Topics
عالم
جنات میں صندل کی خدمات جاری تھیں۔ وہ روزانہ آدھی رات کو جب سارا گھر محو خواب
ہوتا، صندل دیوی والے کمرے میں چلی جاتی اور صبح صادق تک وہاں رہتی۔ ہر روز نت نئے
کیس اس کے پاس آتے۔ اب تک جتنے بھی کیس اس کے پاس آئے ان سب کا محرک ذاتی انا تھا۔
ہر ایک کے سامنے صرف اپنا نفس تھا۔ ایک مرتبہ جب صندل کورٹ میں پہنچی تو اس کے
سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا ایک قوی ہیکل جن زنجیروں میں جکڑا کٹہرے میں داخل ہوا اس
کی بڑی بڑی گول گول آنکھوں سے خوفناک حد تک سرخی چنگاریوں کی طرح جھلک رہی تھی۔ اس
کے موٹے موٹے ہونٹوں سے باہر نکلے ہوئے بڑے بڑے دانت اس کے بدصورت چہرے کو حد سے
زیادہ بھیانک بنائے ہوئے تھے۔
وکیل
نے سب سے پہلے کورٹ کو اس مقدمے کی تفصیل سنائی۔ مجرم پر ایک پوری بستی کو جلانے
کا الزام تھا۔ اس کے خلاف گواہی دینے کے لئے بیسیوں جنات کورٹ میں حاضر تھے۔ مقدمے
کا پہلا گواہ ایک جن پیش کیا گیا۔ وکیل کے استفسار پر اس نے بتایا کہ مجرم جل کر
تباہ ہونے والی بستی سے کچھ ہی فاصلے پر دوسری بستی میں رہتا ہے۔ طبعاً انتہائی
خود غرض اور شرارتی ہے۔ اس کے سامنے ذاتی مفاد کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مجرم وقتاً
فوقتاً تبا ہ ہونے والی بستی میں آتا تھا۔ لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ، لڑکیوں اور بچوں
کے اغواء اور جنسی وارداتیں اس کا محبوب ترین مشغلہ ہیں۔ اپنی قوت و طاقت اور
شیطنت کی بناء پر ہمیشہ قانون کی گرفت سے بچ جاتا۔ مگر اس مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک
رات جب ساری بستی گہری نیند میں تھی۔ مجرم بری نیت سے فلاں کے گھر داخل ہوا۔ اتفاق
سے گھر والے کی آنکھ کھل گئی۔ دونوں میں مقابلہ ہوا۔ مجرم کے پاس آتشیں اسلحہ تھا۔
اس نے شدید اشتعال کے عالم میں گھر میں آ گ لگا دی۔ شور اور آگ کے شعلے دیکھ کر
بستی کے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے بھاگتے ہوئے مجرم کو پکڑنے کی کوشش
کی تو مجرم مسلسل آتشیں اسلحہ سے اپنے چاروں طرف آگ برساتا رہا ، خود تو بچ گیا
لیکن ساری بستی میں آگ پھیل گئی۔ بستی کے بہت کم لوگ زندہ بچ سکے۔ بعد میں پولیس
نے اسے پکڑ لیا۔ کورٹ نے مجرم کے خلاف گواہوں کے بیان سننے کے بعد مجرم کا بیان
لیا۔ اس سے سوال کیا گیا کہ کیا تمہیں اس بات کا احساس ہے کہ تم نے اپنے ہی لوگوں
پر ظلم کیا ہے؟
وہ
کہنے لگا۔”میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ پوری بستی میرا مقابلہ نہ کر سکی۔”
صندل
نے اس سے پوچھا۔”کیا تمہیں خدا کا خوف محسوس نہیں ہوتا جس نے تمہیں وجود بخشا۔”
وہ
متکبرانہ انداز میں کہنے لگا۔”میرے اندر ہزاروں جنات کا مقابلہ کرنے کی قوت ہے۔
مجھے کسی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔”
اس
گستاخانہ جوا ب کے بعد صندل نے اس سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ جان گئی کہ اس
عفریت کے نفس کی انا سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ آتشیں اسلحہ سے اس جن
کو سرعام جلایا جائے تا کہ دوسروں کے لئے عبرت کی نشانی بن جائے۔
اس
رات عالم جنات سے صندل جب اپنے گھر لوٹی تو جیسے ہی اس کا جسم مثالی اپنے بدن کے
اندر داخل ہوا وہ پورے شعوری حواس میں آئی۔ اس کے دل پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔ وہ
سوچنے لگی کہ نفسانی انا کیا اتنی بھی خود غرض ہو سکتی ہے کہ اسے اپنے سوا اور کسی
کا تصور ہی نہ ہو۔ یہی سوچتے سوچتے وہ اپنے کمرے میں آئی اور بستر پر لیٹتے ہی سو
گئے۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ سلطان بابا کے ساتھ نور کی فضا میں اڑ رہی ہے۔
سلطان بابا کہتے ہیں یہ عالم ملکوت ہے۔ ان کے کہنے پر صندل کو اس عالم میں بہت
سارے ملائکہ اڑتے اور چلتے پھرتے دکھائی دیئے۔ اس کو اپنا وجود فرشتوں کی طرح روشن
اور ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ اس نورانی فضاء میں اڑتے ہوئے تمام وقت اس پر تقدس اور
لطافت کا احساس غالب رہا۔ وہ سلطان بابا کے ساتھ خوشی خوشی اس لطیف فضاء میں پرواز
کرتی رہی۔ اس نے دیکھا کہ اس عالم کے تمام ملائکہ انہیں پہچانتے ہیں۔ گروہ در گروہ
ملائکہ اڑتے ہوئے ان کے پاس سے گزرتے اور تعظیماً جھک کر انہیں سلام کرتے اور گزر
جاتے۔ اس کو معلوم ہوا کہ فرشتوں میں وہ صندل دیوی کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
کافی
دیر سیر کے بعد سلطان بابا نے فرمایا۔ آؤ عالم ناسوت کی سرحد پر چلتے ہیں۔ دونوں
اڑتے ہوئے عالم ناسوت کی سرحد پر آئے۔ سلطان بابا نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا، اس
سرحد کے پار عالم ناسوت ہے۔ دونوں عالمین کے درمیان ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے سے
ٹکرا کر نور کی شعاعیں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔
صندل
شعاعوں کے بکھرنے کا منظر دیکھتی رہی۔ اس نے دیکھا کہ آئینے سے ٹکرا کر نور کی
شعاعیں جب پھیلتی ہیں تو کچھ شعاعیں آئینے کی چمکیلی سطح کی وجہ سے واپس لوٹ جاتی
ہیں۔ آئینے میں جذب ہونے والی شعاعیں ابعاد(Dimension) تخلیق کر رہی ہیں۔ جن سے اشیاء کی صورتیں تخلیق ہو رہی ہیں۔
کائنات کی اشیاء کے عکس آئینے میں دیکھ کر صندل کو جستجو ہوئی کہ میرا عکس کہاں
ہے۔ اس نے آئینے پر نظر جما دی۔ کچھ دیر بعد اسے اپنا عکس آئینے میں نظر آ گیا۔ اس
نے رعونت سے اپنی گردن کو جھکا دیا اور اسی وقت اس کی آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے کے
بعد وہ غنودگی کے عالم میں رہی اور اسی عالم میں اس کے ذہن میں سلطان بابا کی آواز
آئی۔
عالم
ناسوت کے آئینے میں روح ملکوتی اپنا عکس دیکھتی ہے۔ یہ عکس انا کا جسم مثالی ہے۔
پس اس مقام سے انفرادی شعور کی تخلیق ہوتی ہے۔ جس کا رخ اپنی ذات کی جانب ہے۔ تمام
خرابیاں اس کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ کیونکہ انفرادی شعور اپنی حرکت کا محرک خود
اپنی ذات کو سمجھتا ہے۔ حالانکہ جسم کی تمام حرکات روح کے تابع ہیں، انفرادی شعور
کی یہی غلطی اسے اپنی روح اور اپنے خالق سے دور کر دیتی ہے۔
اس
کے بعد پڑوس کی وہ عورت جو حج کرنے گئی تھی۔ واپس آ گئی۔ جس دن وہ واپس لوٹی، اسی
رات صندل کے گھر بھی کھجوریں اور آب زم زم لے کر آئی۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد
سارا گھر صحن میں بیٹھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا مزا لے رہا تھا۔ اس نے دروازہ
کھٹکھٹایا۔ خادم نے دروازہ کھولا ۔ تو وہ سیدھی صندل کی طرف آئی اور ایک دم اسے
گلے لگا لیا۔ خوش ہو کر بولی،”صندل تو مہان ہے۔ تو پاک ہے۔ تو اللہ کی پیاری ہے۔”
اس
کی آواز پر سارے ہی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ صندل اسے تخت پر بٹھاتے ہوئے بولی،”خالہ
جی، آپ آرام سے بیٹھیں تو سہی۔ آپ کو حج مبارک ہو۔”وہ صندل کی طرف تبرک بڑھاتے
ہوئے بولی،”بیٹا تجھے بھی حج مبارک ہو۔”
پھر
وہ چودھرائن کی طرف بڑھی۔ نمستے کر کے چودھرائن سے بولی،”اللہ جس کو چاہتا ہے نواز
دیتا ہے۔ تمہاری بیٹی پر اللہ کی خاص نوازش ہے۔”گھر والوں کو کچھ پتا تو تھا نہیں۔
وہ سب حیرت سے پڑوسن کی باتیں سن رہے تھے۔
کاجل
بولی،”مگر خالہ آپ تو صندل کو حج کی مبارکباد دے رہی ہیں۔ حالانکہ حج تو خود کر کے
آئی ہیں اور صندل کیسے حج پر جا سکتی ہے؟”
پڑوسن
بولی،”اے بہو! یہی تو میں بھی کہنے آئی ہوں کہ صندل کو میں نے حج پر دیکھا تھا۔
بلکہ اس سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس کے ساتھ ایک بزرگ تھے۔”
یہ
سن کر سب متحیر رہ گئے۔ ٹھاکر صاحب اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولے،”بہن جی! آپ کیا
کہہ رہی ہیں۔ آپ نے کسی اور کو صندل کی صورت میں دیکھا ہو گا۔”وہ بولی،”صندل بیٹھی
ہوئی ہے آپ اسی سے پوچھ لیں۔”ٹھاکر صاحب صندل کی طرف متوجہ ہونے ، کہنے لگے،”بیٹی
یہ کیا قصہ ہے؟”
صندل
معصومیت کے ساتھ بولی،”باپو! جس دن میں نے برت رکھا تھا اسی دن سلطان بابا مجھے حج
پر لے گئے تھے۔ انہیں کے حکم سے میں نے برت رکھا تھا۔ وہیں پر میری خالہ جی سے
ملاقات ہوئی تھی۔ سلطان بابا نے فرمایا تھا کہ آتما ہندو ہوتی ہے نہ مسلمان۔ آتما
تو بس اپنے خالق کو مانتی ہے۔ جس مقام پر دنیا میں خدا کی عبادت ہوتی ہے۔ وہاں پر
آتما کا ظہور ہوتا ہے۔ وہاں روحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ روحیں وہیں سے رزق
پاتی ہیں۔ خدا کا نور روحوں کی غذا ہے۔ باپو، سلطان بابا کہتے ہیں کہ آتما بھگوان
کے نور کے بنا زندہ نہیں رہ سکتی۔”
ٹھاکر
صاحب حیرت سے بیٹی کو دیکھتے رہے اور سوچنے لگے کہ صندل کے روپ میں بھگوان نے ان
پر اپنی خاص دیا کی ہے۔ انہوں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور بولے،”بہن جی! یہ تبرک ہمیں
بھی دینا۔”پھر خود ہی کہنے لگے،”صندل یہ تبرک اپنے ہاتھ سے سب کو کھلا دے۔”
خوشی
کے مارے صندل پر نور اتر آیا۔ لالٹین کی مدہم روشنی میں بھی اس کا چہرہ سب لوگوں
کے درمیان جگمگا اٹھا۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کیا اور سب کے لئے
دعا مانگی۔ سب کے منہ میں اپنے ہاتھ سے کھجوریں ڈالیں اور آب زم زم پلایا۔
چودھرائن آب زم زم پی کر بولیں،”اے بھگوان آب زمزم بھی تیرا پوتر جل ہے۔ اس سے
ہماری آتما کو پوتر کر دے۔”
گاؤں
میں کوئی بھی خبر جنگل کی آگ کی طرح آن کی آن پھیل جاتی ہے۔ پڑوسن خالہ جس گھر میں
جاتی اپنے حج کے ذکر کے ساتھ ساتھ صندل کے حج کا بھی تذکرہ کر دیتی۔ دن بھر صندل
کے پاس عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ اسے اب پتا چلا کہ گاؤں کے لوگ کتنے سیدھے
سادھے اور جاہل ہیں۔ ان کی ساری زندگی خود ساختہ روایات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ جس
کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ کوئی بیماری ہو ان کے ذہن جادو ٹونہ، آسیب
اور جن چڑھنے کی طرف سب سے پہلے جاتے ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ لوگوں نے اپنے
خالق کو مخلوق کا روپ دے رکھا ہے۔ خالق اور مخلوق ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟ جب کوئی
پریشانی یا بیماری کا ذکر کرتا، صندل نہایت شیریں لہجے میں اس سے کہتی،”ماسی ان
دکھوں سے نجات پانے کے لئے آنکھیں بند کر کے اوپر والے کی طرف دھیان لگاؤ۔ اسی کے
پاس شکتی ہے ۔ اس کی کوئی صورت نہیں ہے۔ صورتیں تو مخلوق کی ہیں۔ مخلوق ساری کی
ساری محتاج ہے وہ کسی کو کیا دان کرے گی؟”
صندل
کی باتوں میں سچائی تھی۔ سچائی من میں اتر جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے گاؤں کی عورتوں کے
ذہن توہمات اور جادو ٹونے سے دور ہونے لگے۔
ادھر
گاؤں میں شہباز کے بھی چرچے سننے میں آ رہے تھے۔ کچھ عورتوں نے صندل کو بتایا کہ
ایک نوجوان درویش ہے۔ وہ فلاں جگہ درخت کے نیچے بیٹھتا ہے۔ جو کوئی اس کے پاس جاتا
ہے وہ اپنی گدڑی کے نیچے ہاتھ ڈالتا ہے پھر وہاں سے جو کچھ اس کے ہاتھ میں آتا ہے،
عنایت کر دیتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ چاہے بیسیوں آدمی چلے جائیں سب کو کچھ نہ کچھ
مل جاتا ہے اور ہر ایک دوسرے سے مختلف چیز ملتی ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ فوراً
اس درویش کے پاس سے بھی اور اس کی عطاکردہ چیزوں میں سے بھی صندل کی خوشبو آتی ہے۔
یہ سن کر صندل کے گالوں پر شفق پھوٹنے لگی ۔ اس لئے اس نے گھبرا کر اپنی اوڑھنی
چہرے پر کر لی۔
ایک
دن صندل کے پاس اس کی بچپن کی ایک سہیلی ملنے آئی وہ مہندی لے کر آئی تھی کہنے
لگی،”صندل تجھے یاد ہے بچپن میں دیوالی کے تہوار پر ہم دونوں دو دن پہلے سے مہندی
لگا کر سجتے بنتے تھے۔ کل دیوالی ہے میں تیرے لئے مہندی لائی ہوں۔”
صندل
بولی،”سُجاتا، تو لگا لے اب میں نے مہندی لگانی چھوڑ دی ہے۔”وہ ضد کرنے لگی،”صندل
ہاتھ دے نا میں لگا دوں، مہندی تو سہاگن کا سنگھار ہے جوگن بھی تو دلہن کی طرح
سہاگن ہوتی ہے۔ مہندی لگالے۔”سجاتا نے اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی جانب دیکھا اور
صندل کہہ کر چیخ پڑی، صندل کے دونوں ہاتھ کی ریکھائیں مہندی کی سرخی سے رچی ہوئی
تھیں۔ صندل نے سجاتا کے منہ پر جلدی سے ہاتھ رکھ دیا۔ بولی،”بس اب اس کا ذکر نہ
کرنا۔”سجاتا نے سر ہلا کر وعدہ کیا اور چپ چاپ چلی گئی۔ دوسرے دن دیوالی تھی۔ صبح
سے خادم اور بھاوجوں نے مل کر سارے گھر کی دیواروں پر دیئے رکھ دیئے کہ شام ہوتے
ہی جلا دیں گے۔ دوپہر کو کندن، اس کا گھر والا اور عاجل اور اس کی فیملی سب ہی آنے
والے تھے۔ شام سے پہلے پہلے سب لوگ حویلی پہنچ گئے۔ شام کو دیئے جلانے لگے تو تیز
ہوائیں چلنے لگیں۔ جو دیا جلاتے ہوا کا جھونکا اسے بجھا دیتا۔ بڑی دیر تک کوشش
کرتے رہے ، سب کے منہ لٹک گئے۔ آخر چودھرائن بچوں کا شوق دیکھ کر بولی،”خادم دیئے
کمروں کے اندر لگا دے۔”خادم بولا،”مالکن حویلی کی راہداری کے اندر بھی دیئے سجا
لئے ہیں۔ میں پہلے ان کو جلا دیتا ہوں۔”عجیب بات ہو گئی کہ ایک دیا بھی جل کر نہ
دیا۔ عاجل بولا، “تیل میں پانی ملا ہو گا جبھی تو دیئے نہیں چل رہے۔”خادم بولا،”چھوٹے
سرکار تیل تو بالکل ٹھیک ہے۔ کل بھی اس تیل کو لالٹین میں استعمال کیا تھا۔آج بھی
لالٹین کے اندر وہی بھرا ہے وہ تو جل رہی ہے ، پھر دیئے کیوں نہیں جل رہے؟”اب سارے
گھر کی زبان پر یہی الفاظ تھے ، دیئے نہیں جل رہے؟ دیئے کیوں نہیں جل رہے؟ آج تو
دیوالی ہے ۔ ایشور ہم سے ناراض تو نہیں ہو گیا؟ صندل اپنے عبادت والے کمرے میں
عبادت میں مصروف تھی اسے ابھی تک اس بات کا پتہ نہ تھا۔
جب
وہ عبادت سے فارغ ہو کر صحن میں آئی تو سارا گھر اندھیرے میں دیکھ کر پکار اٹھی۔”کندن،
ماتا جی، اتنا اندھیرا ہو گیا۔ ابھی تک دیوالی کے دیئے نہیں جلائے؟”صندل کی آواز
سن کر خادم تیزی سے اس کی طرف آیا۔ ماچس ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا۔”چھوٹی مالکن
دیوالی کے دیئے تو آج آپ ہی جلائیں گی۔ صندل نے مسکرا کر اس کے ہاتھ سے ماچس لے
لی۔ سب لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ صندل نے منہ ہی منہ میں اپنے رب کا نام
پکارا اور دیئے کو آگ لگا دی۔ سب اس اندیشے میں تھے کہ دیا اب بجھا کہ جب بجھا۔
اتنی دیر میں صندل نے اور بہت سے دیئے بھی جلا دیئے۔ پھر تو سب نے خوشی سے تالیاں
بجائیں۔ تب صندل کو پتا چلا کہ ماجرا کیا ہے۔ اس نے خادم کو ماچس دے کر کہا ، “اب
باقی دیئے تم جلا لو”باقی دیئے خادم نے جلا دیئے۔ ہوائیں اسی طرح چلتی رہیں مگر
پھر کوئی دیا نہ بجھا۔ صندل نے بھجن گانا شروع کر دیئے۔ سارے گھر میں بھجن کی
آوازیں گونجنے لگیں۔ چراغوں کی روشنی میں سب کا ایک ساتھ مل کر بھجن گانا فضاء کو لطیف
بنا رہا تھا۔ بھجن گا چکے تو کندن نے صندل سے پوچھا۔”صندل اتنی ہوا میں دیئے بجھتے
کیوں نہیں؟”
صندل
بولی،”دیدی انسان کی نیکی کے دیئے کبھی نہیں بجھتے۔ ہر تہوار کے پیچھے آتما کی ایک
فکر کام کر رہی ہے۔ دیوالی میں آتما کی نظر اپنی نیکیوں پر ہوتی ہے۔ اس کی نگاہ کی
روشنی اس کے ایک اعمال چراغوں کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ جیسے جیسے روح کی نظر اپنے
اعمال پر پڑتی جاتی ہے۔ ویسے ویسے اس کے سامنے دیوالی کے دیئے جلتے جاتے ہیں۔ روح
کی شکتی چراغوں کو بجھنے نہیں دیتی۔ جب روح کی فکر اور جسم کی حرکت ایک ہو جاتی ہے
تب اس کام میں روح کی شکتی شامل ہو جاتی ہے۔ پھر وہ کام امر ہو جاتا ہے۔”
دن
مہینے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے۔ صندل کو گھر آئے اب دو سال بیت چکے تھے۔
ان دو سالوں میں گاؤں والوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ گاؤں کا بچہ بچہ اسے
پہچانتا تھا۔ گاؤں میں اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ عالم جنات میں بھی
بحیثیت چیف جسٹس اس کا بڑانام تھا۔
ایک
دن دوپہر کو بیٹھے بیٹھے اچانک صندل کے اندر ایک لہر سی اٹھی۔ اس کا بیساختہ جی
چاہا کہ سلطان بابا کی قبر پر جائے۔ اس کی آنکھوں کے آگے بار بار شہباز کی صورت
آنے لگی۔ اس نے اپنے دل کو ہر صورت بہلانے کی کوشش کی۔ مگر یوں لگا جیسے ایک کشش
ہے جو قبر کی جانب اسے کھینچ رہی ہے۔ وہ اٹھی اور چپ چاپ دروازے سے باہر نکل آئی۔
قبر پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ شہباز قبر پر جھکا ہوا ہے۔ وہ بھی اس کے قریب اسی
حالت میں بیٹھ گئی۔ اس نے مراقبہ میں دیکھا کہ شہباز سلطان بابا کے پاس بیٹھا ہے
اور صندل سے ملنے کی درخواست کر رہا ہے۔ اتنے میں صندل بھی سلطان بابا کے سامنے آ
جاتی ہے۔ شہباز صندل کو دیکھتے ہی بیساختہ کہہ اٹھتا ہے، صندل تم آ گئیں اور اسی
وقت شہباز نے سر اٹھایا اور کہہ اٹھا ، صندل تم آ گئیں۔ صندل نے اسے ایک نظر دیکھا
، الجھے بال اور لمبی داڑھی میں وہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ صندل کو ضبط کا یارانہ
رہا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ کچھ دیر بعد جب اس کا دل ہلکا ہوا وہ اٹھ کر خاموشی
سے چل دی جتنی دیر وہ وہاں رہی شہباز اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا اور جب تک وہ
آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی وہ اسے دیکھتا ہی رہا۔ گھر آ کے صندل سیدھی عبادت والے
کمرے میں آئی۔ اسے اپنے اندر سب کچھ الٹا پلٹا محسوس ہو رہا تھا۔ شہباز کو دیکھ کر
اس کے اندر جوانی کے تقاضے مچلنے لگے تھے۔ اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے رب کے
آگے ماتھا ٹیک دیا۔ اسے بہت سکون ملا۔ شام تک وہ بیٹھی اپنے رب سے پرارتھنا کرتی
ری کہ شہباز کے دل سے اس کا عشق نکال دے۔ جس نے اسے بے چین کر رکھا ہے جو چیز
تقدیر میں نہیں اس کی خواہش کرنے سے کیا حاصل؟ بار بار یہ سوال اس کے ذہن میں
ابھرتا کہ جس چیز کو ہم حاصل نہیں کر سکتے بھگوان اس کی خواہش سل دے نکال کیوں
نہیں دیتے؟ اس کا دل تڑپ تڑپ کر یہی سوال کرتا ، آخر کیوں؟ آخر کیوں ایسی خواہشات
پر دل مچلتا ہے جو دنیا میں پوری نہیں ہو سکتی؟ رات اس نے کھانا بھی نہ کھایا نہ
کسی سے بات کی رات گئے تک صندل دیوی والے کمرے میں اپنے رب سے دل کی باتیں کرتی رہی
اور پھر اپنے کمرے میں آ کر سو گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک بہت خوبصورت
وادی میں اڑ رہی ہے۔ ایک خوبصورت نوجوان اسے وادی کی سیر کرا رہا ہے۔ اس کے ذہن
میں آیا کہ یہ نوجوان اللہ کا بندہ ہے جو اسے سیر کرانے یہاں لایا ہے۔ اس حسین
وادی میں جگہ جگہ پیڑ، پودے، پھول سب ہی کچھ تھے۔ وہ شخص کہنے لگا اس وادی میں
اللہ کا نور ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ روح جس عالم میں اپنے آپ کو موجود پاتی ہے۔ اس
عالم کی روشنیاں اس کا ادراک بنتی ہیں۔ اس کے اتنا کہنے پر صندل نے دیکھا کہ سورج
کی روشنی کی طرح نور سارے عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ اس وادی کی طرح اس کے روئیں
روئیں کو چھو رہا ہے۔ اور سانس کی طرح اس کے اندر باہر آ رہا ہے۔ اس نور کا لطیف
احساس اس کے اوپر طاری ہے۔ صندل اس شخص کے ہمراہ نور کی اس وادی میں سیر کرتی رہی۔
اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہزاروں سال سے یہاں اڑ رہی ہے۔ مگر عجیب بات تھی کہ ان
درختوں میں اسے کہیں کوئی پھل دکھائی نہ دیا۔ بالآخر اڑتے اڑتے وہ ایک اونچائی کی
جگہ پر پہنچے۔ یہاں ایک پھلدار درخت لگا تھا۔ صندل کو پھل دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔
اس نے قریب جا کر پھل توڑا۔ تو پھل میں کیڑا لگا ہو اتھا۔ یکے بعد دیگرے اس نے کئی
پھل توڑے مگر کوئی بھی پھل ثابت نہ تھا۔ مایوسی اس کے چہرے سے جھلکنے لگی۔ وہ
نوجوان کہنے لگا۔ صندل دیوی۔ اس درخت پر آپ کو کوئی پھل ثابت نہیں ملے گا۔ آپ کے
لئے تو پورا باغ لگ رہا ہے۔ اس کا سارا پھل آپ کے لئے ہے۔ بس تھوڑے انتظار کی
ضرورت ہے۔ اس کے کہنے پر صندل نے دائیں جانب دیکھا۔ اسے ایک پردہ دکھائی دیا۔ اس
پردے کے پیچھے باغ کی جھلک دکھائی دی۔ پھر اس کی آنکھ کھل گئی اس نے سوچا۔ انسان
کتنا جلد باز ہے ہر کام کا صل اسی دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی
کہ یہ دنیا عارضی ہے بھگوان اپنے بندے کو عارضی چیز نہیں بلکہ دائمی چیز دینا
چاہتے ہیں۔ درخت کے کٹے پھٹے پھل اور کیڑوں والے پھل مثال دنیا کی عارضی خوشیاں
ہیں جو وقتی طور پر نفس کو خوش کر دیتی ہیں۔ مگر روح کی خوشی بھگوان کی رضا میں ہے
اس خیال کے ساتھ ہی اس کی طبیعت پر چھایا ہوا غبار دور ہو گیا اور وہ پھر سے پر
سکون ہو گئی۔ ایک دن صندل کے پاس ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین لے کر آئے۔ اس
پر دماغی دورہ پڑا ہو اتھا۔ خوب چیخ چلا رہی تھی۔ وہ چلا چلا کر مردانہ آواز میں
اول فول بجے جا رہی تھی۔ کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ بال نوچے ہوئے تھے۔ غرضیکہ برا حال
تھا۔ ماں روتے ہوئے بولی،”دیوی جی۔ مینا ہماری اکلوتی بیٹی ہے۔ کچھ دنوں سے اس پر
جن آنے لگا ہے۔ اس وقت اس پر جن چڑھا ہوا ہے۔ جو مردانہ آواز میں اس کے اندر سے
بولتا ہے۔”صندل نے اسے سامنے بٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔”اے لڑکی!
تیرا نام کیا ہے؟”وہ پہلے تو خوب گھور گھور کر صندل کو دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں
کی ساری رگوں میں دماغی پریشر کی وجہ سے خون اتر آیا تھا جس سے آنکھیں سرخ انگارے
کی طرح وحشت زدہ سی ہو رہی تھیں۔ صندل نے پھر اس سے پوچھا۔”اے لڑکی! تیرا نام کیا
ہے؟”اب کے اس نے گھو رکر صندل کو دیکھا اور ہیبت ناک مردانہ آواز میں بولی،”میرا
نام سرسام ہے۔”صندل نے پوچھا،”تو نے مینا کو کیوں پکڑا؟”لڑکی نے سرسام بن کر جواب
دیا،”مینا مجھے اچھی لگتی ہے۔”صندل بولی،”اب میں تجھے حکم دیتی ہوں کہ اسے چھوڑ دے
اور پھر کبھی اس کے پاس نہ آنا۔”وہ نہایت گرجدار آواز میں بولا،”میں اس لڑکی کو
ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔”صندل نے تحکمانہ انداز میں کہا۔”تجھے اس لڑکی کو چھوڑنا ہی
ہو گا۔ آرام سے چھوڑ دے۔ ورنہ غیض و غضب کا نشانہ بن جائے گا۔”لڑکی نے بھیانک
انداز میں مردانہ آواز میں زور دار قہقہے لگائے اور ہاتھ پیر ہلا کر عجیب وحشیانہ
حرکات کرنے لگی۔ صندل نے اس کے ماں باپ کو اشارہ کیا کہ وہ اس کو پکڑ لیں تا کہ یہ
اٹھ کر نہ بھاگے۔ اس نے خادم کو بھی آواز دی وہ بھی آ گیا۔ سب نے زمین پر مچلتی
ہوئی اس لڑکی کو قابو میں کر لیا۔ اب صندل زور زور سے منتر پڑھنے لگی۔ جیسے جیسے
منتر کی آواز بلند ہوتی جاتی۔ ویسے ویسے لڑکی کو مچلنا، پھڑکنا بھی تیز ہوتا جاتا۔
اس کی فلک بوس ہیبت ناک چیخوں سے ساری حویلی گونجنے لگی۔ وہ چیخ چیخ کر ہائے مرا
ہائے جلا کہتا جاتا۔ آخر چند منٹوں بعد لڑکی کا پھڑکنا اور مچلنا کچھ کم ہونے لگا۔
اس کی آواز بھی آہستہ آہستہ کمزور ہوتی چلی گئی اور بالآخر وہ بے سدھ ہو کر زمین پر
گر گئی۔ اب صندل نے اپنی پیشانی اور آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور منہ ہی منہ میں
سلطان بابا کے ساکھائے ہوئے اسم کا ورد کر کے دم کرتی رہی۔ لڑکی اب گہری نیند میں
تھی۔ اس کے چہرے سے سکون جھلک رہا تھا۔ خادم نے اشارہ پا کر اس پر ایک چادر ڈال
دی۔ کچھ دیر تک دم کرنے کے بعد صندل اس کے پاس سے پرے ہٹ گئی اور اس کے غمزدہ ماں
باپ کو تسلی دیتے ہوئے بولی،”مینا اب بالکل ٹھیک ہے۔ اب اس پر کبھی جن نہیں آئے
گا۔ تم لوگ اسے اپنے گھر لے جاؤ۔ ابھی ذرا یہ گہری نیند میں ہے جیسے ہی سو کر اٹھے
گی۔ یہ بالکل نارمل ہو گی۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب یہ اٹھ جائے تو لے جانا۔”یہ
کہہ کر وہ اٹھنے لگی تو مینا کے باپ نے پوچھا۔”صندل دیوی کیا میں آپ سے کچھ پوچھ
سکتا ہوں؟”صندل دوبارہ صحن میں بچھے ہوئے تخت پر بیٹھے ہوئے بولی،”دھرم ویر! آپ
مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں، ضرور پوچھئے۔ آپ کو آگیا ہے۔”وہ آدمی دونوں ہاتھ جوڑ
کر کہنے لگا۔”دھنیواد”۔ پھر بولا۔”صندل دیوی میں اس گاؤں میں ٹیچر ہوں میری ساری
عمر اسی پیشے میں گزر گئی ۔ اس سے پہلے بھی مجھے کئی ایسے کیس دیکھنے میں اتفاق
ہوا ہے جس میں جوان لڑکیوں پر آسیب کا سایہ یا جنوں کا سایہ تھا اور پنڈت اور یوگی
گیانیوں کے ذریعے ہی وہ لڑکیاں ٹھیک ہوئیں۔ ویدک میں ان کا علاج کارگز نہ ہوا۔ میں
نے اس کے متعلق کئی کتابیں پڑھیں مگر مجھے آج تک اس کا تسلی بخش جواب نہ ملا، نہ
ہی وہ گیانی بتا سکے۔ جنہوں نے اس کا اوپائے کیا۔ صندل دیوی، آپ کا بڑا نام ہے کی
آپ بتا سکتی ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟”صندل نرم لہجے میں بولی،”ویر جی جیسا کہ
آپ نے مینا کی حالت کو دیکھا۔ اس کی آواز بھی بدل گئی۔ اس نے اپنا نام بھی مختلف
بتایا۔ لوگ یہ سمجھے یہ جن ہے۔ جب بھی ایسا کوئی کیس ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ
جن ہے، آسیب ہے۔ سایہ ہے۔ مگر ویر جی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا جسم روشنیوں میں گھرا
ہوا ہے۔ جسم کے اطراف میں چاروں طرف روشنیوں کے دائرے ہیں۔ یہ روشنیاں ہمارے جسم
میں داخل بھی ہوتی ہیں اور جسم سے خارج بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے جسم اور روشنیوں
کے دائروں کے درمیان تھوڑا سا خلاء ہے اس خلاء میں روشنیوں کی آمد و رفت سے ہر وقت
روشنیاں متحرک رہتی ہیں۔ روشنیوں کی حرکات کا دباؤ ذہن پر پڑتا ہے۔ اگر خلاء میں
روشنیوں کا بہاؤ کسی وجہ سے خراب ہو جاتاہے تو ذہن پر اور سارے جسم پر روشنیوں کا
شدید بوجھ محسوس ہوا ہے اور روشنیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے حواس بھی متاثر ہوتے
ہیں جس کی وجہ سے آواز بدل جاتی ہے۔ چہرہ ہیبت ناک ہو جاتا ہے۔”ماسٹر جی بولے،”صندل
دیوی مگر آدمی ایسی صورت میں اپنا نام مختلف کیوں بتاتا ہے؟”صندل بولی،”پرماتما نے
ہر شے کو دو رخوں میں بنایا ہے۔ ایک رخ میں زنانہ صفات ہیں دوسرے میں مردانہ صفات
ہیں۔ ذہن ایک آئینے کی طرح ہے۔ خلاء میں آنے جانے والی روشنیوں کا عکس ذہن کے
آئینے پر پڑتا ہے جس کو ذہن دیکھتا ہے۔ یہ عکس تصویری صورت میں ہوتا ہے۔ اگر
روشنیوں کی حرکات قدرت کی متعین کی ہوئی مقداروں کے مطابق ہوتی ہیں تو تصویری عکس
کو ذہن قبول کر لیتا ہے۔ اور خیال اچھا آتا ہے۔ عکس صحیح نہ ہو تو ذہن پر دباؤ
پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے جسم اور جسمانی حواس متاثر ہو جاتے ہیں۔ ذہن کے آئینے میں
پڑنے والا ہر عکس خیال کی ایک تصویر ہے۔ ذہن اس تصویر کو نام دیتا ہے چونکہ ذہن کے
اوپر خیال کا دباؤ اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ آدمی کا شعور اس بوجھ سے دب جاتا ہے
اور یہ خیال غالب آ جاتا ہے۔ اسی لئے آدمی نام پوچھنے پر اسی کا نام بتاتا ہے۔
یعنی آدمی کے تمام حواس اس عکس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ دیکھنے والے چونکہ مریض کی
داخلی کیفیات سے واقف نہیں ہوتے اس وجہ سے وہ جن، آسیب یا سایہ کا اثر کہتے ہیں۔
ویر جی! دراصل خیال کی ہر وہ صورت جو ہمارے شعور پر دباؤ ڈالتی ہے اور ہمارے
جسمانی حواس میں گڑ بڑ پیدا کرتی ہے۔ اس صورت کا نام شعور یا ذہن نے جن ، آسیب اور
سایہ رکھا ہے۔ جب دماغ کے آئینے میں بہت دیر تک اس کا عکس ٹھہرا رہتا ہے تو وہ
دماغی مریض بن جاتا ہے۔ رنج، تکلیف، درد، بے سکونی، پریشانی سب ذہنی دباؤ کا نام
ہے۔ خوشی اور سکون نارمل ذہن ہونے کی علامت ہے۔”ماسٹر جی بولے،”صندل دیوی! اب میری
اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہے۔ پرارتھنا کریں کہ مینا ٹھیک ہو جائے۔”صندل بولی،”آپ
اس کو اس کی سہیلیوں کے پاس آنے جانے دیں تا کہ یہ اپنی ہم عمر لڑکیوں میں خوش رہے
اور پھر اس کی شادی کر دیں تا کہ زندگی میں تبدیلی آئے اور اپنے گھر سنسار میں
مشغول ہو جائے۔”کچھ دیر بعد مینا سو کر اٹھی۔ اس کی آنکھیں اور چہرہ دیکھ کر اس کے
ماں باپ خوش ہو گئے۔ کہنے لگے۔ اب تو مینا پہلے کی طرح لگتی ہے ۔ وہ بالکل نارمل
تھی۔ مینا کی ماں بیٹی کی حالت دیکھ کر اتنی زیادہ خوش ہوئی کہ اپنے ہاتھ سے سونے
کا کنگن اتار کر صندل کے ہاتھ میں پہنانے لگی۔ کہنے لگی،”دیوی ہمارے پاس اور کچھ
نہیں ہے۔ یہ پہن لیں۔ اس میں ہماری خوشی ہے۔”بڑی مشکل سے صندل نے اسے واپس کیا کہ
میں تو اب زیور پہنتی نہیں ہوں۔ یہ کنگن اپنی بیٹی کے لئے رکھو۔ پھر اس نے مینا کو
گلے لگایا۔ چودھرائن نے بھی مینا کو پیار کر کے بہت سی دعائیں دیں اور رخصت کیا۔
صندل کی وجہ سے ہر وقت حویلی میں آنا جانا لگا رہتا۔ کسی کو کوئی بھی مشکل درپیش
ہوتی اور دوڑا دوڑا صندل کے پاس آتا۔ دیوی کی طرح اسے پرنام کرتا ، اس کے چرن
چھوتا ، اس کے آشیرباد اور اس کے ہاتھ سے تبرک لیتا اور اطمینان کے ساتھ واپس
لوٹتا۔ قدرت نے صندل کو اپنے کام کے لئے وسیلہ بنا دیا تھا۔ جب لوگ اسے دیوی کہتے
تو وہ کہتی۔ سارا نظام سلطنت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے کاموں کے لئے
لوگوں کو چن لیتا ہے۔ پھر جس سے جو کام لینا ہوتا ہے۔ اسے اس کام کی صلاحیت بھی
وہی عطا کرتا ہے۔ بندے کا کچھ کمال نہیں ہے۔ چند سال اسی طرح گزر گئے۔ ٹھاکر صاحب
اور چودھرائن کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ ایک دن اچانک چودھرائن کی طبیعت سخت خراب ہو
گئی۔ وہ بالکل بستر سے لگ گئی۔ صندل ہر وقت ان کی سیوا میں لگی رہتی۔ آٹھ دس دن
میں چودھرائن کی صورت ہی بدل چکی تھی۔ وہ پہچانی نہ جاتی تھی۔ ایک دن صندل ماں کے
ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھی من ہی من میں ماں کی زندگی کی دعا کر رہی تھی کہ ایک
عورت دو بچوں کے ساتھ داخل ہوئی اور صندل کہہ کر اس سے لپٹ گئی۔ صندل رجنی کہہ کر
اس سے لپٹ گئی۔ رجنی اس کے بچپن کی سہیلی تھی۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ جب صندل
گھر سے چلی گئی تھی۔ اس وقت رجنی بھی شادی ہو کے دوسرے گاؤں چلی گئی تھی۔ اب اس کے
دو بچے تھے۔ رجنی کی شادی کے کچھ عرصے بعد اس کا سارا کنبہ ہی دوسرے گاؤں میں چلا
گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اتنے دن یہاں نہیں آئی تھی۔ اب کسی سے چودھرائن کی علالت
کی خبر سن کر اسے ملنے آئی تھی۔ صندل نے اس کے دونوں پیارے پیارے بچوں کو گلے
لگایا۔ خوب پیار کیا۔ چودھرائن نے آنکھیں کھولیں۔ صندل کو بچوں سے پیار کرتا دیکھ
کر پاس بیٹھے ٹھاکر صاحب سے نحیف آواز میں بولی،”دیکھو جی، آج میری صندل کے بھی
ایسے ہی بچے ہوتے۔ صندل بچوں کو اپنے سے چمٹاتے ہوئے مسکرا کر بولی،”ماں یہ بھی
میرے ہی بچے ہیں۔ سارے گاؤں کے بچے میرے ہی بچے ہیں۔”ٹھاکرصاحب نے چودھرائن کی
پیشانی پر ہاتھ رکھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔”صندل کی ماں،
صندل کی چنتا چھوڑ دے۔ اس کے ساتھ ہر وقت بھگوان ہے۔”اس کے بعد ان کی طبیعت بگڑ
گئی۔ گھر کے سب لوگ آس پاس تھے۔ تھوڑی دہی دیر میں وہ پرلوک سدھار گئیں۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی