Topics
بہاولپور یونیورسٹی میں خطاب
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
“اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹ پڑتا۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بہ زور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ “(سورہ حشر ۲۱۔۲۴)
صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد و سلم۔
بہاولپور یونیورسٹی اساتذہ کرام، عزیزان گرامی قدر، محترم بزرگوں، عزیز دوستوں اور طلبا و طالبات!
السلام علیکم!
بہاولپور شہر میرے لئے نسبی اور علمی اعتبار سے ایک ورثہ ہے۔ میرے دادا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ جامعہ عباسیہ میں 1922یا 23میں صدر مدرس تھے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ میرے والد حضرت حاجی انیس احمد انصاری کے سگے پھوپھا تھے۔ میرے ابا جی بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ پھوپھی اور پھوپھا نے ان کی پرورش کی۔ اس زمانے میں یہاں بجلی نہیں تھی، ریل گاڑی بھی نہیں چلی تھی۔ وہ بیل گاڑی میں تشریف لائے تھے۔ سہارنپور یوپی انڈیا کا ایک بڑا شہر ہے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جامعہ عباسیہ میں کافی عرصہ تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ پھر وہ واپس سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور وہیں ان کا وصال ہو گیا۔ الحمدللہ جنت البقیع میں ان کی قبر شریف موجود ہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کو حاجی امداد اللہ مکیؒ سے خصوصی فیض حاصل تھا۔ مولانا رشید گنگوہیؒ کے آپ مرید اور خلیفہ تھے۔ قطب ارشاد شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب حضرت سہارنپوریؒ کے مرید و خلیفہ تھے۔ درس و تدریس میں احادیث پڑھانا اور احادیث کی تشریح کرنا ان کا موضوع تھا۔ بذل المحجود۔ شرح ابوداؤد، دس سال پانچ ماہ دس دن میں دو ہزار صفحات پر اور پانچ جلدوں پر مشتمل تھی۔ آپ کی مشہور زمانہ کتاب کی تقریب رونمائی میں آپؒ نے علمائے مدینہ اور احباب کی ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
پاکستان بننے سے پہلے میرے والد صاحب حضرت حاجی انیس احمد انصاری بہاولپور تشریف لائے۔ 1939ء میں صادق آباد میں مقیم ہوئے۔ صادق آباد میں میرے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد ادریس انصاری صاحبؒ نے بہت ساری کتابوں کا ترجمہ کیا اور کئی کتابیں لکھیں جو مقبول عام ہوئیں۔ میری نماز، مسلمان خاوند، مسلمان بیوی، اسلام کا اصلاحی پروگرام اور اس کے علاوہ دوسری کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔ ان کتابوں کو عوام بہت ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ مولانا ادریس صاحبؒ نے کسی کتاب کے اوپر ’جملہ حقوق محفوظ‘ نہیں لکھوایا۔ چھاپنے کی عام اجازت تھی۔ جس کا دل چاہے وہ کتابیں چھاپ سکتا ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحبؒ شیخ الحدیثؒ نے بھی کسی کتاب پر جملہ حقوق محفوظ نہیں کئے۔ وہ فرماتے تھے کہ علم کے جملہ حقوق نہیں ہوتے۔ علم نوع انسانی کے لئے ورثہ ہے۔ علم جب کاغذ پر منتقل ہوتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے دماغ میں ایسے خیالات کا نزول کرتا ہے کہ وہ خیالات الفاظ کا جامہ پہن کر کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں اور نوع انسانی اس سے استفادہ کرتی ہے۔
خاندانی اعتبار سے الحمدللہ! رسول اللہﷺ کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے شجرہ سے وابستہ ہوں۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے اور میری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے بزرگوں اور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور صرف پدرم سلطان بود والی بات نہ ہو۔
ایک آدمی کہتا ہے کہ میرے ابا بادشاہ تھے۔ ٹھیک ہے بھائی! تمہارے ابا بادشاہ تھے، تم تو چپراسی بھی نہیں ہو۔ ہال میں ایسی بزرگ ہستیاں بھی موجود ہیں جن کے والدین نے حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کو دیکھا ہے۔ میرے لئے یقیناً بہت بڑا اعزاز ہے کہ ایسی ہستیاں میرا لیکچر سننے کے لئے تشریف لائیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
اس وقت کی صورت حال بڑی عجیب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اضطراب، بے چینی، پریشانی اور ابتلا میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ اغیار کا تسلط ہے۔ ہر جگہ مسلمان قوم بے عزت ہے۔ دست نگر، مفلس اور قلاش ہے۔ قرض میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہر شخص اغیار کے ہاتھوں میں رہن رکھا ہوا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم علوم میں بھی دوسروں کے محتاج بن گئے ہیں۔ اگر مغرب سے علم نہ آئے تو ہم تہی دست ہیں۔ اس وقت جتنی Technologyہے وہ سب باہر سے منتقل ہوتی ہے۔
جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر غور کرتے ہیں تو ہم ہر جگہ فاتح کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ تاریخ میں ہمارا نام ہے، ہمارا وقار ہے، ہماری عزت ہے۔ جو Positionآج امریکہ اور یورپ کی ہے کبھی مسلمانوں کی تھی۔ ہمارے علم سے دوسروں نے خوشہ چینی کی ہے۔ یورپ میں جتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، جتنے بڑے بڑے کالج ہیں، وہ ہمارے اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ کوئی بھی علم ہو، جغرافیہ کا علم ہو، طب کا علم ہو، آسمانی علوم ہوں، زمینی علوم ہوں، زمین کی پیمائش ہو، جس علم کے بارے میں بھی آپ تاریخ پڑھیں گے آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ یورپ اندھیرے میں گم تھا۔ انہوں نے عربی کتابوں کے تراجم کئے اور اپنی لائبریریوں میں ان کو جمع کیا اور اپنی یونیورسٹیوں میں ان کتابوں کو داخل نصاب کر کے انہوں نے علم حاصل کیا۔ مسلمانوں سے ایک ہزار ایک Inventionsمنسوب ہیں۔
آج کی نشست میں سوچنا یہ ہے کہ جب ہم اپنے اسلاف کے اعمال کا، اپنے اسلاف کے کارناموں کا، اپنے اسلاف کے خصائل کا، اخلاق کا، رہن سہن کا، تمدن کا، معاشرت کا تجزیہ کرتے ہیں تو کیا ہم وہ سب کرتے ہیں جو ہمارے اسلاف کرتے تھے۔ مثلاً اگر ہمارے اسلاف اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش کرتے تھے، الحمدللہ ہم بھی مشرک نہیں ہیں۔ اگر ہمارے اسلاف رسول اللہﷺ سے محبت کرتے تھے، اللہ کا بڑا انعام ہے کہ ہم بھی رسول اللہﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ اگر ہمارے اسلاف نماز پڑھتے تھے ہم بھی الحمدللہ وہی نمازیں ادا کرتے ہیں جو ہمارے اسلاف ادا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ نماز میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہو۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء کے اوقات وہی ہیں۔ پانچ وقت نمازوں میں رکعتوں کا جو تعین ہے الحمدللہ وہ بھی وہی ہے۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ہم اللہ اور رسول اللہﷺ کے نام پر خیرات کرتے ہیں۔ اللہ رسولﷺ کے نام پر جو اجتماعات ہوتے ہیں ان میں شریک ہوتے ہیں۔
بہاولپور یونیورسٹی میں آج کا پروگرام اس کا شاہد ہے۔ ماشاء اللہ! ہال بھرا ہوا ہے۔ ہم سب اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتیں سنیں گے۔
ہم اولیٰ العزم اسلاف، نیک سیرت اور ارادے کے پکے بزرگوں کی اولاد ہیں پھر کیوں ذلیل و خوار ہیں؟
یہ ایک بڑا سوال ہے۔ خدانخواستہ اگر روزے میں تبدیلی ہو جاتی، استغفراللہ۔ کوئی نماز کے بارے میں کہتا کہ نماز غیر ضروری ہے۔ کوئی جھوٹ کو سچ کی جگہ استعمال کرتا تو بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ رہنما اصول نہیں رہے۔ اس لئے ہم پریشان ہیں۔ سب کا ایمان ہے، سب کا یقین ہے کہ نماز بندہ کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتا۔ روزہ فرض ہے۔ استطاعت ہو تو حج فرض ہے۔ پہلے حج میں چند سو بندے جاتے تھے۔ اب حج میں پچیس لاکھ بندے ہوتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بندے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کیوں جاتے ہیں؟ اس لئے کہ دل میں جذبہ ہے، دل میں عشق ہے۔ آرزو اور تمنا ہے کہ ہماری عاقبت سنور جائے، ہمارے گناہ دھل جائیں۔ ہماری غلطیوں کا کفارہ ہو جائے۔ لیکن پچیس لاکھ کے اجتماع کے باوجود ہماری کوئی آواز نہیں ہے ہماری کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اغیار نے طے کر لیا ہے کہ ہمارے وجود کو برقرار نہیں رہنے دیں گے۔ مسلمانوں کی دھاک کو ختم کر دیا جائے گا۔
آپ نے کبھی سوچا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
ہمارے اسلاف نماز پڑھتے تھے۔ ان کو خشوع و خضوع حاصل ہوتا تھا، انہیں اللہ سے قربت حاصل تھی۔ ہماری صورت یہ ہے کہ ہم عشاء کی نماز میں سترہ رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ سترہ رکعت کی نماز میں ہم چونتیس سجدے کرتے ہیں، سترہ رکوع ہوتے ہیں، پچانوے بار اللہ بڑا ہے کہتے ہیں۔ نمازی نیت باندھتے وقت ’اللہ اکبر‘ (اللہ بڑا ہے) کہتا ہے، رکوع میں جاتے وقت ’اللہ اکبر‘ (اللہ بڑا ہے) کہتا ہے، سجود میں جاتے وقت ’اللہ اکبر‘ (اللہ بڑا ہے) کہتا ہے۔ لیکن ہمیں مرتبہ احسان حاصل نہیں ہوتا۔ ہم نہیں دیکھتے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہم نہیں دیکھتے ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں، مسجد جاتے ہیں، مسجد میں جا کر وضو کرتے ہیں، ہمارے کپڑے پاک صاف ہوتے ہیں، نیت باندھ کر ’اللہ اکبر‘ کہتے ہیں، ہاتھ اٹھا کر خود کو اللہ کے سامنے Surrenderکرتے ہیں، ہاتھ باندھ کر غلاموں کی طرح اعلان کرتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ الحمدشریف پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔الحمدللہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔ اللہ رحمٰن و رحیم ہے۔ اللہ یوم حساب کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیں، تیری ہی اعانت کے طلب گار ہیں۔ اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے پر قائم رکھ۔ ان لوگوں میں ہمارا شمار کر جن پر تیرا انعام ہوتا ہے اور ان لوگوں سے ہمیں محفوظ فرما جو مغضوب ہیں، تیرے ناپسندیدہ ہیں۔
عشاء کی سترہ رکعتوں میں آپ سترہ دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں، دعا بھی مانگتے ہیں، سلام بھی پھیرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ سبحان ربی العظیم تین دفعہ پڑھا ہے یا نہیں۔ نماز میں جو سورتیں پڑھتے ہیں وہ یاد نہیں رہتیں۔ ہم نے کون سی سورۃ پڑھی ہے۔
میری سمجھ میں اس کی وجہ یہ آتی ہے کہ ہمارے اسلاف قول و فعل کے سچے تھے۔ ہمارے اسلاف میں قناعت تھی۔ ہمارے اسلاف میں اس بات کا یقین تھا کہ جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں، جو کچھ ہم خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم دیتے ہیں، یہ سب اللہ کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قربت کا احساس ان کے اندر موجود تھا۔ رسول اللہﷺ کے انوار نبوت ان کے سینوں میں جگ مگ کرتے تھے۔
آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، آپ جانیں اللہ جانے۔ میں جب اپنا محاسبہ کرتا ہوں، میں خود کو جھوٹ کا مرقع نظر آتا ہوں۔ اب آپ سب اپنے اپنے بارے میں سوچیں، غور کریں، کیا ہمیں اپنے اسلاف کی طرح اللہ کی ذات پر یقین ہے۔ ہم منافقت تو نہیں کر رہے ہیں؟ میرا یہ خیال ہے کہ شاید ہی کوئی بندہ یہ کہے گا کہ ہم منافقت سے آزاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عروج کا زمانہ زوال میں منتقل ہو گیا ہے۔
الحمدللہ! قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ جب قرآن کے نقطے میں، زبر میں، زیر میں، حروف میں، لفظ میں، آیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو ہم لوگ قرآن کے انوار سے کیوں محروم ہیں؟
ہمارے بچوں کو انگریزی کی Dictionariesحفظ ہیں۔ Actorsاور Actoressesکے پورے پورے نام یاد ہیں لیکن نماز میں چار سورتیں یا آٹھ سورتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے ترجمے یاد نہیں ہیں۔ آدمی Ph.Dہو جاتا ہے، آدمی بیرسٹر بن جاتا ہے، آدمی Professorبن جاتا ہے، آدمی جنرل مینیجر بن جاتا ہے وہ بغیر پڑھے لکھے تو نہیں بن جاتا۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی سورتوں الحمد شریف، قل ھواللہ شریف، انا اعطینک الکوثر، سورۃ کافرون، قل اعوذبرب الفلق، قل اعوذ برب الناس کے ترجمے یاد نہیں۔
اتنے بڑے مجمع میں دس لوگوں نے ہاتھ اٹھائے ہیں۔ جب آپ کو دو سورتیں جو آپ پانچ وقت نماز میں دہراتے ہیں اس کا ترجمہ یاد نہیں ہے تو آپ کا اللہ سے کیسے رابطہ ہو گا؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں۔ جب کہ ہم دوسرے علوم میں ماہر ہیں۔ وضاحت یہ ہوئی کہ ہمارے اسلاف میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ ہمارے اسلاف کے اعمال، افعال اور کردار میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ وابستگی تھی۔ وہ ہم سے بہت زیادہ اللہ اور رسولﷺ کو مانتے تھے۔ ہم بھی مانتے ہیں، الحمدللہ! ہم بھی مواحد ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں۔ لیکن ہمارے اندر وہ لگن، تڑپ، تجسس، تحقیق، تفکر اور تلاش نہیں رہی جو ہمارے اسلاف میں تھی۔
ہمارے اسلاف میں جسمانی تقاضوں کے ساتھ ساتھ روحانیت سے وابستگی تھی۔ وہ اپنا محاسبہ کرتے تھے۔ اپنی روح سے واقف تھے۔ یہ سب باتیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔
اب میں خواتین و حضرات سے سوال کرتا ہوں۔ ہمارا جسمانی وجود کیا ہمارا اصلی جسم ہے؟
اس کا علمی، عقلی، شعوری اور مدلل جواب یہ ہے کہ مادی جسم دراصل اصلی وجود نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے؟ اس لئے نہیں ہے کہ جسمانی وجود باقی نہیں رہتا، مسلسل تغیر پذیر ہے۔ ایک دن کے بچے کی جب دو دن عمر ہوتی ہے تو پہلا دن غائب ہو جاتا ہے۔ کدھر گیا پہلا دن؟
غائب ہو گیا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے دن پر موت وارد ہو گئی۔ پھر ایک دن کا بچہ ایک سال کا ہوا۔ میرا سوال ہے کہ ایک سال کدھر گیا؟ اس پر بھی موت واقع ہو گئی۔ پھر بچہ بارہ سال کا ہو گیا، بارہ سال کہاں گم گئے؟ بچہ جوان ہوا۔ بوڑھا ہوا اور اس دنیا سے چلا گیا اس طرح چلا گیا کہ غائب ہو گیا۔
انسان ہر وقت موت اور زندگی سے رد و بدل ہو رہا ہے۔ موت سے زندگی نکل رہی ہے اور زندگی سے موت نکل رہی ہے۔ ہم سب عالم ارواح سے یہاں آئے ہیں اور آتے ہی رد و بدل اور تغیر شروع ہو گیا ہے۔ تغیر کی انتہا یہ ہے کہ آدمی اس دنیا سے غائب ہو جاتا ہے۔
ہمارے اسلاف اس بات کو جانتے تھے۔ وہ قرآن کے احکامات پر عمل کرتے تھے۔ قرآن میں تفکر کرتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ یہ دنیا عارضی ہے۔ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جو آخرت کی دنیا ہے۔ ہمیں وہاں جا کے یہاں کا حساب کتاب چکانا ہے۔ ہمارے اسلاف ایمان اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اللہ پر اور اللہ کے رسولﷺ پر ہمارا ایمان ہے لیکن وہ ایمان کے مفہوم سے باخبر تھے، ہم ایمان کے مفہوم سے باخبر نہیں ہیں۔ ہمارے اسلاف اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب تھے، ہم صرف اقرار باللسان میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب سوچنا یہ ہے کہ ہم اس ذلت، رسوائی اور محرومی کی زندگی سے کس طرح آزاد ہو سکتے ہیں؟ سیدھی بات ہے کہ اپنے اسلاف کی سیرت، اپنے اسلاف کے معاملات پر غور کریں، ان کے نقش قدم پر چلیں، انشاء اللہ عروج حاصل ہو جائے گا۔
رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے سامنے ہے۔ کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہﷺ کے عفو و درگزر سے ہم واقف نہیں ہیں۔ گھر گھر میں فساد برپا ہے، میاں بیوی میں لڑائی ہے، اولاد باپ سے خفا ہے، باپ اولاد سے خفا ہے۔ کہا جاتا ہے Generation Gapآ گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں، ہر آدمی دوسرے کی اصلاح کے لئے کوشاں ہے، اپنی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا کوئی آدمی نہیں سوچتا کہ میری بھی اصلاح ہونی چاہئے۔
مسلمانوں کے باعزت ہونے کا باوقار ہونے کا اور پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کو بار بار پڑھیں، اللہ کے محبوبﷺ نے جن باتوں کو پسند کیا ہے وہ باتیں اختیار کر لی جائیں اور جن باتوں سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے سب کچھ کر کے دکھا دیا ہے۔ جنگ احد میں پیش آنے والا ہندہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔
دھوکہ سے شہید کرا کے حضرت امیر حمزہؓ کا پیٹ چاک کیا، پیٹ چاک کر کے جگر نکالا اور اس کو چبا کر تھوکا، شہدا کے ناک کان کاٹے، رسی میں پرو کے ہار بنایا، اس ہار کو گلے میں پہن کر رقص کیا۔ لیکن جب ہندہ مسلمان ہوئی تو حضور پاکﷺ نے اس کو معاف کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے چچا کے سارے قرضے، قرضوں پر سود معاف کر دیا۔ رسول اللہﷺ اور ان کے صحابہؓ کو اہل مکہ نے کتنی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں، ہجرت پر مجبور کر دیا گیا، چہیتی بیوی حضرت خدیجہؓ نے ہر چیز رسول اللہﷺ پر نثار کر دی، شعب ابی طالب میں جب وہ بیمار ہوئیں مشرکین نے دوا بھی نہیں جانے دی۔ اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے مشرکین کی ساری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا۔
ہم رسول اللہﷺ کے پیروکار ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں۔ کیا ہم لوگوں کو معاف کرتے ہیں؟ باہر کو چھوڑیئے، گھروں میں دشمنیاں پل رہی ہیں۔ محترم دوستو! ہم اس لئے پریشان ہیں، اس لئے بے سکون ہیں، طرح طرح کی بیماریوں میں اس لئے مبتلا ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کے راستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، مسلمانوں کی اولاد ہیں، مسلمانوں کی نسلیں ہیں لیکن ہمارے اسلاف اور ان کے اعمال میں اور ہمارے اعمال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ تابعین کے بعد تبع تابعین کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور تبع تابعین کے بعد اولیاء اللہؓ جو رسول اللہﷺ کے علوم کے وارث ہیں، ان کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
اگر ہم جانتے بوجھتے روشنی ہوتے ہوئے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں تو اس میں ہمارے اسلاف کا قصور نہیں ہے، ہمارا اپنا قصور ہے۔ اولیاء اللہ کی ڈیوٹی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو کو رسول اللہﷺ کی امت کے سامنے پیش کریں اور اس بات کی تائید اور تاکید کریں کہ اگر رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پر رسول اللہﷺ کے امتیوں کا پورا پورا عمل نہیں ہوا تو مسلمان قوم کبھی ذلت و رسوائی سے نہیں بچ سکتی۔ ہرگز ایسی قوم کو عروج حاصل نہیں ہوتا جو اپنے بنیﷺ کی سیرت کے مطابق زندگی نہیں گزارتی۔
اگر مسلمانوں کو عروج حاصل کرنا ہے تو آسان نسخہ یہ ہے۔ اللہ کے محبوب، جن کے لئے اللہ نے ساری کائنات بنائی ہے۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کو حرز جاں بنائیں۔ فروعات میں نہ پڑیں، تفرقہ نہ ڈالیں، متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لیں، تفرقہ کو ختم کر دیں۔
سورۃ بقرہ کی پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ یہ کتاب نہیں ہے شک اس میں۔ اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب کتاب میں شک و شبہ نہیں ہے تو جس انسان کے ذہن میں شکوک و شبہات ہوں گے وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا؟ اللہ کی کتاب میں شک و شبہ نہیں ہے، اس کتاب کو وہی سمجھے گا جس کے ذہن میں اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہو۔ یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت دیتی ہے جو متقی ہیں۔ چونکہ اس کتاب میں شک نہیں ہے اس لئے شکی مزاج لوگ، جن کا یقین متزلزل ہے، اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت دیتی ہے جو متقی ہیں۔
متقی لوگ کون ہیں؟ متقی لوگ وہ ہیں جن کو غیب پر یقین ہے۔
کسی بات کے بارے میں بغیر دیکھے یقین ہیں ہوتا؟ یقین کے لئے ضروری ہے کہ مشاہدہ ہو۔
آپ کسی عدالت میں گواہ کی حیثیت سے جاتے ہیں۔ جج پوچھے گا آپ جس کے بارے میں گواہی دے رہے ہیں کیا آپ نے اسے چوری کرتے دیکھا ہے؟ آپ کہیں گے نہیں، میں نے نہیں دیکھا۔ کیا عدالت آپ کی گواہی کو معتبر مان لے گی؟ عدالت کہے گی کہ جس نے دیکھا ہے وہ آ کر گواہی دے۔
جو لوگ غیب پر یقین رکھتے ہیں، یعنی غیب کو دیکھتے ہیں۔ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں۔ صلوٰۃ قائم کرنے سے مراد ہے کہ ان کا ذہن اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ ان کو مرتبہ احسان حاصل ہوتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے یا وہ دیکھتے ہیں کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں، اس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔
آپ گندم کھاتے ہیں اللہ زمین نہ بناتا، زمین بنجر ہوتی، سنگلاخ چٹانیں ہوتیں، گندم کا دانہ کیسے اگتا، کیا گندم کا دانہ اللہ کا دیا ہوا نہیں ہے؟ ہم گوشت کھاتے ہیں، کیا بھیڑ، بکریاں، گائے، بیل اللہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟ ہم پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے کیا پانی انسانوں نے بنایا ہے؟ ہم ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ہم آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، آکسیجن اور پانی انسانوں نے نہیں بنائے۔ میں اور آپ پیدا ہوئے، اللہ نہ چاہتا تو میں اور آپ پیدا نہ ہوتے۔ پیدا ہونے کے بعد ماں کے سینے کو اللہ دودھ سے بھر دیتا ہے، اس میں آپ نے اور میں نے کوئی تگ و دو نہیں کی ہے۔ ہم نے سوا دو سال ماں کا دودھ پیا ہے، دودھ کی کلیاں کرتے رہے۔ کیا یہ دودھ اللہ کا دیا ہوا نہیں تھا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تمہارا اللہ وہ ہے جو تمہیں گوبر کے بیچ میں سے دودھ نکال کر پلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت تو یہ ہے کہ اگر مکھی تمہارا رزق لے کر اڑ جائے تو تم مکھی سے اپنا رزق نہیں چھین سکتے۔ مکھی مچھر کی مثالیں دینے سے اللہ نہیں شرماتا۔ آپ کھانا کھا رہے ہیں، مکھی آ کر کھانے پر بیٹھ گئی، آپ کا کھانا لے کر اڑ گئی، مکھی سے رزق چھین کر دکھایئے۔ آپ مکھی کو تو مار سکتے ہیں لیکن رزق نہیں چھین سکتے۔
جب انسان اللہ کی کتاب پڑھتا ہے اور اس کے اندر شک، شبہ اور وسوسہ نہیں ہوتا تو اس کے اندر یقین کا Patternبن جاتا ہے اور انسان جان لیتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ ہی ابتدا ہے، اللہ ہی انتہا ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے۔ اللہ ہر چیز پر محیط ہے، ہر شئے اللہ کے احاطۂ قدرت میں ہے۔ ہر چیز اللہ کی طرف سے آ رہی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں یعنی جتنے آپ اپنے سے قریب ہیں، اللہ اس سے کہیں زیادہ آپ سے قریب ہے۔ لیکن اگر آپ آنکھیں بند کر لیں اور دیکھنا ہی نہ چاہیں تو آپ کو کون جگائے گا۔ میری والدہ صاحبہ، اللہ انہیں غریق رحمت کرے فرمایا کرتی تھیں”سوتے ہوئے کو جگایا جا سکتا ہے اور جو جاگتا ہوا سو رہا ہے اسے کون جگائے۔”
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“میں تمہارے اند رہوں، تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہو۔”
سب سے بڑے نجات دہندہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ بندے کا اللہ سے قریب ترین تعلق ہے۔
آپ پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہم نے ان علوم کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لگایا ہے۔ بیس سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم یہ بھی سوچیں کہ اللہ کے اور اس کے رسولﷺ کے علوم سیکھنے میں ہم نے کتنا وقت دیا ہے۔ پانچ وقت کی نماز میں کتنا وقت لگتا ہے۔ ہمارے پاس تو نماز قائم کرنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ کیا اس سے بڑی کوئی بدنصیبی اور محرومی ہو سکتی ہے۔ ماشاء اللہ یہاں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ اسلام سے پہلے خواتین کا کیا حال تھا، تاریخ اٹھا کر دیکھئے۔ عورتیں بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھیں۔ پھر قیمت لگتی تھی۔ عورتوں کو ہتھکڑیاں ڈال کر کھونٹے سے باندھ دیا جاتا تھا۔ تذلیل کا ایک نشان تھی عورت۔ رسول اللہﷺ جب تشریف لائے انہوں نے عورت کو وہ عزت و مرتبہ عطا فرمایا جو عورت کو کبھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ فرمایا۔ ماں کی نافرمانی سے آدمی کے اوپر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی زبانی فرمایا۔ اگر تمہاری ماں باپ تمہیں آواز دیں تو نیت توڑ کر، پہلے ماں کی خدمت کرو، ماں کا کہنا مانو، اس کے بعد نماز قائم کرو۔ سبحان اللہ، رسول اللہﷺ اور اللہ نے عورت کو کتنی عظمت عطا فرمائی ہے۔
رسول اللہﷺ نے عورت کو جو مقام عطا کیا ہے وہ مقام تاریخ میں عورت کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ کیا ہم سب مردوں اور عورتوں پر یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اپنے رسولﷺ کے احکامات کی تعمیل کریں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگ بیوقوف ہیں یا ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو ہمارے اندر ہے۔ ہم دنیاوی علوم پڑھتے ہیں، سیکھتے ہیں۔ اگر ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو تو ہم ان علوم میں کس طرح مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ خواتین سے التماس ہے کہ وہ تاریخ اسلام ضرور پڑھیں۔ اس بات کو یاد کریں کہ رسول اللہﷺ نے عورت کے اوپر کتنا احسان فرمایا ہے، رسول اللہﷺ نے عورت کو کتنا بلند مقام عطا فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، سچے مرد، سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد، صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد، عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد، روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے والے مرد، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو بہت یاد کرنے والی عورتیں۔ ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔”
ہم نے مسلسل ساڑھے تین سال جدوجہد اور کوشش کی، سلسلہ عظیمیہ کے کارکنان نے میری مدد کی اور نتیجے میں ہم ایک سو ایک 101اولیاء اللہ خواتین تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کتاب میں عورت کی مجبوری کی داستان تاریخ کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ چین میں عورت کا کیا حال تھا، یورپ میں عورت کی تذلیل کس طرح ہوتی تھی؟ عرب میں عورت کی کیا وقعت تھی؟ ہندوستان میں عورت کوستی ہونا پڑتا تھا، زندہ عورت کو خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔ وہ سب اس کتاب میں بیان ہوا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ خواتین اپنے آپ کو جاننے کے لئے اپنے حقوق کی پچان کے لئے رسول اللہﷺ کے احسانات کو یاد کرنے کے لئے کتاب “ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین” کا ضرور مطالعہ کریں۔
مرد حضرات میرے بھائی ہیں، میرے بزرگ ہیں، میرے دوست ہیں ان سے اور خواتین سے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کو سکون چاہئے، اگر آپ کو دنیا کی عزت درکار ہے، اگر آپ آخرت میں آرام چاہتے ہیں اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، جنت میں جانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ آپ قرآن میں تفکر کریں۔ چھوٹی چھوٹی سورتوں کا ترجمہ یاد کریں اور آداب زندگی سیکھیں۔ اساتذہ اور والدین کا احترام کریں، ان کی خدمت کریں۔ اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں۔ دولت پرستی بھی شرک ہے۔ دولت پرستی سے بچیں۔
اللہ نے دولت خرچ کرنے کے لئے دی ہے، پرستش کے لئے نہیں۔ رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ کے مطابق زندگی گزاریں۔ کسی سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو اسے معاف کر دیں۔ آپ سے کسی کی دل آزاری ہو جائے تو آپ اس سے معافی مانگ لیں۔ غصہ نہ کریں۔ جو لوگ غصہ نہیں کرتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے یعنی جن لوگوں میں معاف کرنے کا حوصلہ اور جذبہ نہیں ہوتا وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پہلے اپنی اصلاح کیجئے پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف دھیان دیجئے۔ جس آدمی کی خود اصلاح نہیں ہوتی وہ دوسروں کی اصلاح کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیئے۔ انہیں ٹافیاں اور کھلونے دیجئے۔ انہیں اولیاء اللہ اور پیغمبروں کے قصے سنایئے تا کہ ان کے شعور میں اللہ کی صفات کا ذخیرہ ہو جائے۔ بچپن کی سنی ہوئی اور سکھائی ہوئی بات آخر وقت تک یاد رہتی ہے۔
آپ سب خواتین و حضرات کا شکریہ۔
خدا حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "