Topics
بالعموم ہوتا یہ ہے کہ بچہ کی پیدائش
ہوتے ہی والدین یا گھر کا کوئی دوسرا فرد بچے کا نام تجویز کر دیتا ہے یا محکمہ
جاتی اندراجات کے خیال سے کوئی نام بعجلت تجویز کر لیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی
ہوتا ہے کہ دادا جان اور نانا جان بچے کو دیکھتے ہی الگ الگ نام تجویز کر ڈالتے
ہیں۔ جس سے ددھیالی اور ننھیالی ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے
اور بچے کی شخصیت متعدد ناموں کے درمیان گھر جاتی ہے یہ دلچسپ کشمکش بعض اوقات
ناگوار صورت اختیار کر جاتی ہےلیکن اس باہمی چپقلش کے ساتھ ساتھ ان متعدد ناموں
میں سے ایک کے انتخاب میں جتنی دیر لگتی جاتی ہے بچے پر بھی اس کے خطرناک اثرات
مرتب ہوتے رہتے ہیں لہذا ایسے گھرانوں میں جہاں ایسی روایت چل رہی ہوں ان کی اصلاح
کی سخت ضرورت ہے۔
بچوں کے نام رکھنے کا کام سر سری اور
معمولی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مہتم بالشان فرض ہے جس کی ذمہ داری والدین پر عائد
ہوتی ہے تاکہ وہ غور و فکر کے بعد نومولود کے لئے کوئی اچھا سا موزوں نام تجویز کر
سکیں اس لئے اس بارے میں کہ نومولود کا نام کب تجویز کیا جائے آنحضرت ؐنے ارشاد فرمایا:
ترجمہ : یعنی ہر لڑکا اپنے
عقیقہ کے لئے گروی ہے لہذا اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کی جائے اور اس کے سر کے
بال مونڈے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے۔
اسی طرح ترمذی کی ایک روایت یہ ہے۔
ترجمہ : اور رسول اللہ ؐنے بچہ
کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا نام رکھنے اور اس کی تکلیف دور کرنے اور عقیقہ کرنے
کا حکم دیا ہے۔
مندرجہ بالا احادیث کی رو سے بچوں کے
نام رکھنے کا وقت ساتویں دن مقرر کیا گیا ہے اس ساتویں دن کا تعین یقیناً خالی از
حکمت و مصلحت نہیں ہے اس لئے بہتر یہی ہے ہے کہ نام رکھنے کا عمل اسی دن سے کیا
جائے اگرچہ ساتویں دن سے پہلے یا ساتویں دن کے بعد نام رکھنے پر کوئی پابندی عائد
نہیں کی گئی ہے بلکہ بعض احادیث سے پیدائش کے دن ہی آپ کا نام تجویز فرمانا ثابت
ہے چنانچہ ایک روایت یہ ہے۔
ترجمہ : انس بن مالک ؓ فرماتے
ہیں کہ صبح کے وقت رسول اللہ ؐحرم سے باہر
نکل کر ہمارے پاس آئے اور فرمایا آج شب کو میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں
نے اپنے باپ کے نام پر اس کا نام ابراہیم رکھا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری روایت کے مطابق آپ حضرت
حسن ؓ اور حضرت حسینؓ کے اسمائے گرامی بھی روز ولادت ہی تجویز فرمائے تھے اور
ساتویں روز کا انتظار نہیں فرمایا تھا لیکن اس جواز کے باوجود افضل یہی ہے کہ نام
ساتویں دن رکھا جائے ۔ بعض اوقات ولادت سے قبل ہی والدین یا بزرگوں کو نومولود کی
جنس اور اس کے نام کی بھی بشارت بذریعہ خواب یا القا معلوم ہو جاتی ہے ایسی صورت
میں گویا بچے کا نام قبل ولادت ہی تجویز ہو جاتا ہے چنانچہ ایسے حالات میں وہی نام
رکھا جاتا ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قاعدے کے مطابق
نام تجویز کر دیا گیا لیکن کچھ عرصے گزرنے کے بعد کسی طرح اس بات کا علم ہوا کہ
نام موزوں نہیں ہے چنانچہ ایسی صورت میں بھی مجبوری ہے اور اس لئے بہتر نام رکھ
دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔ البتہ ناموں کی تبدیلی کو ایک شغل بنا لینا سخت خطرناک
ہے اس لئے نام کی بابار تبدیلی گریز کرنا چاہیئے اس مو ضوع پر علیحدہ بھی بحث کی
گئی ہے۔
مراسم ولادت:
اگرچہ اس تفصیل کا یہ موقع نہ تھا
لیکن بات آگئی ہے تو ان مراسم کا تذکرہ بھی فائدے سے خالی نہیں جو ولادت کے مواقع
پر پیش آتے ہیں تاکہ شرعیت مطہرہ کے مطابق عمل کیا جا سکے چنانچہ نومولود کی ولادت
کے بعد مندرجہ ذیل امور اختیار کرنا شرعیت اسلامیہ سے ثابت ہے۔
اذان و اقامت:
بچے کی ولادت ہوتے ہی نہلا کر سب سے
پہلے اذان کہنے کا حکم ہے چنانچہ ارشاد نبوی ؐہے۔
ترجمہ : اور اگر بچہ پیدا ہوا
ہو تو ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان کہی جائے۔
خود آنحضرت ؐکا حضرت حسن ؓ کے کان میں اذان دینا ثابت ہے چنانچہ
عبداللہ بن ابی رافعؓ فرماتے ہیں۔
ترجمہ : دیکھا جیسے کہ رسول
اللہ ؐنے حضرت حسن بن علیؓ کی پیدائش کے
وقت ان کے کان میں اس طرح اذان دی جیسی کہ نماز کی اذان ہوتی ہے۔
ترجمہ : چنانچہ بچے کے دائیں
کان میں اس طرح اذان دی جائے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر
اشھدان لاالہ الا اللہ۔ اشھدان لاالہ الا اللہ
اشھد ان محمد رسول اللہ۔ اشھد ان محمد رسول اللہ
حی علی الصلوۃ۔ حی علی الصلوۃ
حی علی الفلاح۔ حی علی الفلاح
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
لاالہ الا اللہ۔
اور بائیں کان میں اقامت اسی طرح کہی
جائے۔
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر
اشھدان لاالہ الا اللہ۔ اشھدان لاالہ الا اللہ
اشھد ان محمد رسول اللہ۔ اشھد ان محمد رسول اللہ
حی علی الصلوۃ۔ حی علی الصلوۃ
حی علی الفلاح۔ حی علی الفلاح
قد قامۃ الصلوۃ۔ قد قامۃ الصلوۃ
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
لا الہ الا اللہ
تحنیک
ممکن ہو تو اذان بھی کسی مرد صالح سے
ہی دلوائی جائے لیکن بالخصوص تحنیک کے لئے کسی مرد صالح سے ہی رجوع کرنا افضل
ہےجیسا کہ آنحضرت ؐنے اس رسم کی ادائیگی
کا حکم فرمایا۔
ترجمہ : بچہ کو گود میں لے اور
اس کو چھوہارا چبا کر دے اور اس کے لئے دعا کرے اور برکت مانگے۔
چنانچہ تحنیک اس رسم شرعی کو کو کہا
جاتا ہے جس میں بچہ کو کسی صالح کی گود میں دے دیا جاتا ہے جو اپنے منہ میں
چھوہارا چبا کر اپنی لعاب دہن بچے کے تالو میں اپنی انگلی سے لگا دیتا ہے اس کے
بعد بچہ کے لئے درازی عمر و بلندی اقبال اور سعادتمندی کی دعا مانگتا ہے۔
عقیقہ:
بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ
کرنا سنت ہے۔ عقیقہ کا ذبحہ دراصل ایک طرح سے بچہ کا صدقہ ہے اور اس کی تاکید ان
الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔
ترجمہ : آنحضرت ؐنے فرمایا ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی
ہے لہذا اس کی طرف سے جانور کی قربانی کی جائے۔
چنانچہ اس ارشاد نبوی ؐکی روشنی میں اس طرح شے کا چھڑانا ضروری ہوتا
ہے اسی طرح لڑکے کو عقیقہ کر کے چھڑانا چاہیئے۔ امام جنیل ؓ کی روایت یہ ہے کہ ارشاد
شفاعت کے باب میں سے یعنی اگر کسی بچے کا عقیقہ نہ کیا گیا اور ساتویں دن کے بعد
مر جائے تو اپنے ماں باپ کی شفاعت نہ کرے گا بہرحال عقیقہ کی اہمیت پر آنحضرت ؐنے جن الفاظ میں تاکید فرمائی ہے اس کا تقاضہ
یہ ہے کہ مسلمان اس سے غفلت نہ برتیں اور ساتویں دن کا ذبحہ کریں ، نہلائیں،
دھلائیں اور بچے کے بال منڈوا کر بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کریں۔
احادیث نبوی ؐسے حضرت حسن ؓ اور حسینؓ کاعقیقہ ثابت ہے جیسا
کہ روایت ہے۔
ترجمہ : آنحضرت ؐنے حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کی طرف سے عقیقہ
کیا۔
اسی طرح یہ بھی ثابت کہ آپ ؐنے عقیقہ
میں ان کی طرف سے دو جانور ذبحہ فرمائے۔
ترجمہ : رسول اللہ ؐنے حضرت
حسنؓ و حسینؓ کی طرف سے ان کا عقیقہ دو دو مینڈھوں سے کیا جبکہ لڑکی کی طرف ایک ہی
جانور ذبحہ کرنے کا حکم ہے جیسا کہ اس حدیث میں آیا۔
ترجمہ : رسول اللہ ؐنے فرمایا لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکریاں
برابر والی اور لڑکی کے لئے ایک بکری ہے خواہ نر ہو یا مادہ۔
بہرحال بکر و بکری ، مینڈھا اور دنبہ
سبھی سے عقیقہ ہو سکتا ہے اگر بڑے جانور ہوں تو ان کے سات حصے ہو سکتے ہیں یعنی
لڑکوں کے لئے دو حصہ لے کر بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے البتہ عقیقہ کے جانور کی
شرائط بھی وہی کچھ ہیں جو قربانی کے جانور کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح گوشت کی تقسیم میں
بھی قربانی کی طرح تین حصے کئے جاتے ہیں جس جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی اس کا
عقیقہ بھی نہیں ہو سکتا۔ عقیقہ کا جانور ذبح کرنے سے پہلے جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ
یہ ہے۔
’’اَللّٰهمَّ هذِہٖ عَقِیْقَةُ ابْنِيْ فَإِنَّ دَمَها
بِدَمِه وَلَحْمَها بِلَحْمِه وَعَظْمَها بِعَظْمِه وَجِلْدها بِجِلْدِہٖ
وَشَعْرَها بِشَعْرِہٖ، اَللّٰهمَّ اجْعَلْها فِدَائً لِابْنِيْ مِنَ النَّارِ.‘‘
اگر عقیقہ لڑکی کا ہو تو
’’اَللّٰهمَّ هذِہٖ عَقِیْقَةُ بِنْتِيْ فَإِنَّ دَمَها بِدَمِهَا وَلَحْمَها
بِلَحْمِهَا وَعَظْمَها بِعَظْمِهَا وَجِلْدها بِجِلْدِهَا وَشَعْرَها
بِشَعْرِهَا، اَللّٰهمَّ اجْعَلْها فِدَائً لِابْنَتِيْ مِنَ النَّارِ.‘‘
عقیقہ ساتویں دن ہی مسنون ہے اس لئے
اگر اس دن نہ کیا جائے اور بعد میں کیا جائے تو مسنویت ختم ہو جاتی ہے اور صرف
صدقہ رہ جاتا ہے اس لئے عقیقہ کا اہتمام ساتویں دن ہی کرنا چاہیئے اگر بعض
مجبوریوں کی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو بھی صدقہ کے طور پر جانوروں کا
ذبحہ بچے کے لئے ضروری تصور کرنا چاہیئے اور اسے بچے کی زندگی کا فدیہ خیال کرنا
چاہیئے۔ عقیقہ کی کھال بھی صدقے کے طور پر دی جاتی ہے اور گوشت کا صرف3/1 گھر والے
استعمال کر سکتے ہیں عقیقہ کے گوشت کے سلسلے میں جو یہ مشہور ہے کہ اسےوالدین یا
نانا نانی اور دادا دادی استعمال نہیں کر سکتے قطعی بے سندبات ہے اور بلا کراہیت
اسے گھر کا ہر فرد استعمال کر سکتا ہے۔ غربا و مستحقین اور اعزہ واقرباء کا حصہ
گوشت تقسیم کر کے بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور کھانا پکا کر بھی ان کو کھلایا جا
سکتا ہے۔ ذبحہ جانور کے بعد سر کے بال منڈے جاتے ہیں اور یہ عمل بھی عقیقہ کا ایک
حصہ ہے سر مونڈنے کے بعد سر پر زعفران لگاتے ہیں لیکن یہ امر مشروع نہیں ہے ممکن
ہے طبی نقطہ نظر سے اس میں کوئی منفعت ہو۔
نام رکھنا:
عقیقہ اور نام رکھنے کے لئے شارع علیہ
السلام نے جو دن تجویز فرمایا ہے وہ پیدائش سے ساتویں دن ہے ارشاد نبوی ؐہے۔
ترجمہ : جس کے ہاں کوئی بچہ
پیدا ہو تو اس کو چاہیئے کہ اس کا اچھا نام رکھے۔ لہذا تعلیمات اسلامی کی روشنی
میں اچھے سے اچھا نام منتخب کر کے ساتویں دن عقیقہ سے پہلے رکھ دینا چاہیئے۔ اگر
چہ نام رکھنے کی کوئی تقریب مقرر نہیں کی جاتی لیکن بہتر یہ ہے کہ کسی باعلم اور
مرد صالح سے نام رکھوایا جائے۔
تعلیم و تربیت:
بالعموم رواج ہے کہ جب بچہ کی عمر چار
سال چار مہینے چار دن ہو جاتی ہے تو رسم ”بسم اللہ“ ادا کرنے کے لئے باقاعدہ ایک
پُرلطیف تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں بچہ سے بسم اللہ اور حروف تہجی کہلوائے
جاتے ہیں اور شیرینی وغیرہ تقسیم کی جاتی ہے حالانکہ شرعاً چار سال چارمہینے چار
دن کی عمر کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ محض اختراع ہے البتہ احادیث میں صرف اتنا ہے
کہ:
ترجمہ : اور جب بچہ بولنے لگے
تو اسے لا الہ الا اللہ سکھایا جائے یا اچھی تعلیم کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:
ترجمہ : والدین کو چاہیئے کہ
اپنے بچہ کا اچھا سا نام رکھیں اور اسے ادب سکھائیں۔
بسم اللہ کے لئے کسی عمر کا تعین نہیں
کیا گیا اگرچہ بچہ بولنا سیکھ جائے اور بسم اللہ کرائی جا سکےتو چار سال چار ماہ
سے پہلے بھی تعلیم کا آغاز ہو سکتا ہے کیونکہ ارشاد نبوی ؐیہ ہے۔
ترجمہ : علم حاصل کرو گہوارے
سے قبر کی گود تک۔
ختنہ:
ختنہ کی رسم زمانہ قدیم سے سنت چلی
آرہی ہے اور آنحضرت ؐنے بھی اسے جاری
رکھنے کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔
ترجمہ : ختنہ قدیمی سنت ہے۔
فتاویٰ عالمگیر یہ میں ہے کہ اگرچہ
علماء کے ایک گروہ نے ختنے کے وجود پر دلالت کی لیکن صحیح یہی ہے کہ ختنہ سنت ہے
نیز جواہر اختادبی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ختنہ ولادت کے ساتویں دن یا اس کے
بعد کرنا جائز ہے۔ جبکہ سراجیہ نے ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال تک کی عمر میں
مستجب قرار دیا ہے ختنہ کرنا صرف مسلمانوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ
حفظان صحت اور طبی نقطہ نظر سے بھی ختنہ کا عمل نہایت مفید ہے چنانچہ غیر مسلمین
بھی اس کی افادیت کے قائل ہیں۔
نماز کی تاکید:
بچہ کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے
کیا جائے۔ ممکن ہو تو حافظ کر دیا جائے ورنہ پارہ عم کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتیں
اور سورۃ فاتحہ یاد کرا دی جائیں نیز ارکان نماز اور وضو و طہارت کے آداب و مسائل
ذہن نشین کرا ئے جائیں اور نماز کی طرف راغب کیا جائے ۔ جب بچہ کی عمر سات برس کی
ہو جائے تو اسے نماز کی پابندی کا حکم دیا جائے اور عمداً ترک صلوٰۃ پر گوشمالی کی
جائے شارع علیہ السلام نے نماز کی عادت نہ پڑنے پر اس عمر میں سزا کی اجازت بھی دی
ہے چنانچہ ارشاد نبوی ؐہے۔
ترجمہ : جب بچہ سات برس کا ہو
جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے سزا دو۔
لیکن اس کی تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب
والدین خود قیام نماز کا عملی نمونہ بچوں کے سامنے پیش کریں اور اس عمر سے پہلے ہی
بچہ کو نماز کے لئے تحریض و ترغیب اور تعلیم و تربیت کے ذریعے تیار کر سکیں۔
بچہ کو نظر لگنا:
نظر لگنا اور اس کے اثرات سے بچوں کا
بیمار پڑ جانا سے ثابت ہوا ہے کہ اور روز کا مشاہدہ ہے جس کی تفصیل اس موقعہ پر
مناسب نہیں ہوگی البتہ اگر نظر لگ جائے تو ارشاد نبوی ؐیہ ہے کہ ذیل کی دعا پڑھ کر بچے پر دم کریں یا
اسے لکھ کر بچے کے گلے میں ڈال دیں ۔
اعوذ بکلت ان القامت من شر کل شیطان و ھا متہ شر کل مین الامۃ
ترجمہ : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ
کے کلمات نامہ کی ہر شیطان اور ہر زہریلے کاٹنے والے اور ہر لگ جانے والی نظر کی
برائی سے۔
آنحضرت ؐحضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ پر انہیں کلمات کو
دم فرمایا کرتے اور فرماتے کہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت
اسمائیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام انہی الفاظ سے تعوذ کیا کرتے تھے۔
Shafiq Ahmed
نام تشخص کو
ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس
کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام
کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی
نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور
ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت
مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس
کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا
ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ
معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے
کرنا ہوگا۔