Topics
عاقب ابھی تک
نیند کی کیفیت میں تھا۔ اس نے آہستہ سے کہا۔” شکریہ“ اس کی آواز میں نقاہت تھی۔
گلبدن جلدی سے مڑی۔ ابا میں ان کے لئے کچھ
کھانے کو لاتی ہوں۔ اس نے فوراً ہی ایک گلاس پانی میں شہد گھولا اور جلدی سے اپنے
ابا کو دیا۔” ابا اسے پلا دیں۔“
پھر اس کے سرہانے کو اونچا کیا۔ تاکہ وہ
پانی پی سکے۔ ” ابا میں کچھ چیز گرم پکا کر اس کے لئے لاتی ہوں۔ آپ چمچے سے اسے
پلاتے جائیں۔“
دو چار چمچے شہد ملے پانی کے اندر گئے تو عاقب کو تھوڑی سی قوت
محسوس ہوئی ۔ مگر ابھی تک اس کے حواس پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے۔ قدرت اللہ برابر
چمچے سے اسے شہد کا پانی پلا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں گلبدن سوپ لے کر آگئی۔
عاقب آنکھیں بند کئے اپنے خیالات کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قدرت اللہ نے بیٹی کو دیکھ کر
آہستہ سے کہا۔” لگتا ہے، دوبارہ سو گیا ہے۔ گلبدن بولی۔” ابا اسے اب جگا دو۔ اگر
یہ کھائے گا نہیں تو اس کی کمزوری کیسے دور ہوگی۔ نیم غشی کی حالت میں عاقب کو یوں
لگا جیسے دور کہیں گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں
کھولیں۔ اس کی نگاہ گلبدن کے عارض پر سیاہ تل پر پڑی۔ جو سیاہ قندیل کا
شعلہ بن کر جگمگا اُٹھا۔ اس کی نظر شعلے پر جم کر رہ گئی۔ شعلے کے رنگ نے عارض کو
گلنار کر دیا۔ اس نے نظر کی گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے گھبرا کے کہا۔” یہ سوپ پی
لیجیئے۔“
قدرت اللہ نے عاقب کا ہاتھ اپنے ہاتھ
میں لے کر آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے پوچھا۔” بیٹے آپ کا نام کیا ہے؟“
عاقب نے کہا۔” میرا نام؟“ پھر وہ ایک لمحے کو
رکا ۔ جیسے دماغ پر زور دے رہا ہے ۔ پھر گہری سانس کے ساتھ بولا۔” میرا نام عاقب
ہے۔“
قدرت اللہ مسکراتے ہوئے بولے۔” بیٹے بس
اتنا ہی کافی ہے۔ ابھی تم کافی کمزور اور
تکلیف میں ہو۔ یہ سوپ پی لو۔“ پھر انہوں نے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا۔ ” یہ میری
بیٹی گلبدن ہے۔ اسی نے تمہیں دریا کے کنارے پایا تھا۔ یہ تین دن سے تمہاری سیوا کر
رہی ہے۔ یہ تمہیں سوپ پلا دے گی۔“
عاقب گھبرا کے بولا۔” میں اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں
خود پی لوں گا۔“ گلبدن ایک دم بولی۔” نہ۔ نہ۔ نہ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ تمہاری
پسلیاں ٹوٹی
ہوئی ہیں۔ ابھی تو بہت دن تمہیں آرام کرنا ہو گا۔“
” پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں؟ اچھا“ ۔ عاقب
نے حیرانی سے کہا۔
اب وہ پوری طرح
ہو ش میں آ چکا تھا/ سوپ پینے کے بعد اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے
مردہ جسم میں روح پھونک دی ہے۔ اسے یاد آیا۔ وہ پہاڑ کی دراڑ میں پھنس گیا تھا۔ اس
نے قدرت اللہ کو بتایا۔” چاچا مجھے یاد آرہا ہے کہ میں کسی پہاڑ کی دراڑ میں پھنس
گیا تھا۔ پھر وہاں سے کیسے نکلا یاد نہیں ارہا۔“ گلبدن بولی۔” زخم بھر جائیں گے تو خود ہی یاد آجائے
گا۔ ابھی اپنے دماغ پر زور مت دو۔“
قدرت اللہ نے کہا۔” ہاں بیٹا! پہلے ٹھیک
ہو جاؤ۔ خون بہت نکل چکا ہے۔ کمزوری ہے۔ جسم کمزور ہو جائے تو دماغ بھی کمزور ہو
جاتا ہے۔“ تھوڑی ہی دیر میں ساری بستی میں خبر پھیل گئی کہ اس زخمی جوان کو ہوش
آگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنےآنے لگے۔ محبت اور خوشی کی لہریں فضا میں بکھر گئیں۔ سب
خوش تھے کہ ان کی تھوڑی سی توجہ نے کسی کی
جان بچا لی۔
ایک ہفتے جڑی بوٹیوں کے علاج اور دم
کرنے سے عاقب کے زخم تقریباً بھر گئے۔ جڑی بوتیوں میں دم میں جادوئی اثر ہوتا ہے۔
اس کا اندازہ اسے اچھی طرح ہو چکا تھا۔ پھر سارے بستی والوں کی شفقت اور تیمارداری
خصوصاً گلبدن کی دن رات کی خدمت نے اسے بالکل پہلے جیسا تندرست و توآنا کر دیا۔
عاقب چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا تو بستی والوں نے عاقب کا جشنِ صحت منانے کا فیصلہ
کیا۔ ساری بستی میں اعلان کیا گیا کہ پیر کے دن جشن منایا جائے گا۔ تین دن باقی
تھے۔ اس دن صبح ہی سے جشن کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ بہت ساری بھیڑیں ذبح کی گئیں۔
بھیڑوں کے اندر چاول وغیرہ رکھ کر انہیں زمین کے اندر جلائے ہوئے کوئلوں کی آگ میں
پکنے کے لئے بند کر دیا گا۔ بستی کے تمام مرد سارا دن اس کام میں لگے رہے۔ جب کہ
عورتوں نے دوپہر کے کھانے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں مختلف چیزیں بنا لیں۔ دوپہر
میں سب نے وہیں الاؤ کے پاس بیٹھ کر کھانے کھائے۔ الاؤ گول دائرے کی صورت میں تھے۔
اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھ گئے۔ اصل جشن شام کو شروع ہونا تھا۔ جب یہ بھیڑیں پک کر
تیار ہو جاتیں۔ شام کو بستی کی تمام عورتوں اور لڑکیوں نے اچھے اچھے کپڑے پہنے۔
زیور سے آراستہ ہوئیں اور میدان میں آگئیں۔ عاقب کو قبیلے کے کچھ لوگ گھیر کر لے گئے۔ تھوری دیر بعد وہ
گھر سے باہر آیا تو اس کے جسم پر مخصوص افغانی لباس تھا۔ عاقب کو قبیلے کے سردا ر
قدرت اللہ کے پاس تخت پر بٹھایا گیا۔ تخت بھیڑ کی نرم و گرم کھالوں سے آراستہ تھا۔
ابھی تک اس نے بستی والوں کو کلوا کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا ۔ اپنے متعلق بھی
اس نے صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ سیر و تفریح کی غرض سے ہندوستان آیا ہے۔ یہاں سیر
کرتا ہوا گزر رہا تھا کہ پاؤں پھسلا اور پہاڑ کی دراڑ میں جا گرا۔ بڑی مشکل سے
وہاں سے نکلا اور زمین پر گرنا تو یاد ہے پھر اس کے بعد کیا ہوا یہ آپ لوگ زیادہ
جانتے ہیں۔ دراصل عاقب کو اپنے ساتھیوں کی فکر تھی اور ان لڑکیوں کی فکر تھی کہ نہ
جانے ان کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ پہلے وہ بستی والوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔
تاکہ پھر ان سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا
ذکر کرے۔ عاقب کے تخت پر بیٹھتے ہی مردوں نے ڈھول بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا
اور بنی سنوری لڑکیاں بھی دف لے کر سامنے آگئیں ۔ لڑکیوں نے عاقب پر پھول نچھاور
کئے اور سب خوش ہو کر ناچ گانے لگے۔ گلبدن ان میں سب سے نمایاں تھی۔ وہ شوخ رنگوں
کے پہاڑی لباس میں رنگین تتلی کی طرح اِدھر
سے اُدھر اڑتی پھر رہی تھی۔ عاقب کی نگاہ اس پر جم کر رہ گئی۔ باقی تمام
عکس دھندلا گئے۔ اس کے سینے میں قندیل جل
اُٹھی۔ عشق کا شعلہ جان کی بستی کو دھیرے دھیرے جلانے لگا۔ عشق کے شعلوں کے درمیان
اس کی جان بقعہ نور بنی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ آج اس نے جانا کہ خضر بابا نے قندیل جلانے کو کیوں کہا
تھا۔ جب عشق کی آگ دل تک پہنچتی ہے تب ہی روح پردوں سے باہر نکلتی ہے۔ وہ روح جو
نور اعلی نور ہستی کی پھونکی ہوئی روح ہے۔ جو خود نور ہے۔ جس کے نور میں ذاتِ عشق
تک رسائی کی راہیں روشن ہو جاتی ہیں۔
گلبدن دف بجاتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس کے ہاتھ میں پھولوں کا ہار تھا وہ اس
نے عاقب کے گلے میں ڈال دیا۔ عاقب کومحسوس
ہوا جیسے اس کے عارض کے تل سے نور کی ایک ڈور نکلی اور عاقب کی روح کے چاروں طرف لپٹ
گئی نظر سے نظر ٹکرآئی اور زندگی کی لوح
پر عشق کی ہزاروں داستانیں نقش ہو گئیں۔۔ کچھ دیر بعد کھانے کا دور چلا۔ لوگوں کی
محبت اور اپنائیت نے عاقب کو بستی والوں کے قریب کر دیا۔ قدرت اللہ نے پاس بیٹھے
عاقب سے سوال کیا۔” عاقب بیٹے! آج ہم سب کے لئے بڑی خوشی کا دن ہے۔ اللہ نے تمہیں
شفا دے کر ہم سب پر اپنا کرم کیا ہے۔ آج ہم تمہارے متعلق کچھ اور بھی جاننا چاہیں
گے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے پاس بہت سی باتیں ہیں بتانے والی۔ ہم بہت سارے لوگ
ہیں۔ یہی بستی ہماری چھوٹی سی دنیا ہے۔ اگر ہم تمہاری کسی قسم کی مدد کر سکیں تو
یہ ہمارے لئے باعثِ رحمت ہوگا۔“ اللہ تعالی
کی کرم نوازیوں اور بستی والوں کی مہربانیوں نے عاقب کی آنکھیں
پُر نم کر دیں۔ اس نے شروع سے آخر تک اپنی پوری کہانی انہیں سنائی۔ کلوا کے
متعلق بھی بتایا کہ اس شیطان صفت نے کیا
کیا جال بُن رکھے ہیں۔ بس صرف ایک بات اس کی زبان پر نہ آسکی اور وہ بات تھی گلبدن
کی۔ اس کے دل نے کہا کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو نظر سے کہی جاتی ہیں۔ زبان سے
نہیں۔ گلبدن بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو زبان سے نہیں کہی جا سکتی۔ بستی کے لوگوں
نے کہا۔” عاقب بھائی! ہم لوگ تو اپنی دنیا میں ایسے مگن ہیں کہ باہر کی دنیا میں
کیا ہو رہا ہے ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے تم جس جگہ کی بات کر رہے ہو معلوم ہوتا ہے
کہ وہ یہاں سے تقریباً دو ڈھائی میل دور
ہے۔ وہاں پہاڑوں میں ایک آبشار بہتا ہے۔ جس کا پانی دریا میں شامل ہو جاتا ہے۔“
عاقب نے کہا۔” تم ٹھیک کہتے ہو۔ جیپ سے
ابھی ہم مشکل سے ایک ڈیڑھ میل ہی چلے ہوں
گے کہ جیپ پہاڑی سے ٹکرائی تھی اور میں
اچھل کر پہاڑ کی دراڑ میں جا گرا تھا۔“
ایک شخص نے کہا۔” وہ پہاڑ بہت اونچے
ہیں۔ ہماری بستی ان پہاڑوں سے بہت نیچے ہے۔ ان پہاڑوں میں بہت سی غاریں ہیں۔ کبھی
اِدھر جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔“
عاقب نے کہا۔” واقعی وہ پہاڑ بہت اونچے
ہیں اور اونچائی پر ہی راستے بنے ہوئے
ہیں۔ جو تنگ اور خطرناک ہیں۔“
قدرت اللہ نے سمجھایا۔” عاقب بیٹے ابھی
تمہارے زخم اوپر سے تو بھر گئے ہیں۔ مگر اندر سے اتنی جلدی ٹھیک
نہیں ہوئے۔ ابھی کم از کم دو تین ہفتے تم یہاں آرام کرو۔“ گلبدن نے بھی
اپنے ابا کی تائید کرتے ہوئے کہا۔” ہاں ابا ابھی انہیں مزید آرام کی ضرورت ہے۔“
عاقب نے کہا۔” مگر اتنے دن ہوگئے ہیں۔
میں تو آرام سے ہوں اور وہاں نہ جاے میرے ساتھیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ میں ان کا
سراغ لگآنا چاہتا ہوں۔“
بستی کے ایک شخص نے مشورہ دیا۔” ہم چند لوگ مل کر یہ کام کر لیں گے۔“ پھر وہ قدرت
اللہ سے مخاطب ہو کر بولا۔” سردار آپ ہم کو اس کام پر روانہ کر دیں۔ ہم جا کر ان
لوگوں کا سراغ لگا کر آتے ہیں۔ انہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“
قدرت اللہ نے کہا ۔” ٹھیک ہے۔ تم اپنے
ساتھ دس آدمیوں کو لے کر صبح سویرے یہاں سے نکل
جانا۔ تم صرف سراغ لگا کر آنا۔ کسی لڑآئی
اور جنگ میں نہ پڑنا۔ وہ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ہمیں پہلے صورتحال کا پتہ
چل جائے پھر ہم ان سے نمتنے کی ترکیب کریں گے۔“
دوسرے دن صبح کی سپیدی نمودار ہوتے ہی
سب لوگ اپنے مشن پر چل پڑے۔ بستی کی لڑکیوں نے رات کے بچے ہوئے گوشت کے ٹکڑے اور
نان ساتھ دے دیئے۔ تیسرے دن شام کے وقت یہ لوگ واپس آئے۔ کہنے لگے:
” وہاں تو کسی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ہم نے آبشار کے پیچھے
بھی دیکھا اور آس پاس جتنی غاریں تھیں سب میں ڈھونڈتے رہے۔ ان غاروں میں کسی انسان
کا سراغ نہیں ملتا۔ وہ سب بالکل ویران ہیں۔“
عاقب یہ سن کر سوچ
میں پڑ گیا یہ کیسے ہو سکتا ہے اس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا تھا آخر وہ سب
لوگ کہاں چلے گئے؟ اس نے پوچھا۔” تم لوگوں نے اس موڑ کو
ضرور دیکھا ہوگا جہاں ہماری جیپ ٹکرائی
تھی وہاں تو ضرور کچھ نہ کچھ نشانی ملی ہوگی۔“ وہ سارے لوگ کہنے لگے ۔”آپ
کی نشاندہی پر ہم نے اس موڑ کے آس پاس جگہ اچھی طرح چھان ماری مگر ہمیں شیشے کا
ایک ٹکڑا تک نہ ملا۔ بڑی عجیب بات ہے۔“
ایک آدمی کہنے لگا۔” ہم جانتے ہیں کہ کالی ماتا کی پوجا
کرنے والے ساحر اور جادوگر ہوتے ہیں۔ ضرور اس نے سب کی نظر بند کر دی ہوگی۔ یا وہ
وہاں سے پولیس کے ڈر سے بھاگ گیا ہوگا۔“
اس ساری رات عاقب کو نیند نہ آئی وہ اس قدر پریشان تھا کہ مراقبے میں اس کا دھیان نہ لگا۔ بس اسے رہ رہ کر یہی خیال
آتا تھا کہ نہ جانے کلوا نے اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا حشر کیا اور وہ لڑکیاں۔۔۔۔۔
ان کا کیا بنا؟ کیا کلوا نے انہیں مار دیا
وہ کہاں گئیں رات کے تیسرے پہر اس کی ذرا آنکھ لگی اس نے خواب میں دیکھا کہ۔” وہ
پہاڑی میں انہیں تلاش کر رہا ہے وہ پہاڑ کے اسی موڑ پر پہنچتا ہے جہاں اس کی جیپ کا
ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اسی موڑ سے وہ راستے پر
آگے بڑھتا ہے راستہ پہاڑ کے گرد گھوم کر
دوسری جانب جاتا ہے۔ دوسری جانب اسی راستے پر پہاڑ میں ایک بڑی چٹان ہے جو پہاڑ کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ دیکھنے
میں یہ پہاڑ کے ساتھ جُڑی ہوئی لگتی ہے۔
مگر جب عاقب اس چٹان کو ہاتھ لگاتا ہے تو یہ اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے اور اس کے
اندر بڑی سی غار دکھائی دیتی ہے عاقب اس غار کے دہانے پر کھڑا ہوا اندر
جھانکتا ہے تو دور اندھیرے میں اسے کلوا کھڑا
دکھائی دیتا ہے کلوا اسے دیکھتے ہی
زور زور سے منتر پڑھنے لگتا ہے۔ اس کے منتر پڑھنے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب سحر
زدہ چیزیں اور ہیولے غار میں اِدھر سے
اُدھر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ عاقب ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے زور
سے کہتا ہے۔ اللہ اکبر اور اس کے ہاتھ کی انگلیوں سے نور کی لہریں نکل کر اس تمام
سحر کو جلا دیتی ہیں۔ یہ دیکھ کر کلوا ایک خونخوار بھیڑیئے کی صورت میں عاقب پر
لپکتا ہے۔ جیسے ہی وہ عاقب کی طرف آتا ہے گلبدن سامنے آجاتی ہے۔ کلوا اس سے ٹکراتا
ہے گلبدن کا جسم پہاڑ کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے کلوا کے ٹکراتے ہی کلوا مٹی کے گھڑے
کی طرح ٹکڑے ٹکرے ہو کر زمین پر گر پڑتا ہے۔“ پھر عاقب کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے اُٹھ کر وضو کیا۔ نماز پڑھی اور دریا کے کنارے نکل
آیا وہ دریا کے کنارے لہروں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا کہ گلبدن کی کھنکھناتی
آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے نسیم سحر کا
ایک لطیف جھونکا لہرا رہا ہے۔ گلبدن کے لبوں کی کلی کھلی۔” عاقب آپ کیا سوچ رہے
ہیں؟“
”کچھ نہیں“۔ عاقب نے چونک کر کہا۔
گلبدن نے اسے گہری نظروں سے دیکھ کر کہا۔” مجھے پتہ ہے آپ اپنے ساتھیوں کے لئے پریشان ہیں۔ آپ کو
بتاؤں کل رات میں نے خواب دیکھا کہ ہم دونوں پہاڑ کی ایک غار میں موجود ہیں ایک
بھیانک شکل والا آدمی ہم پر اپنے جادو
ٹونے کرتا ہے اور اپنے سحر کے ہتھکنڈوں سے ہمیں ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مگر
ہم دونوں کی قوت اس کے تمام سحر کو جلا دیتی ہے اور وہ مارا جاتا ہے۔“
عاقب بولا ۔” میں نے بھی اسی قسم کا خواب دیکھا ہے۔“
گلبدن جلدی سے بولی۔” عاقب اب کے میں بھی آپ کے ساتھ چلوں
گی مگر آپ پہلے پوری طرح ٹھیک ہو جائیں۔“
عاقب بولا۔” میرے خیال میں تو میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ اس نے
کچھ اس انداز سے گلبدن کو دیکھا کہ گلبدن کے چہرے پر شفق کی لالی ابھر آئی اور پھر دونوں کے درمیان خاموشی کی زبان میں
گفتگو ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد دونوں گھر واپس آگئے۔
ناشتے پر عاقب نے قدرت اللہ سے اپنے خواب کی بات کی گلبدن
نے بھی اپنا خواب سنایا۔ تینوں اس خواب کی روشنی میں کلوا تک پہنچنے کی ترکیبیں
سوچنے لگے۔
قدرت اللہ نے کہا۔” کل صبح ہم دوبارہ کچھ لوگوں کو پہاڑ پر
بھیجتے ہیں۔ جس جگہ کی نشاندہی تمہارے
خواب میں کی گئی۔ شاید ان کا کوئی سراغ مل
جائے۔“
عاقب کہنے لگا۔” میں بھی ان کے ساتھ چلا جاؤں گا۔“
گلبدن فوراً بول پڑی۔” میں بھی ساتھ چلوں گی۔“
قدرت اللہ نے دونوں کی لگن کو دیکھ کر کہا۔” بچو! اللہ
تعالیٰ تمہارے نیک جذبے کو اور بڑھائے۔ میں تمہیں نیک کاموں سے نہیں روکتا۔ مگر
پہلے ان لوگوں کو کوئی خبر لانے دو ۔ پھر دیکھتے ہیں۔“
عاقب نے قدرت اللہ کے سامنے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگا کہ جلد ہی اس کے ساتھیوں اور ان مظلوم لڑکیوں کا کچھ
پتہ چل جائے۔ دوسرے دن پھر کچھ لوگ پہاڑ پر ان
لوگوں کی تلاش میں روانہ ہوئے اور دوسرے دن شام کو واپس آکر بتایا کہ خواب
میں تم نے جس چٹان کے پیچھے غار دیکھا تھا وہ چٹان تو پہاڑ سے بالکل جڑی ہوئی ہے
گویا پہاڑ کا ایک حصہ اس کے ہلنے یا اپنی جگہ سے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے نہ ہی
آس پاس کوئی ایسی چٹان کا سراغ ہمیں ملا
جس کے پیچھے غار نظر آتا۔ عاقب کو اس مرتبہ ناکامی پر بڑی مایوسی ہوئی مگر اس کے
ساتھ ہی اس کے ذہن کے پردے پر بار بار
خواب کے تمثلات اُبھرنے لگے۔ وہ سوچنے لگا ہو سکتا ہے کہ خواب میں جس غار کو دیکھا
ہے وہ ان پہاڑوں کی بجائے کوئی اور پہاڑی سلسلہ ہو اتنے گلبدن کی آواز نے اسے چونکا
دیا وہ کہہ رہی تھی۔
” ابا یہ بھی تو
ممکن ہے کہ عاقب نے خواب میں جس غار کو دیکھا ہے وہ ان پہاڑوں کی بجائے
کوئی اور پہاڑی سلسلہ ہو۔“ گلبدن کی آواز کی لہریں اس کے دل کو چھونے لگیں۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے ایک ہی خیال کی
روشنی دونوں کے دماغوں سے بیک وقت گزری ہے۔
قدرت اللہ کہنے لگے۔” بیٹا! یہ وادی تو چاروں طرف سے پہاڑوں
میں گھری ہوئی ہے تم ٹھیک کہتی ہو۔ ضرور اس نے اور بھی ٹھکانے بنائے ہوں گے۔“
گلبدن معصوم انداز میں بولی۔” ابا میں اللہ میاں سے کہوں گی
کہ ہمیں وہ ٹھکانہ صحیح صحیح دکھا دیں۔“
عاقب پاس ہی کھڑا تھا اس نے گلبدن کے کان میں دھیرے سے
کہا۔” وہ تمہیں ضرور دکھا دیں گے ان شاء اللہ۔“
رات ہو گئی۔ چاند کی چڑھتی تاریخوں میں چاندنی اپنی آب و
تاب پر تھی۔ ساری وادی چان کی روشنی میں سحر انگیز ہو رہی تھی۔ عاقب کمرے سے باہر
نکل آیا اور باہر صحن میں رحمٰن بابا کے بتائے ہوئے اسباق پڑھنے لگا۔ اسے جاء نماز
پر بیٹھے دیکھ کر گلبدن بھی کمرے سے باہر نکل آئی
اور عاقب سے پوچھا۔” کیا پڑھ رہے ہو؟“
عاقب نے بتایا کہ وہ اپنے مرشد کے بتائے ہوئے اسباق و تسبیح
پڑھ رہا ہے ۔ پھر اس کے بعد مراقبہ کرے گا۔“
گلبدن نے کہا۔” مجھے بھی سکھا ؤ۔ ہم دونوں یہ تسبیح و ورد
کرنے کے بعد مراقبے میں ساتھیوں اور لڑکیوں کی سلامتی کے لئے دعا کر کرتے ہیں کہ
وہ جلدی سے مل جائیں۔“
دونوں نماز واوارو کے بعد مراقبے میں بیٹھ گئے۔ مراقبہ میں
بیٹھتے ہی عاقب نے دیکھا کہ آسمان سے نور کی ایک تیز شعاع نکل کر عاقب کے سر میں
داخل ہو رہی ہے اور عاقب کے دل سے نکل کر شعاع گلبدن کے دل میں داخل ہو رہی ہے اور
ناف کے
مقام سے نکل کر پھر دوبارہ یہ شعاع عاقب کے سر میں جہاں سے
نکلی تھی اسی مقام پر جذب ہو رہی ہے۔ سارا وقت مراقبہ میں روشنیوں کا بہاؤ اسی طرح
دونوں کے درمیان چلتا رہا اور عاقب کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا رواں رواں روشن ہو
چکا ہے۔ روشنی کے ہر سیل میں گلبدن کی شبیہ ہے۔ اس کا وجود ہزار ہا عشق کی قندیلوں
سے جگمگانے لگا۔ روشنی کی ہر شعاع عشق کی ڈور بن کر گلبدن کے نازک اندام بدن سے
لپٹنے لگی۔ عاقب کو یوں لگا جیسے وہ کسی آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ اس
کے وجود کا ذرّہ ذرّہ نور کی ایک قوت ہے۔یہ قوت اپنے وجودسے باہر نکلنے کو بے قرار
ہے۔ اسے اپنے وجود کے نقطے کو اکٹھا رکھنا مشکل ہو گیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کائنات کا نقطہ وحدانی ہے۔ جس کے
اندر کن کا عمل نہایت تیزی سے ہو رہا ہے۔کن کی فورس نقطے کی روشنیوں کو اپنے وجود
سے پھیلنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس کے دل سے صدا بلند ہوئی۔ خضڑ بابا مجھے
سنبھالنا۔ اسی وقت خضر بابا سامنے آگئے۔ انہوں نے اپنے دونوں بازوؤں میں عاقب کو
سمیٹ لیا۔ ہزاروں قندلیوں کی روشنیاں سمٹ کر پھر ایک وجود میں سما گئیں۔
مراقبہ ختم ہوا تو گلبدن خوشی کے جوشیلے انداز میں کہنے
لگی۔” عاقب مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے اندر بہت ساری انرجی منتقل ہو گئی
ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کے ساتھیوں کا کہیں نہ کہیں ضرور ٹھکانہ مل ہی جائے
گا۔“
دوسرے دن قدرت اللہ خود ہی کہنے لگا۔” عاقب بیٹے! میرے خیال
میں نیک کام میں ہمت نہیں ہارنی چاہیئے۔ کل ایک بار پھر نئے پہاڑی سلسلے کی طرف
کچھ لوگوں کو ان کی کھوج میں بھجواتے ہیں۔ شاید کوئی سراغ مل جائے۔“
عاقب نے کہا۔” میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ کل میں یہاں سے
رخصت ہو کر خود بھی ان کی تلاش میں جاؤں۔“
گلبدن بھی فوراً بول اُٹھی۔” ابا کل میں بھی ان لوگوں کے
ساتھ جاؤں گی۔ مجھے مت روکنا۔ بس میں نے اب پکا ارادہ کر لیا ہے۔“
قدرت اللہ نے فکر مندانہ نگاہ بیٹی پر ڈالی۔ مگر اس کے چہرے
پر یقین کا نور دیکھ کر ان کی فکر اطمینان میں بدل گئی۔ وہ مسکرا کے بولے۔” اللہ
تمہارے ارادے میں کامیابی عطا فرمائے بیٹی۔“
دوسرے دن صبح صبح ہی ناشتے کے بعد عاقب اور گلبدن سات افراد
کے ساتھ بستی سے تقریباً بارہ میل دور ایک دوسرے پہاڑی سلسلے کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ لوگ ایک بڑی جیپ میں سوار تھے۔ خیال تھا کہ جہاں تک جیپ جا سکتی ہے وہاں تک
جائیں گے پھر اس کے بعد پیدل چل کر کھوج لگائیں گے۔ جلد ہی یہ لوگ پہاڑ کے دامن
میں پہنچ گئے۔ پہاڑ پر اونچائی میں کچھ
غار دکھائی دیئے۔ مگر ان تک جانے کے راستے اتنے تنگ تھے کہ
صرف پیدل ہی ان پر جایا جا سکتا تھا۔ جیپ کو دامن میں چھوڑ کر سب لوگ پہاڑ پر
مختلف سمتوں میں دو دو کی ٹولیوں میں پھیل گئے۔ عاقب اور گلبدن کے ساتھ بستی کا ایک آدمی تھا۔ یہ لوگ تقریباً
تین گھنٹے تک پہاڑی رستوں پر گھومتے رہے۔ ابھی یہ ایک نہایت تنگ راستے پر چل ہی رہے تھے کہ بے ساختہ گلبدن نے عاقب کو بازو
سے ہلا کر اسے ایک طرف دیکھنے کا اشارہ کیا۔ راستے کے اگلے موڑ سے کچھ فاصلے پر
پہاڑ کے ساتھ ایک بڑی سی چٹان کے پتھر کو تراش کر اس طرح ٹکایا ہوا تھا کہ دیکھنے
میں لگتا تھا کہ یہ بھی پہاڑ کا ایک حصہ ہے۔ مگر غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ
چٹان کو تراش کے بہت پتلا کی گیا ہے تاکہ اس سے دروازے کا کام لیا جا سکے۔ یہ پتھر
تھوڑا سا کھسکا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے پہاڑ کی کھوہ دکھائی
دے رہی تھی۔ عاقب کے ذہن کے پردے پر خواب میں دیکھی ہوئی تصویر آگئی۔ اس نے
بے اختیاری میں گلبدن کے کاندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا اور
سرگوشی میں کہا۔” گلبدن یقیناً یہ وہی جگہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھی تھی۔ مگر
اب ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ تم میرے ساتھ ہی رہنا۔“
گلبدن نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے زور سے سر ہلا دیا۔ تینوں دبے پاؤں غار کی جانب
بڑھنے لگے۔ عاقب نے پہاڑ پر ہر طرف نظر دوڑآئی
کہ ان کے دوسرے ساتھیوں کو بھی بتا دیں۔ مگر کوئی دکھائی
نہ دیا۔ اپنی دانست میں بڑی احیتاط سے بڑھتے ہوئے یہ لوگ غار کے بالکل پاس
پہنچ گئے۔ عاقب کو محسوس ہوا جیسے کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے اِدھر اُدھر
دیکھا۔ گلبدن عاقب کو فضا میں ادھر ادھر
دیکھتے ہوئے بولی۔” مجھے بھی لگ رہا ہے کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے۔“
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی
تھی کہ ایک دم سے پتھر کے سرکنے کی اواز آئی۔ گلبدن ڈر کر عاقب کے پیچھے
چھپ گئی۔ غار سے کلوا باہر نکلا اور طنزیہ لہجے میں بولا۔” آئیے آئیے مہاراج۔ آپ
کی کیا سیوا کریں۔“
عاقب نے عزم کے ساتھ کہا۔” کلوا میں تجھ سے لڑنے نہیں آیا۔
میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تُو ان لڑکیوں اور میرے آدمیوں کو میرے حوالے کر دے۔“
کلوا شرارت کے ساتھ زور سے ہنسا۔” آپ تو ایسے خفا ہو ئے جا
رہے ہیں ۔ آیئے اندر آیئے کچھ ہمیں سیوا
کا تو موقع دیجئے۔“
اتنے میں غار سے چار پانچ آدمی اور باہر نکل آئے۔ کلوا نے
انہیں حکم دیتے ہوئے کہا۔” ساتھیو! مہاراج کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ اندر لے چلو۔“
موقع کی مصلحت دیکھ کر عاقب نے گلبدن کا ہاتھ پکڑا اور غار
کے اندر داخل ہو گیا۔ غار میں داخل ہوتے وقت اس نے دل ہی دل میں رحمٰن بابا کو مدد
کے لئے پکارا۔ اس وقت اسے اپنے سے زیادہ
گلبدن کا خیال تھا۔ غار میں داخل ہوتے ہی اسے معلوم ہو گیا کہ یہ غار اندر سے بہت
ہی بڑا ہے۔ بلکہ اس کے اندر مزید چیمبر
دکھائی دیئے۔ کلوا کہنے لگا۔
” آیئے ہم پہلے آپ
کو آپ کے ٹھکانے کی سیر کرائیں۔ عاقب کو کلوا کی صورت میں شیطان کی جھلک دکھائی
دی۔ اس نے تصور میں ہی گلبدن، بستی کے ساتھی پر اور خود اپنے آپ پر حصار کر
دیا تاکہ شیطانی قوتوں سے بچے رہیں۔ گلبدن نے بھی دل ہی دل میں اپنے رب کو پکار کر
شیطان سے پناہ میں رکھنے کی مدد چاہی۔ دو تین چیمبر سے گزرنے کے بعد ایک نوجوان
لڑکی نے آکر گلبدن کا بازو پکڑ لیا اور بولی۔
”تم میرے ساتھ آؤ۔“
گلبدن نے عاقب کا بازو مضبوطی کے ساتھ پکڑ کر بولی۔” میں تمہارے ساتھ نہیں
جاؤں گی۔“
اس لڑکی نے بدتمیزی
سے کہا۔” اررررے۔ رے۔رے کاہے کو اپنی سندرتا پہ ظلم کرتی ہو۔ آؤ میرے ساتھ آؤ۔“ یہ
کہہ کر اس نے گلبدن کا ہاتھ عاقب کے بازو سے چھڑا دیا۔
عاقب بولا۔” تم ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ اللہ
اپنے بندوں کی حفاظت کرنے والا ہے۔“
وہ لڑکی زور سے ہنسی۔ اس کی ہنسی میں طنز تھا کہنے لگی۔” فی
الحال تو تم لوگ ہمارے رحم و کرم پر ہو۔“ یہ کہہ کر وہ گلبدن کا ہاتھ پکڑ کر غار
کے دوسرے چیمبر میں لے گئی۔ وہاں لوہے کی سلاخوں سے جیل کی طرح پورے چیمبر کو بند
کر کے اس جیل میں لڑکیوں کو رکھا ہوا تھا۔ گلبدن کو بھی اسی جیل خانے میں ڈال دیا
گیا۔ اِدھر عاقب کو دوسرے چیمبر میں لے گئے۔ جو مردوں کی جیل تھی۔ اس جیل میں عاقب
کے وہ تمام ساتھی موجود تھے۔ جو ڈیرہ دون سے اس کے ساتھ آئے تھے۔ انہیں زندہ دیکھ
کر عاقب کو خوشی و اطمینان ہوا۔ وہ لوگ بھی عاقب کو زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
ایک ساتھی کہنے لگا۔
” ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ شاید اب اس دنیا میں نہیں ہیں
کیونکہ ہمیں کلوا سے یہی خبر ملی تھی۔“
عاقب نے کہا۔” جسے اللہ رکھے۔ اُسے کون چکھے۔ زندگی اور موت تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔“
ان لوگوں نے بتایا ۔” کلوا جادو گر ہے اور اپنے جادو سے اس
نے کئی چیزوں کا پتہ لگایا ہے۔ ہم نے اس کو اپنے ساتھیوں سے باتیں کرتے سنا ہے کہ
عنقریب ہی اس غار میں ایک ایسا آدمیآنے والا ہے۔ جس کی پیدائش ایک مخصوص گھڑی میں
ہوئی ہے۔ اس گھڑی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس گھڑی میں آسمان کے سات بڑے ستاروں کا ملن ہوا تھا اور اس گھڑی تمام
دیوتاوں کی شکتی ہے۔ کلوا کا سحر اسے بتاتا ہے کہ اگر اس شخص سے اولاد ہو تو یہ
اولاد بھی اس کے اوصاف کی ہوگی۔ کلوا کالی ماتا کا پجاری ہے۔ اس نے سرولا کو اس کے
لئے تیار کیا ہے۔ سرولا وہی لڑکی ہے جو عورتوں کی نگرانی کرتی ہے۔“
عاقب جان گیا کہ یہ اسی لڑکی کا تذکرہ ہے۔ جو گلبدن کو لے
کر گئی ہے۔
” مگر ایک بات اور ہم نے ان لوگوں کی سرگوشیوں میں سنی ہے
کہ چاند کی چودہویں تاریخ کو رات کے بارہ بجے ایک کنواری لڑکی کی قربانی کر کے
کالی دیوی کو اس کے خون سے نہلایا جائے گا تاکہ کالی دیوی کا آشیرواد اس عمل میں
شامل ہو جائے اور پھر اسی را ت کی مخصوص گھڑی میں اس لڑکے کا اور سرولا کا ملن
کرایا جائے گا۔“
وہ ساتھی کہنے لگا۔” عاقب بھائی۔ یہ گھڑی اور یہ کام ان کے
لئے ایک مشن کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ لوگ مستقل اس کے منصوبے کرتے رہتے ہیں۔ ان کا
خیال ہے کہ وہ بچہ کالی دیوی کا دنیا میں
جنم ہوگا۔ جس کے قبضے میں وہ بچہ ہوگا اس پر کالی دیوی اور تمام دیوتا مہربان ہوں
گے اور وہ دنیا پر حکمرانی کرے گا۔“
اس دن سورج ڈھلنے کے بعد گلبدن اور عاقب کو جیل کے کمروں سے نکال کر کلوا کے سامنے لایا گیا۔
ان دونوں کے آس پاس چھ عدد خوب تگڑے جوان تھے۔ جو ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ کلوا
زمین پر بچھی ہوئی سیاہ ریچھ کی کھال پر بیٹھا تھا۔ جس کے ساتھ ریچھ کا منہ بھی
لگا ہوا تھا۔ دوسری جانب تین سیاہ ناگ پھن پھیلائے کھڑے تھے۔ کلوا کے گلے میں
مختلف جانوروں کے دانتوں کی مالا تھی۔ اس کے سامنے ایک کرسٹل بال رکھا تھا۔ کلوا
کے برابر میں سرولا نہایت مختصر کپڑے پہنے بیٹھی تھی۔ عاقب نے گلبدن کی جانب دیکھا
اور اسے ذہنی طور پر پیغام دیا کہ ڈرنا
نہیں یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ گلبدن عاقب کا اشارہ سمجھ گئی اور دل ہی دل میں
اپنے رب کے نام کا ورد کرنے لگی۔ عاقب نے رحمٰن بابا کو پکارا وہ جانتا تھا کہ
مرشد کی توجہ سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں۔
کلوا نے سامنے جلتے ہوئے عوددان میں ایک چٹکی ڈالی۔ اس کے ڈالتے ہی آگ
کا ایک شعلہ بلند ہوا اور اس شعلے میں
کالی دیوی کا چہرہ دکھائی دیا۔ جس کی سُرخ زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔ ایک
منٹ کے بعد یہ شعلہ خود بخود بجھ گیا۔ اتنی دیر
کلوا زورزور سے منتر پڑھتا رہا۔
پھر وہ عاقب اور گلبدن کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے اپنے کمال کی داد
وصول کرنا چاہتا ہے۔ عاقب اور گلبدن اپنے
چہرے کے تمام تاثرات چھپائے ہوئے بالکل سپاٹ انداز میں بیٹھے رہے۔ جیسے کچھ دیکھا
ہی نہیں۔ اب کے سے اپنے جادو کی دھاک بٹھانے کے لئے کلوا نے ان تین ناگوں کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے منتر پڑھ کر پھونکا۔ تینوں ناگ زمین سے اُٹھ کر ہوا میں معلق ہو
گئے اور آہستہ آہستہ عاقب اور گلبدن کی طرف بڑھنے لگے۔ عاقب نے تینوں سانپوں کی
طرف ٹکٹکی باندھ دی اور تینوں سانپ اسی وقت زمین پر گرے اور تڑپ کر مر گئے۔ عاقب
نے کلوا کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر جلال کے بجائے خوشی کے تاثرات تھے۔ اس نے
اس کے ذہن میں جھانکا۔ تو اسے کلوا کے خیال سے
آگاہی ہوئی۔ کلوا جانتا تھا کہ ان تین ناگوں کو اپنی نگاہ کی قوت سے مارنے
والا شخص وہ ہوگا جس کی پیدائش اس مخصوص گھڑی میں ہوئی ہے۔