Topics
کائنات تین دائروں میں سفر کر رہی ہے:
پہلا دائرہ روح ہے
دوسرا دائرہ روح کا بنا
ہوا لباس (نسمہ) ہے
تیسرا دائرہ نسمہ کا بنا
ہوا لباس مادی وجود ہے۔
تینوں دائرے بیک وقت حرکت
کرتے ہیں، روح کے بنائے ہوئے لباس کے دو رخ ہیں۔ ایک مفرد لہروں سے اور دوسرا مرکب
لہروں سے بنا ہوا ہے، مفرد اور مرکب دونوں رخ الگ الگ بھی ہیں اور ایک دوسرے میں
پیوست بھی ہیں۔ اس کی مثال ورق ہے، ورق کے دونوں صفحے لکھے ہوئے ہیں، انسان کی
زندگی کے اعمال ورق کے دونوں صفحوں میں رد و بدل ہوتے رہتے ہیں، بیداری کی زندگی
شعور ہے، خواب کی زندگی لاشعور ہے، شعوری زندگی میں ذہن اور حافظہ دونوں کام کرتے
ہیں، لاشعوری زندگی میں بھی ذہن اور حافظہ دونوں کام کرتے ہیں، زندگی کے تقاضے
شعوری ہوں یا لاشعوری اطلاعات کے تابع ہیں، شعور ہر ہر قدم پر محدود اور محتاج ہے،
لاشعوری زندگی شعوری زندگی کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔
ہر انسان حواس میں زندہ
ہے اور حواس کے ساتھ ساتھ تقاضوں کا ایک لامتناہی عمل اور رد عمل ہے، کائناتی نظام
میں یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ پورا کائناتی سسٹم نزول اور صعود پر قائم
ہے، ہر اطلاع نزول کرتی ہے اور صعود کر کے دائرے کو مکمل کرتی ہے، لاشعور سے جو
خیالات منتقل ہوتے ہیں وہ شعور میں آنے کے بعد عمل بنتے ہیں۔
آسمانی کتابیں شعور اور
لاشعور کے الٹ پلٹ کو لیل و نہار کہتی ہیں، لیل و نہار ایک دوسرے میں الٹ پلٹ ہوتے
رہتے ہیں یعنی رات دن میں داخل ہو جاتی ہے اور دن رات میں داخل ہوتا ہے۔ الٰہی
قانون کے تحت رات کو دن پر سے ادھیڑ لیا جاتا ہے، پیدائش کے وقت بچے پر لاشعور کا
غلبہ ہوتا ہے اتنا زیادہ غلبہ ہوتا ہے کہ ورق کا ایک صفحہ نہ صرف یہ کہ دھندلا نظر
آتا ہے بلکہ اس صفحہ پر کوئی تحریر نظر نہیں آتی، جیسے جیسے بچہ ماحول میں وقت
گزارتا ہے اسی مناسبت سے شعور کے کورے صفحہ پر والدین کے شعور، خاندان کے شعور،
ماحول کے شعور کے نقوش یا تحریریں مرتب اور واضح ہونے لگتی ہیں۔ بارہ سال کی عمر
تک وہ صفحہ جسے ہم شعور کہہ رہے ہیں اتنا زیادہ روشن ہو جاتا ہے کہ لاشعوری صفحہ
دھندلا پڑ جاتا ہے لیکن صفحہ کے اوپر نقوش ختم نہیں ہوتے۔ اگر شعور کا صفحہ اتنا
زیادہ روشن ہو جائے کہ لاشعوری صفحہ کی تحریر پڑھی نہ جا سکے تو مفروضہ حواس کا
غلبہ ہو جاتا ہے، بارہ سال کی عمر تک بچہ اس قابل ہو جاتا ہے یا ماحول کے زیر اثر
اس کو اس قابل کر دیا جاتا ہے کہ لاشعوری صفحہ کی تحریر سے اس کی نظر ہٹ جاتی ہے
اور بالغ ہونے کے بعد وہ لاشعور سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
بے خبر ہونے کا مطلب
لاشعوری تحریر کا مٹ جانا ہے، لاشعوری تحریر اگر ختم ہو جائے گی تو زندگی کا تسلسل
ٹوٹ جائے گا، قدرت نے اس زنجیر کو برقرار رکھنے کے لئے شعوری اور لاشعوری حواس کو
نصف نصف تقسیم کر دیا ہے، آدمی جب رات میں داخل ہوتا ہے تو دراصل لاشعور میں داخل
ہوتا ہے، آدمی جب دن میں داخل ہوتا ہے تو وہ شعور میں قدم رکھتا ہے۔
پیدائش سے لے کر مرنے تک
کی کل عمر میں اگر شعور اور لاشعور کے وقفوں کا تجزیہ کیا جائے تو حساب کتاب سے یہ
بات منکشف ہوتی ہے کہ انسان آدھی زندگی لاشعور میں گزارتا ہے اور آدھی زندگی شعور
میں رہتا ہے، یہ نظام قدرت ہر فرد میں جاری و ساری ہے، مفروضہ حواس میں آنے کے بعد
اگر لاشعوری نظام برقرار نہ رہے تو زندگی کے عوامل (مرنے کے بعد کی زندگی) معدوم
ہو جائیں گے۔
آسمان، زمین، جنت، دوزخ،
فرشتے، جنات سب اس لئے ہیں کہ شعور اور لاشعور دونوں بیک وقت کام کر رہے ہیں۔ فرق
یہ ہے کہ زندگی کے ایک وقفہ میں لاشعور مغلوب ہو جاتا ہے۔ شعور و لاشعور دونوں الٹ
پلٹ ہوتے رہتے ہیں، شعور کی رفتار نہایت کم اور محدود ہے۔ لاشعور کی رفتار بہت
زیادہ ہے۔ تخلیقی فارمولوں سے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ آدمی ٹائم اسپیس سے کہیں بھی
آزاد نہیں ہوتا۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ شعور کی رفتار زیادہ ہو جاتی ہے، اتنی
زیادہ ہو جاتی ہے کہ محدودیت ٹوٹنے کا احساس نمایاں ہونے لگتا ہے۔
مثال: جب ہم سو جاتے ہیں
تو دیکھتے ہیں کہ ہم ایک باغ میں ہیں، وہاں پھول ہیں، کیاریاں ہیں، درخت ہیں،
درختوں میں پھل لگے ہوئے ہیں۔ ہم زمین پر کھڑے ہو کر اس باغ کا نظارہ کرتے ہیں اور
درخت میں سے توڑ کر پھل کھاتے ہیں۔ یہ سارا عمل شعوری زندگی کا ہے جو ہم لاشعوری
زندگی میں کر رہے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ نکلا کہ شعور ہو یا لاشعور انسان دونوں زون
میں ٹائم اسپیس سے آزاد نہیں ہے۔
بیداری کی نسبت لاشعور
میں انسانی حواس کی رفتار تقریباً ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے، رفتار زیادہ ہونے
کو ٹائم اسپیس سے آزادی کہا جاتا ہے، شعوری زندگی جس مکان و زمان کی پابند ہے، وہ
پابندی لاشعوری زندگی میں ٹوٹ جاتی ہے، ہزاروں گنا رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے
محسوس کیا جاتا ہے کہ ہم مکان و زمان سے آزاد ہو گئے ہیں۔ شعوری زندگی میں بھی
رفتار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ ایک آدمی پیدل چلتا ہے، دوسرا سائیکل پر سوار ہے،
تیسرا کار میں ہے، چوتھا آدمی جہاز میں پرواز کر رہا ہے، پانچواں آدمی جدید کنکارڈ
طیارے کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے، دیکھئے ہر سٹیج پر رفتار تبدیل ہو
جاتی ہے۔
دن کے حواس سے نکل کر
انسان جب رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے تو مادی عناصر سے بنا ہوا جسم معطل ہو
جاتا ہے اور مادی عناصر سے جسم کو متحرک رکھنے والی ایجنسی نسمہ کی حرکت براہ راست
شروع ہو جاتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ آدمی زمان و مکان سے آزاد ہو گیا ہے۔
دراصل رفتار میں کمی یا
زیادتی شعور اور لاشعور میں تفریق ہے۔ شعوری زندگی آزاد نہیں ہے۔ لاشعور کے اوپر
منحصر ہے، شعوری زندگی میں جتنے حواس کام کر رہے ہیں اس کی بنیاد لاشعور ہے، جب
کوئی انسان شعور میں رہتے ہوئے لاشعوری حواس و احساسات و جذبات کے سورس کو تلاش کر
لیتا ہے تو وہ لاشعوری حواس کی رفتار سے سفر شروع کر دیتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے