Topics

توانائی


زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصورات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک ہیں جب تک سانس کا سلسلہ قائم ہے۔ سانس اندر جاتی ہے، سانس باہر نکلتی ہے، اندر کے سانس سے باطن کا رشتہ جڑ جاتا ہے اور سانس کے باہر نکلنے سے دنیا میں پھیلی ہوئی چیزوں گوشت پوست کے جسم اور حواس میں درجہ بندی ہوتی ہے۔

آنکھیں بند کر کے پوری یکسوئی کے ساتھ جب ہم سانس اندر لیتے ہیں اور وقفہ نارمل وقفہ سے زیادہ ہو جاتا ہے تو شعور باطن کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور سانس جب باہر نکلتا ہے تو ظاہری دنیا کی طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں ہم شک، خوف، غم، ڈر، حزن وملال، کبر و نخوت، بغض، لالچ، طمع، غصہ، حسد، جھوٹ اور منافقت کی دنیا میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور اس دنیا سے ہم دور ہو جاتے ہیں جس دنیا میں سکون و آرام اور یقین کے علاوہ کچھ نہیں۔

مخفی دنیا کیا ہے؟

مخفی دنیا کی مثال تالاب کی طرح ہے، ٹھہرے ہوئے پانی میں جھانکنے سے ہمیں پانی کے اندر اپنی تصویر نظر آتی ہے اسی طرح باطن میں کائنات کے سارے افراد باہم دیگر ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ہیں۔ کائنات قدرت کا ایک کارخانہ ہے۔ یہ کارخانہ کل پرزوں سے مرکب ہے، آسمان، زمین، اجرام سماوی، درخت، پہاڑ، چرند پرند، حشرات الارض، جنات، فرشتے اور انسان سب اس کارخانے کے کل پرزے ہیں، ہر پرزہ دوسرے پرزے سے جڑا ہوا ہے، کسی ایک پرزے کی کارگزاری بھی اعتدال سے ہٹ جائے تو ساری مشین متاثر ہوتی ہے۔ ہر پرزہ اپنی کارکردگی سے تو واقف ہے لیکن مشین جس میکانزم پر چل رہی ہے اس سے واقف نہیں ہے۔

کائناتی مشین ایک گولائی میں چل رہی ہے، حرکت مخفی اسکیم ہے جو مظاہر کے پس پردہ کام کر رہی ہے۔ مخفی اسکیم تاریکی اور روشنی کی گہرائی میں ایسے نقوش تخلیق کرتی ہے جن کو ہمارے حواس دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں مثلاً اپنے ہاتھ پر بندی ہوئی گھڑی دیکھئے، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ کی سوئی ڈائل میں موجود ہے، سیکنڈ کی سوئی تیزی سے حرکت کر رہی ہے، آنکھ اس حرکت کو محسوس کر لیتی ہے، منٹ اور گھنٹے کی سوئیاں بھی حرکت میں ہیں لیکن ہماری آنکھ اس رفتار یا حرکت کو محسوس نہیں کرتی اور جب ہم ایک وقفہ کے بعد ان سوئیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ حرکت کا عمل جاری ہے۔ ایک حرکت یہ ہے کہ سوئیاں کم یا زیادہ کی رفتار سے چل رہی ہیں اور ایک حرکت ایسی ہے جو ساری مشین کو متحرک کئے ہوئے ہے لیکن نگاہ سے چھپی ہوئی ہے، گھڑی کے اندر سپرنگ، لیور اور گراریاں ہیں، ان کے ہاہمی عمل اور اشتراک سے حرکت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی آگے حرکت کر رہا ہے، کوئی دائرے میں گھوم رہا ہے، کوئی لحظہ بہ لحظہ اپنے حجم کو زیادہ کر رہا ہے اور کوئی سمٹ رہا ہے، بیک وقت کئی حرکتوں پر گھڑی چل رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حرکت الٹی سیدھی کیوں ہے؟ لیکن تفکر کرنے سے ذہن کھل جاتا ہے، ماہ و سال کے تجزیہ سے منکشف ہوتا ہے کہ زندگی اربوں کھربوں کے کل پرزوں سے بنی ہوئی ایک مشین ہے۔ جس طرح انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی چھوٹی بڑی مشین توانائی اور موبل آئل کی محتاج ہے اسی طرح انسانی پنجرہ میں بند مشین بھی توانائیوں، چکنائیوں کی محتاج ہے۔

دل، دماغ، گردے، پھیپھڑے، معدہ، آنتیں سب نظر نہ آنے والی توانائی سے حرکت کر رہے ہیں۔ ان بنیادی پرزوں کے ساتھ تقریباً بارہ کھرب پرزے (خلیہ) خود بخود متحرک ہیں، آدم زاد کی کوتاہ نظری کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اندر آواز کے ساتھ، جھٹکے کے ساتھ، تیز اور مدھم رفتار کے ساتھ چلنے والی مشین کو دیکھ نہیں سکتا اور اس کی آواز سن نہیں سکتا، مشین کو چلانے والی توانائی کا غیر مرئی سلسلہ منقطع ہو جائے تو اسے بحال نہیں کر سکتا۔

توانائی کا کام خود جل کر مشین کو حرکت میں رکھنا ہے۔ توانائی اگر اعتدال میں رہے تو زندگی بڑھ جاتی ہے، توانائی ضائع ہو جائے تو زندگی کا چراغ بھڑ کر بجھ جاتا ہے۔ مادی کائنات غیب اور مخفی بساط پر قائم ہے، غیب میں نظر دیکھتی ہے کہ ناسوتی دنیا اور لاکھوں دنیائیں ایک سٹیج ڈرامہ ہے، سٹیج پر کوئی باپ ہے، کوئی ماں ہے، کوئی بچہ ہے، کوئی استاد ہے، کوئی دوست ہے، کوئی دشمن ہے، کوئی گناہ گار ہے، کوئی پاکباز ہے۔

دراصل یہ سب سٹیج پر کام کرنے والے کرداروں کے مختلف روپ ہیں، جب ایک کردار یا سب کردار سٹیج سے اتر جاتے ہیں، سب ایک ہو جاتے ہیں اور ان کے اوپر سے دوری کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ ایک راز ہے جس کی پردہ کشائی انبیاء کے وارث اولیاء اللہ کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک برگزیدہ ہستی حضور قلندر بابا اولیاءؒ ہیں۔

قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

’’کائنات ایک ماوراء الماوراء اور ایک لامحدود تشخص ہے۔ یہ لامحدود مرکزیت ذات مطلق ہے۔ انبیاء کرام اپنی ذات سے دست بردار ہو کر اس لامحدود ہستی کے مطیع و فرمانبردار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ہر شئے کو اس ذات اکبر کی معرفت پہچانا اور خود ذات اکبر کے ارادے کے مظہر بن گئے۔‘‘

ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

جب مٹی کا پتلا اور خواہشات کا خول محل توجہ نہیں رہتا تو پتلے کے اندر موجود سسٹم آشکار ہو جاتا ہے۔ خفی، جلی ہو جاتا ہے اور غیب شہود بن جاتا ہے۔ محدودیت لا محدودیت سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ حزن و ملال، سرشاری اور اطمینان قلب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پیغمبرانہ طرز فکر رکھنے والے یہ پاکیزہ لوگ جب تک عوام میں ہوتے ہیں، پریشان حال لوگ سکون حاصل کرنے کے لئے ان کے ارد گرد جمع رہتے ہیں اور جب یہ قدسی نفس حضرات غیب کی دنیا کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں تب بھی لوگ ان کے آستانوں پر حاضر ہو کر اندر کی دنیا کو روشن اور منور کرتے ہیں اس لئے کہ ذاتی اغراض اور خود پسندی کے جال سے یہ لوگ آزاد ہوتے ہیں۔ یہ مبارک و سعید لوگ جان لیتے ہیں کہ خود کی نفی کئے بغیر ذات اکبر کے رازداں نہیں بن سکتے اور جب کوئی بندہ ذات اکبر کا رازداں ہو جاتا ہے تو ان کے لئے اللہ کہتا ہے۔

’’میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں۔ اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔‘‘


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے