Topics
شاگرد کو روحانی طرز فکر کس طرح حاصل ہوتی ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
کوئی بھی علم ہو وہ استاد کے بغیر نہیں آتا۔ لوہار کو بھی استاد کی ضرورت ہے۔ بڑھئی کو بھی استاد کی ضرورت ہے۔ جب بچہ اسکول میں جاتا ہے تو اس کو استاد a,b,c,dپڑھاتا ہے اور وہ اس کی رہنمائی میں بغیر چوں و چرا کئے استاد کی بات کو مان لیتا ہے۔ اور a,b,c,dیاد کر لیتا ہے۔ a,b,c,dکے بعد استاد حروف کے جوڑ سکھاتا ہے۔ حروف کے جوڑ کے بعد جملے بنانا سکھاتا ہے اور نتیجے میں وہ بچہ بولنے بھی لگتا ہے اور لکھنے بھی لگتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی علم سیکھنے کے لئے استاد کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طالب علم کو اپنی بات منوانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی شاگرد استاد کی بات پر بغیر چوں و چرا کیے عمل نہیں کرے گا وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔مثلاً آدمی انگریزی میں Ph.Dہے۔
اس نے اردو نہیں سیکھی۔ وہ اردو پڑھنا چاہتا ہے، جب وہ اردو ٹیچر کے پاس جائے گا، وہ ٹیچر اس کو A,B,Cنہیں پڑھائے گا، اب،ب،ج پڑھائے گا۔ اگر Ph.Dآدمی یہ سوال کر دے کہ ’ا‘ کیوں ہے اور ’ب‘ کیوں ہے اور ’ج‘ کیوں ہے تو وہ کبھی بھی اردو نہیں سیکھ سکے گا۔ حالانکہ وہ Ph.Dہے، انگلش میں ماسٹرز ہے لیکن اسے دوسری زبان سیکھنی ہے تو اس کو اسی پوزیشن میں آنا پڑے گا جس پوزیشن میں بچہ a,b,c,dپڑھنے کے وقت ہوتا ہے۔
استاد کی طرز فکر کا مطلب یہ ہے کہ استاد کے ذہن میں جو کچھ ہے اسے آپ من و عن قبول کر لیں۔ ایک آدمی چار زبانیں پڑھا ہوا ہے، سندھی نہیں جانتا۔ جب سندھی پڑھے تو وہ صرف سندھی زبان کی طرف متوجہ ہو گا۔ استاد کے اندر علم کا جو ذخیرہ ہے، وہ اس کو عقل استعمال کئے بغیر قبول کرنا ہے۔
یہی بات روحانیت کی بھی ہے۔ سائیکالوجی، پیراسائیکالوجی کے علم کی بھی ہے، میتھ اور علم سیارگان کی ہے۔ بے شمار علوم ہیں جن میں روحانی علوم بھی ہیں۔ ایک آدمی کی عمر 25سال ہے۔ جب وہ روحانی استاد کے پاس جائے گا تو وہ اس کو چند الفاظ تلقین کرے گا کہ یہ پڑھو۔ اگر وہ ان الفاظ کو a,b,c,dکی طرح قبول کر لیتا ہے تب تو وہ روحانی علوم سیکھے گا ورنہ وہ روحانی علوم نہیں سیکھ سکتا۔
علوم سیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تختی، سلیٹ، کاپی اور پین کی ضرورت پڑتی ہے اور ایک طریقہ یہ ہے کہ کاپی، سلیٹ کچھ نہ ہو، محض ذہنی ربط اور تعلق ہو۔ جیسے مادری زبان ہے۔ مادری زبان میں تختی اور قلم کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن بچہ مادری زبان بولنے لگتا ہے۔
سوال: بچہ مادری زبان کیسے سیکھ لیتا ہے؟
جواب: ماں جو لفظ بولتی ہے وہ روشنیوں میں تحلیل ہو کر بچے کے شعور پر لکھے جاتے ہیں۔ جیسے میں بول رہا ہوں۔ آپ میری آواز سن رہے ہیں۔ آپ یہ کہیں گے کہ میرے کان سن رہے ہیں۔ کان تو سن رہے ہیں، اگر میری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہوا کے دوش پر آپ کے کانوں تک نہ پہنچیں تو آپ نہیں سن سکتے تھے۔
جو کچھ ہم بولتے ہیں وہ لفظ روشنیوں میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ آج کل کے زمانے میں اس کا سمجھنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ ٹی وی پر ایک صاحب تقریر کر رہے ہیں وہ تقریر آپ یہاں بیٹھے سن رہے ہیں۔
کس بنیاد پر سن رہے ہیں؟
کیوں سن رہے ہیں؟
اسلام آباد سے پروگرام چل رہا ہے یہاں آپ کس طرح سن رہے ہیں؟
لہروں کے ذریعے سن رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
منہ سے جو لہریں نکلیں، ٹرانسمیٹر نے ان لہروں کو پکڑا اور فضا میں نشر کر دیا۔ ریڈیو، وائرلیس اور ٹی وی نے ان لہروں کو آپ تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہر انسان کے دماغ کے اندر ایک ٹی وی سیٹ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں پہلے سے اس کے لفظ متعین ہیں۔ مثلاً میں کہتا ہوں پانی۔ پانی یہاں موجود نہیں ہے۔ گلاس بھی نہیں ہے جس میں پانی رکھا ہوا ہے۔
آپ نے کیسے سمجھا پانی؟ پانی کی کوئی تصویر نہیں بنی مگر میرے ذہن میں پانی کا جو تصور ہے وہ تصور لہروں کے ذریعے آپ کے دماغ میں منتقل ہوا نتیجے میں پانی سمجھ کر آپ نے مجھے پانی دے دیا۔
ہماری گفتگو کا سارا محور تصور کے اوپر قائم ہے۔ اگر ہمارے ذہن میں کسی چیز کا تصور نہیں ہو گا اور ہمارے ذہن میں کسی چیز کی شکل و صورت نہیں آئے گی تو ہم اسے بیان نہیں کر سکتے۔ ہمارے شعور میں پانی کا تصور موجود ہے۔ جب بھی ہمیں اس تصور سے کام لینے کی ضرورت پیش آتی ہے، ہمارے اندر اس کا تقاضا پیدا ہوتا ہے۔
ایک آدمی بول رہا ہے، کان لہریں catchنہیں کر رہے، کان آواز کی لہروں کو اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ آواز نہیں سنیں گے۔ کانوں کا سننا، دماغ کا محسوس کرنا، آنکھوں کا دیکھنا، یہ سب ایک نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا لہروں کا نظام ہے، یہاں جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ لہروں کے ذریعہ ہو رہا ہے۔
سوال: حالات ایسے ہیں کہ روحانی استاد کم ہیں، سیکھنے والے ز یادہ ہیں۔ کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک آدمی سے بہت سارے لوگ علوم سیکھ لیں۔ روحانیت کا کوئی اسکول نہیں ہے، کالج نہیں ہے، یونیورسٹی نہیں ہے؟
جواب: اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ شاگرد استاد سے ذہنی رشتہ قائم کرے اور مراقبہ میں اس کا تصور کرے۔ قانون کے مطابق استاد اور شاگرد دونوں روشنیوں کے اجسام ہیں۔ جب شاگرد استاد کا تصور کرے گا تو استاد کی روشنیاں شاگرد کے ذہن میں منتقل ہونگی اور ان روشنیوں کے واسطے سے روحانی علوم شاگرد کے اندر منتقل ہو جائیں گے۔ ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب ہم کسی سرسبز و شاداب درخت کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں سکون ملتا ہے۔ سکون اس لئے ملتا ہے کہ درخت کا سبز رنگ ہمارے انر میں ذخیرہ ہو جاتا ہے۔ اس ہی طرح جب ہم روحانی استاد کا تصور کرتے ہیں تو اس کے اندر کا علم، اس کے اندر کا سکون، اس کے اندر کا ذوق و شوق اور اس کے اندر سے قربت کا احساس شاگرد کے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔
سوال: روحانی علوم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگتا ہے؟
جواب: کسی بھی علم کو جب ہم سیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں وقت ضرور لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ علم کو آپ پانی میں گھول کر شربت کی طرح پی لیں۔ شربت پینے کے پیچھے وقت کی کارفرمائی ہے، میں نے ایک گلاس پانی لیا اور اس میں چینی کے دو ٹیبل سپون ڈالے، اس میں زیادہ سے زیادہ آپ کا ایک منٹ صرف ہوا اور میں نے شربت پی لیا۔ لیکن اگر ہم یہ تلاش کریں کہ جو شربت ہم نے ایک یا آدھے منٹ میں پیا وہ کس طرح بنا تو یہ منٹوں کا نہیں مہینوں کا عمل ہے۔
ترجہ فرمایئے!
کسان نے زمین میں کھیت بنائے پھر ہل چلایا۔ اس کے بعد گنا بویا۔ مہینوں میں گنے بڑے ہوئے۔ وہاں سے گنے بیلنے پر گئے۔ وہاں ان کا رس نچوڑا گیا۔ پھر اس رس کو پکایا گیا۔ پکانے کے بعد اس رس کو گھوٹا گیا تب چینی یا گڑ بنا۔ پھر وہ چینی بوریوں میں جمع ہوئی۔ ٹرکوں میں لاد دی گئی، ٹرکوں کے ذریعے منڈیوں میں پہنچی۔ آڑھتی نے خوردہ فروشوں کو فروخت کیا۔ آپ دکان میں گئے۔ آپ نے چینی خریدی۔ چینی کے دو چمچے گلاس میں لے کر اسے گھولا تب شربت بنا۔ ہم کسی بھی طرح اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ ایک منٹ میں شربت پی لیا گیا۔ اس لئے کہ اگر کھیت میں گنا نہیں بویا جائے گا، شربت نہیں بنے گا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آپ نے چینی پانی میں ملائی اور شربت تیار ہو گیا۔ چینی کا شربت تو آدھے منٹ میں بن جاتا ہے لیکن چینی تیار ہونے میں مہینوں کا وقت لگتا ہے۔ یعنی شربت بنانے کے لئے لوازمات کئی میہنوں میں پورے ہوتے ہیں۔ شربت کے لئے پانی اور چینی لازم و ملزوم ہیں۔ شربت کے لئے ضروری ہے کہ چینی ہو۔ چینی کے لئے ضروری ہے کہ گنا ہو۔ گنے کے لئے ضروری ہے زمین ہو۔ کام آپ آدھے منٹ میں کر رہے ہیں، شعور اس کو آدھا منٹ سمجھ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آدھے منٹ کا کام مہینوں پر محیط ہے۔ اس سارے پروسیس میں کم از کم چھ مہینے لگیں گے۔
اب پانی کی طرف آیئے! پانی اگر نہر سے آ رہا ہے تو پہلے پانی صاف ہو گا۔ پھر مشینیں اسے پمپ کریں گی، پھر پانی نلکوں میں آئے گا، اس پروسیس میں کافی وقت درکار ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے کہ جو وقت کا محتاج نہ ہو۔ جس میں ٹائم نہ لگتا ہو۔ جب شربت بنا کر پینے میں چھ مہینے کا وقفہ درکار ہے تو بغیر وقت کے آپ علم کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ اور مثالیں ہیں۔
کھانا پکا کر دسترخوان پر لگا دیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں آدمی نے کھانا کھا لیا۔ کھانے کے پیچھے بھی ایک پروسیس ہے۔ گیہوں کا بونا، اس کا کٹنا، بوریوں میں بھرنا، آٹا پیسنا، گوندھنا، توے پر روٹی پکنا۔ یہ سب وقت کی کارفرمائی ہے۔ اس لئے کہ اگر گیہوں نہیں ہو گا، آپ روٹی نہیں کھا سکتے۔ آپ نے گوشت کھایا۔ دو گھنٹے گوشت پکنے میں لگ جاتے ہیں۔
بکری کے بچے ہوں گے، وہ بڑے ہوں گے، پھر انہیں ذبح کیا جائے گا، قصائی کی دکان پر گوشت فروخت ہو گا۔ ہم قصائی کی دکان سے گوشت خریدیں گے۔
یہاں دنیا میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں ہے جو وقت کے پیمانوں میں بند نہ ہو اور وقت کے پیمانوں سے آزاد ہو۔ اگر کوئی چیز وقت کے پیمانوں سے آزاد نہیں ہے تو علوم بھی وقت کے پیمانوں میں بند ہیں۔ لہٰذا علوم سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ آپ Ph.Dکرتے ہیں۔ لیکن جب آپ وقت کا حساب لگائیں تو پتہ چلے گا تعلیم میں چوبیس پچیس سال لگ گئے ہیں۔ البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب وقت گزر جاتا ہے تو وقت کی نفی ہو جاتی ہے۔
آپ نے شادی کی، بچے ہوئے۔ اس میں بھی وقت درکار ہے۔ بچے پیدا ہونگے، جوان ہوں گے، ان کی شادیاں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”ماں کا ادب کرو، احترام کرو، تمہیں نو مہینے اپنے پیٹ میں لئے پھرتی ہے”۔ بچہ دنیا میں آیا، سوا دو سال تک دودھ پیا، جوان ہوا۔ اس نے تعلیم حاصل کی۔
ان تشریحات سے یہ قانون واضح ہوا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ وقت کے اندر بند ہے۔ وقت کا پابند ہے۔ آدمی جوان ہوتا ہے۔ جوان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک دم جوان ہو جائے۔ پیدائش سے جوانی تک اٹھارہ سال گزرتے ہیں۔ ان شب و روز کے گھنٹے بنائیں اور گھنٹوں کے منٹ بنائیں، دیکھیں آدمی کتنی دیر میں جوان ہوا ہے تومعلوم ہو گا کہ کتنے وقفوں میں آدمی جوان ہوا ہے۔ 94,60,800منٹ میں جوان ہوا۔
یہ سوال کہ روحانی علم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگ جاتا ہے؟
زیادہ وقت نہیں لگتا، وقت اتنا ہی لگتا ہے جتنا دوسرے علوم سیکھنے میں لگتا ہے۔ البتہ روحانی علوم اور مادی علوم میں فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے پہلے دن، عالم ارواح سے آتا ہے۔ عالم ارواح سے آنے کا مطلب ہے کہ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے شعور میں روحانیت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ وہ عالم روحانیت کے زون سے یہاں دنیا میں آیا ہے۔ جیسے جیسے وہ دنیا میں وقت گزارتا ہے روحانی علوم پردہ میں جاتے رہتے ہیں اور دنیاوی علوم سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس بات سے آپ سب واقف ہیں۔۔۔۔۔۔آپ نے ضرور دیکھا ہو گا کہ چھوٹے بچے کے سامنے زور سے بولیں تو بچہ چونک جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذرا اونچی آواز بچے کے شعور کے لئے ایک دھماکہ ہے۔ اگر بچے کے شعور کے لئے دھماکہ نہ ہوتا تو چونکتا نہیں، ڈرتا نہیں۔ کئی دفعہ بچہ اونچی آواز سن کر روتا ہے۔ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس دنیا کے شعور سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ جب شعور عادی ہو جاتا ہے تو بچہ بندوق کی آواز سے بھی نہیں ڈرتا۔ وہ خود بندوق چلاتا ہے اور شکار کھیلتا ہے۔ توپ کے گولے کی آواز سے اسے کچھ نہیں ہوتا۔ چھوٹے بچے کے سامنے کرخت آواز سے بولا جائے تو بچہ رونے لگتا ہے۔ اس کو آواز بری لگتی ہے۔ ماں باپ اسے سینے سے لگاتے ہیں، تھپکتے ہیں، پیار کرتے ہیں، اس کے سامنے ہنستے ہیں، تب بچہ چپ ہوتا ہے۔ بچے کا شعور گلاب کی پنکھڑی کی طرح ہے، نازک، ملائم اور جلد مرجھا جانے والا۔
اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو خصوصیت کے ساتھ تفکر کی دعوت دی ہے۔ جب آدمی تفکر کرنے لگتا ہے تو ہر چیز میں تفکر کرتا ہے۔ تفکر نہیں کرتا تو کسی چیز میں بھی نہیں کرتا۔ ایک بدصورت آدمی بچے کے سامنے آ جائے، بچہ ڈر جاتا ہے، رونے لگتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خوبصورت آدمی ذہنی طور پر بدصورت ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں بدصورتی ہوتی ہے۔ اس کے اندر کبر ہوتا ہے، غرور ہوتا ہے، نفرت کے جذبات ہوتے ہیں۔ اس کے اندر خود غرضی ہوتی ہے۔ لیکن بچہ اس خوبصورت چہرے کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کالے آدمی کو دیکھ کر بچہ خوش ہوتا ہے، مسکراتا ہے۔ کالے کلوٹے آدمی سے بچہ کیوں نہیں ڈرتا؟ اس لئے نہیں ڈرتا کہ بچے کا لاشعور دیکھ رہا ہے کہ کالا آدمی اندر سے خوبصورت ہے۔ اس کے اندر غرض نہیں ہے۔ لالچ نہیں ہے۔ ضد نہیں ہے۔ اس کے اندر حسد نہیں ہے۔
یہ تو ہوا بچوں کا معاملہ، اب بڑے بوڑھوں کی طرف آ جائیں۔ نہایت خوبصورت شکل کی دادی اماں ہیں۔ کئی دادیاں ایسی ہوتی ہیں کہ بچے ان کی گود میں گھستے ہیں۔ ان کو جا کر سلام کرتے ہیں۔ ان سے دعائیں لیتے ہیں۔ ان کے روئی کے گالے جیسا ہاتھ سر پر پھرا کے خوش ہوتے ہیں اور کئی بوڑھے آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جن سے سب واقف ہیں اور سب ان حالات سے گزرتے ہیں۔ بوڑھے آدمی کے شعور میں معصومیت ہے، بوڑھے آدمی کے شعور میں نیکی ہے، بوڑھے آدمی میں محبت ہے، شفقت ہے تو ہر آدمی اس کے پاس جا کر خوش ہو گا۔ سلام کرے گا، اس کے آگے جھکے گا اس سے دعائیں لے گا۔
مقصد یہ کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت دنیاوی شعور اس کے اندر صفر کے برابر ہوتا ہے۔ صرف اس کے اندر روحانیت ہوتی ہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بچہ لیٹا ہوا ہے۔ اس کے پاس کوئی نہیں ہے اور وہ کلکاریاں بھرتا ہے!۔۔۔۔۔۔ہم کہتے ہیں کہ یہ فرشتے دیکھ رہا ہے۔ بچہ لیٹا ہوا ہے، کھیل رہا ہے، کھیلتے کھیلتے ایک دم منہ بناتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کوئی بری شکل اس کے سامنے آ گئی ہے۔ وہ بری شکل ہم بڑوں کو نظر نہیں آتی، فرشتہ بھی ہم بڑوں کو نظر نہیں آتا، بچوں کو نظر آتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کے اندر وہ شعور کام کر رہا ہے جو شعور عالم غیب میں دیکھتا ہے، جو شعور روحانی دنیا کو دیکھتا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، روحانی شعور پردے میں چلا جاتا ہے اور دنیاوی شعور غالب آ جاتا ہے۔ بچہ لکھتا پڑھتا ہے، کاروبار کرتا ہے، شادی کرتا ہے۔ اب تیس سال اس کی عمر ہو گئی۔ پورے تیس سال دنیا کے شعور کو بالغ کرنے اور روحانی شعور کو نظر انداز کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ تیس سال دنیاوی شعور میں گزار کر وہ روحانیت سیکھنا چاہتا ہے۔
میرے دوستو!
میں نے دس سال پڑھ کر میٹرک کر لیا، ماسٹرز بھی کر لیا اور Ph.Dبھی کر لیا۔ کاروبار سیٹ ہو گیا، بچوں سے فارغ ہو گیا۔ اب میں کہتا ہوں مجھے روحانیت سیکھنی چاہئے۔ غور کریں! تیس سال مسلسل آپ روحانی شعور سے دور رہتے ہیں اور دنیاوی شعور غالب رہتا ہے۔
اگر آپ کو بچے کے پہلے دن کا شعور چاہئے تو آپ کو کیا کرنا ہو گا؟
آپ کو تیس سال پیچھے جانا ہو گا۔۔۔۔۔۔
تیس سال پیچھے جانے کے لئے آپ کو اپنے ماحول کی نفی کرنی پڑے گی۔ ماحول میں جو چیزیں رائج ہیں ان کی حقیقت کو جاننا ہو گا۔ بچہ پہلے دن سے جب تیس سال تک آگے بڑھا اس کے ساتھ دنیا کی ہر چیز نے تعاون کیا۔ غصے میں تعاون کیا، حسد میں تعاون کیا، لالچ میں تعاون کیا، خاندانی وجاہت میں تعاون کیا۔ اگر کسی بندے کو ماضی میں جانا ہے تو اسے تیس سال پیچھے جانا ہو گا۔ اگر تیس سال کا وقفہ نہیں گزارے گا تو بچے کے پہلے دن میں داخل نہیں ہو گا۔
جب آپ دنیاوی شعور حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً آپ پڑھتے ہیں تو پڑھنے میں آپ آٹھ سے بارہ گھنٹے روز صرف کرتے ہیں۔ تب آپ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اور ماسٹرز کی ڈگری میں تو پندرہ پندرہ، سولہ سولہ گھنٹے پڑھنا پڑتا ہے۔ خصوصاً یہ انجیئنرنگ اور ڈاکٹر میں تو پندرہ، پندرہ، سولہ سولہ گھنٹے عام پڑھائی ہوتی ہے۔
جب آپ روحانیت سیکھنے جاتے ہیں تو آپ کے پاس وقت نہیں ہے۔ بارہ گھنٹے پندرہ گھنٹے تو چھوڑیئے آپ کے پاس تو بیس منٹ کا وقت نہیں۔
بہت زیادہ ہوا رات کو سونے سے پہلے روحانیت سیکھنے کے لئے آپ آدھا گھنٹہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے۔ بارہ گھنٹے روزانہ پڑھ کر آپ نے جو شعور حاصل کیا اس کے برعکس روحانی شعور آپ آدھے گھنٹہ میں کیسے بیدار کر سکتے ہیں؟ اس میں کون سی ایسی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ایک علم آپ بارہ گھنٹے پڑھ کر سیکھتے ہیں، ایک علم آپ پندرہ منٹ خرچ کر کے پڑھتے ہیں۔ حساب لگایئے آدھا گھنٹہ پڑھ کر آپ کو وہ علم کتنے سال میں حاصل ہو گا؟
پندرہ بیس منٹ میں کوئی علم آپ سیکھ نہیں سکتے۔ اس سے زیادہ بے وقوفی کی بات دنیا میں کوئی نہیں ہو گی کہ میں پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹہ روز پڑہوں گا اور دس سال میں میٹرک کر لوں گا۔ میں آدھا گھنٹہ روز پڑھوں گا، ایک سال میں پہلی جماعت پاس کر لوں گا۔ میں آدھا گھنٹہ روز پڑہوں گا اور آٹھ سال میں بی اے کر لوں گا، ایم اے کر لوں گا۔
آپ نے دس سال میں میٹرک پاس کیا ہے، ایک گھنٹہ صرف کر کے آپ اتنی مدت میں روحانی علوم کیسے سیکھ سکتے ہیں؟
روحانیت میں سترہ کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں بندہ جس قدر محنت کرتا ہے، دلچسپی اور ذوق و شوق کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے بندہ روحانی علوم سیکھ لیتا ہے۔
سوال: فقراء کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: لوگ فقراء کے پاس اس لئے آتے ہیں کہ انہیں نئی نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کیونکہ فقراء ماورائی سفر میں ہوتے ہیں اس لئے وہ جب بھی بات کرتے ہیں اس میں کوئی نئی بات ہوتی ہے۔ فقراء کے اندر ایک کشش ہوتی ہے۔ مقناطیسیت ہوتی ہے، اللہ کا نور ان کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے محبت کرتے ہیں، شفقت سے پیش آتے ہیں، وہ کسی سے غرض نہیں رکھتے، کسی سے لالچ نہیں رکھتے، کسی سے نفرت نہیں کرتے، بغیر غرض کے محبت کرتے ہیں۔
آپ حضرات کا بہت شکریہ
السلام علیکم
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "