Topics
بڑی سی آنبوسی
مسہری پر سفید چادر اوڑھے وہ اپنی زندگی کی سانسیں گن رہا تھا۔ اتھلی تھلی سانسوں
کے ساتھ اس نے بند آنکھوں کو کھولا۔ اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں پر مسکراتی نگاہ
ڈالی اور پھر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔
آنکھیں بند کرتے ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے گزری ہوئی زندگی فلم کی ایک ریل
ہے اور یہ ریل نہایت تیزی سے ریوائنڈ ہو رہی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ریوائنڈ
ہونے والی فلم کے فلیش آتے جا رہے ہیں۔
دوسرے ہی لمحے ایک فلیش لائٹ اس کے سامنے ٹھہر گئی۔ اس کی نظر اس لائٹ میں دیکھنے
لگی۔ اس نے اپنی پیدائش کے وقت کا مشاہدہ
کیا۔ تین نرسیں ولادت کے اس مرحلے میں ماں کے ساتھ ہیں مگر اس کے ساتھ ہی داہنی
جانب کمرے کے کونے میں ایک شخص سفید لمبے
سفید کوٹ میں ملبوس کھڑا ہے جو ماں کے بیڈ کے سامنے کچھ فاصلے پر ہے۔ اس
کے نورانی چہرے اور حلیے سے اعزاز جھلک رہا ہے۔ اس کی پیدائش کے بعد اس شخص
نے اپنا
ہاتھ بلند کیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا آئینہ تھا۔ اس آ ئینے کا رخ اس
نے ماں کے چہرے پر کر دیا۔ آئینے سے ایک روشنی بجلی کی طرح چمک کر ماں کے چہرے پر
پڑی۔ ماں کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ یہ روشنی فلیش کی سی تیزی
سے ماں کی آنکھوں میں سما گئی۔ ماں کے لب کھلے اور گہری سانس کے ساتھ اس کی دھیمی
سے آواز سنائی دی۔” ان شا ء اللہ ایسا ہی
ہوگا“ دنیا میں آتے ہی اسے یوں محسوس ہوا
جیسے وہ ہوا کے جھونکے کی لپیٹ میں آگیا۔ نرس نے اسے سفید چادر میں لپیٹ کر ماں کے سینے پر رکھ دیا۔ ماں کی آنکھوں
سے بہتے پانی کا مطلب وہ نہ سمجھ سکا۔ ماں نے مسکرا کے پیار سے اسے سہلایا۔ میری
جان، میرا بیٹا۔۔۔۔
ماں اسے عاقب کے نام سے بلاتی۔ وہ اپنی ماں کی چھاتی سے لگا ہوتا مگر ماں باپ کی
آواز اس کی سماعت سے ٹکراتی رہتی۔ وہ اکثر باتیں کرتے۔ زمانہ بڑاخراب ہے، قیامت آنے والی ہے، آگے آگے نہ
جانے کیا ہونے والا ہے، اللہ ہمارے بچے کی
حفاظت کرے۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ وہ دونوں اُس کی اس طرح حفاظت
کرتے جیسے ان کا سارا خزانہ وہی ہے جسے کھو کر وہ بالکل کنگال ہو جائیں گے۔ ایک دن
جب اس کی عمر تقریباً چھ سال کی تھی وہ
اپنی ماں کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھ رہا
تھا۔ اس وقت جنگ کی خبریں دکھائی جا رہی تھیں۔ پڑوسی ملک میں جنگ ہو رہی تھی۔
دشمن بموں اور راکٹوں سے مخالف کی تباہی کے درپے تھا۔ بچے بڑے سب اذیتوں اور
تکلیفوں سے گزر رہے تھے۔
عاقب بولا ۔” ماں
یہ کیوں لوگوں کو مار رہے ہیں اور ان کے گھر تباہ کر رہے ہیں؟ ماں ٹھنڈی سانس بھر
کر بولی۔
”بیٹے ! انسان جب انسانیت کی بجائے درندگی کا مظاہرہ کرتا
ہے تو وہ تعمیر کی بجائے تخریب میں لگ جاتا ہے۔“
وہ بولا ” ماں !
مگر تم تو کہتی ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ سب سے زیادہ قوت والا ہے پھر اللہ اس تباہی کو کیوں نہیں روکتا؟“
ماں بولی۔” بیٹے! یہ ٹی –وی جو تم دیکھ رہے ہو کس نے
بنایا؟ وہ بولا ۔” انجینئر نے۔“
ماں بولی ۔ ” اسے
استعمال کون کر رہا ہے؟
عاقب نے کہا۔” میں اور تم اور پاپا۔“ ماں بولی۔” انجینئر نے
ٹی-وی بنا کر ہمیں دے دیا۔ اب ہم اپنی
مرضی سے اسے استعمال کر تے ہیں۔ انجینئر نے ہمیں اس کے استعمال کا طریقہ
بھی بتا دیا ہے کہ فلاں بٹن دباؤ تو پروگرام اسکرین پر آئے گا۔ فلاں بٹن دباؤ گے
تو آواز کم ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ مگر انجینئر خود آ کر بٹن نہیں دباتا۔ یہ بٹن ہم کو
دبانے پڑتے ہیں۔ اللہ نے بھی دنیا بنا کر انسان کو اس میں بسا دیا اور انسان کو اس
میں رہنے کے اصول سمجھا دیئے ۔ اب اس میں بسنے والوں پر ہے کہ وہ اسے آباد رکھیں
یا تباہ کر دیں۔
وہ بولا۔” مگر ماں تم نے تو کہا تھا کہ قیامت آنے والی ہے
اور دنیا تباہ ہو جائے گی۔ “ ماں بولی۔ ” بیٹے! اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوریوں سے
خوب واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دور ایسا بھی آئےگا۔ جب دنیا کے لوگوں کی طرزِ
فکر تعمیری کی بجائے تخریبی ہو جائے گی اور وہ اس پلانٹ کو تباہ کرنے پر تل جائیں
گے۔ اللہ نے اسی تباہی کو قیامت کہا ہے۔آج کل کا
زمانہ تباہی و بربادی کا زمانہ ہے
بیٹے۔ “ ماں نے گہری سانس لی۔ اس کے چہرے سے دکھ جھلک رہا تھا۔ پھر وہ
سنبھل کر بیٹھ گئی اور عاقب کی آنکھوں کی گہرائی
میں دیکھتے ہوئے بولی۔”آج کا بچہ
اپنے باپ کے بچپن سے سو سال آگے ہے۔ تم چھ سال کے قالب میں سو برس کا دماغ
رکھتے ہو۔ دیکھو بیٹے!آج میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتی ہوں۔ اسے اپنے
دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کر لینا۔ جب تم پیدا ہوئے اس وقت ایک نور میں نے
دیکھا تھا۔ اس نور سے آواز آئی ۔ یہ بچہ
ہماری امانت ہے ہم اس سے کام لینا چاہتے ہیں۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔ میں جان گئی کہ
یہ ندائے غیبی ہے۔ میں نے اسی وقت اقرار کیا ” ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔“ بیٹے یہ
توآنے والا زمانہ ہی بتائے گا کہ قدرت تم سے کیا کام لینا چاہتی ہے ۔ مگر یہ بات
ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کا کام پورا ہو کر
ہی رہتا ہے۔ اس کے راستے میں دنیا کی کوئی شئے رکاوٹ نہیں بنتی۔ اللہ کی مہربانی
ہے کہ اس نے تمہیں اپنے کام کے لئے منتخب کر لیا ہے۔ تمہارے راستے میں
بھی ان شاء اللہ کوئی شئے رکاوٹ نہیں بنے گی۔ میں تمہیں یہ راز اس لئے بتا رہی ہوں
تا کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی ادائیگی کے لئے
تیار کرلو۔ عاقب کو یوں لگا جیسے وہ بہت
بڑے خالی کمرے میں بیٹھا ہے۔ ماں کی آواز کمرے میں گونج رہی ہے اور گونجتی آواز کی
لہریں اس کے اندر جذب ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کی تمام تر توجہ اس آواز پر تھی۔ ماں
ذرا رکی تو وہ بولا۔
” ماں میں تمہاری اس بات کو سمجھ گیا تم فکر نہ کرو میں تین
دن سے روزانہ یہ خواب دیکھ رہا ہوں کہ دنیا میں جنگیں ہو رہی ہیں۔ ایک ملک دوسرے
پر راکٹ اور بم پھینک رہے ہیں۔ پھر میں درمیان میں آ جاتا ہوں۔ میں پورا جوان ہوں
میرا قد کافی لمبا ہے۔ میں درمیان میں کھڑا ہوں اور تمام راکٹ اور بم میرے سینے سے ٹکرا کے واپس پلٹتے
جا رہے ہیں۔“
ماں بولی۔” بیٹے! اللہ نے تمہارے ارادے کو راکٹ سے بھی
زیادہ مضبوط بنایا ہے۔ تم جو ارادہ کرو گے ان شاء اللہ اس میں ضرور کامیابی ہو گی
مگر یاد رکھو! زمانہ بہت خراب ہے۔ ہر قدم پر تمہارے راستے میں دیوار یں کھڑی کی
جائیں گی۔ تم اپنا کام نہ روکنا اور ہر کسی پر بھروسہ نہ کرنا جب
تک کہ اسے اچھی طرح پرکھ نہ لو۔ “
عاقب ماں کے پہلو سے لپٹ گیا اور آہستہ سے بولا۔” ماں مجھے
یقین ہے اللہ ہر قدم پر میری مدد فرمائے گا۔ “ ماں نے اسے پیار سے بھینچا اور
بالوں کو چومنے لگی۔
دو ہزار صدی کے بعد کا یہ دور علمی شعور کا دور تھا۔ نسل
انسانی ہر طرح کے علوم میں آگے سے
آگے ہی بڑھتی جا رہی تھی۔ علم نجوم، علم
جعفر، علم سحر، سائنسی علوم غرض یہ کہ سائنسی ٹیکنا لوجی نے بچوں کو جوان ہونے سے
پہلے ہی بوڑھا بنا دیا تھا۔ دنیا بھر کی معلومات ان کے ننھے سے دماغ میں ڈالتے
جاتے یہاں تک کہ ان کے شعور کا نقطہ پھیل کر ان کے جسموں کو پیچھے چھوڑ دیتا۔
چھوٹے چھوٹے ڈیل ڈول اور بڑی بڑی باتیں۔ شاید اسی دور کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
قیامت کے قریب کا زمانہ ایسا سخت ہوگا جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ یہ سب باتیں سوچ
کر اور دنیا کی حالت دیکھ کر عاقب کے والدین پریشان ہوتے رہتے۔ آئے دن اخباروں اور
ٹی وی پر دکھایا جاتا کہ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہونے کی وجہ سے بے سکون ہیں۔اسی بے
سکونی نے کچھ لوگوں کے اندر ایک روحانی رہنما کا تقاضہ پیدا کر دیا۔ ایک دن اسکول
سےآنے کے بعد عاقب نے ماں سے پوچھا۔
” ماںآج نوید کہہ رہا تھا کہ اس کے والد ہر روز یہ دعا کرتے
ہیں کہ اللہ میاں کسی مہدی کو بھیج دے۔ ماں یہ مہدی کون ہے؟ ماں بولی۔” بیٹے مہدی
کسی کا ذاتی نام نہیں ہے بلکہ روحانی رہنما کو مہدی کہا گیا ہے۔ مہدی کا مطلب ہے
ہدایت دینے والا۔ جو لوگوں کو نیک ہدایت دے جیسے پیغمبروں نے اللہ کا پیغام لوگوں
تک پہنچایا۔ پیغمبروں کا مشن مخلوق میں خالق کا تعارف کرانا ہے تاکہ مخلوق خالق کو
پہچان کر اس کے احکامات کی تعمیل میں دل و جان سے مصروف ہو جائے۔ بیٹے! مہدی وہ
کردار ہے جو پیغمبروں کے مشن میں پیغمبرانہ طرز فکر پر کام کرتا ہے۔ “
عاقب بولا۔” ماں پیغمبرانہ طرزِ فکر کیا ہے؟“
ماں بولی۔” اپنے
ذاتی ارادے کے بجائے ہر کام کو اللہ کا حکم سمجھ کر کرنا پیغمبرانہ طرزِ
فکر ہے۔ مخلوق کا ذاتی ارادہ اللہ کے ارادے سے فیڈ ہو رہا ہے۔ اللہ بندوں سے یہ
چاہتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف ہو جائے کہ ان کی زندگی کا دارو مدار اللہ کے نور
پر ہے۔ اللہ کو جاننے کے بعد ہر وقت اس کا دھیان رکھیں تا کہ فیڈنگ ہوتی رہے۔ اتنی
چھوٹی عمر میں بھی عاقب ماں کی ہر بات کو سمجھتا تھا۔ اگر کوئی بات اچھی طرح سمجھ
نہ آتی ۔ تب بھی ماں کی آواز کی لہریں اس
کی سماعت کی گہرائی میں بیٹھ جاتیں۔ اسے
یقین ہو جاتا کہ ایک نہ ایک دن وہ ان باتوں کوآج سے بہتر طور پر سمجھ لے گا۔
عاقب کا باپ قاسم ایک دن معمول سے پہلے گھر آگیا۔ اس نے
عاقب کی ماں زرینہ کو آواز دی۔ اس کے چہرے سے سخت پریشانی جھلک رہی تھی۔ اس نے
پوچھا۔” عاقب کہاں ہے؟“
زرینہ بولی۔” وہ تو اسکول گیا ہے۔ کیا بات ہے تم اتنے
گھبرائے ہوئے کیوں ہو اورآج جلدی کیسے آگئے؟ زرینہ ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال
کر ڈالے۔
قاسم بولا۔” زرینہ تمہیں یاد ہے جب عاقب پیدا ہونے والا تھا
تو کسی نے پیشن گوئی کی تھی کہ عنقریب ہی ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو دنیا سے
برائیوں کو ختم کر دے گا اور نسل انسانی کو تباہی سے بچائے گا۔“
زرینہ بولی۔ ” ہاں مجھے یاد ہے۔“ قاسم بولا۔”آج علمِ نجوم
اور علم جفر کے ماہرین کے بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بچہ فلاں فلاں ساعت اور فلاں
تاریخ کو پیدا ہو چکا ہے اور تم جانتی ہو یہ کون سی ساعت ہے؟ ، یہ وہی ساعت ہے جب
ہمارا عاقب اس دنیا میں آیا تھا۔ ” ماں کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
وہ خوشی سے بولی۔” قاسم یہ تو بڑے فخر کی بات ہے۔ میں نے تو
اسی وقت دیکھ لیا تھا مگر مشیتِ الہٰی نے اس بات پر پردہ ڈال دیا۔ میں نے
سوچا اگر میں نے اتنی بڑی بات منہ سے نکالی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے نفس کا
تکبر اس میں شامل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں میری پکڑ ہو جائے۔ اسی لئے میں
نے تم سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ سچ پوچھو تو قاسم جتنی مجھے اس بات سے خوشی
ہوئی ہے کہ اللہ پاک نے ہماری اولاد کو اس اہم ذمہ داری کے لئے منتخب کر لیا ہے
اتنا ہی زیادہ اس بات سے خوف بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اتنی عظیم اور
قدرت والی ہے۔ اس کی عظمت فکر اور منشائے الہٰی کے مطابق آگر خدا نخواستہ کام نہ
ہو سکا تو کیا ہوگا؟
قاسم نے خشیت ِ الہٰی سے لرزتی ہوئی بیوی کو گلے لگا لیا اور امید و یقین بھری آواز
میں بولے ۔” زرینہ ! اللہ بہت بڑا ہے اتنا
بڑا کہ ہمارے ذہن ہماری فکر اس کی عظمتوں کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اس کی عظمت، اس کی
بڑائی، اس کی سبحانیت ہی اس کی رحمت ہے وہ
اپنے بندوں پر حد ِ درجے مہربان
ہے۔ اس کی عظمت ، اس کی سبحانیت اور اس کی
قدرت کا تصور ہی ہمارے دلوں میں اس کا رعب و دبدبہ پیدا کرتا ہے اور یہی خشیت ِ
الہٰی ہے جو ہمارے دلوں کو اپنے رب کے آگے
جھکا دیتی ہے۔ تم تو جانتی ہو کہ جب اللہ کسی کو کسی کام کے لئے چن لیتا
ہے تو اس کام کے لئے اس کے اندر صلاحیت
بھی پیدا کر دیتا ہے۔ سارا کام اسی کا ہے ہمارا کام اس کے ارادے کے ساتھ تعاون
کرنا ہے۔ اس کے لئے توفیق بھی اللہ ہی کی عطا کردہ ہے۔ اللہ ہمیں اپنی رضا میں راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔“
دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ زرینہ بولی ۔” میں چائے بنا کر
لاتی ہوں۔“ وہ جلد ہی قاسم کے پاس آگئی کہنے لگی۔” تم بتاؤ! کیا تم یہی اطلاع دینے
یہاں آج جلدی آگئے تھے؟“ قاسم بولا۔” اصل بات تو یہ ہے کہ زرینہ کہ وہاں دفتر میں
' میں نے سب ہی لوگوں کو اس خبر پر گفتگو کرتے سُنا۔ کچھ لوگ تو کہتے تھے کہ اچھا
ہے دنیا میں امن ہو جائے گا مگر کافی سارے
لوگ ہنس ہنس کر یہ کہہ رہے تھے ۔ ارے دنیا میں امن چین ہو گیا تو دنیا تو بور ہو
جائے گی۔ ایسی بور جگہ میں ہم تو رہنا نہیں چاہیں گے۔ ہم تو اپنی
دنیا کی حالت بدلنے نہیں دیں گے۔ یہی تو اس کا Charm ہے۔
زرینہ! لوگوں کی باتیں سن کر میری تو جان کرب سے تلملا گئی۔ مجھ سے وہاں بیٹھا ہی
نہ گیا۔ نہ جانے لوگوں کے ذہن کیسے ہو گئے ہیں کہ انہیں اچھے بُرے کی تمیز ہی نہیں
رہی ہے۔ اپنے جسموں پر صابن کی بجائے کیچڑ ملتے جا رہے ہیں۔
انہیں یہ بھی پروا نہیں ہے کہ کیچڑ ان کے جسموں کو صاف کرنے کی بجائے گندگی میں
اور زیادہ لتھیڑ رہا ہے۔ جانے کیا زمانہ آ جا رہا ہے۔
سائنسی ٹیکنا لوجی کے اس دور میں ہر خبر ہوا کے دوش پر اڑتی
ہوئی گلوب کے اس کونے سے اس کونے میں ان کی آن میں پہنچ جاتی۔ ان دنوں دنیا کی سب
سے زیادہ گرما گرم خبر ہادی زماں کی پیدائش کی تھی۔ علمِ نجوم اور علمِ جعفر کے
ماہرین سر جوڑ کر ریسرچ میں لگ گئے۔ بلکہ وہ اس بات سے تعجب میں تھے کہ انہیں پہلے
ہی کیوں نہ اس بات کا علم ہو گیا۔ جیسے جیسے وہ کوئی نئی چیز دریافت کرتے جاتے
میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلاتے جاتے۔ یہ بات دریافت ہو چکی تھی کہ مخصوص
ساعت میں پیدا ہونے والا بچہ بہت سی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے۔ سائنسدان انسانی جین
میں کام کرنے والی روشنیوں سے واقف ہو چکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ
روشنیوں کی ان مخصوص مقداروں کو مرد کے اندر پلانٹ کر دیں
گے اور عورت کی بجائے بچے مرد کے بطن سے پیدا ہوں گے۔ سات سالہ عاقب نے جب یہ بات
سنی تو اماں سے بولا۔
” ماں یہ تو کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے بھی تو آدم سے حوا کو نکالا تھا۔ “ ماں بولی۔
” بیٹا! اللہ کا
علم انسان کے تمام پروگرام شدہ علوم کو اسکرین پر دیکھنا ہے۔ اسکرین پر کوئی فلم
اس وقت تک دیکھی ہی نہیں جا سکتی جب تک کہ پہلے سے پروگرامنگ نہ کی گئی ہو۔ بیٹا!
اللہ کا کمپیوٹر لوح محفوظ ہے۔ اس کی پروگرامنگ کی مکمل دستاویز قرآن ہے۔ ساتوں
آسمان ' تمام زمینیں اور جنت دوزخ یہ سب اسکرینز ہیں۔ ہر اسکرین پر لوح محفوظ کی
کوئی نہ کوئی فلم چل رہی ہے۔ تمام مخلوقات اس فلم کے کردار ہیں۔ جس میں سے ایک
کردار آدم ہے جس کو اللہ نے کمپیوٹر چلانے کی صلاحیت عطا کر دی ہے جیسے تم کمپیوٹر
چلاتے ہو مگر تمہاری بلی کمپیوٹر نہیں چلا سکتی۔ بیٹے ! تم جانتے ہو کہ کمپیوٹر
میں کسی ریکارڈ کو دیکھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ پروگرام کس
جگہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاکہ اس ونڈو کو کھول کر پروگرام اسکرین پر لایا جا سکے۔
قرآن اللہ تعالیٰ کے کمپیوٹر کی تمام
ونڈوز کی نشاندہی کرتا ہے اور ان ونڈوز میں ریکارڈ کئے گئے علوم کی تفصیل بھی
بتاتا ہے۔“
ماں عاقب کی آنکھوں کی گہرائی میں دیکھتے ہوئے بولی ۔” بیٹے! انسان کا دماغ
ایک ایسا کمپیوٹر ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ کے کمپیوٹر لوح محفوظ کے ساتھ ہے۔
لوح محفوظ کی پروگرامنگ انسان کے دماغ میں
منتقل ہوتی رہتی ہے اور انسان ان علوم کو شعوری طور پر دیکھ لیتا ہے۔ بیٹے! یہ بات
ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارے ذہن میں آنے والا ہر خیال اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ شدہ
علوم کی ایک کاپی ہے۔ جب تم اس بات پر یقین کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ کئے گئے پروگرام میں اپنی طرف سے کچھ بھی شامل نہیں کرو گے۔ کیونکہ
انسانی عقل اللہ کی عقل کے مقابلے میں صفر
کے برابر ہے۔ تم بڑے ہو کر یہ بات زیادہ اچھی طرح سمجھ لو گئے۔ “
عاقب بولا۔” ماں تمہاری ہر بات بڑی آسانی سے میری سمجھ میں آرہی ہے۔ آگر ہم ریکارڈ
شدہ پروگرام میں تبدیلی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس میں نقص دکھائی
دیا۔ جب ہی تو ہم نے اس نقص کو دور کر کے اپنی جانب سے اس میں پروگرام شامل کر دیا۔ مگر
اللہ تعالیٰ کے تو کسی کام میں کوئی نقص نہیں ہے۔ اس لئے ہماری کی گئی تبدیلی تو
پھر غلط ہو جائے گی۔“
ماں مسکرائی۔ اس کے چہرے پر اطمینان کا رنگ جھلکنے لگا۔ وہ
بولی۔
” عاقب میرے بچے! اللہ
پاک نے تمہیں نیک عقل عطا فرمائی
ہے۔ اللہ کا کرم و فضل ہے۔ بیٹے!
اس کے کرم و فضل کے
شکریئے میں اس کی عطا کردہ عقل سلیم کو ہمیشہ اسی طرح
استعمال کرتے رہنا۔“
ماں باپ کی
محبتوں اور دعاؤں کے سائے میں عاقب پروان چڑھتا رہا۔ وقت کا دھارا
اپنی پوری رفتار سے بہتا چلا جا رہا
تھا ۔ وہ بیسویں صدی کا ہر دن ہمگامہ خیزیوں سے لبریز تھا۔ اقتدار کی ہوس ملک گیر
صورت اختیار کر چکی تھی۔ بڑی طاقتوں نے
چھوٹی طاقتوں کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا کہ ان کی آزادی سلب ہو
کر رہ گئی تھی۔ بڑی طاقتوں کے قبضے میں چھوٹے حکمران کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔
طاغوتی حکومتیں عوام کو الہ کار بنا کر جھوٹے اقتدار کی کرسی میں ذلت و
رسوائی کی میخیں گاڑتی چلی جا رہی تھیں۔
ایسا نہیں کہ لوگوں کو علم نہیں تھا یا لوگ حالات سے بے
خبر تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ گزشتہ صدی کی نسبت اس صدی میں بسنے والا ہر بچہ
دنیا کے گلوب پر وارد ہونے والی ہر حرکت کا علم رکھتا تھا۔ سائنسی ٹیکنالوجی نے
دنیا کو بے نقاب کرنے کی تو گویا قسم اُٹھا رکھی تھی۔ رات کے اندھیرے میں ہونے
والی ہر حرکت دن کے اجالے میں ہونے لگی۔ پردے میں ہونے والی حرکات کی روح اللہ تعالیٰ کی حکمت
ہے جو اندھیرا بن کر شئے کی حرکات کو اپنی
حکمت کے پردے میں چھپا کر پروان چڑھاتی ہے۔ سائنسی ٹیکنا لوجی نے حکمت
خداوندی کی علمدار روح کو ہوس ِ نفس کی تلوار سے گھائل کر کے اس کے پرہن کو تار
تار کر دیا اور روح کے گھاؤ سے رسنے والے
لہو کی رنگینی سے لطف اندوز ہونے لگا۔ نوع انسانی نے جسے زمین پر خلیفہ بنا کر
بھیجا گیا تھا ساری زمین کو اپنی
جاگیر سمجھتے مادر گیتی کے مکھڑے
سے حسین فطرت کی کھال ادھیڑ کر اسے لہولہاں کر ڈالا اور اس لہولہان چہرے پر اپنے
ظلم و ستم کی پٹیاں چپکانے لگی جو زخموں کو بھرنے کی بجائے ناسور میں تبدیل
کرتی رہی۔ عاقب کا سارا بچپن زمانے کی
چیرہ دستیوں کی داستانیں سنتے گزر گیا۔ ہر داستان زمین کے چہرے پر گرنے
والی پھانس بن کر اس کے ننھے سے دل میں جا چبھتی اور اس کی کسک اس کی روح کی
گہرائیوں میں پہنچ جاتی۔ اسے یوں محسوس
ہوتا جیسے دھرتی ماں کے کرب کی لہریں اس کے دل سے گزر رہی ہیں۔ نو دس سال کی عمر
میں وہ اس کرب و اضطراب کو محسوس تو کرتا تھا مگر اس کو روکنا فی الحال اس کے بس
کی بات نہ تھی۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی
تھی کہ آخر زمین پر بسنے والے لوگ زمین کی دگرگوں حالت سے کس طرح اپنی آنکھیں
بند کر سکتے ہیں۔ ان دنوں اسکول میں بھی اس کا دل نہ لگتا۔ ہر بچہ اپنے آپ
کو فلمی ہیرو ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ۔ بے حیایاں، بد زمانیاں اور کمزور
اور چھوٹوں پر اپنا رعب آزمآنا تو اس قدر عام ہوچکا تھا کہ اب استادوں کی توجہ بھی اس کو روکنے کی
طرف سے ہٹ چکی تھی۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے سارے اسکول میں وہ تنہا ہے اس کا کوئی
دوست نہیں ہے۔ وہ اسکول سے آتے ہی اپنی ماں کے پاس بیٹھ جاتا اور اس وقت تک باتیں
کرتا رہتا جب تک کہ ماحول کا پریشر اس کے ذہن سے نہ ہٹ جاتا۔ ماں ہی اس کی اکلوتی
دوست تھی جو اس کے سنگ مرمر کے جسم پر پڑنے والی دھول کو روز کے روز صاف کر دیا
کرتی تھی۔ ان دنوں وہ اکثر خواب اور تصور
میں دیکھتا کہ وہ ایک سفید صاف شفاف لباس پہنے ہوئے ہے۔ اتنے میں بہت سے ہاتھ اپنے
ہاتھوں میں پچکاریاں لئے اس کی طرف نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان پچکاریوں میں گندے گندے رنگ اور تیزاب بھرا ہوا ہے۔ جوں ہی وہ پچکاریاں
عاقب کی طرف مارتے اس کی ماں اسے نہایت ہی
تیزی سے ان کی زد سے الگ کھینچ لیتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ قدرت اس کی حفاظت کر رہی
ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا زمین اپنے
بسنے والوں کے لئے تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ اسلحہ کا استعمال عام تھا جس کے
خوف سے ہر کوئی دوسرے کی زیادتی کو برداشت کرنے پر مجبور تھا، انہی دنوں دجال کی
پیشن گوئیاں بھی سننے میں آئیں۔ جلد ہی یہ موضوع بھی عام لوگوں کی گفتگو کا مرکز
بن گیا۔ عاقب ان دنوں اسکول کے آخری سال میں تھا۔ ڈنر ٹائم میں لڑکوں نے دجال کا
ذکر چھیڑ دیا بات سے بات چل نکلی۔ کوئی کہتا وہ زبردست جادو گر ہوگا سب لوگوں کو اپنے
سحر کے زور پر قابو میں رکھے گا۔ ایک کہنے لگا سنا ہے کہ عورتیں اس کی پوجا
کی حد تک گرویدہ ہوں گی۔ یہ سُن کر دوسا بڑے راز درانہ انداز میں کہنے لگا جب ہی
تو وہ مردوں کو چن چن کر مارے گا۔ ایک کہنے لگا سنا ہے وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔
ایک لڑکے نے کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوئے لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور سے کہا اس
کی طرح ۔ اس لڑکے کی ایک آنکھ کچھ سوجی ہوئی تھی۔ شاید کچھ چوٹ لگ گئی تھی۔ سوجن
کی وجہ سے آنکھ بند سی لگتی تھی۔ پھر کیا تھا سب نے اسے ہدف بنا لیا۔ ارے کہیں یہی
تو کانا دجال نہیں ہے۔ سارے لڑکوں نے اس کا ناک میں دم کر دیا ۔ عاقب نے پاس بیٹھے
ہوؤں کو روکنے کی کوشش کی مگر مذاق میں بات فتنہ بن گئی۔ سارا کمرہ میدان کا ر زار
بن گیا۔ ایک طوفانِ بدتمیزی تھا، ہوا میں کھانے کی پلیٹیں چل رہی تھیں جس کو لگتی
وہ بھی آگے کسی کو کھینچ مارتا۔ قبل اس کے
کہ معاملہ زیادہ سنگین ہو جائے عاقب کمرے سے نکل بھاگا۔ باہر نکلتے ہی اسے اندر
گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ گھر آ کے اس نے ماں کو سارا فتنہ سنایا۔
کہنے لگا۔
” ماں ایسا لگتا ہے جیسے لوگ کانا دجال کے انتظار میں ہیں۔ ماں کیا کہیں کوئی ایسا
واضح اشارہ نہیں ہے جس سے دجال کا صحیح نشان
معلوم ہو جائے کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوگا۔ خومخوا لوگ شک و شبہے میں ایک
دوسرے کے دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ “
ماں بولی۔” بیٹے ! کسی کی بات جو فتنے کی صورت اختیار کرے
اسے ہی دجال کہا گیا ہے۔ گویا دجال فتنہ باز کردار کا نام ہے جو ہر زمانے میں ہوتے
ہیں۔ “
عاقب بولا۔” ماں!آج اسکول میں ایک لڑکے نے دجال کی بات شروع
کی جو جو آخر میں فتنے کی صورت بن گئی اس کا مطلب اس لڑکے کا کردار دجال کا ہے۔”
ماں بولی۔” اگر اس فتنے میں اس لڑکے کا ہاتھ ہے تو وہ
یقیناً دجال کردار ہے۔ کبھی بات شروع کرنے والا ایک بات شروع کرتا ہے ۔ اس بات پر
بہت سے لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی موافقت میں بولتا ہے ، کوئی مخالفت میں اور پھر ایک
دوسرے کی مخالفت لڑائی جھگڑے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لڑائی جھگڑے
میں جو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور اس بات کو فتنہ بنانے میں پوری پوری
مدد کرتا ہے ایسے تمام کرداروں کو دجال کا نام دیا گیا ہے۔ بیٹے دجال وہ چنگاری ہے
جو پورے جنگل میں آگ لگادیتی ہے۔ جنگل کی آگ کا الزام چنگاری پر ہی تو آئے گا۔
عاقب بولا ماں لوگوں میں تو یہ بات مشہور ہے کہ دجال کانا ہوگا۔ اس کی ایک آنکھ
خراب ہوگی۔ ماں بولی بیٹے اس قول میں بھی حکمت چھپی ہوئی ہے تم ہی بتاؤ دو آنکھوں
سے دیکھنے والا زیادہ اچھا دیکھ سکتا ہے یا ایک آنکھ سے دیکھنے والا۔ ؟“
عاقب بولا ۔ ” دو آنکھوں
سے دیکھنے والا ایک آنکھوالے کی نسبت زیادہ صحیح دیکھ سکتا ہے۔ ”
ماں بولی۔” بیٹے! کوئی بات فتنہ اسی وقت بنتی ہے جب لوگ اس
کی گہرائی میں کام کرنے والی حکمت سے
بےخبر ہوتے ہیں۔ بات کی حکمت کو پہچاننے کے لئے بھر پور توجہ اور گہری نگاہ کی
ضرورت ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو دو
آنکھیں دی ہیں۔ ایک آنکھ کا خراب
ہونا معذوری اور جسمانی نقص ہے۔ وہ شخص جو عقل کا کمتر ہو روحانی فکر سے آشنا نہ
ہو ایسے شخص کو معذور اور کانا ہی کہا جا
سکتا ہے۔ ایسے معذور اللہ تعالیٰ کی حکمت کو کیسے جان سکتے ہیں۔ دنیاوی نفس کمزور
ہے۔ تمام معذوری اسی نفس کا خاصہ ہے۔ دنیاوی تمام حواس ناقص اور کمزور ہیں۔ دجال وہ کردار ہے جو عقلِ سلیم سے معذور
اور ناقص اور کمتر عقل کا مالک ہو۔“
عاقب بولا۔” مگر ماں! جب دجال فتنہ باز کردار کا نام ہے
اورایسے کردار ہر زمانے میں دنیا میں موجود
رہتے ہیں تو پھر دجال کو قیامت کی نشانی کیوں کہا جاتا ہے؟“
ماں بولی ۔” بیٹے! جب فتنہ اجتماعی صورت اختیار کر لے اور
دنیا والو ں کی اکثریت فتنے باز کے ساتھ ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے
اندر عقلِ سلیم کا فقدان ہے اور سب کی طرزِ فکر دجال ہی کی طرزِ فکر ہے۔ بیٹا! اب
تم ہی خود ذرا غور کرو۔ ایک تخریبی ذہن اور فتنہ باز شخص ایک گھر تباہ کر دیتا ہے
اور کبھی کبھی تو سارے خاندان میں پھوٹ اور فساد ڈلوا دیتا ہے۔ تو جب دنیا میں
بسنے والوں کی اکثریت فسادی ہوگی تب دنیا کا حال کیا ہوگا۔ قیامت وہ ساعت ہے جو
سینکڑوں اور ہزاروں سال کی تعمیر کو فنا کے ایک لمحے میں
سمیٹ لیتی ہے۔ بیٹے یاد رکھو! کہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا
ہے۔ اللہ کی ہر صفت تخلیقی اور تعمیری ہے۔ دنیا اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اللہ کا
خلیفہ انسان جب تک اللہ تعالیٰ کے تخلیقی ذہن سے کام لیتا رہتا ہے دنیا اپنے
بسنے والوں کے لئے امن و چین کا
گہوارہ بن جاتی ہے اور ہر شئے سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی جھلکیاں
دکھائی دیتی ہیں۔ مگر جب
انسان اپنے اور اللہ تعالیٰ کے دشمن شیطان سے دوستی کر
لیتا ہے تو اس کا ہر کام شیطانی طرزِ فکر پر ہوتا ہے ۔ شیطانی طرزِ فکر تباہی ، بربادی اور غارت گری ہے۔ جب
سارے ہی انسان تخریبی ذہن استعمال کریں گے
تو ساری دنیا تباہی کے گڑھے میں جا پڑے گی۔ ” عاقب بڑے وثوق و عزم کے ساتھ بولا۔” ماں میں دنیا کو تباہی کے گڑھے
میں نہیں جانے دوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ “ ماں کے چہرے سے طمانیت جھلکنے لگی۔ اس
کے لبوں پر بیٹے کے لئے دعائیہ کلمات جاری ہو گئے۔
زمانہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ زمین پر بسنے والوں کی
زندگی مشکل سے مشکل ترین بنتی چلی گئی۔ ہر قسم کے علوم اپنے
زوروں پر تھے۔ علمِ نجوم کا تو یہ
حال تھا کہ بچے اسکول جانے سے پہلے اور بڑے دفتر جانے سے پہلے ٹی وی پر اپنا
ہورو اسکوپ دیکھ کر جاتے کہ آ ج کا دن ان کے لئے کیسا ہوگا۔ آئے دن لوگوں
میں یہ ذکر رہتا کہ فلاں کو پتہ چلا کہ اس کےساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ
گھر بیٹھ گیا اور حادثہ ٹل گیا۔ فلاں
مہینے میں پیدا ہونے والے ایسی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اس لئے فلاں مہینے میں پیدا ہونے والوں کے لئے ان
سےدوستی کرنا درست نہیں ہے۔ اب گروپ بندیاں ہو گئیں اور دشمنیاں ہونے لگیں لیکن ستاروں پر اس قدر
یقین تھا کہ ان اطلاعات کو جھٹلانے کا خیال بھی دل میں لانا پسند نہ کرتے۔ ہر
ادارے میں علم نجوم کے عقیدت مند موجود تھے۔ کالج
میں عاقب کے ساتھ بھی گروپ بندی کا معاملہ ہونے لگا۔ وہ ہزار
بات سمجھاتا کہ یار ہم سب ایک کلاس میں ہیں ایسی باتیں نہیں ہونی چاہیں۔
انسان کا ارادہ چاند
ستاروں کے ارادے سے افضل ہے۔ انسان
اپنے ارادے سے چاند ستاروں کے مضر
اثرات کو روکنے پر قدرت رکھتا ہے۔
کوئی قوم جب
اپنے اندر کی آواز سننے سے اپنے
کان بند کر لیتی ہے تو بہار کی آواز بھی اس کے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ جاتی
ہے اور الفاظ و معنی کا دفتر خالی رہتا ہے۔ اس وقت زمین اسی صورت ِ حال کا سامنا
کر رہی تھی۔ حکیمانہ اقوال کی لہریں بند
ذہنوں سے سر پھوڑ کر واپس لوٹ جاتیں۔ ایسے میں ماں باپ
پر اولاد کی صحیح تربیت کی ذمہ داری اور بھی بھاری ہو جاتی ہے مگر اولاد کی
محبت اور ذمہ داری کا احساس ہر دشواری کو آسان بنا دیتا ہے۔ عاقب کے ماں باپ
خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس نفسا نفسی
ولہو و لعب کے دور میں عاقب کو مضبوطی کردار اور بالیدگی روح کا سامان کہیں
سے بھی میسر نہیں آ سکتا۔ بجز اس کے اپنے
ماں باپ کے- پس وہ اس بات کا پورا پورا
خیال رکھتے کہ اللہ کے حکم سے جس پودے کو وہ پروان چڑھا رہے ہیں اس کی نشونما میں
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی شامل رہے مگر اب
بیٹا جوان ہوتا جا رہا تھا اور ان کے قویٰ کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ فکر کا بوجھ
ناتواں کندھوں پر بھاری ہوتا جاتا تھا۔ جتنی دیر عاقب گھر سے باہر رہتا زرینہ کا
دل سایہ بن کر اس کے تعاقب میں رہتا۔ اس کے دل سے مسلسل یہی دعا نکلتی ' یا اللہ!
میرا بچہ تیری امانت ہے اس کی حفاظت تو ہی کر سکتا ہے۔“
موسمِ خزاں کی ایک ویران سے رات تھی۔ ہوا میں خنکی تھی۔
تینوں کھانا کھا کر صحن میں بیٹھ
گئے ۔ قاسم کی نظر آسمان پر پڑی۔ ارے یہ کیا۔۔اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ نے
زرینہ اور عاقب کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا۔۔ تینوں کی نظریں آسمان
پر ٹک گئیں۔ ہر طرف شہاب ثاقب مصروفِ عمل تھے۔ قاسم پریشانی کے عالم میں کہنے لگا
۔” زرینہ آج پہلی بار اتنے زیادہ شہاب ثاقب
دکھائی دیئے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ
آسمان کی سر حد پر جنگ ہو رہی ہے۔“