Topics
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کل کے لیکچر میں یہ بات سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تصوف کیا ہے اور اس بات پر مختلف مثالوں اور دلیلوں سے بتایا گیا تھا کہ تصوف ایک علم ہے۔ جس طرح دنیا میں اور بہت سارے علوم ہیں۔ اس میں انجینئرنگ ہے، میڈیسن ہے، فزکس ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان علوم کو پڑھ کر ایک حد تک آدمی شعوری طور پر بالغ ہوتا ہے اور انہی علوم کی بنیاد پر اپنی معیشت اور معاشرت کو درست کرتا ہے۔
اگر یونیورسٹی کی تعلیمات کے نتیجے میں ملازمت کا حصول ممکن نہ ہو یا آدمی یونیورسٹی سے فارغ ہو کر کاروبار کرنے کے قابل نہ ہو تو یونیورسٹی میں کوئی بندہ پڑھنے نہیں آئے گا اور جتنے لوگ پڑھنے آئیں گے ان کی تعداد اتنی کم ہو گی کہ پھر ہم یونیورسٹی کو یونیورسٹی نہیں کہیں گے۔ ہم یہاں جو دنیاوی علوم پڑھ رہے ہیں اس کے پیچھے۔۔۔۔۔۔(بات تلخ ہے، بری لگتی ہے) ہماری دنیاوی آسائشیں زیادہ ہیں اور خالصتاً علم کا حصول کم ہے۔
ہم دنیا کے علوم سیکھتے ہیں تو ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور سیکھیں۔ ان کو پڑھنے کے بعد ہمیں اچھی ملازمت ملے اور کاروبار کے مواقع فراہم ہوں۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ:
پچھلے سالوں میں کمپیوٹر نظام آیا۔ اس نظام میں سب سے بڑی کشش یہ تھی کہ لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم ہو رہے تھے تو لوگ کمپیوٹر سیکھنے میں لگ گئے۔ اس سے پہلے انجینئرنگ میں Scopeتھا تو ہر بچہ انجینئر ہی بننا چاہ رہا تھا۔ ڈاکٹر، M.B.B.Sمیں اسکوپ زیادہ نظر آیا تو لوگ ڈاکٹری سیکھنے میں لگ گئے۔
ہم دنیاوی علوم اس لئے سیکھتے ہیں کہ دنیاوی آسائش و آرام کی اہمیت زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیاوی علوم پڑھ کر ہم دنیاوی آسائش حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ تصوف پڑھنے کے بعد ہمیں کیا حاصل ہو گا؟ ہمیں کیا دنیاوی آسائش حاصل ہوگی؟ تصوف کی ڈگری اگر ہمیں مل بھی گئی تو ہم کون سا اچھا کاروبار کر لیں گے یا تصوف پڑھنے کے بعد ہمیں کہاں ملازمت مل جائے گی؟۔۔۔۔۔۔بات ٹھیک ہے ہمیں کہیں ملازمت نہیں ملے گی۔ لیکن تصوف پڑھنے کے بعد اگر ان لوگوں کا تجزیہ کیا جائے تو روحانی انسان گزر چکے ہیں یا موجود ہیں تو یہ بات بہت روشن نظر آتی ہے کہ اس علم کو سیکھنے والے لوگوں کے اندر سکون ہوتا ہے۔ اس علم کو سیکھنے والے بندوں کے اندر ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ اس علم کے ماہر جتنے بھی ہوئے ہیں ان کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کی گفتگو میں شیرینی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ ان کے سامنے جھکتے ہیں۔ ان کی خانقاہوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کی ریل پیل ہوتی ہے۔ ہزاروں انسان ان کے دسترخوان سے کھانا کھاتے ہیں۔
لوگ ترستے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی آئے اور ہم سے کوئی بات کرے۔ یورپ میں یہ بہت زیادہ ہے۔ وہاں تو باقاعدہ ملازمتیں ملتی ہیں کہ جو بے کار لوگ ہیں ان کے پاس جا کر وقت گزاری کرو ان کا دل بہلاؤ۔ لیکن جب کسی روحانی بندے کے بارے میں آپ سوچتے ہیں یا دیکھتے ہیں تو مخلوق کا اتنا رجوع ہوتا ہے کہ وہ تنگ آ جاتا ہے۔ اس کے اندر آسودگی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک کروڑ پتی آدمی کے ہاں لنگر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایک روحانی آدمی کے ہاں لنگر کا تصور یہ ہے کہ وہ روحانی آدمی سمجھا ہی نہیں جاتا جس کے ہاں لنگر نہ ہو۔ لاہور میں دو مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ جہانگیر کا مقبرہ بھی ہے اور داتا صاحب کا مزار بھی ہے۔ جہانگیر کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کے لنگر سے روزانہ ہزاروں آدمی کھانا کھاتے ہیں۔ جس کا دل چاہے لاہور جا کر دیکھ سکتا ہے۔
روحانی انسان دنیاوی اعتبار سے آسودہ حال ہوتا ہے اور اس کو قلبی سکون نصیب ہوتا ہے۔ اتنا سکون ہوتا ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے والے لوگوں کو بھی سکون ملتا ہے۔ روحانی آدمی اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں کیوں پیدا کیا ہے؟ ایک کروڑ پتی آدمی کی زندگی کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما لیا جائے۔ زیادہ پیسہ کمانے اور دولت جمع کرنے میں اسے جو مسائل پیش آتے ہیں، اس سے عام آدمی واقف ہی نہیں ہے۔ مجھے مالدار لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کی زندگی میں چین، سکون اور راحت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بظاہر نظر آتا ہے کہ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں، کوٹھیاں ہیں، ملیں ہیں، فیکٹریاں ہیں۔ لیکن یہ لوگ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں جیسے کسی درخت کو دیمک لگ جاتی ہے۔ بنگہ، کار، کاروبار، بینک بیلنس ان کے پاس ہوتے ہیں۔ رات کو ڈرتے ہیں اور دن کو بے آرام رہتے ہیں۔ گولیاں کھا کر کھانا کھاتے ہیں، گولیاں کھا کر کھانا ہضم کرتے ہیں اور گولیاں کھا کر سوتے ہیں اور بیدار ہو کر کاہلی دور کرنے کے لئے گولیاں کھاتے ہیں۔
علم روحانیت سے انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کو استعمال کر کے انسان بہترین زندگی گزارتا ہے۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں بھی اس کے تصورات واضح اور روشن ہوتے ہیں۔ یہاں خوش رہتا ہے، آخرت میں بھی خوش رہتا ہے۔ جبکہ دنیا کی زندگی میں آدمی جتنا اپنے آپ کو مصروف کر لیتا ہے، اسی مناسبت سے اس کے اندر سے خوشی کم ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو تجربہ سے آدمی سیکھتا ہے یا مایا جال میں پھنس کر اسے دیکھتا ہے۔
ہر انسان کو یہاں سے جانا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد یہاں سے جانے تک کی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو مشکل سے 80سال میں 10فیصد وقت ایسا گزرتا ہو گا جس کو وہ صحیح معنوں میں خوشی کا نام دے سکے۔ باقی ساری زندگی مسائل میں گزر جاتی ہے۔ ملازم پیشہ آدمی کتنا ہی بڑا ملازم ہو وہ اس پریشانی میں ہے کہ Bossناراض ہو گیا تو نوکری کا کیا بنے گا۔ کاروباری آدمی نفع نقصان کے چکر میں مبتلا رہتا ہے۔ حفاظت کے لئے گارڈ رکھتا ہے۔ گارڈ سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اس کی نیت خراب نہ ہو جائے۔
جس طرح ہم دنیاوی علوم سیکھنے کے بعد ملازمت اور کاروبار کے حصول میں آسانی محسوس کرتے ہیں اور اس کاروبار کو اچھی طرح کر لیتے ہیں، اسی طرح تصوف سیکھنے کے بعد انسان اس دنیا اور آخرت کی زندگی کا راز پا لیتا ہے۔ اسے اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ میں اچھی دنیا سے اس بری دنیا میں کیوں آیا؟ عالم ارواح کی زندگی اس دنیا سے اچھی ہے اور اس بری زندگی کو گزارنے کے بعد میں جس دنیا میں جاؤں گا وہاں میرے پاس آسائش و آرام کے لئے کیا سامان ہے؟
یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ دنیا میں کتنے بھی دن آدمی زندہ رہے، اس کی ایک حد ہے۔ 60سال، 70سال، 80سال۔ لیکن مرنے کے بعد کی زندگی کی کوئی حد متعین نہیں کہ آدمی وہاں 100سال رہے گا یا 200سال رہے گا۔ ہابیل قابیل کا واقعہ ہم سب کو معلوم ہے۔ کروڑوں سال ہو گئے ہیں، ایک بھائی جزا کے مزے لوٹ رہا ہے۔ ایک بھائی سزا بھگت رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے۔۔۔۔۔۔آسمانی صحائف، آسمانی کتابیں، قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا عارضی جگہ ہے۔ بہرحال یہاں سے جانا ہے۔ ہر چیز فانی ہے اور فنائیت سے گزر کر ایک ایسی دنیا میں جانا ہے جہاں ماہ و سال کا کوئی حساب ہمیں معلوم نہیں۔
روحانیت سیکھنے کے بعد انسان اچھی زندگی گزارتا ہے اس کے اندر قناعت آ جاتی ہے، توکل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بات کا یقین کامل ہو جاتا ہے کہ رازق اللہ ہے۔ جو کچھ اللہ دیتا ہے بندہ وہی خرچ کرتا ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ جب تم پیدا ہوئے غذا کے حصول کے لئے، زندگی گزارنے کے سامان کے لئے، تم نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ تم پیدا ہوئے تو پہلے سے تمہارے لیے کپڑے موجود تھے۔ پہلے سے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے ماں کے سینے کو دودھ سے بھر دیا تھا۔ ماں باپ کے دلوں میں تمہارے لئے شفقت ڈال دی تھی۔ تم بیس20سال تک بغیر محنت مزدوری کئے اچھے سے اچھا کھانا کھاتے رہے، اچھے سے اچھا لباس پہنتے رہے۔ اللہ نے ماں کے دل میں مامتا اور باپ کے دل میں شفقت ڈال دی۔
یہاں جتنے اسٹوڈنٹ ہیں انہیں معاش کی کوئی فکر نہیں ہے جو کچھ کر رہے ہیں، سب ماں باپ کر رہے ہیں۔ جب کوئی آدمی تصوف کو سیکھتا ہے اور سیڑھی بہ سیڑھی آگے بڑھتا ے تو اس کے اوپر یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ رزق دینے والا اللہ ہے اور رزق کا سارا پروگرام انسان کی پیدائش سے پہلے بن چکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا اسے بڑے ہو کر کیا کرنا ہے؟ اب سے 76سال پہلے، میرے بارے میں کس کو پتا تھا کہ میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں لیکچرDeliverکروں گا۔ اس وقت تو پاکستان بھی نہیں بنا تھا۔ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ قدرت کی طرف سے میری پیدائش سے پہلے ہی سارا پروگرام مرتب ہو چکا تھا۔ آپ نے اپنے بزرگوں سے سنا ہو گا کہ ہر چیز جو یہاں ہو رہی ہے، پہلے ہو چکی ہے، سب لوح محفوظ پر موجود ہے۔ جب لوح محفوظ پر موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا پلک جھپکنا، انگلی ہلانا بھی۔۔۔۔۔۔لوح محفوظ پر ریکارڈ ہے۔ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں، جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ ایک فلم کی طرح ہے۔
میرے دوستو!
یہ دنیا ایک اسکرین ہے اور اس اسکرین پر وہی فلم Displayہو رہی ہے جو لوح محفوظ پر پہلے سے بنی ہوئی ہے۔ اب رہ گئی یہ بات کہ انسان کا اختیار کیا ہے۔ یہ الگ ایک موضوع ہے۔
میں بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ جب ہم روحانیت پڑھتے ہیں تو ہمارے اوپر زندگی کے بارے میں، زمین کے جغرافیے کے بارے میں، آسمانوں کے بارے میں، عرش کے بارے میں، جنات کے بارے میں، فرشتوں کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے، وہ ہمارے سامنے ایک روشن کتاب ہے۔ ہم یہ بات تو جانتے ہیں کہ فرشتہ ہے اور اس بات کا ہمیں یقین بھی ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ فرشتہ کیسا ہوتا ہے؟ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ سات آسمان ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ سات آسمانوں کا کیا مطلب ہے؟ کیا سماوات کوئی سات چھتیں ہیں، سات منزلیں ہیں، سات بلڈنگیں ہیں، سات زون ہیں؟ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ لیکن جب روحانیت آپ پڑھیں گے آپ کے اوپر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے رموز کھلتے چلے جائیں گے اور یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فرشتہ کیا ہوتا ہے؟ جنات کی مخلوق کیسی ہوتی ہے؟ تقدیر کیا ہے؟ تدبیر کیا ہے؟ عقل کیا ہے؟ فہم کیا ہے؟ بصارت اور بصیرت کسے کہتے ہیں؟ تزکیۂ نفس کیا ہے اوردیدار الٰہی سے ہم کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں؟
دنیاوی علوم پڑھنے کے بعد اس کا تھوڑا سا اندازہ تو ہو جاتا ہے لیکن پوری طرح اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ پوچھیں کہ عقل کیا چیز ہے؟
میرا خیال ہے کوئی بھی آدمی عقل کی تشریح نہیں کر سکتا۔ عقل کوئی چڑیا ہے، عقل اکسیر کی پُڑیا ہے، عقل میں کوئی وزن ہے، کیا چیز ہے عقل؟ لیکن ایک روحانی آدمی عقل کی تشریح کر دیتا ہے۔ اگر اس کے اوپر اللہ کا انعام ہو اور اس نے کچھ سیکھ لیا ہو۔
بتایا جاتا ہے کہ عقل ایک اضافی حس ہے۔ اضافی حس کے کیا معنی ہیں؟ حسیات اضافی نہیں ہوتیں۔ پانچ حسوں یا پانچ حواس کو ہم کسی بھی طرح اضافی نہیں کہہ سکتے۔ شہد کی مکھی، چڑیا، چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک ہر فرد میں عقل موجود ہے اور اس عقل کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔
عقل میں کمی بیشی کو اور جسم کے بغیر عقل کی موجودگی کو ہم اضافی نہیں کہہ سکتے۔ ایک ہاتھی کے پیر کے نیچے ایک لاکھ چیونٹیاں آ جاتی ہیں لیکن جس طرح ہاتھی میں عقل ہے اس طرح ایک لاکھ چیونٹیوں میں عقل ہے۔ اگر عقل کا تعلق دماغ سے ہے تو ہر متحرک شئے میں دماغ ہے۔ بہت بڑا دماغ، چھوٹا دماغ اور بہت چھوٹا دماغ۔
تصوف پڑھا ہوا آدمی دنیا کو بہترین طریقہ پر برتتا ہے اور دنیا میں رہتے ہوئے اسے پرسکون زندگی نصیب ہو جاتی ہے۔ اگر انسان کے پاس کروڑوں روپیہ ہے اور اسے سکون نہیں ہے تو ان کروڑوں روپوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر انسان کے پاس کم سرمایہ ہے اور اس کی ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور اسے سکون ہے تو وہ کروڑ پتی انسان سے بہتر ہے۔ جب انسان کو سکون نہیں ملتا تو اس کی نیند بھی اڑ جاتی ہے۔ اس کا معدہ خراب ہو جاتا ہے، اعصابی نظام خراب ہو جاتا ہے۔ بیمار ہو جاتا ہے، نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ایک پرسکون آدمی اس آدمی سے بہت زیادہ اچھا ہے جو بے سکون ہے۔
آج کی دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ، سب سے بڑی پریشانی بنی نوع انسان کے لئے یہ ہے کہ آسائش و آرام کے وسائل کے باوجود سکون نہیں ہے۔ جس آدمی سے بات کی جائے وہ کہتا ہے مجھے سکون نہیں ہے، پریشانی ہے، نیند نہیں آتی۔ السر ہو گیا ہے، گردے فیل ہو گئے ہیں، کینسر چمٹ گیا ہے، دل کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔
رونا رویا جاتا ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان Generation Gapآ گیا ہے۔ ایک عجیب افراتفری اور پریشانی ہے۔ اچھا لباس ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کھانے کے لئے اچھی غذا ہے، اچھا گھر ہے، دوست ہیں، احباب ہیں، دنیا کی ساری نعمتیں ہمیں میسر ہیں۔ پھر بے سکون ہونے کا کیا مطلب ہے؟
بے سکون ہونے کی وجوہات روحانی مکتبہ فکر سے معلوم ہوتی ہیں کہ انسان کی زندگی میں یقین ہے تو وہ پرسکون ہے اور اگر انسان کی زندگی میں شک ہے تو وہ کتنا ہی بڑا عالم و فاضل، علامہ، کروڑ پتی، جاگیردار، Land Lordبن جائے اسے سکون نہیں ملے گا۔
یقین سے مراد یہ ہے کہ ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ صحیح کر رہا ہوں۔ اگر انسان کے اندر یقین نہیں ہو گا تو وہ غیب کی دنیا کو نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتے ہیں:
“یہ کتاب ایسی کتاب ہے جس میں شک نہیں ہے۔”
انسان کے اندر اگر شک ہو گا تو وہ قرآن سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ اللہ کی کتاب سے جب کوئی بندہ استفادہ نہیں کر سکتا تو وہ اللہ تک کیسے پہنچے گا؟ مخلوق کا خالق سے رشتہ کس طرح استوار ہو گا؟
روحانی علوم انسان کو اس پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیتے ہیں جہاں یقین ہے، خوشی ہے، راحت و آرام ہے، پیار و محبت ہے، نفرت و حسد نہیں ہے، خود غرضی نہیں ہے، چھوٹوں پر شفقت ہے، والدین کا احترام ہے، لوگوں سے والہانہ تعلق خاطر ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے اور آپ سب لوگوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن پاک کی رو سے جنت میں صرف اور صرف وہ بندہ جائے گا جو خوش رہتا ہے۔ جو بندہ اللہ پر یقین رکھتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ اگر بندہ ناخوش ہے قرآنی تعلیمات کے مطابق عمل نہیں کرتا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
“اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔”
ظاہر ہے جنت کے مستحق وہی لوگ ہیں جو اللہ کے دوست ہیں۔
*****
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "