Topics
دوسرے
دن اس کا من گھر میں کچھ اُکھڑا اُکھڑا سا رہا۔ کبھی اسے خیال آتا باپو اگر شادی
کے لئے ضد کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کبھی سوچتی میرے دل پر تو شہباز کا نام نقش ہو
چکا ہے۔ اب میں کسی اور سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور شہباز سے شادی تو مر
کر بھی نہیں ہو سکتی،دو مذہب دو عقیدوں کی بات ہے۔ پھر خیال آتا میرا راستہ اوروں
سے الگ ہے۔ سلطان بابا اس راہ پر خود ہی میری رکھشا کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی کبھی
ہی خیال آتا وہ جنات کے بچے ہیں میں کس طرح ان کی تربیت کروں گی پھر دل کہتا آتما
میں بڑی طاقت ہوتی ہے آتما اپنا کام کرنا جانتی ہے۔
رات
کو اس نے اشنان کیا، سفید صاف ستھرے کپڑے پہنے اور جب سب لوگ گہری نیند سو گئے تو
صندل دیوی والے کمرے میں آ گئی۔ اس نے سلطان بابا کے دیئے ہوئے وظائف پڑھے اور
سجدے میں گر گئی۔ سجدے کی حالت میں ہی اس کے اندر سے اس کا جسم مثالی نکلا اور
سیدھا سلطان بابا کی درگاہ پر آ یا۔ قبر مبارک کے اوپر والا حصہ دو پٹ والا دروازہ
نظر آیا۔ جسم مثالی اس دروازے کو کھول کر سیدھا قبر کے اندر داخل ہو گیا۔ اندر
داخل ہوتے ہی چند سیڑھیاں اترنے کے بعد ایک روشن فضا آ گئی۔ اس فضا میں ایک ہموار
اور خوبصورت سڑک پر چل کر وہ ایک مکان کے دروازے پر پہنچی۔ دستک دی تو سلطان بابا
نے دروازہ کھولا۔ بولے، “صندل تو آ گئی۔ “ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے۔
وہاں ایک میز کے اوپر ایک خوبصور ت شیشے کی صراحی میں ارغوانی رنگ کا شربت رکھا
تھا۔ یہ شربت بلوریں گلاس میں انڈیل کر صندل کو دیا۔ صندل نے نہایت ادب سے سر
جھکاتے ہوئے اسے لیا اور آہستہ آہستہ پی گئی۔ ہر گھونٹ پر اسے یوں محسوس ہوتا جیسے
وہ ایک ادھ کھلی کلی ہے۔ جو آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہے۔ اس کے اندر خوشی و
انبساط کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر انتہائی جوش، ولولہ
اور قوت محسوس کرنے لگی۔ شربت ختم کیا تو اس کے روئیں روئیں سے ایک لطیف روشنی سی
نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے جسم مثالی سے یہ کرنٹ
انتہائی لطیف روشنی کی صورت میں نکل کر اس کے اطراف میں ایک دائرہ بنا رہا ہے۔
جیسے چاند کے ارد گرد اس کی روشنیوں کا ہالہ ہوتا ہے۔ اسے خیال آیا اس ہالے کے
اندر کوئی شیطانی صفت داخل نہیں ہو سکتی۔ تشکر کے جذبات سے لبریز ہو کر وہ بے
ساختہ سلطان بابا سے لپٹ گئی۔ انہوں نے اس کی صندل سی روشن پیشانی پر پیار سے بوسہ
دیا اور فرمایا۔”چلو تمہاری کلاس تمہارا انتظار کر رہی ہے۔”
دونوں
نے ہاتھ پکڑا اور ایک ہی اڑان میں عالم جنات کے شہر پناہ پر تھے۔ شہر پناہ کے
دروازے پر انہیں کارڈ دکھا کر داخلہ مل گیا۔ اس طرح وہ پہلے کی طرح اسکول میں پہنچ
گئے۔ سلطان بابا صندل کو اسکول کے پرنسپل عزا کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔ عزا
صندل کو لے کر سب سے پہلے اسٹاف روم لائے۔ وہاں پر تمام اسٹاف سے اسے ملایا۔ اسٹاف
صرف چند لحیم شحیم جنات پر مشتمل تھا۔ جن کے نام لات، منات اور ہبل تھے۔ پھر عزا
اسے لے کر ایک کلاس میں آیا۔ یہاں تمام بچوں میں اس کا تعارف کرایا کہ آئندہ سے اب
یہ آپ کی ٹیچر ہوں گی۔ یہ سن کر تمام بچے عجیب مضحکہ خیز انداز میں ہنس پڑے۔ جیسے
کہہ رہے ہوں کہ لحیم شحیم جنات تو ہمارے اندر علم کی ایک کرن بھی نہ داخل کر سکے۔
یہ نرم و نازک سی عورت ہمیں کیا سکھائے گی۔ صندل نے ان سب کی جانب ایک نظر دیکھا۔
ان کے شرارتی اور طنزیہ قہقہے میں ان کے ذہن کی تحریر پڑھ لی۔ اور اندر ہی اندر
بولی،”یا سلطان بابا مجھے آپ کی سوگند ہے۔ میں اپنی انتہائی سکت تک اس کام کو نہیں
چھوڑوں گی۔”وہ اس عزم کے ساتھ ٹیچر کی کرسی کی جانب بڑھی۔ اور عزا سے آہستہ سے کہہ
دیا کہ اب آپ جائیں۔ میں انہیں ہینڈل کر لوں گی۔ عزا یہ سن کر لوٹ گیا۔ اس کے
لوٹتے ہی تمام بچوں نے ایک دم سے شور مچانا شروع کر دیا۔ اسی وقت صندل اپنی کرسی
کے آگے اور میز کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ اس نے انتہائی پیار بھری آواز میں پکارا۔”بچو۔”
یہ
آواز کلاس روم کے ہر کونے سے ٹکرائی۔ اور تمام بچوں کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔
آواز کی لہریں اس مثلث کمرے کی ہر دیوار سے ٹکرا کے پھر الفاظ بن جاتیں۔ پھر
دوبارہ وہ لہریں سامنے دیوار سے ٹکرا کر لوٹتیں اور آواز الفاظ بن کر کمرے میں
گونجتی رہیں۔ اس طرح کمرے میں ہر طرف صندل کی آواز گونجنے لگی۔ جو “بچو”کہہ کر
بچوں سے مخاطب تھی۔ اس مسلسل گونج کی لہریں بچوں کے دماغ کے اندر داخل ہو گئیں۔
اور وہ سارے متوجہ ہو کر صندل کی جانب دیکھنے لگے۔ وہ حیران تھے کہ کمرے میں
گونجنے والی آواز ان کے دماغ کے اندر کس طرح گونجنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد صندل نے سب
کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ اس اشارے کے ساتھ ہی آواز ختم ہو گئی۔ اس نے ایک بچے
سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے بتا دیا۔ دوسرے سے نام پوچھا تو اس کے برابر والے بچے نے
اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ صندل نے کچھ نہ کہا۔ اس نے دوسرا سوال کیا۔ تم
یہاں کیوں آئے ہو؟ اس سوال پر سارے بچے زور زور سے ہنسنے لگے اور ڈیسک بجانے لگے۔
اس نے مسکرا کر پھر پوچھا۔”یہ کون سی جگہ ہے؟ ہم یہاں کیوں جمع ہیں؟”ایک لڑکا جو
کلاس میں سب سے بڑا تھا، وہ کلاس میں پیچھے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے دونوں بازو آگے
بڑھائے۔ اس کے بازو لمبے ہوتے چلے گئے۔ اور اس نے آگے کے ڈیسکوں پر بیٹھے دو لڑکوں
کی گردنیں پیچھے موڑ دیں۔ دونوں نے چیخ ماری اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تا کہ
اس لڑکے سے مقابلہ کریں۔ اب سارے بچے دلچسپی کے ساتھ انہیں دیکھنے لگے۔ سب کی
نظروں سے اشتعال جھلک رہا تھا۔ وہ لڑکا شرارت میں ہنس ہنس کر اپنے لمبے لمبے بازوؤں
کی قوت دوسرے بچوں پر آزما رہا تھا۔
صندل
نے دیکھا کہ تمام بچوں کا دھیان اس بیہودگی میں لگا ہوا ہے۔ اس نے سوچاکہ میری
آواز ان کی سماعت میں داخل نہیں ہو گی۔ انہوں نے اپنے کان دوسری طرف لگا دیئے ہیں۔
اس کا ذہن بہت تیزی کے ساتھ کام کرنے لگا۔ صندل نے اپنے دل میں اپنے رب کو آواز
دی۔ اور سلطان بابا کو پکارا کہ وہ اسے شکتی دیں کہ اس شکتی کے ذریعے وہ شرکا
مقابلہ کر سکے۔ اسی وقت اس کے اندر جیسے ایک انتہائی تیز کرنٹ دوڑ گیا۔ اس نے
ہاتھوں کی ہتھیلیاں بچوں کی جانب اٹھائیں اور زور سے چلائی،”رک جاؤ۔”اس کے اتنا
کہتے ہی اس کی ہتھیلیوں سے تیز کرنٹ نکلا اور ہر بچے کے گرد اس تیز کرنٹ کا ایک
دائرہ بن گیا۔ جسے سب نے محسوس کیا۔ سب کے بڑھتے ہوئے ہاتھ سمٹنے لگے۔ اس بڑے لڑکے
نے کے بازو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو زور سے چیخا۔ کرنٹ کی وجہ سے اس کے دانت بھنچ
گئے۔ اب صندل نے نہایت رعب دار آواز میں کہا۔”بچو، میں نے تم سے کچھ سوال کئے تھے۔
تم نے مجھے جواب نہیں دیئے۔ میں پھر تم سے وہی سوال کرتی ہوں۔ یہ کون سی جگہ ہے ؟
اور ہم یہاں کیوں جمع ہیں؟”بڑا لڑکا اب بھی اپنی شرارتوں سے دستبردار نہ تھا۔ اس
نے بڑی اکڑ کے ساتھ جواب دیا۔”تم بتاؤ، تم یہاں کس لئے آئی ہو؟”صندل بولی،”میں تو
اپنے آنے کے مقصد کو خوب جانتی ہوں۔ مگر تم بتاؤ کہ تم اپنے آنے کے مقصد سے کتنے
واقف ہو؟”
یہ
تمام بچے عمر میں لڑکپن اور جوانی کے درمیان میں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی
شرارتوں میں بچپن کی معصومیت کی جگہ نافرمانی و فساد زیادہ تھا۔ ایک دوسرا لڑکا
سخت لہجے میں بولا، “تم ساحر ہو اور سحر سے ہمارے اوپر قابو پانا چاہتی ہو۔”وہ
شیطان لڑکا بولا،”تم کیا سمجھتی ہو کہ ہم سحر سے واقف نہیں ہیں۔ ہم انسانوں سے
زیادہ سحر کی قوت رکھتے ہیں۔”صندل بولی،”میں مانتی ہوں کہ جنوں کے پاس سحر کی
قوتیں انسان سے زیادہ ہیں۔ مگر انسان کے پاس اس کے رب کی شکتی ہے اور رب کی شکتی
ہر قسم کے سحر کی قوت سے بڑھ کر ہے۔”وہ شیطان پھر بولا،”میں ایک گرگٹ بن کر تمہارے
اس حصار سے باہر آ سکتا ہوں۔”اور اتنا کہتے ہی گرگٹ بن گیا۔ سب اس کی طرف دیکھنے
لگے۔اس گرگٹ نے اپنے قریب ڈیسک پر چڑھنے کے لئے چھلانگ لگائی۔ مگر اس کے اطراف میں
پھیلے ہوئے کرنٹ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کرنٹ تو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف
محسوس ہوتا تھا مگر سب سے دیکھا کہ گرگٹ اپنی دم کے ساتھ الٹا لٹکا ہوا پھڑ پھڑا
رہا تھا۔
صندل
پھر گرجدار آواز میں بولی،”کوئی اور ہے جو اپنی شیطنت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے؟”اسی
وقت ایک اور شیطان صفت لڑکا سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے بولا۔”تم ابھی جنات کی
ساحرانہ قوتوں سے واقف نہیں ہو۔”اور یہ کہتے ہوئے وہ ایک سیاہ ناگ میں تبدیل ہو
گیا۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ ناگ اپنی پوری زہریت کے ساتھ پھنکارا مگر اس کی
پھنکار جیسے کسی ان دیکھی دیوار سے ٹکرا کر خود اس کی جانب لوٹ گئی۔ پھنکار کے
ساتھ جو زہر اس نے نگلا تھا وہ زہر بھی واپس اسی پر بارش کی طرح برس پڑا۔ اس زہر
کے قطروں نے سانپ کے جسم کو جگہ جگہ سے جلا دیا۔ جیسے تیزاب کے قطرے جسم پر چھڑک
دیئے جائیں۔ اس سانپ نے پھر اپنا رخ بدلا۔ اور دوسرے رخ میں اسی طرح پھنکار کر
اپنے زہر کی پچکاری ماری۔ پھر اس کے اطراف میں موجود ان دیکھی قوت کے دائرے سے
ٹکرا کر وہ پھر اس کے جسم پر برس پڑا۔ وہ تلملا کے رہ گیا۔ سانپ کا جسم خود اپنے
ہی زہر کی آگ سے ایک ایک انچ پر جلنے کے زخم بن چکا تھا۔ اب اس میں ذرا بھی قوت نہ
تھی۔ وہ ادھ موا ہو کر اپنی جگہ پر پڑ گیا۔
اب
پھر صندل نے زور دار آواز میں سب کو للکارا۔”ہاں بچو، اب اور کوئی اپنا کمال
دکھانا چاہتا ہے؟”سب خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ پر ساکت ہو گئے۔ صندل نے پھر کہا،”میں
آج تمہیں پورا پورا موقع دیتی ہوں۔ آؤ اور اپنی شیطانی قوتوں کا بھرپور مظاہرہ
کرو۔ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ سحر اور جادو میں تم سے کوئی جیت نہیں سکتا۔ مگر تم
بھول گئے کہ سب سے بڑی ایک ہی ہستی ہے جو اپنی مخلوق میں بہت سارے ناموں کے ساتھ
پہچانی جاتی ہے۔ کوئی اسے بھگوان کہتا ہے، کوئی اسے اللہ کہتا ہے، کوئی گاڈ کہتا
ہے، وہ سب کا رب ہے۔ ہر قسم کے جادو کا اس کے پاس توڑ ہے۔”پھر وہ ذرا نرم لہجے میں
بولی، “اے نسل جنات، تم پہلے خود اپنی فطرت کو سمجھو، تمہاری فطرت میں آگ کی صفات
کام کر رہی ہیں۔ آگ اپنے قریب آنے والی ہر شے کو تباہ و برباد کر ڈالتی ہے۔ مگر
ذرا سوچو کہ اگر آگ کے اند رصرف تخریب کاری ہی ہوتی تو تم کس طرح اپنے وجود میں
قائم رہتے۔ اے نسل جنات، تمہارا اپنا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہارے اندر ایک
ایسا تفکر بھی کام کر رہا ہے جو تمہارے وجود کو آگ کی تخریب کاری کا مکمل ہدف بننے
نہیں دیتا۔ تم نے صرف اپنا ناطہ اپنے اندر کام کرنے والی فطرت کے اس رخ میں جوڑ
رکھا ہے جو رخ تخریبی ہے۔ جو رخ اس کے پس پردہ ہے تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
تم سا ظالم اور جاہل اور کون ہو سکتا ہے؟”وہ گرگٹ ابھی تک الٹا لٹکا پھڑ پھڑا رہا
تھا۔ اور سانپ زخموں میں چور ادھ موا ہو رہا تھا۔ صندل نے ان دونوں کی جانب دیکھا۔
اور پھر تمام لڑکوں سے بولی،”دیکھ رہے ہو تم کیا حشر ہے ان کا؟ دوسروں کو نقصان
پہنچانے کی کوشش میں انہوں نے اپنا ہی نقصان کر لیا اب ان میں اتنی قوت نہیں ہے کہ
وہ دوبارہ جن کی صورت میں تبدیل ہو جائیں۔ مگر بھگوان میں اتنی شکتی ہے کہ وہ
شیطان بن جانے والوں کو دوبارہ جن کی صورت میں لا سکتی ہے۔”یہ کہتے ہی صندل نے
اپنی انگلی سے ان کی جانب اشارہ کیا۔ اور منہ ہی منہ میں کسی منتر کا جاپ کیا۔ اور
ان کی جانب پھونک مار دی۔ اسی وقت گرگٹ اور سانپ کی جگہ وہ دونوں جن بیٹھے تھے۔
گرگٹ والا جن اپنے پیٹ کو پکڑے ہوئے کراہ رہا تھا اور سانپ والے جن کا سارا جسم
زخموں کے جلتے داغوں سے بھرا ہو اتھا۔ وہ بڑی مشکل سے بیٹھ پا رہا تھا۔
صندل
نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا،”تم کیسے ساحر ہو جو دوسروں کو تکلیف دیتے دیتے خود
مبتلا ہو گئے؟ اور پھر اس تکلیف کا علاج بھی نہیں ہے تمہارے پاس”وہ دونوں تکلیف کی
شدت میں کچھ بول نہ سکے۔ بس صرف صندل کی جانب بے چارگی کی نظروں سے دیکھا۔ صندل
بولی،”اب ایسی حرکت نہ کرنا بھگوان ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے “پھر اس نے ایک نظر
بھرپور ان دونوں پر ڈالی۔ اسی وقت وہ دونوں پہلے کی طرح تندرست ہو گئے اور ان کی
ساری تکلیف جاتی رہی۔ مگر اس کے باوجود بھی ان کے ہونٹوں پر شکریہ کا ایک حرف نہ
آیا۔ ان کی نظروں میں تکبر اور حسد کی جھلک تھی۔ صندل نے انہیں گہری نظر سے دیکھا
اور پھر ایک بار دل ہی دل میں تہیہ کیا،”اے کاش وپرلوک کے مالک، تیری شکتی سب سے
بڑھ کر ہے۔ جو کام تو نے مجھے سونپا ہے میں اس میں کوتاہی برتنا نہیں چاہتی۔ میرا
ساتھ دینا۔”
اب
وہ ہر روز اسی طرح آدھی رات کو جب سب لوگ گہری نیند میں ڈوبے ہوتے۔ صندل دیوی کے
کمرے میں چلی جاتی اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی۔ اسی دوران ا س کا جسم
مثالی اس سے جدا ہو کر عالم جنات میں داخل ہو کر جنات کی تعلیم و تربیت کے فرائض
انجام دیتا۔ یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ جن لڑکوں کی ایک ٹولی ہر وقت اسی ٹوہ میں
رہتی کہ کس طرح صندل کی تعلیمات کو جھوٹا ثابت کریں۔ اس گروہ کا لیڈر وہی شیطان
تھا جو اپنی نت نئی شرارتوں سے سب کو پریشان کرتا رہتا تھا۔ صندل کا زیادہ وقت
اسکول میں دفاعی کارروائی پر ہی خرچ ہوتا تھا اور کوئی تعلیم و تربیت کی بات کا
موقع بہت ہی کم ملتا ہے۔ جو کوئی اچھی بات وہ لڑکوں کو بتاتی تھی وہ بھی اس شیطانی
ٹولے کی وجہ سے ان کے اوپر سے گزر جاتی تھی۔ وہ چاہتی تو بھگوان کی عطا کردہ شکتی
سے انہیں ایسی سزائیں دے سکتی تھی کہ وہ کبھی جانبر نہ ہوتے۔ مگر وہ آہستہ آہستہ
اپنے خلوص کے ذریعے ان کے اندر کے شیطان کو حق کا فرمانبردار بنانا چاہتی تھی۔ اسی
کوشش میں وہ دن میں بھگوت گیتا کا مطالعہ کرتی۔ اس کے سمجھنے کے لئے اپنے باپو سے
سوا ل کرتی اور زیادہ سے زیادہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی۔ مگراس کے
باوجود بھی کلاس میں ہر روز انہی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا۔ ایک دن وہ سلطان بابا
کی قبر پر گئی۔ اور مراقبے میں آنکھیں بندکر کے سلطان بابا کے حضور ساری روئداد
بیان کی۔
"سلطان
بابا اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور میں اسی طرح ان کے شیطان ہتھکنڈوں کے جواب
میں اپنا دفاع و تحفظ میں مصروف رہی تو اصل کام تو کبھی نہیں ہو سکے گا۔ اصل کام
تو رب کے نام سے انہیں متعارف کرانا ہے۔"سلطان بابا کی نورانی شبیہ اس کی بند
آنکھوں کے سامنے نہایت ہی واضح انداز میں آ گئی۔ ان کے نورانی جسم کے روئیں روئیں
سے چاندنی کی طرح روشنی پھوٹ رہی تھی۔ سلطان بابا مسکرائے۔ اور شفقت کے ساتھ
فرمایا۔”صندل لے قرآن پڑھ اور جوگن بن جا۔”ان کے نورانی ہاتھ میں نور کی ایک کتاب
تھی۔ جو انہوں نے صندل کو پیش کی۔ صندل نے مراقبہ کے دوران یہ کتاب ان کے ہاتھ سے
لے کر اپنے سینے سے لگا لی۔ اور پھر سلطان بابا اس کے سامنے سے غائب ہو گئے۔
اس
نے آنکھیں کھولیں۔ آنکھیں کھولتے ہی اس کی نظر شہباز پر پڑی۔ جو سامنے کھڑا اسے
دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کو شہباز کے چہرے پر اسے سلطان بابا کی روشنی دکھائی دی۔
مگر پھر دوسرے ہی لمحے اس نے گھبرا کر نظریں نیچی کر لیں۔ شہباز کی گہری آواز اس
کے کانوں سے ٹکرائی۔”صندل جی! اس ناچیز کا سلام قبول فرمایئے۔”صندل کے حسین چہرے
پر شفق کی لالیاں چھانے لگیں۔ اس نے اپنے ہاتھ جوڑ کر آہستہ سے نمستے کہا اور جانے
کے لئے کھڑی ہو گئی۔ وہ اس کے قریب آ گیا اور دونوں ہاتھ اس کی جانب بڑھائے۔ اس کے
ہاتھ میں خوبصورت جزدان میں لپٹا ہوا قرآن تھا۔ وہ یہ قرآن صندل کی جانب بڑھاتے
ہوئے بولا۔”صندل جی! میں نے کہا تھا نا آپ سے کہ میرے اور آپ کے بیچ کوئی رشتہ
ضرور ہے۔ اب اسی کو لے لیجئے نا۔ میں نے تو آپ کے منع کرنے پر تہیہ کر لیا تھا کہ
اب کبھی آپ کے راستے میں نہیں آؤں گا مگر تھوڑی دیر پہلے میں کتاب پڑھ رہا تھا کہ
مجھے ایک دم غنودگی سی محسوس ہوئی اور ایک بزرگ سامنے آ گئے۔ کہنے لگے۔”شہباز میں
سلطان بابا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر میں صندل میری قبر پر آنے والی ہے۔ تم اپنا قرآن
اسے دے دو۔ اور پھر میں پوری طرح جاگ گیا اور اپنا قرآن لے کر آپ کی طرف دوڑا۔
صندل جی! قرآن میرے ہاتھ میں ہے۔ آپ یقین کریں میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔”
صندل
نے بیتابی کے ساتھ قرآن اس کے ہاتھ سے اٹھا لیا۔ اسے لے کر چوما، آنکھوں سے لگایا
اور سینے سے لگاتے ہوئے بولی، “مجھے آپ کی بات پر پورا یقین ہے۔ شکریہ اب آپ جا
سکتے ہیں۔”شہباز نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔”خدا حافظ۔”صندل نے
شرما کے نگاہیں نیچی کر لیں وہ تیز قدموں سے واپس لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے صندل بھی
اپنے گھر کو روانہ ہو گئی۔
قرآن
اس نے چپ چاپ لے جا کر صندل دیوی والے کمرے میں رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس
کے گھر والوں نے دیکھ لیا تو اس سے اچھی خاصی باز پرس ہو جائے گی۔ مگر خود اپنا
مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے کا خیال تو ان کے دل میں کبھی نہیں آ سکتا۔ اصل مذہب صرف
مخصوص عقیدے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ مخصوص عقیدے کے ساتھ ساتھ متعین معاشرتی طرزوں
پر زندگی کو ڈھالنا بھی مذہب کے دائرے میں آتا ہے۔ صندل خوب اچھی طرح جانتی تھی کہ
عقیدے کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ یہ چھپایا جا سکتا ہے۔ مگر معاشرتی زندگی
میں کوئی شخص بھی تنہا نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ زنجیر کی طرح بندھے ہوئے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی تبدیلی اس کے معاشرے سے آدمی کو جدا کر دیتی ہے۔ اس رات
وہ بڑی بے چینی سے سب کا سونے کا انتظار کرنے لگی۔ بار بار اس کی آنکھوں میں سلطان
بابا کا قرآن دینے کا منظر آ جاتا اور اس کے ساتھ ہی شہباز کا قرآن پیش کرنا۔ بستر
پر لیٹے ہوئے اس کا ذہن مسلسل انہیں لمحات میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگی شہباز
کون ہے؟ وہ سلطان بابا کو کیسے جانتا ہے اور اس سے آگے اس کا ذہن رک جاتا۔ شہباز
کا تصور اس کا دل دھڑکا دیتا۔
آج
اس کے اندر ایک نیا عز م تھا۔ جیسے ہی وہ کلاس میں داخل ہوئی وہ شیطانی ٹولہ حسب
معمولی شیطانی حرکات کرنے لگا۔ کبھی کسی کا کان مروڑ دیا ، کہیں کسی کے بال نوچ
ڈالے، غرضیکہ ساری کلاس میں ہلچل مچی تھی۔ صندل اپنی کرسی کے پاس کھڑی ہوئی اور اس
کے کچھ منتر پڑھ کر اس شیطانی ٹولہ کی جانب پھونک ماری۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تمام
شیطان اس قدر سکڑ کر رہ گئے کہ ان کا قد کاٹھ دس فٹ سے چھوٹا ہو کر صرف ایک فٹ رہ
گیا۔ ان کی آواز بھی بالکل مدہم ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ پاس بیٹھا ہوا جن بھی
انہیں مشکل سے ہی سن سکتا تھا۔ اب
ان سب کو صندل نے ایک کونے میں کھڑا
کر دیا اور ان کے ارد گرد حصار باندھ دیا۔ جس کے باہر وہ نہیں نکل سکتے تھے۔ ان کی
بینائی بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ یعنی ان کے تمام حواس قد کے ساتھ ساتھ سکڑگئے تھے۔
اس حصار کے اندر وہ ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ مگر اس کے سوا وہ اور کر ہی کیا سکتے
تھے۔ اب صندل دوسرے لڑکوں سے مخاطب ہوئی ، “ہاں تو مجھے یہ بتاؤ کہ اب ان کے ساتھ
کون کون شامل ہونا چاہتا ہے؟”سارے خوفزدہ ہو گئے۔ ان کے تجربے میں یہ بات تو تھی
کہ جنات اپنے ہاتھ اور قد کو لمبا کر سکتے ہیں مگر کوئی اتنے بڑے بڑے جنات کو اتنا
چھوٹا بھی کر سکتا ہے۔ یہ ان کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔ صندل بولی،”میں چاہوں تو
انہیں ایک فٹ سے بھی کم کر سکتی ہوں۔ تم نے اگر میری بات نہیں مانی تو تمہارا حشر
بھی ایسا ہی ہو گا۔ اب یہ اسی وقت اپنی اصلی حالت پر لوٹیں گے جب ان کے اندر سے
شیطانی قوت ختم ہو جائے گی۔ بھگوان کی شکتی کے آگے کوئی شیطان بڑا نہیں رہ سکتا۔”
اب
سب صندل کی جانب متوجہ ہو گئے۔ بولے۔”بھگوان کی شکتی کیا ہے؟”صندل بولی،”بھگوان کی
شکتی وہ قوت ہے جو امن و سکون بخشتی ہے اور شر کا مقابلہ کرنے کی سکت عطا کرتی ہے۔”آج
پہلے دن تمام کلاس نے سکون سے صندل کی بات سنی۔ واپسی پر پرنسپل عزا اور دوسرے
اساتذہ کو جب معلوم ہوا کہ جنوں کے ایک ٹولے کو صندل نے سزا کے طور پر چھوٹا بنا
دیا ہے تو وہ سب دیکھنے کے لئے آئے۔ پہلے تو وہ سب حیران ہوئے کہ یہ کس طرح اتنے
سکڑ گئے۔ پھر سارے ہی خوش ہوئے۔ سب نے صندل سے خوشی میں ہاتھ ملایا اور کہنے لگے۔”ان
لوگوں کی شرارتوں سے تو ٹیچر بھی پناہ مانگتے ہیں۔ ان لوگوں نے سب کو عاجز کر دیا
ہے۔ ہم نے انہیں ایک ایک کر کے علیحدہ علیحدہ اسکول میں بھی رکھا۔ مگر وہاں بھی یہ
اپنے ساتھ چند لڑکوں کو لے کر اسی طرح شیطانی حرکات کرتے تھے اور کسی کو اچھی بات
نہیں سننے دیتے تھے۔ جاہلیت کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی شرارتوں میں اضافہ ہی
ہوتا چلا گیا۔ تب شاہ جنات نے سلطان بابا سے اسی شر کے انسداد کی درخواست کی۔
سلطان بابا کا اصل منصب تو ہمیں نہیں معلوم مگر ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ وہ رب
کے حکم پر ضرور تمندوں کے کام آتے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ سلطان بابا کی مدد سے
ہماری مشکل آسان ہو جائے گی”۔ پھر وہ کہنے لگے۔ “اس کے علاوہ بھی ایسے شریر جنات
ہیں جو تعلیم گاہوں کی فضا کو خراب کر رہے ہیں۔ ہم کچھ عرصے بعد آپ کو وہاں بھی
رکھیں گے۔”صندل بولی،”میں تیار ہوں۔”اس پر پرنسپل عزا نے کہا، “صندل جی اگر آپ
چاہیں تو ایسا کر لیتے ہیں کہ اس اسکول کی ریگولر کلاسیں اب دوسرے اساتذہ کے سپرد
کر دیتے ہیں۔ اور آپ کو ہم دوسری درسگاہوں کا دورہ کرا دیتے ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ
آپ بیک وقت سب جگہ کچھ وقت دیں۔ آپ ہر روز ایک سے زیادہ اسکولوں میں اپنا وقت و
توجہ دیں گی تو ہماری تعلیم کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
پرنسپل
عزا کی تجویز صندل کو پسند آئی۔ وہ کہنے لگی۔”یہ ٹھیک ہے ، اگر میں آپ کی تمام
درسگاہوں کا معائنہ کروں تو مجھے آپ کے تعلیمی سسٹم کا اندازہ ہو جائے گا اور پھر
اسی کے مطابق میں اپنی رائے اور تجویز آپ کے سامنے پیش کر سکتی ہوں۔”پرنسپل عزا ،
صندل کے جواب پر انتہائی خوش ہوا اور مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا پھر ان کے
سامنے ایک گاڑی لائی گئی جو دروازے کے بالکل سامنے آ کر رک گئی۔ اس میں ایک جن
عورت اتری۔ یہ شوفر تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ یہ کار عجیب سی تھی۔ اس
کی صورت خنزیر جیسی تھی۔ پہیوں کی جگہ چارپاؤں بنے ہوئے تھے۔ صندل اور عزا کے
بیٹھتے ہی یہ گاڑی اوپر کو اٹھنے لگی اور نہایت ہی تیزی سے فضا میں چلنے لگی۔ صندل
نے سوچا یہ کار فضا میں اڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے پہیوں کی جگہ پاؤں ہیں۔
پرنسپل عزا نے بتایاکہ،”عالم جنات میں خنزیر اور سانپ کو بہت ہی زیادہ متبرک سمجھا
جاتا ہے۔ اس لئے یہاں زیادہ تر چیزیں آپ کو اسی صورت میں ملیں گی”۔ اس دن پرنسپل
نے اس گاڑی میں صندل کو شہر کی کافی ساری درسگاہوں کی سیر کرائی۔ یہ دیکھ کر صندل
سوچ میں پڑ گئی کہ جتنے بھی اسکول ہیں سب کی عمارتوں کی طرز تعمیر ایک ہی ہے۔
چنانچہ اس نے عزا سے پوچھا۔”ان سب کی طرز تعمیر ایک سی کیوں ہے؟”وہ کہنے لگے،”ایجوکیشن
بورڈ کی طرف سے ہمیں اس کا آرڈر ملا تھا کہ تمام اسکولوں کی تمام عمارتیں ایک ہی
طرز پر تعمیر کی جائیں گی۔”صندل نے پوچھا،”مگر اس نقشے میں مثلث کی صورت رکھنے کی
کیا حکمت ہے۔ سارا اسکول بھی مثلث کی صورت میں ہے اور ہر کلاس روم بھی اس شکل پر
ہے۔”عزا نے کہا،”دراصل ایجوکیشن بورڈ میں تمام اسکولوں کے پرنسپل اس میٹنگ میں
شامل ہوئے تھے وہاں اور بھی نقشے تھے مگر سب کو یہی پسند آیا تھا۔ اس وجہ سے ساری
عمارتیں ایک ہی طرزپر بن گئیں۔”
صندل
بولی،”عزا صاحب! قبل اس کے کہ میں دوسرے اسکولوں میں جا کر طالبعلموں سے ملوں اور
انہیں تعلیم دوں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ بورڈ کی ایک میٹنگ بلائیں اور اس کے اندر
مجھے شمولیت کی اجازت دیں تا کہ میں آپ کے تعلیمی سسٹم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے
متعلق اپنی تجاویز پیش کروں اور پھر اس کے مطابق کام ہو۔”پرنسپل عزا کو صندل کی
بات بہت پسند آئی۔ اس نے کہا،”یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ میں جلد از جلد اس میٹنگ
کا انتظام کرتا ہوں اس دوران آپ حسب معمول اپنے اسکول آتی رہیئے گا”۔ پھر وہ مسکرا
کے سر قدرے ہلاتے ہوئے بولا،”تاکہ صندل جی آپ کے درشن ہوتے رہیں۔”صندل ہنس پڑی۔
دوسری رات جیسے ہی اس نے قرآن کھولا۔ اس کی نظر اس آیت پر پڑی۔”ہم نے آدم کو
اسمائے الٰہیہ کے کل علوم عطا کئے “ اس کے ذہن میں خیال آیا۔ اسمائے الٰہیہ کے
علوم کیا ہیں؟ اس کے اندر انہیں حاصل کرنے کا تقاضا پیدا ہوا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر
بھگوان سے پرارتھنا کی کہ سلطان بابا کے وسیلے سے اسے یہ علوم عطا ہوں۔ اسے یوں لگ
رہا تھا کہ دعا کے الفاظ بھی اس کے دماغ میں خود بخود اتر رہے ہیں۔ اس کے بعد
سلطان بابا اس کے سامنے آ گئے۔ فرمایا،”صندل، قرآن پڑھو تمہارے لئے سب کچھ اسی میں
ہے۔”صندل نے جھک کر ان کے قدم چومے اور قرآن پڑھنے لگی۔ چند منٹ کے اندر ہی اس کا
انہماک اس قدر بڑھ گیا کہ اسے اپنے گرد و پیش کی خبر نہ رہی۔
صندل
کو محسوس ہوا کہ اس کا سر کھل گیا ہے اور اس کے اندر آسمان سے نور نکل کر داخل ہو
رہا ہے۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد اس نے قرآن کو چوما اور جزدان میں بند کر کے کمرے کی
دیوار میں لگی الماری کے اندر حفاظت سے رکھ دیا۔ اور پھر سجدے میں سر رکھ کر عالم
جنات میں پہنچ گئی۔
اب
وہ ان جنات لڑکوں سے کافی گھل مل گئی تھی۔ وہ بھی اس کی بات آرام سے سنتے صرف وہ
شیطانی ٹولہ ابھی تک اسی حال میں تھا۔ جب صندل ان کے پاس جاتی تو وہ اسے دیکھنا
بھی گوارہ نہ کرتے۔ صندل کو ان کی اتنی پروا بھی نہ تھی۔ وہ اپنا زیادہ وقت انہیں
دینا چاہتی تھی جو اس کی بات سنتے تھے۔ تا کہ زیادہ لوگ اس سے مستفیض ہو سکیں اور
سلطان بابا نے اسے جس مقصد کے لئے یہاں بھیجا ہے وہ مقصد پورا ہو سکے۔
دن
اسی طرح گزرتے رہے۔ صندل پابندی سے اپنی ڈیوٹی کرتی رہی ۔چند دن اسی طرح گزر گئے۔
ایک دن پرنسپل عزا نے صندل کو بتایا میٹنگ کا انتظام ہو گیا ہے اور ایجوکیشن بورڈ
کے تقریباً تمام ممبران نے اس میٹنگ میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وہ سب آپ
سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ صبح سویرے جب وہ بستر سے اٹھی تو اس کے دل میں بڑی شدت
سے یہ خیال آنے لگا کہ وہ آج سلطان بابا کے مزار پر حاضری دے۔ وہ جانتی تھی کہ جب
اس کے دل میں بے ساختہ سلطان بابا کے مزار پر حاضری دیتے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے
اسے یوں لگا جیسے سلطان بابا اس کے منتظر تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ ضرور ایسا ہے کہ جب
سلطان بابا چاہتے ہیں کہ میں ان کی قبر پر حاضری دوں تو پھر میرے دل میں بھی ان کے
مزار پر جانے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے۔ اس خیال نے اسے خوش کر دیا کہ سلطان بابا
مجھے یاد کرتے ہیں۔ ان کی یاد کی کشش مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس نے جلدی جلدی
ناشتہ کیا اور ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کا منہ چومنے لگی۔ ماں جان گئی کہ
آج یہ لاڈ ضرور کسی چیز کی فرمائش کے لئے ہو رہا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے مزاج سے خوب
واقف تھی، بولی ہاں میری لاڈو کیا چاہئے؟ صندل ماں کے گال چومتے ہوئے بولی ماں میں
سلطان بابا کے مزار پر چلی جاؤں۔ ماں ہنس دی۔ بس اتنی سی بات ، جا چلی جا، تجھے
میں روکتی ہوں کیا۔
صندل
خوشی میں لہراتی ہوئی اپنے کمرے میں تیار ہونے کے لئے دوڑی۔ ماں ممتا کے سرور میں
سرشار اپنے آپ ہی کہنے لگی۔”بچی ہے بالکل بچی۔”آج صندل کے اندر سے جیسے خوشی کے
فوارے پھوٹ رہے تھے۔ دل کی خوشی ہونٹوں کا نغمہ بن گئی۔ اپنی خوشی کا سبب وہ خود
نہیں جانتی تھی۔ اس نے گہرے سرخ رنگ کا لہنگا کرتہ پہنا اور ماتھے پر بند یا
لگائی۔ پھر اوڑھنی سے سر ڈھانک کر باہر نکل گئی۔ وہ حسب معمول قبر کی پائنتی پر
بیٹھ گئی۔ اور دونوں ہاتھ جوڑ کر سلطان بابا کو پرنام کیا۔ پھر چپ چاپ آنکھیں بند
کر کے بیٹھ گئی۔ مراقبہ میں بیٹھتے ہی اس کے سامنے سلطان بابا کی شبیہ آ گئی۔
سلطان بابا، سلطان بابا۔ آج آپ مجھے یاد کر رہے تھے نا۔ سلطان بابا نے مسکرا کے
صندل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”تمہیں کیسے معلوم؟”وہ بولی،”اس لئے کہ مجھے
بھی آپ کی یاد آ رہی تھی۔”سلطان بابا بولے۔”اسی لیے میں تمہیں یہاں بلانا چاہتا
تھا۔”
یہ
کہہ کر سلطان بابا نے ہاتھ آگے بڑھائے۔ ان کے ہاتھ میں ایک سفید اسکارف تھا جس پر
سفید رنگ کے دھاگوں سے بڑی خوبصورت کڑھائی تھی۔ کہنے لگے۔”صندل کل جب تم میٹنگ میں
جاؤ تو یہ اسکارف پہن لینا۔”صندل نے شکریہ کے ساتھ وہ اسکارف لے لیا۔ پھر سلطان
بابا نے فرمایا صندل اب تم گھر جاؤ۔ صندل نے مراقبہ میں ہی ان کے قدم چومے۔ پھر
آنکھیں کھولیں اور ان کی قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر کر عقیدت سے اپنے ماتھے پر
لگائی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کرکھڑی ہوئی اور قبر کو پرنام کر کے جانے کے لئے جو پیچھے
مڑی تو دو قدم کے فاصلے پر شہباز کو کھڑے پایا۔ یوں اچانک اتنے قریب اسے دیکھ کر
صندل اتنی زور سے چونک اٹھی کہ اس کا سارا بدن جھولتی ڈالی کی طرح لہرا کے رہ گیا۔
اس کے سر سے چیز یا سرک گئی۔ شہباز مسکرا کے بولا۔”نمستے صندل جی، معاف کرنا میں
نے آپ کو چونکا دیا۔”صندل اپنی تیز چلتی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے
بولی۔”نمستے”اور جانے کے لئے قدم بڑھائے۔ اس کا خیال تھا شہباز خود سامنے سے ہٹ
جائے گا مگر وہ اسی طرح کھڑا رہا۔ بلکہ اب تو وہ اور بھی قریب آ گیا۔ صندل ابھی
کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ شہباز نے اس کے آگے ہاتھ بڑھائے۔ اس کے ہاتھ میں
اسکارف تھا جس پر سفید ریشمی دھاگے سے کڑھائی تھی۔ صندل کا دل زور سے دھڑک اٹھا۔
وہ ایک دم بول پڑی۔”یہ کیا ہے؟”شہباز بڑے اطمینان سے بولا۔”یہ اسکارف ہے، میں نے
سوچا آپ قرآن پڑھتی ہیں نا تو یہ اسکارف پہن کر پڑھا کریں۔”صندل کی نظریں اسکارف
پر لگی تھیں۔ اس کا ذہن بالکل خالی تھا اور ذہن کے پردے پر چند لمحوں پہلے کی فلم
چل رہی تھی جب سلطان بابا نے اسے اسکارف دیا۔ صندل نے ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ شہباز
نے اس کے ہاتھوں میں اسکارف تھما دیا۔ بے اختیاری سے اس نے وہ اسکارف اپنی آنکھوں
سے لگا کر چوما اور اسی کیفیت میں تیز تیز قدم بڑھاتی گھر کی جانب چلنے لگی۔
اس
کا ذہن مسلسل یہی سین دہرا رہا تھا کہ سلطان بابا سے یہ اسکارف لے رہی ہے۔ اس کی
تمام تر توجہ اسی جانب تھی۔ اسے گرد و پیش کا ہوش نہ تھا، قدم خود بخود ہی گھر کی
جانب بڑھے جا رہے تھے۔ جب وہ دروازہ کھولنے لگی تب اچانک اس کے اوپر لاشعوری غلبہ
ختم ہو گیا اور وہ بالکل نارمل ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں میں شہباز کا
دیا ہوا اسکارف ہے۔ وہ اسے اچھی طرح پہچان گئی۔ بالکل ہوبہو یہی اسکارف سلطان بابا
نے اسے دیا تھا۔ اس کے سارے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ یہ اسکارف شہباز کے پاس
کیسے آ گیا۔ ابھی اس کا ذہن کوئی جواب دینے بھی نہ پایا تھا کہ ماں اس کے پاس آ
پہنچی۔”آگئی میری بیٹی۔ ارے تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟”صندل بولی،”ماں یہ اسکارف
سلطان بابا نے مجھے دیا ہے ۔ بولے پوجا کرتے وقت یہ پہن لیا کرو۔”ماں نے اس کے
ہاتھ سے لے کر اسے کھول کر دیکھا اور پھر صندل کو پکڑا دیا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے
بولی۔”صندل تو اکیلی سلطان بابا کے مزار پر نہ جایا کر بیٹی۔”صندل گھبرا کے بولی،”کیوں
ماں، کیوں نہ جایا کروں۔ دیکھو تو سلطان بابا مجھ پر کتنی عنایتیں کرتے ہیں۔”ماں
کے چہرے پر فکر کے آثار جھلکنے لگے۔ وہ گہری آواز میں بولی،”بیٹی سلطان بابا پہنچے
ہوئے فقیر ہیں۔ فقیروں کی شکتی سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا۔ مگر تو ابھی
جوان ہے۔ کمسن اور نادان ہے۔ میں ڈرتی ہوں ان کی عنایتیں تجھ پر بڑھتی جا رہی ہیں۔”صندل
نے اس سے آگے ماں کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دیا۔ معصوم مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔”ماں
تم کیوں فکر کرتی ہو، فقیر تو لوگوں کے کام آتے ہیں۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ میں
لوگوں کے کام آؤں۔”یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اسی
رات جب سب سو گئے۔ صندل چپ چاپ اپنے عبادت والے کمرے میں آئی۔ اس نے وہ اسکارف
آنکھوں سے لگا کر چوما اور سر باندھ لیا۔ پھر سجدے میں سر رکھ کر بھگوان کا شکریہ
ادا کیا اور پھر قرآن پڑھنے لگی۔ اس میں لکھا تھا:
“اللہ ہر شے پر محیط ہے۔”
اس
کا ذہن بار بار اسی آیت کے مفہوم کو دہرانے لگا۔ قرآن اس کے سامنے کھلوا ہوا تھا۔
اس کی نظریں قرآن پر جمی ہوئی تھیں اور ذہن”اللہ ہر شے پر محیط ہے۔”کی مسلسل تکرار
کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے تمام حواس اس آیت کے نور میں ڈوب گئے اور اسی وقت اس
کا لطیف جسم مٹی کے بھاری جسم میں سے باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا وہ سفید لباس پہنے
اور سلطان بابا کا عطا کردہ سفید اسکارف اوڑھے عالم جنات کی جانب عازم سفر ہے۔ اس
کے سارے حواس اس لطیف جسم کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ وہ درسگاہ میں پہنچی۔ پرنسپل عزا
اس کے انتظار میں تھے۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر میٹنگ روم میں پہنچے۔ یہ ایک عظیم
الشان عمارت تھی جس کا بہت بڑا آبنوسی دروازہ اس کی شان میں مزید اضافہ کر رہا
تھا۔ پرنسپل عزا نے بتایا۔”یہ ایجوکیشن بورڈ کا دفتر ہے۔”اس کا میٹنگ ہال بہت
خوبصورت تھا۔ درمیان میں لمبی میز کے اطراف میں کرسیاں تھیں۔ دیواروں پر خوبصورت
نقاشی تھی۔ جیسے ہی صندل اور عزا نے اندر قدم رکھا تمام لوگ کھڑے ہو گئے اور سب نے
خوش ہو کر انہیں خوش آمدید کہا۔ صندل کو درمیان میں خصوصی جگہ پر بٹھایا گیا۔ سب
سے تعارف ہوا اور پھر باقاعدہ میٹنگ کا آغاز ہوا۔
بورڈ
کے چیئرمین نے کہا۔”صندل جی، آپ ہمارے یہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھ چکی ہیں۔ آپ اس
کی درستگی کے لئے جو مشورے بھی دیں گی وہ ہمارے لئے بہت قیمتی ہوں گے۔ ہم آپ کے
قیمتی مشوروں کے منتظر ہیں۔”صندل نے صدر صاحب کا اور سب کا شکریہ ادا کیا اور
بولی۔”جناب والا، نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور نافرمانی کو دیکھتے
ہوئے تعلیمی سلسلے میں آپ کی کوشش قابل تعریف ہے۔ اس سلسلے میں، میں چند چیزوں کی
جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتی ہوں۔ سب سے پہلے تو میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اسکول
کی تمام عمارتوں کی تعمیر مثلث پر کیوں بنائی گئی؟ چیئرمین نے آرکیٹیکٹ کی جانب
اشارہ کیا کہ وہ اس سوال کا جواب دیں۔ اس نے کہا۔”میڈم میرا کام نقشے بنانا ہے۔
میرے ذہن میں جو جو نقشے آئے میں نے وہ بنا کر بورڈ کے سامنے پیش کر دیئے۔ ان میں
سے مثلث والا طرز تعمیر کا نقشہ سب کو بہت پسند آیا۔ صرف چند لوگ ایسے تھے جنہوں
نے اسے پسند نہیں کیا تھا۔ مگر اتفاق رائے کی وجہ سے پاس ہو گیا اور تمام درسگاہیں
اس نقشے کے مطابق تعمیر ہو گئیں۔”اب چیئرمین نے لوگوں سے پوچھا۔”کیا آپ بتا سکتے
ہیں کہ اس نقشے میں کیا خوبی دیکھ کر آپ نے پسند کیا۔”تقریباً سب نے یہی کہا۔”ہمیں
مثلث کے تکون زاویوں میں کشش محسوس ہوئی۔”
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی