے انتظار میں ہوں گے۔ میں
سرولا کو اپنے ساتھ لئے جاتا ہوں تاکہ کلوا کے خلاف گواہی دے سکے۔“
گلبدن نے فوراً کہا ۔” ابا سرولا کے
ساتھ مجھے بھی ضرور جانا چاہیئے۔“
قدرت اللہ نے گہری نظروں سے بیٹی کی طرف
دیکھا۔ ایک لمحے کو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ پھر مسکراتے ہوئے بولے۔
” چلو
ٹھیک ہے بیٹی۔ ہم سب ہی چلتے ہیں۔
وہاں چل کر دیکھتے ہیں۔“ پھر وہ اپنے
ملازموں سے مخاطب ہوئے۔” ارے بھئی جلدی سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں جیپ میں رکھوا
دو۔ جو لوگ عاقب کے ساتھ پہاڑ پر گئے تھے۔ وہ سب ساتھ ہی چلیں تیاری جلدی کریں۔ ہم صبح تڑکے یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔“
بستی
کے تمام لوگ وہیں پر جمع تھے۔ سب نے جلدی جلدی اپنی ضرورت کی چیزیں رکھیں ۔
کیونکہ صبح بالکل قریب تھی ۔ عاقب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا ۔ وہ خوش تھا کہ گلبدن
کے ساتھ جانے کا کوئی بہانہ تو بنا۔ اُفق پر سفید لکیر کے نمو دار ہوتے ہی یہ لوگ ڈیرہ دون کے لئے روانہ ہوگئے۔ ان کی
جیپ کے ساتھ دو اور جیپ تھیں۔ جن کے اندر کلوا کی اغوا کردہ لڑکیاں اور بستی کے وہ
لوگ تھے جو پہاڑ پر ان کی کھوج میں گئے تھے۔ قدرت اللہ کے ساتھ گلبدن، سرولا، عاقب
اور جیپ کا ڈرائیور تھا۔ سفر ہنستے ہنساتے گزر گیا۔ سرولا سارے سفر میں گلبدن کی
دوست بنی رہی۔ اس پر ابھی تک ہپنا ٹائز کا اثر تھا۔ گلبدن باتوں باتوں میں اس سے
کلوا کے متعلق سوالات پوچھتی رہی۔ اس طرح عاقب اور سردار قدرت اللہ کو کلوا کے
متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوگئیں۔ سرولا نے بتایا۔” پہاڑوں کے اندر کلوا کا ایک
مخصوص ٹھکانہ ہے ۔ یہ جگہ اس پہاڑ سے کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہوگی۔ جس پہاڑ
سے ہم ابھی آرہے ہیں۔ اس غار میں کلوا نے
سونے کے بڑے بڑے بت رکھے ہیں۔ یہ بت
کالی ماتا ، لکشمی دیوی ، سیتا دیوی ،
گاؤما تا اور دھرتی ماتا کے ہیں۔ کلوا کا
کہنا ہے کہ دھرتی پر دیوتا کا اوتار عورت
کے روپ میں ہے کیونکہ دھرتی خود ماتا کے روپ میں ہے۔ اس جگہ کسی کو جانے
کی اجازت نہیں۔ بلکہ اکثر لوگ تو اس جگہ سے واقف ہی نہیں۔ صرف ایک مرتبہ
کلوا مجھے وہاں لے گیا تھا۔“ گلبدن نے
سرولا سے پوچھا۔” کلوا تمہیں وہاں کیوں لے گیا تھا۔“
وہ بولی ۔” کلوا مجھ سے بہت پیار کرتا
تھا۔ وہ مجھے اماوس کی رات کو وہاں لے گیا تھا۔ اس رات ایک کنواری لڑکی کو بھی اس
نے خاص اس دن کے لئے اغوا کیا۔ اس لڑکی کو اس نے بہت ساری نشے کی چیز پلا دی اور
اس کو اپنے ہاتھوں سے ان بتوں کے چرنوں میں بلیدان کر دیا۔ ان کا خون تمام بتوں پر
چھڑکا اور میرے جسم پر بھی یہ خون لگا دیا۔ پھر تمام دیوتاؤں کے قدموں میں مجھے
ماتھا ٹیکنے کو کہا اور مجھ سے اقرار لیا کہ میں ان سب بتوں کی خیر خواہ رہوں گی
اور کلوا کے مرتے دم تک فرمانبردار رہوں گی۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ تیری کوکھ سے
ایسا بچہ جنم لینے والا ہے۔ جو کالی ماتا کا اوتار ہوگا۔“
گلبدن یہ سن کر بولی۔” مگر سرولا تم تو
جانتی ہو کہ کلوا تمہارا بدترین دشمن ہے۔ تم جانتی ہو نا۔“ سرولا نے سر ہلا کر
اثبات میں جواب دیا۔
شام ڈھلنے کو آئی۔ ڈیرہ دون کی
روشنیاں دکھائی دینے لگیں۔ جلد ہی یہ سب لوگ صفدر علی کی حویلی
میں پہنچ گئے۔ سفدر علی عاقب کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ اسے اس کے ساتھ آئے
ہوئے دوستوں کا جیسے احساس بھی نہ ہوا۔ وہ باربار عاقب کو گلے سے لگاتا اور کہتا۔
” بھئی تم کیسے ہو؟ اب تو میں تمہاری
تلاش میں ہر کارے بھجوانے والا تھا۔ اتنے دن لگا دیئے۔“
عاقب نے اس کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔”
پہلے میرے مہمانوں کو ٹھہراؤ۔ سارے دن کے سفر میں تھک چکے ہیں۔“ صفدر علی کی خوشی اور گرمجوشی اس کے
روئیں روئیں سے پھوٹ رہی تھی۔ اس نے تمام خادموں کو آواز دے کر بلایا اور سب کےذمے
کوئی نہ کوئی کام لگا دیا۔
تھوڑی دیر میں جب ذرا سفر کی تھکان
اُتری۔ تو عاقب نے ساری کہانی صفدر علی کو سنائی۔ اس نے کہا۔” میں انسپکٹر شرما کو
بلواتا ہوں۔ وہ میرا دوست ہے وہ اس کیس
میں صحیح مشورہ دے گا۔“تھوڑی دیر میں انسپکٹر شرما آگیا۔ ساری کہانی سن کر
اس نے کہا:
کلوا کے متعلق ہمیں صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ کالی دیوی کا پجاری ہے
اور اپنی تپسیا سے اس نے بہت سی روحانی قوتیں حاصل کر لی ہیں۔ ہمارے مذہب اور کلچر
میں ایسے شخص کو بہت عزت دی جاتی ہے۔ اس وجہ
سے ہم نے کبھی اس کے متعلق کھوج لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔“
گلبدن بولی۔” شرما جی پولیس تو ہر چیز
کا ثبوت مانگتی ہے۔ اگر آپ فوراً ہی اس جگہ چھاپہ ماریں تو آپ کو ثبوت مل جائے
گا۔“ اس نے پہاڑ کے اس غار کا ذکر کیا۔ جس
کی نشاندہی سرولا نے کی تھی۔
انسپکٹر شرما نے صفدر علی اور عاقب کو یقین دلایا کہ وہ اس کیس کا سراغ لگا کر ہی
دم لے گا اور کلوا کو اس کے جرم کی سزا ملے گی۔“
انسپکٹر شرما نے راتوں رات کیس تیار کر
کے پہاڑ میں کلوا کے ٹھکانوں پر چھاپہ مارنے کے لئے مسلح پولیس کی ایک نفری کو
روانہ کیا اور خود بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ علی الصبح یہ لوگ وہاں پہنچ گئے۔ ان کا
خیال تھا کہ پہاڑ پر کلوا کے آدمی پولیس
کو دیکھ کرضرور چوکنے ہو جائیں گے۔ اس وجہ
سے یہ سب بچتے بچاتے غار کی جانب چلے۔ پولیس کے آدمی تین ٹولیوں میں بٹ گئے تاکہ
جن تین غاروں کی نشاندہی عاقب کے آدمیوں نے کی تھی۔ اس میں بیک وقت پہنچ سکیں۔ سب
نے اپنی بندوقیں تھام رکھی تھیں تاکہ ہنگامی حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ مگر پہاڑ
پر مکمل سناٹا تھا کلوا کے کسی آدمی کی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ انسپکٹر شرما
اپنے آدمیوں کے ساتھ اس غار میں پہنچا جہاں جشن منایا جانے والا تھا۔ کلوا اور اس
کے تمام ساتھی نشے کی حالت میں ابھی تک گہری نیند سو رہے تھے۔ حالانکہ اس حالت میں
ان پر دو راتیں گزر چکی تھیں۔ پولیس نے ان
سوتوں ہوؤں کو سب سے پہلے ہتھکڑی لگائی
اور پھر جلد ہی وہ سب ہوش میں آگئے۔ ادھر دوسری دو ٹولیوں نے بھی دوسرے غاروں کا محاصرہ کر لیا
اور سونے کے بتوں اور ان کے قیمتی چڑھاوؤں پر اپنے پہرے بٹھا دیئے۔ ہوش میں آتے ہی ہاتھوں میں بندھی ہتھکڑیاں دیکھ کر کلوا
اور اس کے تمام ساتھیوں کے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ کچھ دیر تو ان دماغ ماؤف رہے۔
انہیں سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
مگر جب انسپکٹر شرما نے انہیں بتایا کہ وہ سب پولیس کی حراست میں ہیں۔ تو کلوا کے چہرے پر شیطنیت کی سیاہی کے سائے
جھلکنے لگے۔ وہ اپنی مکاری کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔” مگر انسپکٹر
صاحب ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ ہم تو یہاں کالی ماتا کا جشن منا رہے تھے ۔ تھک کر
سو رہے۔ آخر ہم نے کیا کیا۔؟“
انسپکٹر شرما۔” ہمیں تمہارے خلاف کچھ
ایسی رپورٹیں ملی ہیں۔ جو تمہاری گرفتاری کا باعث ہیں۔ بہتر ہے کہ تم سب لوگ اب
تھانے چلو۔ باقی کاروائی وہاں ہوگی۔“
ان سب لوگوں کو پولیس کی حراست میں ڈیرہ
دون لایا گیا۔ سونے کے بتوں والے غار میں جب پولیس نے بتوں کو ہٹانے کی کوشش کی ۔
تو ان کے پیچھے خفیہ سرنگیں اور غار ملے۔ جہاں سالہا سال کے چوری شدہ خزانے بھرے
پڑے تھے۔ کلوا اور اس کے ساتھیوں کو پولیس نے ابھی یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے
خزانوں کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ بلکہ
اس سے اگلوانے کوشش میں جو کالی ماتا کا سچا بھگت بننے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔ اس کے
بعد سرولا کو کلوا اور اس کے ساتھیوں کے
سامنے لایا گیا۔
سرولا کو دیکھتے ہی کلوا غیض و غضب سے بھر گیا۔ وہ غضبناک
ہو کر بولا۔” تو یہ تم ہو۔ ہمیں گرفتار کرانے والی۔“
سرولا بولی۔” کلوا ۔۔ اب باز آجا۔ معصوم
جانوں سے مت کھیل۔ تیرے سارے خزانے پکڑے گئے ہیں۔“
کلوا یہ سنتے ہی ایک دم سے بدل گیا۔ وہ
نفرت اور غضب کا جیتا جاگتا شیطان بن چکا تھا۔ وہ سرولا کی طرف ہاتھ بڑھا کر اپنا
پورا پنجہ کھول کر منہ ہی منہ میں کوئی منتر پڑھنے لگا۔ اسی وقت اس کی انگلیوں کی
پوروں سے آگ کی لہریں نکلنے لگیں اور سرولا کے بال جل اُٹھے۔ وہ چیخنے لگی۔ پولیس
نے فوراً ا س کے اوپر کمبل ڈالا اور وہاں سے اسے لے گئے۔ سرولا کے بال بُری طرح جل
گئے۔ مگر چہرہ سلامت رہا۔ تین دن تک
قدرت اللہ اور اس کے ساتھی ڈیرہ دون ٹھہرے رہے۔ ان تین دنوں میں پولیس نے ان کی
گواہی کے بیانات ریکارڈ کر لئے۔ تاکہ بوقتِ موقع کام آ سکیں۔ ان تین دنوں میں عاقب
اور گلبدن عشق کے انجانے راستوں پر اتنی دور نکل آئے کہ خود انہیں بھی خبر نہ
ہوئی۔ قدرت اللہ نے اپنے ساتھیوں سمیت صبح تڑکے واپس جانے کا پروگرام بنایا۔ تو
گلبدن کو یوں لگا جیسے وہ قندیل کی بتی ہے جو اندر ہی اندر سلگ رہی ہے۔ رات بھیگ
چکی تھی۔ کچھ دیر بستر پر کروٹیں بدلنے کے بعد اس سے لیٹا نہ گیا۔ کھڑکی سے چاندنی
چھن چھن کر اندر آرہی تھی۔ وہ اُٹھی اور باہر آ کر صحن میں بیٹھ گئی۔ چند لمحوں
بعد آہٹ سن کر اس نے جو پلٹ کر دیکھا تو عاقب کو اپنے قریب کھڑا پایا۔ ایک لمحے کی
خاموشی کے بعد گلبدن بولی۔” نیند نہیں آرہی تھی۔ تو میں باہر نکل آئی۔“
عاقب بولا۔” میرے ساتھ بھی یہی معاملہ
ہوا۔“ پھر وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔” آج تم چلی جاؤ گی۔“ اس کے لہجے میں دل کا درد
شامل تھا۔
گلبدن اپنے آپ میں سمٹ ہی گئی۔ ایک دن تو جانا ہی تھا نا۔“
عاقب بولا۔” گلبدن ! آج ایک راز کی بات
تم سے کہنی ہے۔“ پھر اس نے گلبدن کو خضر بابا کا سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح خضر
بابا نے گلبدن کی شبیہ روشنیوں میں اسے
دکھائی تھی اور اس وقت سے لے کر
ملنے تک وہ وقتاً وقتاً اسے روحانی طور پر دیکھتا رہا ہے۔
یہ سنتے ہی گلبدن بولی۔” آج ایک راز کی بات میں بھی آپ کو بتاتی ہوں۔ آپ کی
تیمارد اری کرتے ہوئے میں نے آپ کی پشت پر
وی کا بھورے بالوں کا نشان دیکھا تھا۔“
عاقب فوراً بولا۔” یہ میرا پیدائشی نشان
ہے۔“
گلبدن آہستہ سے بولی۔” ایسا ہی نشان
میری پشت پر بھی ہے اور۔۔۔۔ اور“ کوشش کے باوجود اس کی آواز گلے میں جیسے پھنس کر
رہ گئی۔ حیا سے چاندنی کی ٹھندک میں بھی اس کا چہرہ تپنے لگا۔
عاقب نے اس کے کان میں سرگوشی کی ”
اور۔۔۔اور کیا؟“
گلبدن نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں
چھپا لیا ” اور۔۔۔ اور کچھ نہیں۔“
عاقب نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔” میں جانتا
ہوں۔ تم کہو یا نہ کہو۔“
” کیا
جانتے ہو؟“ گلبدن نے چہرے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
” یہی کہ بچپن میں ایک بزرگ نے تمہاری
ماں سے کہا تھا۔ یہ جو وی کا نشان اس بچی کی پشت پر ہے نا۔ ایسا ہی نشان اس کے
شوہر کی پشت پربھی ہوگا۔“
گلبدن اس طرح چونک سی گئی جیسے اس کی
چوری پکڑی گئی ہے۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔” مگر آپ کو یہ کیسے پتہ چلا؟“
عاقب
نے مسکرا کر کہا۔” تمہارے عارض کے تل نے سب راز مجھ پر کھول دیئے۔“ اس لمحے
سانسوں کی آواز کے سوا اور
کچھ نہ
تھا۔ قالب جدا تھے۔ مگر دو روحوں کا ملن
آسمان سے کسی گوشے میں ضرور ہوا تھا۔ جس کا
ادراک دونوں کے دل کر رہے تھے۔
عاقب کے دل میں رحمٰن بابا کی آواز
گونجی۔” بچے! عشق کرنے والے دیوانے ہوتے ہیں۔ دیوانوں کا ملن دنیا سے پہلے آسمان
پر ہوتا ہے۔ پھر آسمان سے وہ دنیا میں اترتے ہیں تاکہ عشق کی تکمیل ہو سکے۔“ اس کا دل اندر ہی اندر
رحمٰن بابا کو پکارنے لگا۔ رحمٰن بابا! ۔ آج دو دیوانے آسمان سے زمین پر اتر آئے
ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ دل ہی دل میں اس نے گلبدن کے عارض کو چوم لیا اور
چپ چاپ اُٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
صبح تڑکے ناشتے سے فارغ ہو کر سردار
قدرت اللہ اور اس کے ساتھیوں نے جانے کی تیاری شروع کر دی۔ عاقب نے گلبدن کی طرف
دیکھا۔ بادلوں میں چھپے ہوئے چاند کی طرح سوگوار حسن غم کی بدلیوں سے جھانکتا دکھائی
دیا۔ وہ اس کے قریب آیا اور آہستہ سے بولا۔” ہم بہت جلد ملیں گے ان شاء
اللہ۔ اب تو ہنس دو۔“
جانے اس کی آواز میں کیا تھا۔ گلبدن کے
ہونٹوں کی کلی کھل گئی اور اس کے ساتھ ہی
دبڈبائی آنکھوں کے پیمانے بھی چھلک پڑے۔
اتنے لوگوں کی موجودگی میں رازِ دل افشا ہو گیا۔ اس نے گھبرا کے دونوں ہاتھوں
میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے قدرت اللہ تیزی سے بیٹی
کے قریب آئے اور اسے بازو سے پکڑ کر چلتے
ہوئے بولے۔” چلو بیٹی! ہم پھر یہاں آئیں گے اور عاقب تو اب ہمارا اپنا ہے۔ اپنے
کیسے چھوٹ سکتے ہیں۔“
قدرت اللہ اور ساتھیوں کے جانے کے بعد
عاقب کی نگاہ ابھی تک قافلے کی گرد میں
اٹی ہوئی تھی کہ صفدر علی نے پیچھے سے اس کے کندھوں کو چھوا ۔ ”عاقب بھائی ! اب
واپس لوٹ آئیے۔ “
عاقب چونک کر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔”
اوہ میں یہیں تو ہوں۔“
صفدر ہنستے ہوئے کہنے لگا۔” عاقب
بھائی ! آج تو آپ کا چہرہ دل کا آئینہ بنا
ہوا ہے۔ آج آپ ہم سے کچھ نہیں چھپا سکتے۔“
صفدر نے کچھ ایسے شوخ انداز میں کہا کہ
عاقب کو ہنسی اگئی۔ وہ بولا۔” یار عجیب
بات ہے مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے جانے سے میں اتنا خالی ہو جاؤں گا۔ ایسا لگتا
ہے جیسے وہ میرے دل کا اجالا لے گئی ہے۔“
صفدر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دباتے
ہوئے کہا۔” کہو تو کل ہی اس کے ابا سے اس
کا ہاتھ مانگ لیں۔“
عاقب بولا۔” نہیں نہیں
نہیں ابھی نہیں۔ ابھی مجھے رحمٰن بابا کے پاس جانا ہے انہوں نے مجھے ایک بہت بڑا کام
سونپا ہے۔“
صفدر علی بولا۔” عاقب بھائی! جوان
لڑکیوں کے والدین زیادہ انتظار نہیں کرتے۔ آپ تو مراقبہ میں اپنے مرشد سے
رابطہ قائم کر سکتے ہو۔ پھر دیر کاہے کی۔“
عاقب ہنسنے لگا۔” صفدر بھائی۔ آپ کا بھی
جواب نہیں ہے۔“
اس رات عاقب نے مراقبہ میں رحمٰن بابا
کا تصور کیا اور اپنے دل کی بات ان تک پہنچا دی۔ اس نے مراقبہ میں دیکھا کہ رحمٰن
بابا اور خضر بابا آئے اور انہوں نے عاقب کا بایاں بازو تھام لیا۔ اُس نے دیکھا کہ
دونوں نے اُسے ایک جگہ لے جا کر کھڑا کر دیا ہے۔ سامنے ایک خوبصورت مقفل صندوق رکھا ہوا ہے۔ دونوں بزرگوں نے صندوق
کھولا اور اُس میں سے ایک مردانہ اور ایک زنانہ عروسی جوڑا نکال اُسے تھما دیا۔
رحمٰن بابا بولے۔” بیٹا یہ تمہارے لئے اور تمہاری دلہن کے لئے ہے۔“
اس کے فوراً بعد عاقب کا مراقبہ ختم ہو
گیا۔ اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں اور ایک لمحے وہ فضا میں کھلی
آنکھوں سے تکنے کے بعد پوری طرح ہوش و حواس میں آ گیا۔ اب حیرت کی بجائے رحمت کا
غلبہ اس پر تھا۔ وہ اللہ پاک کی رحمت اور کرم نوازی پر بے ساختہ رو پڑا۔ عاجزی نے
اس کا سر زمین پر جھکا دیا۔
دوسرے دن صبح صبح صفدر علی عاقب کے پاس آیا اور عاقب کا
چہرہ دیکھتے ہی کہنے لگا۔” مجھے پتہ ہے۔ اجازت مل گئی ہے۔ ہے نا !!“
عاقب مسکرا کے بولا۔” تمہیں کیسے پتہ؟“
صفدر علی نے کہا۔” تمہارا چہرہ بتا رہا ہے۔“
” میرا چہرہ تم کب سے پڑھنے لگے۔“
صفدر علی کہنے لگا۔” جب سے تمہیں عشق
ہوا ہے۔ ارے میاں تم کیا جانو۔ ہر عاشق کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتی ہے۔“
دونوں قہقہہ مار کے ہنس پڑے۔
پھر صفدر علی نے کہا۔” پورے چوبیس گھنٹے
بعد تمہاری ہنسی کی آواز سنائی دی ہے۔
اُدھر وہ بے چاری نہ جانے کس حال میں ہوگی۔ میں تو تمہاری بھابھی کو یہ قصہ سناتا
ہوں ۔ اب وہی صحیح مشورہ دے گی کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟“
صفدر کی بیوی شاہدہ بیگم یہ سن کر
بڑی خوش ہوئی۔ ویسے بھی وہ جب سے اُمید سے
ہوئی تھی۔ خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر
نہیں ٹکتے تھے۔ شاہدہ کہنے لگی۔
” عاقب بھائی ! اب
سارا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ میں آج شام کو ہی بازار میں جا کر منگنی کا جوڑا
اور زیور کا بندوبست کر کے آتی ہوں۔ مجھے
گلبدن بہت اچھی لگی تھی۔ لگتا ہے اللہ نے میری سن لی۔“
شاہدہ نے تین دنوں میں منگنی کا سارا
انتظام کر لیا۔ چوتھے دن صفدر علی اس کی بیگم اور عاقب اپنے چند دوستوں
کے ساتھ قدرت اللہ کی بستی کی طرف
روانہ ہوئے۔ شام کو وہ بستی میں پہنچے تو
ساری بستی کے لوگ انہیں دیکھ کر خوشی سے جھوم گئے۔ گلبدن کا خوشی کے مارے ٹھکانہ
نہ تھا۔ شاہدہ نے اس کے کان میں کہا۔” ہم تمہاری منگنی کرنے آئے ہیں۔“
دوسرے دن بھیڑیں
ذبح کی گئیں۔ زبردست جشن کے ساتھ عاقب اور گلبدن کی منگنی ہوگئی۔ صفدر علی اپنے
دوستوں کے ساتھ دوسرے دن واپس آگیا۔ مگر عاقب اور شاہدہ مزید دو دن اور روک لیے
گئے۔ ڈیرہ دون واپس آ کر عاقب پھر لوگوں میں گھر گیا۔” یوں لگتا تھا جیسے اس کا نام خوشبو بن کر ہواؤں میں اڑ رہا
ہے۔ لوگ آتے اور اپنی مرادیں پاتے۔ گلبدن بھی کبھی کبھی اپنے ابا کے ساتھ آجاتی۔
دو تین ماہ اسی طرح گزر گئے۔ عاقب نے گلبدن کو رحمٰن بابا کے متعلق سب کچھ بتا دیا
اور یہ بھی کہ اب رحمٰن بابا کے غیبی
اشارے کا منتظر ہے۔ جب بھی وہ کہیں گے۔ مجھے آسام کی پہاڑیوں میں سوئے ہوئے ان
پانچ نوجوانوں کو ڈھونڈنا ہوگا۔ پھر وہ ان نوجوانوں کے ساتھ رحمٰن بابا کی خدمت
میں حاضر ہو سکے گا اور تب ہی وہ گلبدن کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔“ اس کی دلی خواہش
ہے کہ رحمٰن بابا اس کی شادی میں شریک ہوں۔
اس نے گلبدن کو مراقبہ کی واردات سنائی۔ اس نے کہا۔” گلبدن
ایک مرتبہ رحمٰن بابا نے فرمایا تھا کہ جب سالک روحانیت کے راستے میں اپنے مرشد کے
ساتھ منسلک ہو جاتا ہے تو زندگی کی حرکات کی تمام انرجی اسے اپنے مرشد کے ذریعے
منتقل ہوتی ہے اور زندگی میں ملنے والی تمام نعمتیں اسے مرشد کی توسط سے ملتی ہیں۔
تم میری زندگی کا وہ تحفہ ہو جس کی منظوری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے۔ میں
اپنے مرشد کے ہاتھ سے وہ لباس ِ عروسی لینا چاہتا ہوں جو انہوں نے مراقبے میں
ہمارے لئے دیا ہے۔“
کچھ ہی دنوں بعد جب وہ ایک رات مراقبہ کر رہا تھا۔ اس نے
دیکھا کہ آسمان سے ایک نہایت سفید گھوڑا جس
کے دونوں
جانب بڑے بڑے پَر لگے ہیں۔ آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہا ہے۔
جب گھوڑا زمین کے قریب آگیا تو عاقب نے دیکھا کہ اس گھوڑے پر رحمٰن بابا بیٹھے
ہیں۔ اس کے بعد گھوڑا عاقب کے بالکل سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔ عاقب نے خوش ہو کر
رحمٰن بابا کو سلام کیا۔ رحمٰن بابا نے عاقب کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پیچھے گھوڑے
پر بٹھا لیا اور گھوڑا انتہائی تیز رفتاری
کے ساتھ چل پڑا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پرواز کرتا ہوا گھوڑا چند ہی لمحموں میں ایک
پہاڑ پر اتر گیا۔ رحمٰن بابا نے عاقب کا ہاتھ پکڑ کر گھوڑے سے اسے اتارا اور دو ر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔”وہ آسام
کی پہاڑی ہے جس کے اندر غار میں وہ پانچ
نوجوان سو رہے ہیں۔ جاؤ انہیں جگا کر ہمارے پاس لے آؤ۔“
صبح عاقب نے صفدر علی سے رات کا واقعہ بیان کیا اور اسے
بتایا کہ اب اُسے یہاں سے جانا ہوگا۔
صفدر علی نے کہا۔” سفر لمبا ہے۔ اس کے لئے آپ کو کچھ ساتھیوں کی ضرورت پڑے گی۔
بہتر یہ ہے کہ آپ گلبدن اور اس کی بستی والوں سے مل آئیں۔ پھر آپ کے جانے کی تیاری کرتے ہیں۔“
عاقب ناشتہ کرتے ہی جیپ میں صفدر علی کے ڈرائیور کے ساتھ
روانہ ہو گیا۔ سارا راستہ وہ گلبدن کے متعلق سوچتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس کے ساتھآنے کی ضد کرے گی۔
بستی پہنچ کر عاقب نے گلبدن اور اس کے باپ قدرت اللہ کو سارا قصہ سنایا اور
بتایاکہ وہ ایک دو دن میں ہی یہاں سے اپنے مشن پر روانہ ہونے والا ہے۔ عاقب کا
خیال درست نکلا۔ گلبدن سنتے ہی کہنے لگی۔
” میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔“
عاقب نے کہا۔” مگر ابھی میں تمہیں کیسے لے جا سکتا ہوں؟“
وہ تنک کر بولی۔” کیوں۔ کیوں نہیں لے جا سکتے؟“
قدرت اللہ بولے۔” بیٹی سمجھا کرو۔ ابھی شادی بھی تو ہونی
ہے۔“
لیکن وہ ایک ضدی بچے کی طرح فیصلہ کن لہجے میں بولی۔” مگر
ابا میں نے پکا فیصلہ کر لیا ہے ساتھ جانے کا۔“
باپ اپنی بیٹی کے مزاج سے خوب واقف تھا۔ وہ جانتے تھے کہ
گلبدن نے جب جانے کا ارادہ طے کر لیا ہے تو اب اسے کوئی روک نہیں سکے گا۔ وہ رات عاقب کی بستی والوں کے
ساتھ گزری۔ صبح بستی کے دوآدمی بھی عاقب
کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے۔
رات بھر بستی والی عورتوں نے سفر کے لئے ستو، میٹھی ٹکیاں
اور دانے وغیرہ بھون کر زادِ راہ تیار کر دیا تھا۔ عاقب نے رخصت ہوتے وقت قدرت
اللہ سے وعدہ کیا کہ وہ ان غار والوں کو رحمٰن بابا کے پاس پہنچا کر بستی کے ان دو
آدمیوں کے ذریعے آپ کو ضرور اطلاع دے گا۔ قدرت اللہ نے اور بستی والوں نے بہت سی
دعاؤں کے ساتھ سب کو رخصت کیا۔ ڈیرہ دون پہنچے تو صفدر علی نے بتایا کہ ساتھ جانے
کے لئے تین آدمیوں کا بندوبست ہو چکا ہے اور تمام ضروری سامان وغیرہ تیار ہے۔
دوسرے دن صبح روانہ ہونے کا پروگرام بنا۔