Topics
’’اے محبوب! کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے
رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا، کیا ان کے داؤ کو تباہی میں نہ ڈالا اور ان
پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں کر ڈالا
کھائے ہوئے بھس کی طرح۔‘‘
(سورۃ الفیل)
ہاتھی والوں سے مرادا برہہ ہے۔ ابرہہ ایک موقع
پرست اور نہایت متعصب شخص تھا اس نے حبش کے بادشاہ کے ساتھ غداری کر کے یمن پر
قبضہ کر لیا تھا۔ یمن پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے نہ صرف یمن کے بادشاہ کو قتل کر
دیا بلکہ اس نے یہ اسکیم بنائی کے عربوں کو نیچا دکھانے اور ان کو ان کے مذہب سے
دور کرنے کے لئے یمن کے دارالسلطنت صفہ میں ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کرائی
جائے۔
ابراہہ نے حبش کے نجاشی
کو لکھا کہ میں نے ایک ایسی عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کرا دی ہے جس کی نظیر روئے
زمین پر نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیائے عرب اس مقام پر آ کر حج کرے اور عربوں
کے معبد خانہ کعبہ کو ڈھا دوں۔ ابراہہ نے کعبہ پر حملہ کرنے کے لئے اس جھوٹ کی بہت
زیادہ تشہیر(Publicity)
کی۔
عرب کے لوگوں کو یہ بات
بہت شاق گزری اور قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے موقعہ پا کر اس جگہ کو نجاست سے
آلودہ کر دیا۔ابراہہ نے اپنے اس ناپاک منصوبے کو پورا کرنے کے لئے ساٹھ ہزار افراد
پر مشتمل فوج تیار کر لی اور ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے کے لئے ایسا زمانہ منتخب
کیا جس زمانے میں عرب جنگ اور خونریزی سے احتراز کرتے تھے۔
ابراہہ نے مکہ میں ایسے
وقت داخل ہونے کی کوشش کی جب اہل مکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ حج کے مناسک ادا کرنے کی
تیاری کر رہے تھے۔ ابراہہ نے خاص طور پر منیٰ کے قیام کے دنوں میں حملہ کرنا چاہا
تا کہ عرب مناسک حج میں مصروف رہیں اور مقابلے پرنہ آئیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شخص
نہایت چالاک اور ہوشیار تھا اس نے اپنی مکاری سے ایسے حالات کا سہارا لیا جس میں
اسے کامیابی کا یقین تھا اور اسے یہ زعم تھا کہ اس کے پاس اس زمانہ کے لحاظ سے بہت
زیادہ عسکری طاقت موجود ہے۔ لیکن قدرت نے اس کے مکر عیاری اور چالاکی کو خود اس کے
اوپر پھینک دیا۔
شان و شوکت اور کروفر کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ساٹھ ہزار فوج نے جب پیش قدمی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس فوج کو
وادی محسر میں روک دیا۔ محسر کے پتھروں سے عربوں نے اسلحہ کا کام لیا اور فوج پر
سنگ باری کی اس کے علاوہ اللہ نے ’’حرم محترم‘‘ کے دشمنوں پر سنگ باری کرنے والی
ہوا نازل کر دی، جس نے فوج کے اوسان خطا کر دیئے اور بالآخر فوج تتر بتر ہو گئی۔
موت نے فوجی جوانوں کے
جسموں کو بھس کی طرح کر دیا۔ عزرائیلؑ نے انہیں اس کی بھی مہلت نہ دی کہ ایک دوسرے
کی لاشیں اٹھا سکیں۔ اللہ نے ان کے اوپر گوشت خور چڑیوں کو مسلط کر دیا، جنہوں نے
ان کا گوشت نوچا اور کھایا اور وادی مکہ کو ان کے تعفن سے پاک کر دیا۔ دشمن کے
اوپر چڑیوں کا غیض و غضب عرب میں ضرب المثل بن گیا۔
عرب شعراء نے تو یہاں تک کہا
ہے:
’’جب ہماری فوجیں دشمن پر
حملہ آور ہوتی ہیں تو گوشت خور چڑیاں
ہمارے ہم رکاب ہوتی ہیں۔‘‘
کہاوت ہے کہ تاریخ خود کو
دہراتی ہے:
رسول اللہﷺ کی ولادت سے
پچاس دن پہلے ابراہہ کے لشکر کا جو حال قرآن نے بیان کیا ہے آج امت مسلمہ پھر ایک
اور مکار و چالاک ابراہہ کی زد میں ہے۔ بزدلی اور بے غیرتی کا عالم یہ ہے کہ ایک
طرف ایک تلوار ہے تو دوسری طرف ۲۸ تلواریں ہیں۔ ایک طرف ایک ملک ہے تو
دوسری طرف ۲۸
ملک ہیں، ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا محتاج آدم زاد ہے تو دوسری طرف بڑے بڑے سائنس
دان ہیں۔ لگتا ہے چیونٹی اور ہاتھیوں کی لڑائی ہے، ۲۸ عظیم الجثہ خون اور تیل
کے پیاسے ہاتھی ایک چیونٹی کو ختم کرنے کے درپے ہیں، یہ کیسا عالمی ضمیر ہے کہ
چیونٹی کی تباہی کسی کو نظر نہیں آتی اور ہاتھیوں کی مصنوعی چیخیں سب سن رہے ہیں،
سچ ہے کہ قدرت جسے رکھے اسے کون چکھے۔ قرآن کی رو سے دو آیتیں ہمارے سامنے ہیں:
’’اور ہم نے لوہا نازل کر
دیا اور اس میں انسانوں کے لئے بے شمار فائدے رکھ دیئے۔‘‘
’’اور اللہ کی رسی کو
مضبوطی کے ساتھ متحد ہو کر پکڑ لو اور آپس میں ٹکڑیوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ۔‘‘
ابراہہ اور اس کی ذریت نے
لوہے سے فائدہ اٹھایا اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کر کے توپیں، ٹینک، میزائل اور دیو
ہیکل جہاز بنا لئے۔ آپس میں متحد ہو کر تخریب کو اس طرح زمین پر پھیلا دیا کہ دنیا
جہنم بن گئی ہر طرف آگ اور خون کے دریا بہا دیئے، باوجود اس کے کہ قدرت نے زمین کے
خزانے امت مسلمہ کے سپرد کر دیئے ہیں، امت مسلمہ نے اللہ کی بات نہیں سنی، لوہے کی
صلاحیتوں کو تلاش نہیں کیا اور خود آپس میں تقسیم ہو کر ذلیل و خوار ہو گئی، اپنا
جوتا اپنا سر کے مصداق، اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو اپنی ناعاقبت اندیشی سے خود
اپنی تباہی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
چودہ سو سال کی تاریخ یہ
ہے کہ عرب میں جب بھی قحط سالی ہوئی یا بارش نہیں برسی، بیت اللہ میں نماز استسقاء
ادا کی گئی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آسمان نہ برسا ہو۔ اب حال یہ ہے اور مادیت
ہمارے اوپر اس قدر غالب آ گئی ہے کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ سے رجوع کیا جائے،
اپنے اعمال کی معافی مانگی جائے، متحد ہو کر اپنی طاقت سے دشمن کو زیر کر دیا
جائے۔ وسائل ہمارے پاس ہیں، دماغ ہمارے پاس ہیں، تسخیری فارمولوں کی کتاب ہمارے
پاس ہے، قدرت کی دستگیری آج بھی اپنے محبوب کی امت کے ساتھ ہے، آج بھی ابا بیلیں
منتظر ہیں کہ مسلمان خدا کو پکاریں اور وہ ابراہہ کے ہاتھیوں کو بھس بنا کر ہوا
میں اڑاد یں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے