Topics
اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ (آمین)
معزز مہمانان گرامی، اساتذہ کرام، طالبات اور طلبہ! السلام علیکم۔
ڈاکٹر سعید صاحب نے فرمایا ہے کہ میں تصوف کے موضوع پر لیکچر Deliverکروں۔ جہاں تک لفظ “تصوف” کا تعلق ہے۔ اس سے ہر پڑھا لکھا آدمی واقف ہے۔ تصوف ایک علم ہے۔ اس علم کی تشریحات زمانے کے حساب سے لوگوں نے جس طرح کیں وہ بڑی عجیب ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصوف ایسا علم ہے جس کے ذریعے جن بھوت وغیرہ اتار دیئے جاتے ہیں، جادو ٹونہ بھی کیا جاتا ہے، اس علم سے جادو، سفلی، کالے علم کی کاٹ بھی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تصوف دنیا بیزاری کا نام ہے۔ جب انسان کو کوئی کام نہ ہو اور اس کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہو تو ایک طرف کونے میں بیٹھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہو جاتا ہے یا جنگل میں جھونپڑی ڈال لیتا ہے، روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتا ہے اور کاہل الوجود بن جاتا ہے۔ یعنی وہ راہب بن جاتا ہے۔
یوگا تصوف، عیسائی تصوف، یہودی تصوف، ہندو تصوف۔ اتنی زیادہ اس کی Branchesکھول دی گئی ہیں کہ تصوف کا لفظ معمہ بن گیا ہے۔ اگر ہم کیمسٹری پڑھیں تو کیمسٹری کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہندو کیمسٹری ہے، یہودی کیمسٹری یا عیسائی کیمسٹری ہے۔ اسی طرح ڈاکٹری ہندو نہیں ہوتی، ڈاکٹری یہودی یا عیسائی نہیں ہوتی ہے۔
میڈیکل سائنس جو بھی پڑھے گا ڈاکٹر بن جائے گا۔ انجینئرنگ کے علوم پڑھ کر آدمی انجینئر بن جاتا ہے۔ کوئی سائنس پڑھے گا تو سائنٹسٹ بن جائے گا۔ اس طرح کوئی صاحب ایمان آدمی تصوف پڑھتا ہے تو صوفی بن جاتا ہے۔
عزیز دوستو!
تصوف ایک علم ہے اور اس کے بہت سارے شعبے ہیں۔ ان شعبوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تصوف کا مطلب ہے “تزکیۂ نفس”۔ تزکیۂ نفس سے مراد ہے اپنے نفس کی اصلاح اس طرح کی جائے کہ معاشرہ اس کو اچھی نظر سے دیکھے، ادب کی نظر سے دیکھے اور شریعت کے مطابق آدمی عزت و توقیر کے ساتھ زندگی گزارے۔
تصوف ایسا علم ہے جس کو سیکھنے کے بعد انسان اپنی باطنی زندگی سے واقف ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی دو رخوں پر چل رہی ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں باشعور ہیں، چل پھر رہے ہیں، کھا رہے ہیں، علم سیکھ رہے ہیں۔ جتنی شعوری استعداد ہے اس کے مطابق آپ علم سیکھ رہے ہیں۔ زندگی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بیداری کی زندگی کلیتاً خود مختار زندگی نہیں ہے۔ زندگی روح کے تابع ہے۔ جب تک گوشت پوست کے جسم کو روح سنبھالے رہتی ہے۔ گوشت پوست کا جسم چلتا پھرتا رہتا ہے اور جب روح اس جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو گوشت پوست کا جسم بے کار اور مردہ ہو جاتا ہے۔
یہ ایسی بات نہیں ہے کہ بہت زیادہ سوچنا پڑے۔ ہر انسان جیتا اور ہر انسان مرتا ہے۔ جو بھی انسان پیدا ہوا ہے اسے اس دنیا سے واپس جانا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے کوئی آدمی کسی بھی صورت انحراف نہیں کر سکتا۔
جب ہم اپنے جسم کا محاسبہ کرتے ہیں یعنی یہ سوچتے ہیں کہ جسم کیا چیز ہے؟ تو زندگی کے دو ہی رخ سامنے آتے ہیں۔ ہم کھاتے پیتے ہیں۔ لیکن مرا ہوا آدمی کھاتا پیتا نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی بیمار ہے اور وہ بیماری کی حالت میں مر گیا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مرے ہوئے آدمی کا آپریشن نہیں ہوتا۔ اگر روح آپ کے جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو جسم میں کسی قسم کی حرکت نہیں ہوتی۔
میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ انسان کی زندگی ایک نہیں ہے۔ انسان دو زندگیوں میں جیتا مرتا ہے۔ ہم ظاہری علوم سیکھتے ہیں۔ ظاہری علوم بھی ہم تب سیکھتے ہیں جب ہم زندہ ہوں یعنی ہمارے اندر روح ہو۔ ہمارے اندر روح ہے تو عقل ہے، شعور ہے، اگر ہمارے جسم میں روح نہیں ہے تو ہم علم بھی حاصل نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔میں کوشش کر رہا ہوں کہ آسان سے آسان طریقے سے بیان کروں۔ آپ مطمئن رہیں۔ انشاء اللہ بات سمجھ میں آ جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔انسان چل پھر رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر روح ہے۔ اگر انسان کے اندر روح نہیں ہو گی تو انسان چل پھر نہیں سکتا۔
روح کا رشتہ ٹوٹ جانے سے تمام صلاحیتیں از خود ختم ہو جاتی ہیں۔
بات مشکل نہیں ہے، جب بھی کوئی نیا علم انسان سیکھتا ہے تو اس کے شعور پر الگ سے وزن پڑتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا تو آدمی کہتا ہے یہ کیا بات ہوئی۔ لیکن اگر اس کو بار بار دہرایا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
آپ کے گھر میں ایک مرغی ہے۔ اس مرغی کو بلی نے پکڑ لیا اور مرغی مر گئی۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا وہ مرغی دانہ چُگ سکتی ہے؟ کیا وہ مرغی پانی پی سکتی ہے؟ کیا وہ مرغی اپنے بچوں کو بلا سکتی ہے؟
مرغی اس لئے بے حرکت ہے کہ اس کے اندر روح نہیں ہے۔ گھر میں کبوتر ہے، غٹرغوں بولتا ہے۔ دانہ چگتا ہے۔ وہ کسی وجہ سے مرگیا۔ کبوتر کی جسمانی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی چونچ بھی ہے۔ اس کے دو پر بھی ہیں۔ اس کے دو پیر بھی ہیں۔ لیکن کبوتر کے اندر روح نہیں ہے لہٰذا وہ اڑ نہیں سکتا۔
یہی صورت انسان کی ہے۔ انسان کے اندر روح ہے تو سب کچھ ہے اور روح نہیں ہے تو انسان کچھ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔علوم کی تعلیم اور تفہیم کب ممکن ہے؟
۔۔۔۔۔۔غور کیجئے اور بتایئے؟۔۔۔۔۔۔
جواب: جب روح موجود ہو۔
ماشاء اللہ! آپ کا جواب سن کر میرا دل خوش ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ کرے۔ یہاں اگر آٹھ دس Dead Bodiesپڑی ہوں اور میں لیکچر دینے لگوں تو دنیا میں مجھ سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں ہے۔
میں نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا۔ اگر میں کسی Dead Bodyسے سوال کرتا تو یہ بیوقوفی اور جہالت ہوتی۔
عزیز دوستو! انسان کا چلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، محسوس کرنا، کب ممکن ہے؟ جب انسان کے اندر روح ہو۔
آپ بتائیں کہ شادی میں خوشی ہوتی ہے؟ ڈھولک بنتی ہے؟ گانے گائے جاتے ہیں؟
جواب: جی ہاں۔
اب ماشاء اللہ بچیوں کو بہت گانے یاد ہوں گے۔ لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ کسی مردہ مرد نے مردہ عورت سے شادی کی ہو۔
ایک چھوٹا سا بچہ ہے۔ اگر اس بچے میں روح نہ ہوتی تو کوئی ماں اسے دودھ نہ پلاتی۔ گھر والے اسے قبرستان بھیج دیتے ہیں۔ ماں کس لئے دودھ نہیں پلاتی؟ اس لئے کہ اس میں روح نہیں ہے۔ بچہ میں دودھ Suckکرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔
دیکھئے! یہ میرا جسم ہے۔ میرے جسم کو روح نے لباس بنایا ہوا ہے۔ پنڈلی میں بھی روح ہے۔ ناک میں بھی روح ہے۔ پیٹ میں بھی روح ہے۔ کان میں بھی روح ہے۔ دماغ میں بھی روح ہے۔ روح کے بغیر جسم کی کوئی پوزیشن اس لئے نہیں ہے کہ ہمارا مادی جسم روح کا لباس ہے۔ جب تک روح اس جسم کو کوٹ پتلون کی طرح پہنے رہے گی اس کے اندر حرکت رہے گی ورنہ حرکت ختم ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان میری بہترین صناعی ہے۔ بہترین صنعت کاری ہے اور بہترین تخلیق ہے۔ بہترین تقویم ہے لیکن وہ اسفل السافلین میں پڑا ہوا ہے۔ اسفل السافلین سے مراد یہ ہے کہ وہ گہرے گڑھے میں پڑا ہے۔
انسان اللہ کی بہترین صنعت ہے۔ بہترین تصویر ہے لیکن یہ بہترین تصویر اس وقت ہے جب انسان اس بات سے واقف ہو کہ انسان کا مادی جسم روح کے تابع ہے۔ اگر انسان اس بات سے واقف نہ ہو کہ مادی جسم روح کے تابع ہے تب وہ اسفل السافلین میں ہے۔
انسان کے لئے دو علوم سیکھنا ضروری ہے۔ ایک علم یہ ہے کہ انسانی جسم روح کا لباس ہے۔ لباس بھی سمجھنے کی بات ہے۔ مثلاً اب Medical Scienceآپ کو بتاتی ہے کہ انسان ڈھانچہ ہے، اس کے اندر ایک دل ہوتا ہے۔ دو پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ دو گردے ہوتے ہیں۔ دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ دو کان ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ہماری دو آنکھیں جو ہیں وہ اسی وقت تک کام کرتی ہیں جب جسم کے اندر روح ہوتی ہے۔ مردہ آدمی دیکھتا نہیں ہے۔ مردہ آدمی سنتا نہیں ہے۔ لیکن اس کے کان ہوتے ہیں۔ مردہ آدمی کی آنکھیں ہوتی ہیں لیکن وہ دیکھتا نہیں ہے۔ مرے ہوئے آدمی کی کمر میں ڈنڈا ماریں چوٹ نہیں لگتی۔
میں بتانا چاہ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علوم سکھائے ہیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔
سوچئے! مادی جسم کے اندر دماغ کام کر رہا ہے وہ کس طرح کام کر رہا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ انسان کے اندر دماغ ہے۔ یہ بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ انسان کے اندر Energyہوتی ہے۔ اس توانائی کی بنیاد پر وہ کوئی چیز پکڑتا ہے۔ کسی چیز کو توڑتا ہے۔ کسی چیز کو بنا لیتا ہے۔ انسان کے اندر آنکھیں ہیں۔ آنکھوں کی وجہ سے دیکھ کر وہ بہت کچھ بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی آنکھیں ہونے کے باوجود وہ دیکھتا کیوں نہیں ہے؟ ہاتھ ہونے کے باوجود وہ پکڑتا کیوں نہیں ہے؟ پیر ہونے کے باوجود وہ چلتا کیوں نہیں؟ اس لئے نہیں چلتا کہ اس کا تعلق روح کے ساتھ قائم نہیں رہا۔ نفسیاتی حوالہ سے ہم اس بات کی تشریح کر سکتے ہیں کہ ہر انسان شعور اور لاشعور میں زندہ ہے۔ شعور جب نہیں رہتا تو آدمی بھی نہیں رہتا۔
آپ ایم۔اے کے طالب علم ہیں آپ کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ جب شعور ہی سب کچھ ہے تو لاشعور کی کیا حیثیت ہے؟ اور ہم لاشعور سے کس طرح واقف ہو سکتے ہیں؟
اس کے لئے قدرت نے انتظام کیا ہوا ہے۔ ہر آدمی جو اس دنیا میں موجود ہے وہ سوئے گا بھی اور جاگے گا بھی۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آدمی ساری زندگی جاگتا رہے اور ایسا بھی ممکن نہیں کہ آدمی ساری زندگی سوتا رہے۔ اگر آپ زیادہ دیر جاگیں گے، نیند پوری نہیں ہو گی۔ بیمار ہو جائیں گے۔ نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ نیند کی گولیاں کھانی پڑیں گی۔ ساری زندگی کوئی آدمی سو نہیں سکتا اور ساری زندگی جاگ نہیں سکتا۔ اللہ نے رات کس لئے بنائی ہے؟ اس لئے کہ ہم سوئیں، آرام کریں۔ دن اس لئے بنایا ہے کہ ہم کام کریں۔ جب ہم سوتے ہیں، ذرا غور سے سننے کی بات ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو کیا ہمارے ہاتھ پیر کام کرتے ہیں؟ کیا ہم سوتے ہوئے کھانا کھاتے ہیں؟ یا سوتے ہوئے کوئی وزن اٹھاتے ہیں؟
آپ کا جواب ہو گا۔۔۔۔۔۔نہیں۔
لیکن اس “نہیں” کے پیچھے ایک اور سوال ہے کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟ ہر آدمی خواب کیوں دیکھتا ہے؟ خواب ہر آدمی دیکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خواب کسی کو یاد رہتے ہیں اور کسی کو یاد نہیں رہتے۔ خواتین کو خواب بہت زیادہ یاد رہتے ہیں۔ ایک آدمی سو رہا ہے۔ اس کے اندر سے ایک آدمی نکلتا ہے۔ وہ آدمی میلوں میل دور شہر میں چلا گیا یا آسمان پر اڑ گیا۔ کسی مقدس مقام پر چلا گیا، کسی عزیز رشتہ دار سے ملاقات کی۔
بتایئے! ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟
جی ہاں! ایسا ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔
آپ اس بات سے واقف ہیں کہ مادی جسم جب سو جاتا ہے تو معطل ہو جاتا ہے، Dead Bodyکی طرح ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر سے ایک اور جسم نکلتا ہے۔ یہ جسم کھاتا بھی ہے، پیتا بھی ہے۔ اگر اسے کہیں سانپ یا اژدہا نظر آ جائے تو وہ ڈر کے اٹھ جاتا ہے اور اس کا جسم پسینہ سے شرابور ہو جاتا ہے اور سارا دن وہ سانپ کی دہشت محسوس کرتا رہتا ہے۔ کیوں بھئی ایسا ہوتا ہے؟
جواب: جی ہاں! ایسا ہوتا ہے۔
کوئی آدمی کسی باغ اور مرغزار میں چلا جائے، وہاں پھول ہوں، نغمہ سرا پرندے ہوں۔ وہ صبح اٹھ کر کہتا ہے کہ میں نے بہت اچھا خواب دیکھا۔
باغ میں انگور تھے، انار تھے، نہریں تھیں، روشیں بھی سلیقے کی تھیں، وہاں گلاب کے دستے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ ہر آدمی کے اندر ایک آدمی اور ہے۔
بتایئے! اندر کا آدمی کب کام کرتا ہے؟
اندر کا آدمی خواب کی حالت میں کام کرتا ہے۔
ہم خواب کب دیکھتے ہیں؟
جواب: جب ہم سوتے ہیں۔
اس ساری گفتگو کا مطلب یہ نکلا کہ ہم ایک نہیں دو ہیں۔ جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے اندر سے ایک آدمی نکلتا ہے اور گھومتا پھرتا ہے خوش ہوتا ہے یا رنجیدہ ہوتا ہے۔
عزیز دوستو! ہمارے اندر سے نکلنے والا آدمی ہماری روح ہے۔
جب ہم بیدار ہوتے ہیں جسمانی حواس میں ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم شعور میں ہوتے ہیں۔ وہ آدمی جو ہمارے اندر ایک اور آدمی ہے، ہمارا لاشعور ہے۔
تصوف لاشعوری دنیا کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ لاشعور میں غیب کی دنیا سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ انسان غیب نہیں دیکھ سکتا۔ ہر آدمی غیب دیکھ سکتا ہے۔ مثلاً آپ کیمسٹری پڑھ رہے ہیں جب تک آپ نے کیمسٹری نہیں پڑھی آپ کے لئے غیب تھی۔ جب آپ اساتذہ کے سامنے بیٹھ گئے تو کیمسٹری آپ کے لئے غیب نہیں رہی۔ ہر وہ چیز جو چھپی ہوئی ہے وہ غیب ہے۔ لیکن جب چھپی ہوئی چیز نظر آ جاتی ہے تو غیب نہیں رہتی۔
میں پوچھتا ہوں، بتایئے! میری جیب میں کتنے پیسے ہیں؟ آپ نہیں بتا سکتے۔ کیونکہ یہ چیز آپ کے لئے غیب ہے۔ لیکن کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میری جیب میں کچھ نہیں ہے، بس خالی جیب ہے، میں کہہ دوں گا کہ کچھ نہیں ہے۔
جب تک کوئی آدمی کسی علم کو نہیں سیکھتا وہ اس کے لئے غیب ہے۔ علم غیب یا روحانیت جب ہم سیکھ لیتے ہیں تو یہ علم ہمارے لئے غیب کے بجائے علم ظاہر بن جاتا ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا ہے:
“جس نے اپنی نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔”
روح کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔میرے اور آپ کے اندر ہے۔ ہم جب تک اس روح کو تلاش نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔اپنے اندر نہیں جھانکیں گے، مراقبہ نہیں کریں گے۔ خالصتاً اللہ کی عبادت نہیں کریں گے۔ رسول اللہﷺ اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرز فکر کے مطابق زندگی نہیں گزاریں گے۔ ہم روح سے واقف نہیں ہوں گے۔
میں آپ سے کچھ سوال کرتا ہوں پھر آپ خواتین و حضرات سوال کیجئے گا۔
میری عمر اس وقت چھہتر سال ہے۔ میں پہلے بچہ تھا، پھر بیس سال کا جوان ہوا پھر چالیس سال عمر ہو گئی، اب چھہتر سال کا ہوں۔ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرا بچپنا، میری جوانی کہاں گئی؟
جواب: غیب میں چلی گئی۔ میں ایک دن مر جاؤں گا۔ مرنے کے بعد کہاں چلا جاؤں گا؟
جواب: غیب میں۔
بتایئے! جب چھہتر سال کی زندگی غیب میں چلی گئی اور میں مرنے کے بعد، غیب میں چلا گیا تو زندگی غیب کے علاوہ کیا ہوئی؟
اس بات کو دوسری طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے جب تک ماں کے پیٹ میں روح نہیں آتی، ہم پیدا نہیں ہوتے۔ روح کہاں سے آئی؟
جواب: غیب سے۔
اور مرنے کے بعد روح کہاں چلی گئی؟
جواب: غیب میں۔
میں اپنے Studentsاور اساتذہ کرام سے پوچھتا ہوں کہ زندگی غیب کے علاوہ کیا ہے؟ ماشاء اللہ! یہاں اتنے لوگ بیٹھے ہیں کوئی ایک دم بڑا نہیں ہو گیا۔ سب بچے تھے۔ ہم سب غیب میں سے آ رہے ہیں اور غیب میں جا رہے ہیں۔ اسی معمے کو جو علوم حل کرتے ہیں ان علوم کا نام تصوف ہے۔
میں ایک اور بات آپ سے پوچھتا ہوں۔
کوئی آدمی خیال آئے بغیر کھانا کھا سکتا ہے؟
کوئی آدمی خیال آئے بغیر یہاں یونیورسٹی میں آ سکتا ہے؟
کوئی آدمی خیال آئے بغیر سو سکتا ہے؟
کوئی ایک کام بتایئے؟
زندگی میں ہم ہزاروں کام کرتے ہیں۔ کوئی ایک کام یا عمل آپ ایسا بتائیں جو خیال آئے بغیر ہم کرتے ہیں؟
کوئی عمل ایسا بتایئے جو خیال آئے بغیر ہو سکتا ہو؟
اب سوال یہ ہے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟
آپ سب نے اجتماعی طور پر فرمایا ہے کہ کوئی کام خیال آئے بغیر نہیں ہوتا۔
خیال آئے بغیر ہم روٹی نہیں کھا سکتے۔ خیال آئے بغیر ہم پانی نہیں پی سکتے۔ خیال آئے بغیر ہم یونیورسٹی نہیں آ سکتے۔ خیال کہاں سے آتا ہے؟ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں کہ غیب سے خیال آتا ہے۔ غالب نے کہا ہے:
“عالم تمام حلقۂ دوام خیال ہے”
اللہ تعالیٰ نے کہا۔۔۔۔۔۔”کُن”۔۔۔۔۔۔کن کہنے کے بعد کائنات بن گئی، کائنات میں آپ بھی ہیں، میں بھی ہوں، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب بھی ہیں۔
پیارے بچو! ہم کہاں بنے؟ غیب میں بنے۔ غیب سے چل کر ہم اس دنیا میں آ گئے اور یہاں سے چل کر پھر غیب میں چلے گئے۔
اگر کوئی انسان اپنی اصل سے واقف نہیں ہے تو اس نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا اور وہ انسانوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سیکھنے، پڑھنے، مشاہدہ کرنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اگر وہ کوشش کرے تو کامیاب ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔”
غیب سیکھنا مشکل اس لئے نہیں ہے کہ آپ کی ساری زندگی غیب ہے۔ عالم ارواح سے آپ کی روح آئی، وہ غیب ہے۔ آپ کا بچپنا غیب ہو گیا، جوانی غیب میں چھپ گئی، بڑھاپا غیب ہو گیا اور آپ غیب کی دنیا میں منتقل ہو گئے۔
روحانی علوم سیکھنا آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا، ہے کوئی سمجھنے والا۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
محترم جناب غلام مصطفیٰ صاحب، VCبہاء الدین زکریا یونیورسٹی، جناب نور الدین جامی صاحب، جناب ظفر اللہ صاحب اور دیگر اساتذہ کرام، طالبات اور طلبہ۔
آپ سب خواتین و حضرات کا شکریہ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "