Topics

باب نمبر ۸:مرض اور رنگین خواب

مرض اور رنگین خواب

آدمی پوری زندگی دو حواس میں گزارتا ہے۔

۱۔            بیداری

۲۔           خواب

جس طرح بیداری کی دنیا میں کوئی بھی عمل رنگوں کا مظہر ہوتا ہے اسی طرح خواب کی دنیا میں بھی رنگوں کا کردار موجود ہے۔ ہم جب کچھ سوچتے ہیں تو اس میں ہماری دلچسپی یا تو کم ہوتی ہے یا زیادہ ہوتی ہے یا یہ سوچ ہوا کی طرح گزر جاتی ہے۔ اگر سوچ میں ٹھہراؤ پیدا ہو جائے اور نقوش گہرے ہو جائیں تو اس کا مظاہرہ ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔یہ ماورائی قانون کی ایک شق ہے۔ اس قانون کے خلاف کوئی خیال عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔ جس طرح بیداری میں کسی ایک خیال پر ذہن مرکوز ہونے کے بعد وہ خیال مظہر بنتا ہے بالکل یہی صورت خواب میں بھی کارفرما ہے۔ ہم خواب میں بھی وہی سب اعمال و حرکات کرتے ہیں جو بیداری میں کرتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم بیداری میں گلاب کا پھول دیکھتے ہیں اور گلاب کے پھول میں سرخ گلابی سفید یا زرد رنگ ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے اسی طرح خواب میں اگر ہم گلاب کا پھول دیکھتے ہیں تب بھی رنگوں کا مظاہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ انسانی زندگی کے ان دو حواسوں میں دیکھنا سننا محسوس کرنا خوش ہونا غمگین ہونا بیمار ہونا یا صحت مند ہونا سب مشترک ہے۔ آدمی جس طرح بیداری میں بیمار ہوتا ہے کمزور و نحیف ہوتا ہے اسی طرح وہ خواب میں بھی خود کو جب بیمار دیکھتا ہے تو اسے چلنے پھرنے میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔

قانون

قانون یہ ہے کہ خواب ہو یا بیداری دونوں حالتوں میں انسان کی زندگی متحرک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیداری میں براہ راست مادی وجود کا عمل دخل ہوتا ہے اور خواب میں آدمی مادی وجود سے آزاد ہو کر سفر کرتا ہے۔   

کائنات کی کوئی شئے بے رنگ نہیں ہے۔ کائنات میں ظاہری دنیا ہو ماورائی دنیا ہو یا ماورائی دنیا سے اوپر غائب کی دنیا سب شامل ہیں۔ انسان جب خواب کی دنیا میں سفر کرتا ہے تو وہاں زمین بھی ہوتی ہے اسے آسمان بھی نظر آتا ہے۔ ندی نالے دریا اور سمندر بھی اس کی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ وہ خود چلتے پھرتے دیکھتا ہے اور خلاء میں پرواز بھی کرتا ہے۔ لیکن پرواز کے دوران اس کی نظر آسمان پر پڑتی ہے تو آسمان پر چاند اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح چاند کو بیداری میں دیکھتا ہے۔ خواب میں وہ اگر کسی باغ میں چہل قدمی کرتا ہے تو باغ کے اندر روشیں گلاب کے تختے رنگ رنگ پھول فوارے فواروں میں اچھلتا ہوا پانی، پانی میں رنگ برنگ مچھلیاں، ہلکے ہلکے گہرے سبز رنگ پتے مختلف پھل مثلاً آم، امرود، ناشپاتی، چیکو، بادام، جامن ناریل اور دوسرے بے شمار قسموں کے پھل جب وہ دیکھتا ہے تو انہیں باقاعدہ پہنچاتا ہے۔ پہچاننے کا ذریعہ اس پھل کی ساخت اور رنگ ہے۔ جب وہ آدم دیکھتا ہے تو آم کی ساخت اور آم کے رنگ سے آم کو پہچانتا ہے۔ جب وہ انگور دیکھتا ہے تو انگور کی ساخت اور انگور کے رنگ سے انگور کو پہچانتا ہے اور جب وہ بڑے بڑے گھاس کے Lawnدیکھتا ہے تو بھی رنگ شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر وہ خواب میں سنگترہ کھاتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ خواب میں سنگترہ کا رنگ معدوم ہو جائے۔ سنگترہ کا جو رنگ اس مادی دنیا میں ہے وہی اسے نظر آتا ہے۔ سنگترہ جب ہاتھ میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ نارنجی رنگ اس کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہ سنگترہ کو کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ چھلکے کے اندرونی رخ میں سفید رنگ غالب ہے۔ جب وہ سنگترہ کی قاش الگ کرتا ہے تو قاش کا رنگ اسے الگ نظر آتا ہے۔ قاش کے اندر بیچ، بیچ کے اندر گری اور گری کے اندر جو سبز رنگ غالب ہے وہ بھی اسے الگ سے نظر آتا ہے۔

مفہوم یہ ہے کہ ہم رنگوں کی اہمیت کو خواب میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ خواب کے اندر جب ہم کسی کالے آدمی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کا رنگ بالکل کالا اسی طرح کالا نظر آتا ہے جس طرح بیداری کے عالم میں نظر آتا ہے۔ بیداری کے عالم میں ہمیں اگر کوئی گندمی رنگ آدمی نظر آتا ہے تو خواب میں بھی ہم اسے گندمی رنگ کا دیکھتے ہیں۔ خواب میں رنگوں کی اہمیت افادیت اور نقصان کا اندازہ اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ خواب دیکھنے والا بندہ جب آگ دیکھتا ہے تو آگ کے الاؤ کو آگ کے مخصوص رنگوں سے پہچانتا ہے۔ آگ کی تپش بھی محسوس کرتا ہے۔ اگر خواب دیکھنے والا ایسے مقام پر خود کو دیکھتا ہے جہاں کی فضا یخ اور سرد ہے اور جہاں ہر طرف برف ہی برف ہے لیکن وہاں آگ کا الاؤ بھی روشن ہے تو سردی کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ یہ بات کہ ظاہری دنیا میں مادی وجود کام کرتا ہے اور خواب کی دنیا میں مادی وجود معطل ہو جاتا ہے۔ اس کی پوری تفصیلات ہم ’’خواب اور تعبیر‘‘ کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔

غور کیا جائے تو آدمی دراصل خواہشات کا غلام ہے۔ ایک خواہش پوری نہیں ہوتی تو دوسری خواہش سامنے آ جاتی ہے۔ دوسری خواہش پوری نہیں ہوتی تو تیسری چوتھی پانچویں خواہش سامنے آ جاتی ہے اور خواہشات کا یہ تسلسل اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ آدمی کی اپنی حیثیت خواہشات کے پردوں میں چھپ جاتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو جائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسان کا ہر ارادہ پورا ہو جائے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا:

’’آپؓ نے اللہ کو کیسے پہچانا؟‘‘

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

’’میں نے اپنے ارادوں کی ناکامی سے اللہ کو پہچانا۔‘‘

اس کے باوجود کہ انسان کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی اور انسان کا ہر ارادہ تکمیل پذیر نہیں ہوتا انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ خواہشات کے ہجوم میں گرفتار رہتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ مادی زندگی۔۔۔۔۔۔دراصل خواہشات کا تسلسل ہے۔ انسان کی خواہش اگر پوری نہیں ہوتی تب بھی وہ دوسری خواہش کے پیچھے چل پڑتا ہے اور یہ چل پڑنا اس لئے ضروری ہے کہ زندگی ٹھہر کر انتظار نہیں کرتی۔ انسان کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ محرومی یا ناکامی کا افسوس کرتا ہے جب کہ محرومی اور ناکامی ہی اسے اگلا قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ ناکام خواہشات اور محکوم تمناؤں کا جب کوئی تدارک نظر نہیں آتا اور انسان اس نقطہ پر رک جاتا ہے تو چونکہ یہ عمل خلاف قانون ہے اور غیر فطری ہے اس لئے اس کے اوپر احساس محرومی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ احساس محرومی ایک بیماری ہے۔

احساس محرومی بیماری کا ایک ایسا درخت ہے جس کے تنے سے نکلنے والی ہر شاخ اور شاخ میں سے نکلنے والا ہر پتہ احساس محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں انسان نفسیاتی مریض ہو جاتا ہے اور نفسیاتی بیماریوں میں پہلے دماغی عارضہ ہوتا ہے اور پھر یہ عارضہ بڑھتے بڑھتے مختلف بیماریوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً ڈپریشن، خوف، پریشانی، شیزوفرینیا، مینیا، تکرار عمل اور تکرار خیال۔ ان بیماریوں کے دباؤ کی وجہ سے نروس سسٹم جب مزید کمزور ہو جاتا ہے تو دوسری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ مثلاً لو بلڈ پریشر ہائی بلڈ پریشر، پٹھوں کا کھچاؤ، ہڈیوں کا گلنا وغیرہ وغیرہ۔

قدرت رحیم و کریم ہے اور رحیم و کریم کے ساتھ فیاض بھی ہے۔ قدرت کائنات میں پھیلی ہوئی مخلوق کو ہمیشہ سکھ چین کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کسی آدمی پر جب احساس محرومی اس حد تک غالب ہو جائے کہ دنیا بیزاری اس کا محبوب مشغلہ بن جائے تو قدرت اسے زیادہ سے زیادہ رنگین خواب دکھاتی ہے۔ یہ رنگین خواب ایک طرح کا لاشعوری علاج ہے۔

رنگین خواب بہت کم نظر آتے ہیں لیکن جب بھی نظر آتے ہیں تو ان کے پیچھے قدرت کی فیاضی شامل ہوتی ہے۔ دماغی اعتبار سے اگر کوئی آدمی ماؤف ہو جائے اور دماغ میں وہ سیلز(Cells) جو اعصاب کو کنٹرول کرتے ہیں تھک جائیں اور ان کی کارکردگی سست پڑ جائے تو آدمی خواب میں نیلا رنگ دیکھتا ہے۔ یعنی اسے خواب میں ہر چیز نیلی نظر آتی ہے۔ اگر اعصاب زیادہ کمزور نہیں ہوئے اور کسی وجہ سے حافظہ متاثر ہو گیا تو خواب میں اسے چیز کی گہرائی میں نیلے پن کا احساس ہوتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کا کوئی مریض خواب میں زیادہ تر سرخ رنگ دیکھتا ہے لیکن اگر کوئی ہائی بلڈ پریشر کا مریض خواب میں سرخ کے بجائے سبز رنگ دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قدرت نے اسے ہائی بلڈ پریشر کے مرض سے نجات دے دی ہے لیکن اگر وہ سرخ رنگ دیکھے یا بھڑکتے ہوئے شعلے دیکھے یا سرخ رنگ کا جلتا ہوا بلب دیکھے تو معالج کے لئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ خواب دیکھنے والا آدمی ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے یا آئندہ ہائی بلڈ پریشر کا مریض بن جائے گا۔

خواب کی دنیا کے اسرار و رموز میں ایک نکتہ یہ ہے کہ آدمی خواب میں شر یا خیر سب کچھ دیکھتا ہے اور متاثر ہوتا ہے۔ جو کچھ خواب میں دیکھتا ہے اکثر بیداری میں پیش آ جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی نے خواب میں دیکھا کہ مجھے بخار چڑھا ہوا ہے جب وہ بیدار ہوتا ہے تو بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ بہت سے کند ذہن لوگ جن کو بظاہر شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا جب وہ خواب میں کوئی نظم یا غزل سنتے ہیں تو اٹھنے کے بعد انہیں پوری کی پوری غزل یا نظم یاد ہوتی ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک ان پڑھ شخص عالم خواب میں کسی علمی محفل میں شریک ہوا اور بیدار ہونے کے بعد علم و حکمت کی باتیں بیان کرنے لگا۔ ادب کی دنیا میں بہت ساری مثالیں ایسی ہیں کہ کسی نے خواب میں کچھ لکھا اور بیدار ہونے کے بعد وہی سب کچھ کاغذ پر منتقل کر دیا۔ مثلاً مولانا جلال الدین رومیؒ نے بہترین اشعار نیند کی حالت میں کہے۔ صوفی شاعر ابن الفارس نے اپنے ساری عمدہ قصیدے پہلے خواب میں لکھے اور پھر بیداری میں قلم بند کئے۔ شیخ سعدیؒ کا یہ شعر:

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

بھی خواب میں ہی تخلیق ہوا۔ ادب ہو شاعری ہو قصائد ہوں یا کوئی محیر العقل کارنامہ ہو تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پہلے ان کا مظاہرہ خواب میں ہوا اور پھر عملی مظاہرہ دنیا میں ہوا۔

نامیاتی کیمیا میں کاربن کمپاؤنڈز کی ساخت بہت عرصے تک سائنس دانوں کے لئے معمہ بنی رہی۔ سائنس دان کاربن کمپاؤنڈز کی جو بھی ساخت تجویز کرتے تھے اس پر اتنے سوالات اٹھتے تھے کہ اس ساخت کو رد کر کے دوسری ساخت پر غور و فکر شروع ہو جاتا تھا۔ کیمیا دان کیکول (Kekule) بھی کاربن کمپاؤنڈ کی ساخت پر کام کر رہا تھا۔ اس کا ذہن مسلسل اس کی ساخت دریافت کرنے میں مصروف تھا۔ ایک رات اسی غور و فکر میں اسے نیند آ گئی۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ چھ عدد سانپ ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کی دم منہ میں پکڑی ہوئی ہے۔

اس شکل کو دیکھ کر کیکول کے ذہن میں Benzene(نامیاتی کمپاؤنڈ) کا خیال آیا۔ بیدار ہونے کے بعد اس نے خواب میں دیکھی ہوئی شکل پر کام شروع کیا اور ثابت کر دیا کہ Benzeneکی ساخت وہی ہے جو اس نے خواب میں دیکھی تھی۔ اس طرح نامیاتی کیمیا کا یہ لاینحل معمہ حل ہو گیا۔



Color Theraphy

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت لقمان علیہ السلام کے نام

جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی 

 

وَ لَقَدْ اٰ تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ

(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)

اور ہم نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔

اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo 

اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo 

تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo

نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo

(القرآن)