Topics

بے روح عقل

یہ وہ دور تھا جب فرعون اسرائیلی لڑکوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ عمران کے گھر میں موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
ولادت کے وقت گھر کے تمام افراد اور خصوصاً ان کی والدہ سخت پریشان تھیں کہ بچہ کو کس طرح قاتلوں کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا جائے۔ تین ماہ تک جیسے تیسے چھپائے رکھا اور کسی کو بچہ کی پیدائش کی خبر نہ ہونے دی مگر سخت نگرانی، کڑی دیکھ بھال اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر زیادہ عرصے تک اس خبر کو پوشیدہ رکھنا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ایک ایسا صندوق بناؤ جس پر پانی کا اثر نہ ہو، اس میں بچہ کو رکھ دو اور اس صندوق کو دریائے نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بات القاء ہوئی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اسی پر عمل کیا اور موسیٰ علیہ السلام کی بڑی ہمشیرہ کو ہدایت کی کہ وہ صندوق کے ساتھ دریا کے کنارے کنارے جائے اور دیکھے کہ صندوق کہاں جاتا ہے۔ یہ صندوق جس کی نگرانی موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ کر رہی تھیں  بہتاہوا شاہی محل کے سامنے دریا کے کنارے آ لگا۔ شاہی محل کی عورتوں میں سے کسی عورت نے یہ صندوق خادموں سے اٹھوایا اور شاہی محل میں لے گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو بہت اطمینان ہوا اور آئندہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے وہ شاہی محل کے خدام میں شامل ہو گئیں۔ شاہی محل میں جب یہ صندوق کھولا گیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ ایک حسین اور تندرست بچہ لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا ہے۔ فرعون کی بیوی نے اتنا حسین اور خوبصورت بچہ دیکھا تو باغ باغ ہو گئی اور بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔ خدام میں سے کسی نے کہا کہ یہ تو اسرائیلی معلوم ہوتا ہے یقیناً یہ دشمنوں کا بچہ ہے اس کا قتل کیا جانا بہت ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے بادشاہ کے خواب کی تعبیر ہو۔ اس بات کو سن کر فرعون بھی پریشان ہو گیا۔ حالات کو دیکھ کر فرعون کی بیوی کو ڈر محسوس ہوا کہ کہیں فرعون بچہ کو قتل نہ کرا دے۔ بیوی نے درخواست کی کہ اس بچہ کو قتل نہ کیا جائے ہو سکتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے لئے باعث برکت ہو۔ ملکہ کی درخواست فرعون نے قبول کر لی اور بچہ قتل ہونے سے بچ گیا۔
ایک آیا کا انتظام کیا گیا تا کہ وہ بچہ کو دودھ پلائے گی۔ بچہ نے کسی کا بھی دودھ نہ پیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ نے صورت حال دیکھ کر فرعون کی بیوی سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو ایک بہت خدمت گزار آیا لے آؤں۔ فرعون کی اجازت پا کر موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ بہت خوش ہوئیں اور گھر آ کر والدہ کو ساتھ لے آئیں۔۔۔۔۔۔والدہ کی گود میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش شروع ہو گئی۔
محل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عرصے تک شاہی تربیت پاتے رہے۔ نوجوانی کے عالم میں نہایت باوقار پر رعب چہرہ، قوی اور بہادر نظر آتے تھے۔ ان کے علم میں یہ بات آ گئی تھی کہ وہ مصری نہیں ہیں بلکہ اسرائیلی ہیں۔ اسرائیلی مصر میں ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور مصری اسرائیلیوں پر بے پناہ ظلم کر رہے تھے۔ مظالم دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خون کھول جاتا تھا۔ وقتاً فوقتاً اسرائیلیوں کی حمایت بھی کرتے تھے۔ ان کا ساتھ بھی دیتے تھے۔ ایک بار ایک مصری ایک اسرائیلی کو گھسیٹتا ہوا بیگار کے لئے جا رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر اسرائیلی نے فریاد کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصری کو منع کیا مگر وہ نہ مانا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں اک تھپڑ مار دیا۔ جس سے وہ مر گیا۔۔۔۔۔۔مصری کے قتل کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی مگر قاتل کون ہے۔ یہ کوئی نہیں بتا سکا۔ مگر جلد ہی فرعون کو پتا چل گیا کہ مصری کو موسیٰ علیہ السلام نے قتل کیا تھا۔ فرعون نے گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چھپتے چھپاتے ارض مدین چلے گئے۔
مدین میں انہوں نے ایک کنواں دیکھا۔ جہاں لوگ کنوئیں سے پانی نکال نکال کر اپنے اپنے جانوروں کو پلا رہے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو کنوئیں کے پاس جانے سے روک رہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لڑکیوں کی بے بسی پر ترس آیا۔ آگے بڑھ کر ان سے پوچھا تم اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلا رہی ہو۔ لڑکیوں نے فریاد کی یہ طاقتور لوگ ہمارے جانوروں کو کنوئیں کے پاس نہیں آنے دیتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے کنوئیں کا بڑا ڈول اٹھایا۔ کنوئیں سے پانی بھر کر نکالا اور لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ لوگ ان کے جاہ و جلال اور آسمانی طاقت سے بہت مرعوب ہوئے۔ خلاف معمول لڑکیوں کے والد جلد واپسی پر متعجب ہوئے۔ لڑکیوں نے اپنے والد کو بتایا کہ ایک مصری نے ہماری بکریوں کو کنوئیں سے پانی نکال کر پلا دیا۔ وہ بہت پرجلال اور طاقتور شخص ہے۔ باپ نے کہا۔ ’’اسے میرے پاس لے آؤ۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کنوئیں کے پاس ہی سستانے کے لئے بیٹھے تھے کہ ایک لڑکی نے جا کر کہا کہ آپ کو ہمارے والد بلا رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گھر پہنچ کر لڑکیوں کے والد سے ملاقات کی۔ بزرگ نے سب سے پہلے کھانا کھلایا اور پھر ان کے حالات سنے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی ولادت سے مدین تک آنے کے حالات اور بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کی داستان سنائی۔ بزرگ نے بہت تسلی دی۔ جو لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھی۔ اس نے اپنے والد سے کہا۔ آپ اس مہمان کو خدمت کے لئے ملازم رکھ لیجئے۔
خدمت گاروہی اچھا ہوتا ہے جو طاقتور ہو اور امین بھی ہو۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا۔’’تجھے اس مہمان کی قوت اور امین ہونے کا پتا کس طرح چلا۔‘‘ لڑکی نے ثبوت کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شروع سے آخر تک کا طرز عمل بیان کیا۔ بیٹی کی یہ بات سن کر باپ بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔۔بزرگ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہو اور میری بکریاں چراؤ تو میں اپنی اس بیٹی کی شادی تم سے کرنے کو تیار ہوں اگر تم اس مدت کو دو سال اور بڑھا کر دس سال کرو تو یہ بہت بہتر ہو گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ شرط منظور کر لی اور کہا کہ یہ مجھ پر چھوڑ دیں کہ میں اپنی خوشی سے مدت میں سے جس طرح چاہوں۔ پورا کروں۔
آپس میں شرائط کی منظوری کے بعد بزرگ سے مقرر کردہ مدت کو مہرقرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ مدت پوری ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر جانے کے لئے تیار ہو گئے اور بزرگ نے بکریوں کا ریوڑ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی اور ریوڑ لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے بہت دور پہنچ گئے تو انہیں اور ان کی زوجہ کو شدید سردی لگنے لگی۔ رات کا وقت تھا سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت پیش آئی۔ مگر ایسے ویرانے میں آگ کہاں سے ملتی جب کہ چقماق بھی سردی کی شدت سے ناکارہ ہو گیا تھا۔ جس جگہ ان کا قیام تھا۔ وہاں سامنے کوہ سینا کا سلسلہ موجود تھا۔ وادی ایمن کی طرف نظر گئی تو ایک شعلہ سا چمکتا ہوا نظر آیا۔۔۔۔۔۔بیوی سے کہا کہ آگ نظر آئی ہے تم یہاں ٹھہرو۔ میں آگ لے آؤں تا کہ سردی سے بچنے کا انتظام ہو جائے۔ وادی ایمن پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت پر روشنی ہے مگر نہ درخت کو جلاتی ہے اور نہ بجھتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے۔ یہ روشنی ان سے دور ہوتی چلی گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں خوف پیدا ہوا اور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس چلے جائیں۔ جوں ہی وہ واپس جانے کے لئے مڑے آگ قریب آ گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے۔ آواز آئی۔
’’اے موسیٰ علیہ السلام! میں ہوں، میں اللہ رب العالمین۔‘‘
بس موسیٰ علیہ السلام اس کے قریب آئے تو پکارے گئے۔ ’’اے موسیٰ علیہ السلام! میں ہوں تیرا پروردگار، اپنے جوتے اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ، میں نے تجھے اپنی رسالت کے لئے چن لیا بس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن!۔‘‘
آواز کو سنا اور ان کو معلوم ہوا کہ ان کے نصیب میں وہ دولت آ گئی ہے جو انسانی شرف کا طرۂ امتیاز ہے تو والہانہ فریفتگی میں محو حیرت کھڑے ہو گئے۔
پھر پوچھا گیا۔’’اے موسیٰ علیہ السلام تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔’’یہ میری لاٹھی ہے۔ اس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ’’موسیٰ علیہ السلام! اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈال دے۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا۔ بس ناگاہ وہ اژدہا بن کر دوڑنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے۔ پیٹھ موڑ کر چلے ہی تھے کہ آواز آئی۔
’’موسیٰ! اس کو پکڑ لو اور خوف نہ کھاؤ۔ ہم اس کو اصلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے بے خوف ہو کر اژدہے کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اور فوراً ہی وہ اژدہا لاٹھی بن گیا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ پکارا گیا۔
’’اپنا ہاتھ گریبان میں لے جا کر بغل سے مس کر اور باہر نکال، تیرا ہاتھ روشن ہو جائے گا۔‘‘ اور فرمایا۔’’یہ وہ روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے۔ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا۔’’میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مارڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زور بیان رکھتا ہے اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تا کہ وہ میری تائید کرے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا۔ ’’ہم تیرے بھائی کی امانت سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیاں تمہارے پاس ہیں اور تم اور تمہارے پیروکار فرعون اور اس کی جماعت پر غالب رہو گے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام منصب نبوت سے سرفراز کلام ربانی سے فیض یاب، تبلیغ کی دعوت میں کامیابی اور کامرانی کا مژدہ پا کر مقدس وادی سے اترے اور اپنی بیوی کے ساتھ مصر روانہ ہو گئے۔ مصر پہنچے تو حضرت ہارونؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب رسالت عطا ہو چکا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے باہم مشاورت سے طے کیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم فرعون کو سنانا چاہئے۔ غرض دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور بے خوف و خطر اندر داخل ہوئے۔ فرعون کے تخت کے قریب پہنچ کر حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور فرمایا۔
’’اے فرعون! ہم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے، ہم تجھ سے دو باتیں چاہتے ہیں۔ پہلی یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنا اور دوسری یہ کہ ظلم سے باز آ جا اور بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ زبردست نشانیاں عطا فرمائی ہیں۔‘‘
فرعون نے جب یہ سنا تو کہا۔’’موسیٰ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر میں پرورش پائی اور اسی گھر میں اپنا بچپن گزارا اور کیا تو یہ بھی بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔’’یہ صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پائی اور ایک مدت تک شاہی محل میں رہا۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ مجھ سے نادانستگی میں ایک شخص قتل ہو گیا کہ یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ مجھ ایک اسرائیلی کی پرورش کا بدلہ یہ قرار پائے کہ تو بنی اسرائیل کی تمام قوم کو غلام بنائے رکھے۔‘‘
فرعون نے اپنی شیطنت سے بھری سرشت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبرخدا ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی تحقیر کی اور ان سے بحث شروع کر دی۔ ان کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دی اور دیوتاؤں کی پوجا کے خلاف آواز اٹھائی اور فرمایا انی رسول من رب العالمین۔ تو فرعون نے کہا۔’’موسیٰ! تو یہ نئی بات کیا سناتا ہے کیا میرے علاوہ بھی کوئی رب ہے‘‘ اور درباریوں کی طرف مخاطب ہو کر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم سنتے ہو؟ یہ کیسی عجیب بات کہہ رہا ہے، مجھے لگتا ہے یہ مجنوں ہے۔‘‘ اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا۔’’اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو میں تجھے ضرور قید کر دوں گا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ ’’اگر میں تجھے اپنے رب کی نشانیاں دکھا دوں تب بھی تو رب العالمین پر ایمان نہیں لائے گا۔‘‘
فرعون نے کہا۔’’اگر تو سچا ہے تو مجھے نشانیاں دکھا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے اور بھرے دربار میں فرعون کے سامنے اپنی لاٹھی کو زمین  پر ڈال دیا۔ اسی وقت اس نے اژدہے کی شکل اختیار کر لی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔
فرعون کے درباریوں نے جب اس طرح ایک اسرائیلی کے ہاتھوں اپنی قوم کے بادشاہ کی شکست کو دیکھا تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگے کہ بلاشبہ یہ ایک بڑا ماہر جادوگر ہے اور اس نے یہ سب ڈھونگ اس لئے رچایا ہے کہ تم پر غالب آ کر ہمیں مصر سے نکال دے۔ ہمیں اس سلسلے میں سوچنا چاہئے۔ بالآخر فرعون اور اس کے درباریوں کے باہمی مشوروں سے یہ طے پایا کہ مملکت مصر کے تمام ماہر جادوگروں کو دارالسلطنت میں جمع کیا جائے تا کہ وہ موسیٰ کا مقابلہ کریں۔ اس فیصلہ کے بعد فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔’’موسیٰ! ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ تو ہم کو سرزمین مصر سے بے دخل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب تیرے اور ہمارے درمیان مقابلے کے دن کا معاہدہ ہونا چاہئے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔’’اس کام کے لئے بہتر وقت جشن کا روز ہے اس دن سورج طلوع ہونے پر ہم سب میدان میں جمع ہو جائیں گے۔‘‘فرعون نے اسی وقت مملکت کے تمام عمال اور حکام کے نام فرمان جاری کر دیا کہ ہماری سلطنت میں جتنے مشہور اور ماہر جادوگر ہیں ان کو جلد از جلد دارالحکومت روانہ کر دیا جائے۔
یوم جشن آ پہنچا۔ میدان میں فرعون شاہانہ کروفر کے ساتھ تخت نشین ہے۔ لاکھوں کا مجمع ہے۔ ایک جانب مملکت مصر کے مشہور جادوگروں کا گروہ اپنے سحر کے لوازمات کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے رسول، حق کے پیغامبر، سچائی اور راستی کے پیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارونؑ کھڑے ہیں۔ فرعون بہت مسرور اور شاداں ہے۔ اسے یقین ہےکہ جادوگر  ان دونوں بھائیوں کو شکست دے دیں گے۔ لوگوں نے دیکھا کہ فرعون ساحروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ انعام و اکرام کا لالچ دے رہا ہے۔ جادوگراں کو بھی اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ وہ انعام و اکرام کے حصول کی توقع سے نہایت مسرور اور خوش ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو مجمع پر سناٹا چھاگیا۔ آپﷺ نے فرمایا۔ تمہاری حالت پر سخت افسوس ہے۔ تم کیا کر رہے ہو ہم کو جادوگر کہہ کر اللہ پر جھوٹا الزام نہ لگاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ خدا تم کو اس بہتان تراشی کی سزا میں نیست و نابود کر دے۔ کیونکہ جس کسی نے خدا پر بہتان باندھا وہ نامراد ہی رہا۔
جادوگر آگے بڑھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔’’موسیٰ! ان باتوں کو چھوڑ اور بتا کہ ابتداء تیری طرف سے ہو گی یا ہم پہل کریں؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔’’پہل تمہاری طرف سے ہو گی اور تم اپنے کمال فن کی پوری پوری حسرت نکال لو۔‘‘ چنانچہ جادوگروں نے اپنی رسیاں، بان اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان میں حرکت پیدا ہوئی اور سانپ اور اژدھے کی شکل اختیار کر کے دوڑنے لگے۔ یہاں تک کہ پورا میدان ان سے بھر گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ حال دیکھا تو ان کو تردد ہوا۔ فوراً وحی نازل ہوئی۔ ’’موسیٰ! خوف نہ کھاؤ۔ ہمارا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے۔ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دے۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جیسے ہی لاٹھی زمین پر ڈالی وہ ایک بڑا اژدھا بن گئی اور اس نے جادوگروں کے ان گنت سانپوں اور اژدہوں کو نگل لیا۔ میدان میں ایک سانپ بھی باقی نہیں بچا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کوئی تذکرہ ایسا نہیں کیا جو محض کہانی یا قصہ ہو جو کچھ ارشاد کیا ہے۔ اس کے پس پردہ نوع انسانی کے لئے ایک حکمت ہے مثلاً فرعون کے زمانے میں مصریوں نے بنی اسرائیل کی عورتوں مردوں اور بچوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ ان کے رہنے کے لئے ایسی جگہ مقرر کی تھی جہاں کوڑیاں پڑتی تھیں۔ تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ انہیں روٹی میسر نہ تھی۔ پھٹا پرانا کپڑا پہنتے تھے انہیں اس بات کی اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے شہر میں آ جا سکیں۔ بجز ان اوقات کے جس میں وہ مصریوں کی خدمت کرتے تھے۔ ایک طرف بنی اسرائیل کی یہ حالت تھی اور دوسری طرف مصریوں کی شان و شوکت کا یہ حال تھا کہ بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ ان کی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آج بھی ان کی یادگاریں فراعین کے مقابر کی صورت میں موجود ہیں۔ جو تختیاں قطبی زبان میں لکھی ہوئی ملی ہیں۔ ان کو پڑھنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ فرعون اور اس کی اولاد نے اپنے مقبروں کو بنانے میں ایسا فن استعمال کیاجو کمال کے درجہ تک پہنچا ہوا ہے۔ انہوں نے تختیوں پر لکھ دیا تھا۔ اگر ہماری چیز خراب کی گئی یا کسی نے ہاتھ لگایا۔ یا کوئی سامان چرایا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
اندازہ لگایئے کہ ایک طرف غربت زدہ اور اچھوت قوم اور دوسری طرف فرعون اور اس کا جاہ و جلال اور وہ جادوگر جو پیغمبر کے مقابلے میں آ گئے۔ بظاہر اگر کسی کو بنی اسرائیل اور فرعون کے حالات بتائے جائیں تو وہ کیسے یقین کرے گا کہ بنی اسرائیل کے لوگ فاتح ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ان کو سر بلند کیا اور دوسری طرف فرعون کو قعرمذلت میں پھینک دیا۔ قرآن پاک میں اس قصہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کو محض کہانی سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پرغور کریں جو نوع انسانی کے لئے راہ ہدایت ہے۔ فراعین کے زمانے کے علوم اور کمال آج بھی لوگوں کے سامنے ہیں یہ علوم انہیں کہاں سے ملے؟ ظاہر ہے کہ یہ علوم بھی انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھئے کہ اس نے ہماری زمین پر ایسے آدمی بنائے جنہوں نے اس قسم کے کمرے وضع کئے جس میں ممی رکھی گئی اور وہ ممی آج تک ویسی کی ویسی موجود ہے۔ ایسے زبردست علوم و فنون کے ماہر اور شان و شوکت کے حامل لوگوں کو بنی اسرائیل جیسے خستہ حال لوگوں نے ملیامیٹ کر دیا۔
فراعین مصر کے مقبروں کا ایک کمال یہ ہے کہ کسی ایک مقبرے میں جتنے کمرے ہیں۔ وہ نہ چوکور ہیں اور نہ گول بلکہ ایک خاص وضع کی ایجاد ہیں۔ وہ کمرے جو ممی کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہی آدمیوں کے بنائے ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا اور علم سے نوازا۔ اس علم کے ذریعہ انہوں نے مقبرے تعمیر کیے۔ ایک طرف ان کے حال پر اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھئے اور دوسری طرف اس قوم کی سرکشی ملاحظہ کیجئے کہ جس کو ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی فرعونیت کہا جاتا ہے۔ اور فراعین کی ممی، دیدہ عبرت نگاہ ہیں اور دنیا کے لئے تماشا بنی ہوئی ہیں، نہ گور نہ کفن۔ غور طلب یہ ہے کہ اس ہی عقل نے جس پر مصریوں کا تکیہ تھا اور جس عقل سے مصر کو سربلندی اور تہذیب حاصل تھی وہی عقل ان کے لئے گمراہی کا سبب بن گئی اور نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا۔ یہ ناراضگی ان کے اوپر عذاب در عذاب بن کر نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قوم کے ذریعے عذاب میں مبتلا کر دیا جو خستہ حال کوڑیوں پر رہنے والی، بھوکی ننگی اور اچھوت قوم تھی۔ ایسی قوم جس کا نہ کوئی معیار زندگی تھا۔ نہ اس کے پاس کوئی طاقت تھی نہ ہی وہ مصریوں کی طرح علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔
بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص پیدا کر دیا اور اس شخص نے مصریوں کا تختہ الٹ دیا۔ یہ بھی فکر طلب ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پرورش بھی فرعون کے گھر پائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کے دماغوں کو بے کار کر دیا اور اس بات کو چھپا لیا کہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا ہے۔ اہل فن ذہین اور یکتائے روزگار جادوگروں اور ساحروں سے بھی وہ بچہ چھپا رہا۔ یہ دوسرا پردہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کی نگاہوں پر ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو لوگوں کی نظروں سے چھپا دیتے ہیں وہی چیزیں سرکش لوگوں کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔ آج کا دور بھی علوم و فنون کا دور ہے اور یہ علوم و فنون اور عقل انسان کے لئے ایک اور آزمائش اور ابتلا بن گئی ہے۔ جیسا کہ مصریوں کے لئے ان کے علوم و فنون اور عقل عذاب بن گئی تھی۔ آج جن علوم و فنون اور عقل کا تذکرہ عام ہے اس پر غور کیا جائے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ عقل جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تفکر شامل نہ ہو اور روحانی قدریں نہ ہوں وہ انسانوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ آج کے علوم و فنون بھی جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر قائم ہیں۔ نعرے انسانی حقوق کے لگتے ہیں لیکن ان نعروں کے پیچھے مادی مفاد اور کمزور لوگوں پر اقتدار کی خواہش کارفرما ہے۔ مادی مفاد میں اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو محکوم بنانے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا رہا تو وہ دن قریب ہے جب ترقی کے زعم میں فریب خوردہ اقوام کا حشر فراعین مصر کی طرح ہو گا اور یہ دن دور نظر نہیں آتا۔



Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔