Topics

تشریح، نورعلیٰ نو ر

میلاد النبی ﷺ1999

اعوذبااللہ…

بسم اللہ الرحمن الرحیم   ۔  سورۃ الفاتحہ…

بسم اللہ الرحمن الرحیم   ۔  ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی…یایھاالذین امنو اصلو علیہ وسلم تسلیما

بسم اللہ الرحمن الرحیم   ۔  وما ارسنا…

خواتین اور حضرات بزرگانِ محترم، عزیز بچوں اور بچیوں،حاضرِ مجلس آپ سب صاحبان جس جذبے سے، لگن اور عقیدت سے اس متبرک اور مقدس محفل میں تشریف لائیں ہیں یہ محفل اُس برگذیدہ ہستی کی مجلس ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی ہے کائنات کی تخلیق کا جب تذکرہ آتا ہے تو خالق و مخلوق دو ہستیاں زیربحث آتی ہے،  تخلیق کا مطلب یہ ہے کہ’’ کنُ‘‘ ایسی ہستی ہے جس ہستی نے مخلوق کو پیدا کیا جب تخلیق کا تذکرہ آتا ہے تخلیق میں مخلوق خود بخود زیربحث آجاتی ہے مخلوق کا جب تذکرہ آتا ہے تو مخلوق کی ضروریات ،مخلوق کے اندرتقاضے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔مخلوق کی ضرویات اور مخلوق کے تقاضوں کی  تخلیق کے لئے وسائل کا ہونا ضروری ہے ۔وسائل جب ز یربحث آتے ہیں تووسائل سے مراد یہ ہے کہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے ،مخلوق کو پروان چڑھانے کے لئے ،مخلوق کے اندر جذبات اور احساسات کی آبیاری کے لئے ایسے وسائل موجودہو جو وسائل ایک سسٹم کے تحت جاری وساری رہے لیکن جاری وساری وسائل اس طرح نہ ہو کہ آدمی ان سے بیزار ہوجائے اس کادل ہٹ جائے جاری وساری و سائل اسطرح رہے کہ وہ ضروری کفالت بھی کرتے رہے اور آنکھوں سے اجھل بھی ہوتے رہیں اگر وسائل آنکھوں سے اوجھل نہ ہوتے رہیں گے تو آدمی تو آدمی اور حیوانات بھی ان وسائل سے بیزار ہوجائیں گئے اور ان وسائل کی ضروریات ان کے اندر سے کم سے کم ہوتی چلی جائے گی اس فارمولے کواگر آپ زیادہ غور و تفکرسے غورکریں تووہ یہی ہے کہ ہماری زندگی یعنی انسان کی زندگی، حیوانات کی زندگی، زمین کی زندگی ،سماوات کی زندگی، اور پوری کائنات کی زندگی غیب و شعور دورخوںپر قائم ہے آسا ن الفاظ میں یہ کہہ لیجئے کہ کائنات کی پوری زندگی فنا اور بقا ء پر قائم ہے اگر فنا نہیں ہوگی تو بقا ء نہیں ہوگی اور بقاء نہیں ہوگی تو فنا نہیں ہوگی ۔ اللہ تعالی نے جو نظام قائم کیا ہے کائنات کا اس کائنات میں فنا اور بقاء زیر بحث آتا ہے فنا اور بقا ء ایک ایسا عمل ہے جس کو آپ کائنات کا تغیرّاورکائنات کی حرکت کہہ سکتے ہیں۔  خالق کا جب تذکرہ آتا ہے تو خالق اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس میں تغیرّ نہیں ہوتا جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لیکن جب مخلوق کا تذکرہ آتا ہے تو مخلوق کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اس کے اندر تغیر ہو، مخلوق کا مطلب ہی یہ ہے کہ مخلوق محتاج ہوتی ہے۔ خالق کا مطلب یہ ہے کہ خالق کہ اندر کسی قسم کا تغیرّ نہیں ہوتا اور نہ کسی قسم کا کوئی اتار چڑھاو ُواقع ہوتا ہے خالق کی شناخت یہ ہے کہ وہ مخلوق کی شناخت سے بالکل برعکس ہوتا ہے خالق کسی کا باپ نہیں ہے،خا لق کسی کی اولاد نہیں ہے ،خالق کو بھوک نہیں لگتی، خالق کسی گھر کا محتاج نہیں ہے ،آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :

لااللہ الااللہُ لاتخذہ…اللہ حیی قیوم ہے زندہ ہے قائم ہے کوئی تغیرکادخل نہیں ہے انتہاہ یہ ہے کہ نیند آتی ہے نہ اسے اُونگ آتی ہے خالق اور مخلوق کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے ایک اسے نظام کی ضرورت تھی جس نظام تغیرّ میںبھی ہو اور ایسا تغیرّ ہو کہ جس تغیرّ میں کسی قسم کا تعطل واقع نہ ہو اسی بات میں اللہ اور قرآن پاک میں فرمایا ہے… کہ اللہ کے نظام میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی نہ کو ئی تعطل واقع ہولیکن کائناتی سسٹم کائناتی نظام پر غورفکر کیا جائے تو کائنات کا مطلب ہی تغیر اور تبدیلی ہے اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو بنایا تو سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ’’کن‘‘کہا ،  کن ہوجا،  ہوجا کہ پیچھے یا مفہوم یہ ہے کہ جو چاہا جارہا ہے ہوجا،کیاہوجا،جوکچھ چاہا جارہاہے خالق جوکچھ چاہتاہے وہ ہوجا، جب اللہ تعالی ٰنے فرمایا ہوجا تو کائنا ت بن گئی کائنات سے مراد زمین، سماوات عالمین،  انسان ، جنات ، فرشتے ، حیوانات،  نباتات، جو بھی مخلوق ہے سب وجود میں آگئی اب اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے مخلوق اور خالق کے درمیان ایک ایسی ہستی کی ضرورت تھی جوکہ  خالق سے قریب ترین ہستی ہولیکن مخلوق بھی ہو ،جو ہستی خالق سے قریب ترین بھی ہو اور مخلوق بھی ہو اسی بات کو رسول اللہ ﷺ فرمایا کہ ’’اول ماخلق اللہ نور‘‘

زرا مشکل ہے اسلئے بار بار کہہ رہا ہوں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :

’’اول ماخلق اللہ نور‘‘

’’کہ سب سے پہلے کائنات میں جب کائنات بنی تو میرا نور تخلیق ہوا کائنات کا پہلا فرد میں ہوں اور میری تخلیق نور سے ہوئی ‘‘

یعنی میں اللہ کا نور ہوںاب اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے ’’اللہ نور سموات والارض‘‘ زمین سموات کیا ہیں اللہ کا نور ہے رسول اللہ  ﷺ کا کیا مقام ہے؟ ۔پھر اس بات کو غور فرماہیں پھر اللہ تعالیٰ نے کہا ’’کنُ ‘‘کائنات بن جا، لیکن کائنات میں ایک پردہ قائم رہے خالق اور مخلوق کے درمیان اگر خالق اور مخلوق کے درمیان پردہ قائم نہیں رہے گا تو مخلوق اور خالق کا تذکرہ نہیں ہوگا پھر اللہ کا تذکرہ نہیں آئے گا پھر مخلوق اور خالق نعوذبااللہ ایک ہی کی بات ہوجائے گی

                جب اللہ نے’’کُن ‘‘ کہا تو کائنات بنی اورکائنات میں خالق اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ قائم ہوا۔ وہ پردہ کون ہے رسول اللہ ﷺ ہیں ۔اور ماخلق اللہ ……اس بات کی تصدیق خود اللہ تعالی ٰنے اس طرح فرمادی:’’اللہ نور سموات والارض‘‘اس میں کوئی  پس و پیش  کی بات نہیں سیدھی سیدھی بات ہے کہ اللہ زمین اور آسمان کو نور ہے اور پہلا نور کون ہے رسول اللہ ﷺ اب یہ ساری کائنات کہاں ٹھرئی ہوئی ہے۔بحیثیت مخلوق کے کائنات کا اول رخ سیدنا الصلوٰۃ والسلام ہے ۔اب وہاں صورت حال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایا تو کائنات میں جتنی بھی مخلوقات تھیں ان مخلوقات کواپنے سے الگ رکھنے کے لئے یعنی اپنے اور کائنات کے درمیان میں خالق اورمخلوق کے درمیان پردہ قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  ﷺ  کے نور کو تخلیق کیا۔ اب صورت یہ ہے خود اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں کہ اس کائنات کی ابتدا بھی میں ہی ہوں،انتہاہ بھی میں ہوں ،اس کائنات کا ظاہر وباطن بھی میں ہی ہوں ھوالا ول ،ھوالاخر،ھوالظاہر ،ھوالباطن،اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب تم سنتے ہو تو میرے سماعت سے سنتے ہو ،جب تم بولتے ہو تو میرے لب سے بولتے ہو ،جب تم سوچتے ہو تو میرے فواد سے سوچتے ہو ،اور اللہ تعالی ٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جہاں تم دو ہو وہاں میں تیسرا ہو ،جہاں تم پانچ ہو وہاں میں چھٹا ہوں ،میں نے تم کو احا طہ کیا ہوا ہے …الا انا انہ بکل شیء محیط… ایک احاطہ ایک دائرہ ہے وہ احاطہ  اور دائرہ اللہ ہے۔ تم اس کے بیچ میں ہو ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں …نحن اقرب الیہ من حبل الورید… میں تمہاری جان سے زیادہ قریب ہوں ۔قریب بھی نہیں ۔اقرب ،اقرب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی فاصلے کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس کو اقرب کہتے ہیں ۔فاصلہ تو ہے لیکن اس کو آپ کسی سنٹی میٹر سے ناپ نہیں سکتے اس کو اقرب کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں …نحن اقرب…میں تو تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں پھر اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں …وفی انفسکم افلا تبصرون…میں تمہارے اندر بیٹھا ہوا ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ؟جو تم چھپاتے ہو وہ میں جانتا ہوں جو تم چھپا چھپا کے باتیں کرتے ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں ہے میں ان کو جانتا ہوں …علم اللہ غیب واشاہدۃ……اللہ غیب اور شعور دونوں کو جانتا ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے جب رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ آتا ہے …اول ماخلق…تذکرہ آتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ…اللہ سموات…اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں نوروعلیٰ نور ……اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ نہ شرق ہے نہ غرب ہے کوئی سمت نہیں تعین کی اللہ تعالیٰ کیا ہے… نورواعلیٰ لانور ہے ۔جس کو چاہے اللہ نور کی ہدایت دے دیتا ہے بات پھر وہی نور کی آگئی کیونکہ رسول اللہ  ﷺ کی ولادت کی خوشی میں یہ تقریب قائم ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سعادت بخشی ہے کہ ہم اپنے محبوب  رسول اللہ  ﷺ کے نام پر دور دراز سے یہاں تشریف لائے ہیں تو میں یہ چاہتا ہوں کہ آج کی مجلس کی ہر بات آپ کے دماغ میں جانشیں ہوجائے ۔نوراًعلیٰ نو ر…کہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں فرماتے ہوئے نور اعلیٰ نور ہے یعنی نور سے اعلی نور مشکل ہے اسلئے بار بار کہہ رہا ہوں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ بجلی کے ڈیم اور اس کے سسٹم سے سب ہی واقف ہیں ۔ہائی ٹینشن سے پھر وہ لائینیں Transfermer  میں آجاتی ہیں۔ وہاں سے مختصر یہ ہے جو بلب آپ کے سامنے روشن ہے۔ یہ اگر ہائی ٹینشن سے براہ راست جوڑ دیاجائے تو اگر ۲۰ ہزار واٹ کا بلب بھی ہوگا تو وہ فیوز ہوجائے گا ،جل جائے گا ،راکھ ہوجائے گا ،اب مثال کے طور پراگر اللہ تعالیٰ کی تجلیاتی بجلی کو ہائی ٹینشن کی بجلی قرار دے دیں تو ہائی ٹینشن کی بجلی سے بلب روشن نہیں ہوگا۔ جب تک کہ اس بجلی کو آپ کم نہیں کریں گے اس وقت تک روشنی نہیں ہوگی، وہ ہائی ٹینشن کی بجلی اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نزول پہلے سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام ؒپر ہوتا ہے نور نور کو قبول کرتا ہے ۔نور سے پھر دوبارہ نشریات ہوتیں ہیں تو نور روشنی میں بدل کے مخلوقات بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہلے ہے اللہ تعالیٰ کے دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ نے جو تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تخلیقی سسٹم بنایا ہے اس سسٹم میں رسول اللہ  ﷺ بعد از خدائے بزرگ تو  یہ قصہ مختصر۔’جو کچھ نزول ہورہا ہے علم ازل سے وہ پہلے سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام ؒقبول فرماتے ہیں اور سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت کے بعد پھر وہاں سے وہ پروگرام نشر ہوتا ہے پھر وہ نور روشنی میں بدل کے مخلوقات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اب اس بات کو پھر سے سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہے،اللہ تعالیٰ کا ایک مقام ہے ،جہاں تجلیات ہے ،تجلیات روشن ہیں ، ان تجلیات میں اللہ تعالیٰ کا ذہن کام کر رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو بھی پروگرام ہے مخلوق سے متعلق وہ پروگرام تجلیات کے ذریعے نشر ہورہا ہے۔ اس کو ہمارے پاس لفظوں کے بہت ہی محدود ذخیرہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اس کائنات کے سسٹم کو اس طرح قائم کیا ہے کہ جو بھی پروگرام اللہ تعالیٰ نشر فرماتے ہیں پہلے وہ سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام قبول فرماتے ہیں پھر وہاں سے دوبارہ پروگرام نشر ہوکے علم ارواح میں پھیل جاتا ہے ’’عالم ارواح‘‘ ایک ایسا عالم ہے کہ جہاں مخلوقات کی پہلی موجودگی ہے یعنی عالم ارواح میں جب اللہ تعالیٰ نے کن فرمایا ’’کن ُ‘‘سے اللہ تعالی کا پروگرام نشر ہوا پھر وہ پروگرام سیدنا حضور الصلوٰۃ ولسلام ؒنے قبول فرمایا اور اس کی بنیاد …اللہ نورالسمٰوات والارض … میں نے آپ کے سامنے عرض کیا وہاں سے جو اللہ تعالیٰ کا پروگرام Display ہواوہ تمام ارواح کی شکل میں ہوا ۔ اللہ تعالی ٰ ابھی میں نے عرض کیا …نور اللہ لانور…کہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں فرماتے ہوئے نوراعلیٰ نور ہے یعنی نور سے اعلیٰ سے جب تخلیق ہوئی تو پہلا مرحلہ سیدنا حضور الصلوٰۃ ولسلامؒ ہیں ،عالم ارواح وجود میں آگیا، عالم ارواح میں روح کے اندر نہ سماعت تھی،نہ بصارت تھی، نہ اس کہ اندر کوئی احساس تھا ،لیکن ایک بات روح کے اندر ضرور موجود تھی کہ میں ہوں ،میں کون ہوں ،میں کیوں ہوں ، میں کسطرح ہوں ،میں کس طرح پیدا ہوگئی، یہ روح اس بات کو نہیں جانتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے روح کے اس جمود کو توڑ نے کے لئے روح کی بے خبری ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو روح کے سامنے کردیا۔ روح نے جب اللہ کی آواز سُنی تو اس کا مطلب بھی یہ ہوا کہ روح کے اندر پہلی آواز اللہ کی منتقل ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے کہا’’ میں تمہارا رب ہوں‘‘ تو پہلی آواز روح نے اللہ کی سُنی یعنی سماعت سے اس وقت آشنا  ہوئی۔ جب اللہ کی آواز اُس کے کان میں داخل ہوئی قوت سماعت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ کی آواز ضرور سُنی سُنے کے بعد دیکھنے کا مرحلہ آیا ۔کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا، مرکزیت کا حصول،  متوجہ ہوکر اس کو سمجھنا،  دوسرا مرحلہ یہ آیا کہ متوجہ ہوکر روح جب متوجہ ہوئی آواز دینے والے کی طرف اس کی جو آنکھیں تھیں ۔ابھی تک ان میں کوئی بینائی نہیں تھی کوئی بصیرت نہیں تھی ،آنکھ کے لئے پہلا ٹارگیٹ اللہ ہے اللہ کی ذات ہوئی ۔

اب ہم یوں کہہ گے کہ روح کی سماعت کا پہلا مرحلہ اللہ کی آواز دوسری بات یہ کہہ گے کہ روح کے اندر متوجہ ہونے کا ادراک اس آواز کے بعد ہو ااُس ادراک کے بعد جب روح کے سامنے اللہ کی ذات آئی تو روح نے اللہ کو دیکھا اس بات کو اس طرح کہاجا ئے گا کہ روح کی پہلی نگاہ ،یا روح کہ آنکھ کی پہلی بینائی یا روح کی آنکھ کی پہلی بصیرت اللہ ہے ۔

تیسرا مرحلہ میں آواز سُنا،آواز سن کے متوجہ ہونا ،متوجہ ہوکے اس چیز کو دیکھنا دیکھنے بعد روح کے اندر یہ تغیرّپیدا ہوا کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کو قبول کرنا یہ رد کرنا ہے روح نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اس بات کا اقرار کیا کے ہاں ’’جی ہاںآپ ہمارے رب ہیں ‘‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کچھ روحیں خاموش رہ گئیں اسی بنیاد پر سعید او ر شقی روحوں کا الگ الگ انتخاب ہوا ۔روح کی نگاہ ،روح کی نگاہ نے جو پہلی ہستی دیکھی اللہ کو دیکھا اللہ کو دیکھنے کے بعد اس کے اندر قوت گویائی پیدا ہوگئی قوت گویائی پیدا ہوئی توروح نے اللہ کو دیکھ کر اس بات کا اقرار کیاکہا…قالو ابلیٰ… کہ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔ جب روحوں نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے پہلے تو اکیلی روحیں تھیں اس کے پاس نہ سماعت تھی ،اس کے پاس نہ نگاہ تھی ،اس کے پاس نہ ادراک تھا اس کے پاس نہ قوت گویائی تھی ،قوت گویائی اور قوت نظارہ کے بعد روح نے اس بات کو دیکھ لیا، سمجھ لیا کہ میرے علاوہ بھی کوئی ہے ۔ایک میں ہو ں ،مخلوق ہوں ،دوسرا میرا پیدا کرنے والاخالق ہے۔ روح کے اندر جب دیکھنے کے بعد دوئی پیدا ہوئی تو اس نے اللہ کے ساتھ ساتھ وہاں موجودجتنی بھی مخلوقات تھیں ان مخلوقات کو بھی دیکھا پہلے تو روح کو پتہ ہی نہیں تھا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں کیا نہیں دیکھ رہی ؟اس کا مطلب یہ ہوا کہ روح کی پہلی سماعت اللہ کے پاس ہے ،ہر روح کے اندر پہلی بصیرت اللہ کی نگاہ ہے، ہر روح کے اندر پہلی قوت گویائی اللہ کو دیکھنے کے بعد اللہ کی ربوبیت کا اقرار ہے۔

اب آپ اس روایت پر غور فرمائیں :

اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’تم میری سمات سے سُنتے ہو،میری بصارت سے دیکھتے ہو،بات سمجھ میں آئی یا دوبارہ تشریح کروں، نہیں سمجھ میں آئی!، کیا سمجھ میں نہیں آئی؟  میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسان سُنتا ہے ،دیکھتا ہے،محسوس کرتا ہے، بولتا ہے ،یہی ہے نہ تو۔۔ انسان نے پہلی آواز اللہ کی سُنی تو سماعت کس کی ہوئی ،نگاہ نے پہلیء چیز جو دیکھی اللہ کو دیکھا نگاہ کس کی ہوئی ،پہلا اقرار اس بات کا کہ اللہ آپ کو قوت گویائی جو مخلوق کو منتقل ہو ئی وہ کس کی ہوئی اب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ،’’میری سماعت سے سنتے ہو ،میری بصارت سے دیکھتے ہو ،میری قوت گویائی سے بولتے ہو ،میرے فواد سے سوچتے ہو،ہم اگر سنتے ہیں تو اسلئے سنتے ہیں کہ یوم ازل میں اللہ کی آواز سن چکے ہیں اگر ہم ازل میں اللہ کی آواز نہ سنتے تو ہمارے اندر سماعت پیدا نہیں ہوتی اگر ہم یوم ازل میں اللہ کو نہ دیکھتے تو ہم سب اندھے ہوتے نظر کا کوئی کام ہی نہیں ہوتا ، اگرہم یوم ازل میں اللہ کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے تو ہم سب گونگے ہوتے ہمارے اندر قوت گویائی نہ ہوتی اگر ہم سوچ کر متوجہ ہوکراللہ کی ربوبیت کا اقرار نہیں کرتے تو ہم سارے باولے،پاگل ،دیوانے ہوتے ہمارے اندر عقل وشعور نہ ہوتا ۔

ہم جو سب آوازیں سن رہے ہیں یہ کیوں سن رہے ہیں جی ،یوم ازل میں اللہ کی آواز سن چکے ہیں ہم جو مناظراللہ کی قدرت کے دیکھ رہے ہیں زمین دیکھ رہے ہیں ،آسمان دیکھ رہے ہیں ،ستارے دیکھ رہے ہیں سورج ؎دیکھ رہے ہیں ،چاند دیکھ رہے ہیں جو بھی کچھ دیکھ رہے ہیں کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ یہ آنکھ اللہ کو دیکھ سکتی ہے ہم یہ کیوں بول رہے ہیں ؟ قوت گویائی کہاں سے آئی ہے ہماری روح اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے اگر ہم اللہ کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتی تو ساری مخلوق گونگی ہوتی قوت گویائی ہمارے اندر سوچنے کی،سمجھنے کی،متوجہ ہونے کی،انکار کرنے کی ،اقرار کرنے کی ،صلاحیت موجود ہے ،ایک شعور موجود ہے ،اگر روحیں اللہ کی آواز سن کر آواز دینے والی ہستی کی طرف متوجہ نہیں ہوتی تو سارے آدمی بے شعور ہوتے ان کے اندر حس پیدا نہیں ہوتی ،سوچنے سمجھنے کی حس کی پیدا نہیں ہوتی ۔

                یہ بات سمجھ میں آگئی یہ وہ تعلیمات ہیں جو رسول اللہ  ﷺ سے  صحابہ کو منتقل ہوتی ہے جو رسول اللہ  ﷺ کے وارث ہوتے ہیں۔  یہ بات طے ہوگئی کہ کس کی سماعت سے آپ سنتے  ہیں؟ کس کی بصارت سے آپ دیکھتے ہیں ؟کس کی قوت گویائی سے آپ بولتے ہیں ؟میں او ر آپ جو یہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں سب جسمانی وجود میں بیٹھے ہوئے ہیں اگر یوم ازل میں کن کے بعد سیدنا حضور الصلوٰۃ والسلام کی وساطت سے میری،آپ کی،زید کی ،بقر کی روح تخلیق نہ ہوتی یہ وجود ہوتا؟  آج بھی سامنے یہ مشاہدہ تجربہ ہے کہ ہر آدمی جو اس دنیا میں پیدا ہوتا آرہا ہے پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ روح اپنے لئے ایک وجود بنا کر دنیا میں ظاہر کرتی ہے بچہ اگر بے روح ہوتے ، بچے پیدا ہوتے ہیں نا مردہ، مردہ بچے کا کیا مطلب ہے ،بے روح،اب روح ایک جسم تشکیل کرتی ہے اور اسُ جسم کو بڑھاتی ہے لیکن ساتھ ساتھ گھٹاتی ہے جب روح ایک دن کے بچے کو دو دن کی روح میں ظاہر کرتی ہے تو دو دن بڑھا دیتی ہے ایک دن گھٹا دیتی ہے ایک سن کا گھٹنا فنا ہے ،دو دن کا بڑھنا بقاء ہے ،چار دن کا گھٹنا فنا ہے ایک سال کا بڑھنا بقاء ہے نتیجہ یہ ہے کہ جب آدمی ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو کیا ہوتاہے کہ جب تک ساٹھ سال تک فنا نہ ہوگی تو ساٹھ سال بقاء نہ حاصل ہوگی ہر منٹ فنا ہے ،ہر دوسرا منٹ بقاء ہے، ہر تیسرا منٹ فنا ہے ،ہر چوتھا منٹ بقاء ہے ۔فنا کیا ہے ؟فنا غیب ہے ۔بقاء کیا ہے ؟بقاء شعور ہے یعنی یہ ساری کائنا ت غیب وشعور پر چلتی ہے ایک بیلٹ ہے یعنی ایک غیب و شعورکی بیلٹ ہے اس پر ساری کائنات ،وہی چیز کبھی شعور ہوجاتی ہے وہی چیز کبھی غیب ۔میں آپ کے سامنے ۷۰ سال کا آدمی بیٹھا ہوا ہو ں میں آپ سے پوچھتا ہوں میرے ۷۰ سال کدھرگے؟ آپ ایک ہی بات کہہ گے غیب میں چلے گئے ۔اب کیا ہے کہ یہ شعور ہے اب شعور بھی غیب ہوجائے گا ۔بالاخر غیب اور شعور کا یہ سلسلہ ایک دن اس طرح ٹوٹ جاتا ہے کہ یہ شعور اس طرح غیب میں چلا جاتا ہے کہ آدمی باوجود ہونے کے نظر نہیں آتاجس آدمی کا کبھی باپ مر گیا ،کبھی ماں مر گئی ،میری اماں مرگئی مجھے بہت یاد آتی ہیں میں اُنہیں بہت یاد کرتا ہوں ماں میری ہر ہر قدم پر دست گری کرتی ہے میرے خواب میں آتی ہیں میرا  وہاں سے تحافظ کرتی ہیں لیکن میری ماں شعور نہیں ہیں غیب ہے ۔ایک روزمیں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں یہ شعوربھی غیب ہوجائے گا تو ساری کائنات غیب و شعور پر قائم ہے ۔

غیب کیا ہے؟ غیب اللہ ہے ،شعور کیا ہے؟ ۔  سبحان اللہ غیب میں تغیرّ نہیں ہے شعور میں تغیرّ ہے لیکن غیب اور شعور دونوں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ آپ کبھی غیب کو شعور سے الگ نہیں کر سکتے نہ شعور کو غیب سے الگ کر سکتے ہیں ایک آدمی چالیس سال کا آدمی بیٹھا ہوا ہے آپ اس چالیس سال کے آدمی کو اس کے دو مہینے کے بچپن سے الگ نہیں کر سکتے آپ چالیس سال کے آدمی کو اس کی جوانی سے الگ نہیں کر سکتے آپ نے ستر یعنی منٹ وقت کو اس سے الگ کر سکتے ہیں آپ پیدا ہوئے ،میں پیدا ہوا،سب پیدا ہوئے اس وقت کی کونسی اسی علامت ہے جو میرے اندر موجود ہے ہر چیز بدل گئی چہرے کے خدوخال بدل گئے ،نقش ونگار بدل گئے ،ہر چیز تبدیل ہوگئی، میری آئے دن کی زندگی کس بات پر قائم ہے جی نام میرا کدھر گیا ؟بھئی جس جس بچے کا نام رکھا گیاتھا وہ کدھر گیا؟غیب ، اسکا مطلب غیب بنیاد ہے غیب اصل ہے شعور اس غیب کا مشاہدہ ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کائناتی سسٹم کوغیب و شعور پر چلا رکھا ہے جب کائنات کی زندگی زیر بحث آتی ہے حیات و ممات سامنے آتی ہیںتو صاف صاف حیات وممات میں جو وقفے ہیں ان وقفوں میں جو زندگی کی تقسیم ہے وہ بھی زیربحث ہے ایک بچہ ہے معصوم ہے ،لڑکپن ہے ،جوان ہے ،بوڑھاپا ہے ،یہ سب زندگی کی تقسیم ہے لیکن جب اس زندگی کی تقسیم میں شعوری کیفیت میں آپ داخل ہونگے تو کیونکہ شعور متغیر شئے ہے اسلئے متغیر شئے کو قائم رکھنے کے لئے بھی متغیر چیزیں آپ کو درکار ہیں اور وہ سب کیاہیں ؟وہ ہیں ہر چیز متغیرّہے رات، دن کروڑوں ،لاکھوں سال گزر گئے کبھی رات ہوگئی ،کبھی دن  ہوگئے، کروڑوں لاکھوں سال سے و ہ ہی گندم کی روٹی کھا رہے ہیں غیب ہوجاتی ہے پھر وہ موجود ہوجاتی ہے ،غیب ہوجاتی ہے پھر وہ موجود ہوجاتی ہے تو حیات وممات کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ حیات کے قائم رکھنے کے لئے ممات کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کو ایک نظام کہ تحت پابند کیا جائے اور اس کو وسائل کا محتاج بنا دیا جائے ہم سب وسائل کے محتاج ہیں، ہوا کے محتاج،کھانے کے محتاج ،پینے کے محتاج پانی نہ ہو تو ہم مرجائیں گے ،ہوا نہ ہوتو مرجائیں گے جب وسائل زیر بحث آئے گے تو وسائل کی تقسیم خود بخود آتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںاللہ رب العالمین  فرماتے ہیں:

’’الحمداللہ رب اللعالمین ………‘‘

’’سب تعریفیں اس اللہ کے لئے جو عالمین کے لئے وسائل پیدا کرتا ہے‘‘اسلئے کے وسائل کہ بغیر تغیرّقائم نہیں رہے گا جہاں تغیرّقائم رہے گا جہاں وسائل کا محتاج ہوگا وہی تغیرّ اور جب وسائل کی محتاجی ختم ہوگی  تو تغیرّبھی ختم ہوجائے گا جب وسائل بنے گے تو، تو وسائل کی تقسیم بھی زیر بحث آئے گی اب وسائل کی تقسیم بھی کون کرے گا جووسائل سے آشنا ہوگا جس کو وسائل کی ضرورت ہوگی جس کو یہ پتہ ہوگا کہ وسائل کا حصول بھی ضروری ہے وسائل کا استعمال بھی ضروری ہے اب اس کے لئے ایک بندہ چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے رب اللعالمین کی حیثیت سے کائنات بنا دی، رب کا مطلب ہے وسائل پیدا کرنے والا وسائل کی تقسیم تو وہی کرے گا نا! جس کے اندر اللہ تعالی ٰ نے وسائل کی حاجت بھی رکھی ہو ،  اب وسائل تقسیم کرنے کے لئے اللہ نے ایسی ہستی تخلیق فرمائی کہ جس کے اندر تقاضے پیدا کر دئیے کہ تمہیں بھی وسائل استعمال کرنے ہونگے اور اللہ تعالیٰ نے وسائل تقسیم کرنے والے بندے کو فرمایا:

’’وماارسلنک الارحمتہ اللعالمین‘‘

پوری کائنات ہم نے بنائی، نور کو ہم نے پیدا کیا اس نور سے تمام کائنات پر نقش ونگار بنائے ضروریات اور احتیاج پیدا کئے، تجھے بھی ان وسائل کو استعمال کرنے کے لئے تمہارے اندر بھی یہ صلاحیت رکھی کہ تمہیں بھی یہ وسائل استعمال کرنے ہونگے وسائل ہم پیدا کر رہے ہیں تقسیم تمہیں کرنے ہیں ۔کہ اللہ تعالی ٰنے اس کائنات کو بنایا بحیثیت رب کے اور رحمت کے ساتھ بنایا اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے مخلوق کو رحمت کے ساتھ تخلیق کیا ،پیار کے ساتھ تخلیق کیا، چاہت کے ساتھ تخلیق کیا ،اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’رسول اللہ ﷺ ہم نے تمہیں اب رحمت بنادیا سراپا رحمت بنادیا ،آپ بھی رحمت کے ساتھ وسائل کو تقسیم فرمائیں

’’وما ارسلنک ………‘‘

یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام بنایا اس نظام میں اپنے اور مخلوق کے درمیان میڈ یم رسول اللہ  ﷺ کا بنایا ۔خود رب اللعالمین کی حیثیت سے مخلوق کو پیدا کیا اور مخلوق کے لئے وسائل پیدا کئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اس میں کسی قسم کی حاجت نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کے اندر وسائل کی ایک احتیاج رکھی اور ساتھ ہی ساتھ ان وسائل کی تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔یہ جو بھی یہاں دنیا میں عمل ہورہا ہے آسمانوں میں ہورہا ہے اس کے طریقے کار یہ ہیں کہ رسول اللہ وسائل تقسیم کرنے کے مالک ہے۔ مخلوق پیدا ہوئی مخلوق دو طرح پیدا ہوئی ۔ایک تو یہ کہ عالم ارو اح میں پیدا ہوئی عالم ارواح میں مخلوق پیدا ہوئی اس نے اللہ کی آواز سنی ،اللہ کو دیکھا اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرلیا لیکن ابھی اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت مخلوق روح کو اختیار نہیں دیا،  کہ چاہے مخلوق خالق کو رد کرے یا قبول کرے ہاں تو سب ہی نے اللہ کو دیکھ لیا دیکھنے کے بعد کون انکار کر سکتا ہے یہ ایک چیز آپ نے یہ دیکھ لی یہ گلاس ہے تو یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ گلاس نہیں ہے گلاس دیکھ لیا ۔عالم ارواح سے اگر مخلوق عالم ناسوت میں نہ آتی تو اختیار زیر بحث نہ آتے روح نے عالم ناسوت میں ایک اور جسم بنا لیا جس کومادی وجود کہتے ہیں اوراس مادی وجود کے اندر روح نے ازل والی کیفیت کو دوہرایا… الست بربکم…اس کا ترجمہ ہے :

کیا میں تمہار ارب ہوں …یہ نہیں  کہا کہ میں تمہارا رب ہوں …کیا میں تمہارا رب ہوں …اللہ تعالیٰ نے اقرار اور انکار کا اصل ، روح کے اندر،  روح میں اختیار ڈالا لوگ کہتے ہیں جی اختیار کہاں سے؟ کسے ہے؟، اختیار آگیا اب اس اختیار کا استعمال روح کس طرح کرتی ہے تو روح کی یہ ڈیوٹی لگی کہ روح ایک اور وجود بنائے اور اس وجود کو اپنے اور اس بندے کے درمیان پردہ بنا دے اور اسطرح پردہ بنائے کہ بندہ روح کو دیکھ نہ سکے اگر وہ جدوجہد نہ کرے کوشش نہ کرے تو روح کو دیکھ نہ سکے ۔

تخلیق ہو گئی دنیا بن گئی رسول اللہ  ﷺ آخر میں تشریف لائے اب رسول اللہ  ﷺ کو متعارف کرانے کے لئے رسول اللہ  ﷺ کے بارے  میں اللہ کا جو ارشاد ہے ۔ ’’ہم نے تم کو رحمت اللعالمین بنا کربھیجا ہے تمام مخلوق کو مشاہدہ کرنے کے لئے پیغمبروں کا ایک سلسلہ قائم کیا اور ان پیغمبروں نے کیا کام کیا مختصر پیغمبروں کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ پیغمبر نے انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور پیدا کیا یہ چیز اچھی ہے، یہ چیز بری ہے ۔ کیوں اسلئے تاکہ مخلوق اچھائی اور برائی دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکے مخلوق نے زیادہ تر برائی کا انتخاب کیا اور اچھائی کو پیچھے چھوڑ دیا ۔جب اتنی برائی پھل گئی اتنی برائی پھیل گئی کہ اچھائی کہیں نظر نہیں آئی ہر طرف اندھیرا اور تاریکی ہوگئی تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  ﷺ کو اس دنیا میں بھیج دیا تاکہ اللہ کے اور مخلوق کے درمیان میڈیم فاصلہ عالم ارواح کا وہ عالم شعور میں بھی رسول اللہ  ﷺ کی پیروی کر کے عالم غیب میں داخل ہوجائے میرے خیال لوگ تھک گئے ،کیا بج گیا بات تو آپ لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہوں گی مختصر اس کی Summary بیان کر دیتے ہیں ۔

اللہ تعالی ٰنے جب کائنات بنائی تو نور سے بنائی اپنے نور میں سے تخلیق کی اللہ تعالیٰ نے تو پہلی تخلیق سیدنا حضور الصلوٰۃ ولسلام کی اور اس کے رسول اللہ ﷺنے اول ماخلق……فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے میرا نور بنایا ہے یعنی سب سے پہلے حضور  ﷺ تخلیق ہوئے اب جضورﷺ نے چونکہ اول ماخلق ۔رسول کا ارشاد ہے ؛جوبات میری قرآن سے ٹیلی ہوجائے قرآن سے مطابقت رکھتی ہو وہ میری بات ہے اور جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو وہ میری بات نہیں ہے اول ماخلق……اللہ نے پہلے میرا نور تخلیق کیااللہ تعالیٰ نے خود اس کی تخلیق فرمادی اللہ نور سموات ……کہ زمین اور آسمان کی جو بنیاد ہے وہ دوسری بات یہ ہے کہ روحیں اللہ کی آواز سن چکی ہیں ،اللہ کو دیکھ چکی ہیں ،اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہیں ہم سب جو بھی کچھ ہیں وہ اسی وقت تک ہیں جب تک ہمارے اندر روح ہے اگر ہمارے اندر روح نہیں ہے تو dead body   لاش ہے اگر ہم اللہ کو دیکھنا چاہے ،اللہ کی آواز سننا چاہے ،اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنا چاہے تو یوم ازل میں ہم کر چکے ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہے؟۔ اس کا طریقے کار یہ ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہوجائیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ مادی جسم کی کوئی حیثیت نہیں ہے اصل حیثیت روح کی ہے جب تک روح مادی جسم کو سنبھالے رکھتی ہے تو آدمی زندہ رہتا ہے اور جب روح اس مادی جسم سے رشتہ توڑ دیتی ہے تو آدمی مرجاتا ہے سیدھی سی بات ہے آپ کی اصل کیا ہے زور سے بولیں روح، آپ کی روح اللہ کی آواز سن چکی ہے، یہ قرآن میں ہے میں نہیں کہہ رہا آپ کی روح اللہ کو دیکھ چکی ہے، اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے، اگر آپ اپنی روح سے واقف ہوجائیں تو تب کیا ہوگا اللہ کی آواز سنیں  گے ،اللہ کو دیکھے گے۔اللہ کی ربوبیت کا اقرار کریں گے اب آپ کا کام کتنا سا ہے روح سے واقف ہونا۔ آپ روح سے واقف نہیں ہوسکتے کہ روح کے بغیرتو آپ زندہ بھی نہیں رہ سکتے ،روح کے بغیر تو آپ کھانا بھی نہیں کھا سکتے،روح  کے بغیر تو آپ پانی بھی نہیں پی سکتے ،روح کے بغیر تو آپ کے بچے بھی نہیں ہو سکتے ،روح کے بغیر تو آپ شادی بھی نہیں کرسکتے ،دنیا کا کوئی بھی کام روح کے بغیر تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے آپ کے اندر خیال بھی نہیں آسکتا یقین بھی آسکتا کبھی کسی dead body نے آپ کو یہ بتایاکہ میں پھنس پھنسا گئی مجھے کیا کسی dead body نے کھانا کھا یا ہے ، بچہ جنم دیا ہے ،شادی کی ہے ،گھوڑے پر سوار ہوئی ہے مشن چلائی ہے ، dead body  کبھی سوئی ہے آپ اس کے ایک ہزار ٹکڑے بھی کر دیں اس نے کبھی آہ نکالی اور اگر آپ کے اندر روح ہے تو سوئی اگر آپ کے پیر کے انگھوٹھے میں چھبتی ہے تو دماغ میں محسوس ہوتی ہے کب ہوتی اور روح نہ ہو تو یہ مردہ جلا دیتے ہیں نا ہندو لوگ کبھی کسی مردے نے اٹھ بیٹھا ہو انہیں بولتا ہو کیوں جلا رہے ہو اور ہم جو وہاں جاکر قبر میں دفنا کر آتے ہیں اور جو سوراخ بھی کھولے ہوئے ہوتے ہیں اس کو بھی بند کر دیتے ہیں کہ مردے میں کہیں سے بھی اس کو تھوڑی سی بھی آکسیجن نہ چلی جائے کہ مردہ اٹھ کہ بیٹھ جائے مرگیا تو اسے واپس کیوں لانا ہے ۔ میری اماں نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا ایک وہ ماں تھی اس کی ایک بیٹی بڑی بیمار ہوگئی بہت بیمار ہوگئی تو ماں کو بڑا رحم آیا ،بڑی محبت آئی ممتا جاگ گئی تو اس نے دُعا کی اللہ تعالیٰ سے کہ اللہ میاں میری بیٹی بیمار ہے کہ اگر یہ مر گئی تو میرا کیا میرے وجود کا کیا اس کی موت ہی آگئی ہے تو اس کی جگہ مجھے اُٹھا لے وہ قبولیت کا وقت تھا ملک الموت سامنے کھڑے ہوگئے وہ گھبرا گئی یہ کیا ہے ایک بندہ کہا ںسے ظاہر ہوگیا بھئی تم کون ہو انہوں نے کہاآپ ابھی اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر لی میں ملک الموت ہوں کہنے لگی وہ پڑی ہووہاں کمرے میں ، لیکن جب ماں نے کہا وہ پڑی ہے کمرے میں اس کے اوپر بھی ایک وقت ایسا آئے گا وہ بھی چل بسے گی ،سب سے آسان نتیجہ یہ ہے کہ آپ اپنی اصل کو جانیں،پہچانیں۔ اللہ کو جان لیا ،اللہ کو پہچان لیا ،اللہ کے رسول اللہ  ﷺ کو جان لیا پہچان لیا ،  اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد اعلیٰ یہ ہے کہ …من عرف نفسہ فقد عرف ربہ…’’جس نے اپنی روح کوپہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ‘‘  اس میں کیا سمجھنے کی بات ہے بتائیں ،بھئی روح اللہ کو دیکھ چکی ہے، آپ نے روح کو پہچان لیا ،اللہ کو پہچان لیا ،روح اللہ کی آواز سن چکی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی ِو ناصر ہو،آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ آپ یہاں تشریف لائے ۔  اختتام

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01

Khwaja Shamsuddin Azeemi


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس