خواجہ شمس الدین عظیمی
’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن
طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔
زمین کو اللہ تعالیٰ نے
بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو
ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی
بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس
منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل
تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی
شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی
چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے
معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا
ہو جائے۔