Topics
۱۹۱۲عیسوی
میں انگلینڈ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں ایک انسانی کھوپڑی کی نمائش کی گئی جس
کے نیچے لکھا تھا Pitt Down Man۔ اس تختی پر یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یہ انسان سے ملتی جلتی مخلوق
کی کھوپڑی ہے جو پانچ لاکھ سال قبل زندہ تھا اور یہ مخلوق موجودہ انسان کی جد امجد
تھی۔ پورے چالیس سال اس کھوپڑی پر بحث ہوتی رہی، کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور اس
پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ لیکن جب ریڈیو کاربن طریقہ ایجاد ہوا تو یہ انکشاف ہوا
کہ یہ کھوپڑی دراصل ایک انسان کی تھی جبکہ جبڑا ایک بندر کا تھا اور انسان کی
کھوپڑی ڈیڑھ سو سال پرانی تھی جبکہ بندر کے جبڑے کی عمر صرف چالیس سال تھی۔ دراصل
یہ ایک اعلیٰ درجہ کا سائنسی اسکینڈل تھا چنانچہ کھوپڑی کو فوراً شوونڈو میں سے
اٹھا لیا گیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس بنیاد پر جو ڈپلومہ دیئے گئے یا کتابیں
لکھی گئیں ان کو جھوٹا نہیں کہا گیا ریسرچ کرنے والے عام طور پر ایک قائم شدہ
سائنسی نتیجہ لے کر ماضی کو اربوں سال پر پھیلا دیتے ہیں۔
دنیا کی پیدائش کے متعلق
تخمینہ بھی قیاس پر مبنی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت تک زمین پر پانچ ارب سال
گزر چکے ہیں اور ان پانچ ارب سال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور
تقریباً نصف ارب سالوں پر مشتمل ہے، دوسرا دور سترہ کروڑ سالوں پر محیط ہے، تیسرا
دور ساڑھے چھ کروڑ سالوں پر مشتمل ہے، چوتھا دور پچیس لاکھ سالوں پر مشتمل ہے۔
کچھ لوگ زمین پر انسان کے
ظہور کو دس لاکھ سال پہلے بتاتے ہیں جب کہ اس کے پیچھے کوئی حتمی دلیل یا سند
نہیں۔ جبکہ کچھ سائنسدان انسان کا زمین پر ظہور دس ہزار سے پچاس ہزار سال بتاتے
ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تخلیق زمین اور تخلیق انسان کے بارے میں سائنسدان کسی ایک نقطے
پر خود کو مجتمع نہیں کر سکے۔ چند سائنسدان تخمینوں اور اندازوں سے بات کرتے ہیں
اور نئے سائنسدان ان کی نفی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے وقت
سے تقریباً دس ارب انسان دنیا میں رہ چکے ہیں۔ ہمارے اس دور میں بتایا جاتا ہے کہ
زمین پر پانچ ارب انسان اس دنیا میں آباد ہیں، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پانچ ارب سال
میں صرف پانچ ارب کی آبادی زمین پر ہوئی ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ بعض سائنسدان
ان کو کچھ کہتے ہیں اور خود ہی اس کی نفی کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟
لیکن یہ بات طے ہے کہ زمین بہت طویل عرصہ سے قائم ہے اور زمین پر بستیاں بستی ہیں
اور برباد ہو جاتی ہیں۔ ہمارے پاس جو تاریخ ہے وہ پانچ ہزار سال پر محیط ہے۔ ہم
حضرت آدمؑ کے زمین پر اترنے کے بعد کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو زمین کے مختلف
ادوار ہمارے سامنے آتے ہیں اور یہ سارے ادوار ارتقائی مراحل طے کر کے پھر اس نقطہ
پر آ جاتے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔
کسی بھی دور کے ابتدائی
مراحل میں ایثار اور خلوص کی نمایاں تصویریں ہوتی ہیں اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے
ایثار اور خلوص کی تصاویر تاریکی میں ڈوب جاتی ہیں۔ روشن اور تاریک تصاویر کے
گورکھ دھندے کو سمجھا جائے تو اس کے علاوہ کوئی بات ذہن میں نہیں آتی کہ زندگی کے
مختلف شعبوں میں ایک مخصوص گروہ کی ہمیشہ اجارہ داری رہی ہے۔ یہی حال مذاہب عالم
کا ہے۔ ہم جب تورات اور زبور کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ہمیں ’’ربّی‘‘ کا لفظ
ملتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تمام تر کوششوں اور جدوجہد کے بعد عوام الناس کو یہ بات
باور کرائی گئی کہ ہمارا رب ایک ہے جیسے جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے پیش کردہ مذہب توحید
کی عمر بڑھتی گئی اس پر ایک مخصوص گروہ کا تسلط قائم ہوتا رہا اور مذہبی پیشواؤں
نے اپنے لئے ’’ربّی‘‘ کا نام متعین کر لیا۔
مقدس کتاب انجیل میں فادر
کا لفظ حضرت عیسیٰ ؑ نے استعمال کیا، عیسائی مذہب کے پیشواؤں یعنی پادریوں نے اپنا
نام فادر رکھ لیا۔ ’’برہما‘‘ خدا کے معنوں میں بولا جاتا ہے مذہبی پیشواؤں نے اپنا
نام برہمن رکھ لیا۔ اسلام خالص توحید ہے، مولیٰ کا لفظ آقا کے معنوں میں استعمال
ہوتا ہے، دانشوروں نے اپنا تعارف مولانا ’’ہمارے آقا‘‘ کے نام سے کرایا یعنی سارے
مذہبی پیشوا آقا ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہر مذہب
کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے اور مذہب کو بعض دانشور اپنی مصلحتوں سے مسخ کر رہے ہیں۔
اس وقت اسلام کی جو صورتحال ہے وہ بھی ان تاریخی شواہد سے مختلف نہیں ہے۔ اہل
پاکستان کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یورپ میں مساجد کے لئے بینک سے سودی قرضہ لیا
جاتا ہے اور جمعہ کو چندہ اکٹھا کر کے بینک کا سودا ادا کیا جاتا ہے۔
عوام کی حالت زار یہ ہے
کہ وہ اللہ کے ساتھ اس تاریک مذاق پر تبصرہ بھی نہیں کر سکتے۔ ایک مخصوص گروہ نے
ہر مذہب پر اپنا تسلط اس طرح قائم کر لیا ہے کہ عوام الناس بکھر گئے ہیں اور ٹوٹ
گئے ہیں۔ عوام کے بکھرنے اور ٹوٹنے سے ان کے اندر فرقے بن گئے ہیں۔ اس تفرقہ بازی
سے بعض دانشور پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں جس میں مالی مفاد بھی ہے، انا کی
تسکین بھی ہے اور محدود
سوچ کی چھاپ بھی منتقل ہو رہی ہے۔ جس طرح
بعض مذہبی دانشوروں نے عوام الناس کو اپنا لقمہ تر سمجھ لیا ہے۔ اس طرح بعض
سائنسدانوں نے بھی ترقی کا جال پھینک کر عوام کو اپنا شکار بنا لیا ہے۔ کوئی نہیں
جانتا کہ اس ترقی کے پیچھے ایک مخصوص گروہ کی تجوریاں زر و جواہر سے بھر رہی ہیں۔
سائنسدان سرمایہ داروں کے
لئے کام کر رہے ہیں اور سرمایہ دار سائنسدانوں کو نواز رہے ہیں۔ اس ترقی کے دور
میں جتنے امراض ہیں اور جتنے امراض روز بروز دریافت ہو رہے ہیں وہ دراصل سائنسی
ایجادات کا منہ چڑانے والی بات ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ ایک
ترقی یافتہ خطہ ہے لیکن یہاں اگر کسی کو بخار ہو جائے تو ایک ماہ تک ڈاکٹر سے وقت
نہیں ملتا۔ ہسپتالوں میں جائیں تو وہاں اتنے مریض ہیں کہ برآمدوں میں بھی مریضوں
کے بستر لگے ہوئے ہیں۔ سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے مرض پیدا ہو گئے ہیں
کہ جن کے بارے میں میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ان کا کوئی علاج نہیں۔ سائنسی ترقی کی
چکا چوند میں ان کی آنکھیں اتنی خیرہ کر دی گئی ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں
دیتا۔ عوام سکون حاصل کرنے کے لئے امراض سے نجات حاصل کرنے کیلئے مذہب کی طرف رجوع
کرتے ہیں تو وہاں بھی انہیں سکون اور شفاء نہیں ملتی۔
بات یہ ہے کہ ہر دور میں
ایک مخصوص طبقہ نے اپنی ذہانت سے، اپنی چالاکی سے عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔ حضور
پاکﷺ سے پہلے ان لالچی لوگوں سے عوام کو تحفظ دینے کے لئے قدرت نبی بھیجتی رہی اور
لوگوں کو ذہنی سکون اور امراض سے شفاء ملتی رہی۔ لیکن اب جب کہ نبوت کا سلسلہ ختم
ہو گیا ہے سکون و عافیت حاصل کرنے کے لئے نوع انسانی کے پاس روحانیت کے علاوہ کوئی
اور ذریعہ نہیں ہے۔
دانشوروں اور سائنسدانوں
میں یقیناً ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کی مخلوق کے لئے اپنے دلوں میں گداز رکھتے
ہیں۔ اگر دانشور اور سائنس دان اپنے اس گداز سے اللہ کی مخلوق کو آلام و مصائب اور
عدم تحفظ کے احساس سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف اور صرف روحانی
علوم ہیں اور روحانی علوم کے لئے بہرحال دانشوروں اور سائنسدانوں کو اخلاص نیت سے
کام لینا پڑے گا۔ ایسا خلوص جس میں مادی غرض شامل نہ ہو اگر ایسا نہیں کیا گیا تو
قانون قدرت کے مطابق ہر دور شروع ہوتا ہے جب اس میں مصلحت اور خود غرضی آ جاتی ہے
تو فنا ہو جاتا ہے۔ یہ دنیا جواب آتش فشاں بن گئی ہے، ختم ہو جائے گی، نہ کوئی
دانشور رہے گا اور نہ کوئی سائنسدان۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے