Topics
یہ تفصیل پہلے آ چکی ہے کہ وقت بذات خود کوئی چیز نہیں ہے مگر اسپیس سے منسوب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل قرآن پاک میں مختلف مثالوں سے بتائی ہے۔ مگر اس کے
معنی یہ نہیں کہ مثالیں غلط ہیں۔ اللہ عالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام
اور حواؑ نے نافرمانی کی تو انہوں نے خود کو برہنہ محسوس کیا۔ معنی یہ ہوئے کہ وہ
اعلیٰ اسپیس سے ادنیٰ اسپیس میں آ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ میرا ایک دن پچاس ہزار برس کا ہو گا۔ میرا ایک دن دس
ہزار سال کا ہو گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میرا ایک دن ایک ہزار سال کا ہو گا۔ اس
میں تعداد نہیں مگر اسپیس کے برعکس تفصیل ہے، مگر یہ پچاس ہزار سال، دس ہزار سال
اور ایک ہزار سال اسپیس سے منسوب ہیں یعنی کہ ان کا اسپیس کے ساتھ رشتہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے
’’یوم‘‘ کے لفظ سے ان تمام اسپیسوں کی
تفصیل کر دی ہے جو خوف اور امید سے بنتی ہیں۔ اس لئے کہ یہاں ’’یوم‘‘ لفظ کا
استعمال ہوا ہے۔ مگر پورے سورۃ ’’قدر‘‘ میں جہاں لیلتہ القدر کا ذکر ہے وہاں اس کی
مدت ایک ہزار مہینہ کے برابر بتائی گئی ہے۔ یہ مثال تو ہے مگر غلط نہیں۔ اس کے
پردے میں بہت سارے بھید سمائے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن
پاک کو شب قدر میں نازل کیا جب کہ قرآن پاک کو نازل ہونے میں تئیس (۲۳) برس لگے ہیں۔ اس میں اسپیس کا ذکر ہے۔ وہ
اسپیس جس میں قرآن پاک نازل ہوا تئیس (۲۳) سال کے برابر ہے۔ یعنی ایک سال کے مقابلے میں تئیس (۲۳) سال کی مدت منسوب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تیس (۳۰) راتوں کے لئے بلایا
تھا اور چالیس (۴۰) راتوں تک کوہ طور
پر رکھا۔ یہاں پر صرف راتوں کی اسپیس کا ذکر ہے۔ دن کی اسپیس ان میں شامل نہیں ہے۔
حد تو یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب سوال کیا گیا کہ قیامت کا وقت
کتنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
’’اے رسول! ان سے
کہہ دو کہ پلک جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی کم۔‘‘
اب یہ وقت بھی
اسپیس سے منسوب ہے یعنی کہ اسپیس کی وسعت کے اعتبار سے وقت کی نفی ہے۔ ٹائم کی
ہستی اسپیس کی وجہ سے ہے۔ اسپیس کی وسعت جتنی زیادہ ہو گی وقت اتنا ہی کم ہو گا۔
ٹائم کی بذات خود کوئی ہستی نہیں ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ
ہے کہ ناظر اور منظور، شاہد اور مشہود کا اسپیس کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ شاہد سے مراد
ہماری آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ایک ہی اسپیس کے دو حصہ ہیں اب حواس بھی
اسی طرح ہوتے ہیں۔ حواس کی اسپیس الگ الگ ہوتی ہے، دیکھنے کی اسپیس میں ہم قریب کی
چیزوں کو صاف دیکھتے ہیں اور دور کی چیزیں چھوٹی اور ہلکی نظر آتی ہیں۔ یا بالکل
نظر ہی نہیں آتیں۔ ایسا کیوں؟ یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ اسپیس کی وسعت بہت ہی
زیادہ ہے مگر وقت کی وسعت جو اسپیس سے منسوب ہے بہت کم ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ میں
اخبار ہے تو ہم آنکھوں کی اسپیس کا استعمال کر سکتے ہیں اور تیسری اسپیس بولنے کی
شامل کر کے آواز سے پڑھ سکتے ہیں۔ اگر ہم آواز سے نہیں پڑھیں گے تو صرف پڑھنے کی اسپیس
کا استعمال ہو گا۔ اگر چھونے کی اسپیس کچھ فاصلہ پر ہو تو آنکھوں کی اسپیس کو کیڑے
مکوڑے نظر آئیں گے اور صحیح پڑھا نہیں جائے گا یعنی کہ حرفوں کی شکلیں غائب ہو
جائیں گی۔ اگر چھونے کی اسپیس مزید دور ہو جائے تو الفاظ بالکل غائب ہو جائیں گے
اور اخبار کا صفحہ بالکل کورا نظر آئے گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسپیس الگ الگ
ہیں۔
دوسری مثال یہ ہے
کہ گلاب کا پھول نظر نہیں آ رہا ہے مگر اس کی خوشبو آ رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے
کہ دماغ کا وہ گیٹ اوپن ہو گیا ہے جس کا رشتہ سونگھنے کی اسپیس کے ساتھ ہے۔ اس گیٹ
کے کھلتے ہی گلاب کی خوشبو آنے لگتی ہے حالانکہ گلاب دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ظاہری دنیا میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے حواس کے ذریعہ سے نظر آتا ہے۔ اگر کسی کے
حواس میں خلل پڑ جائے تو اسے وہ چیزیں نظر نہیں آئیں گی جو ہمیں نظر آتیں ہیں۔ یہ
حواس انر سیلف (INNER SELF) سے آتے ہیں۔ انر سیلف کا دماغ سے ڈائریکٹ رشتہ ہو جاتا ہے اور
دماغ کے (GATES) اوپن ہو جاتے ہیں چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں۔
انسان کھلی آنکھوں
سے سو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ (GATES) کھلے رہیں جو انر سیلف میں کھلتے ہیں تو انسان بالکل سو جاتا ہے
اور گہری نیند آ جاتی ہے۔ اسے زندہ رکھنے کے لئے قدرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ
انسان کے انر سیلف کے (GATES) کے پردوں کو کھول دیتا ہے۔ (GATES) جو دو کھرب ہیں بارہ کھرب ہو جاتے ہیں یعنی ایک گیٹ کے چھ GATESبن جاتے ہیں وہ GATESجو وہم کی جڑ ہیں
اور جن سے خیال، احساس، حرکت اور نتیجہ آتا ہے ان GATESمیں ایک تو سامنے
کا رخ ہے اور ایک پردے کا رخ ہے جو کھل جاتا ہے۔ نیند گہری ہو جاتی ہے اور خواب
نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سیلف میں اتنی قدرت ہے کہ GATESکو سامنے سے اور
پیچھے سے کھول سکتا ہے۔ ہر حس دہری ہے۔
جب یہ حواس اکٹھے
ہو جاتے ہیں تو ان حواس میں ایک اور حس بھی ہوتی ہے جو پردے کے پیچھے کام کرتی ہے
وہ چھٹی حس کہلاتی ہے۔ یہ ایسی حالت میں حرکت کرتی ہے جب کوئی فرد خود کو خوف،
خطرہ میں محسوس کرتا ہے اور قدرت اسے زندگی بچانے کے لئے تنبیہہ کرتی ہے۔ یہ اس
وقت ہوتا ہے جب سیلف GATESکے دوسرے رخ سے کام لیتا ہے اور سامنے کا
رخ چھوڑ دیتا ہے۔
جب شیطان نے حضرت
آدم علیہ السلام کو بہکایا تو یہی صورت واقع ہوئی تھی۔ جیسے ہی آدم علیہ السلام
بہکے ان کی اسپیس بدلی اور حواس میں تبدیلی آ گئی۔ پھر آدم علیہ السلام اور حوا کو
محسوس ہوا کہ وہ برہنہ ہیں۔
حقیقت میں ان کا
انر سیلف اس خیال کو سامنے لے آیا جو پردے پر ہوتا ہے۔ یہ نافرمانی کی وجہ سے ہوا
یعنی کہ نافرمانی کی بھی ایک اسپیس ہے جو کبھی چھوٹی اور کبھی بڑی ہوتی ہے، مگر
یہاں دماغ کے GATESمیں ایک خیال پیدا ہوتا ہے۔ یہاں ہم نے اس خیال کو
اسپیس کہا ہے کہ حالانکہ اسپیس کا رشتہ احساس سے DIRECTہے۔ جیسا کہ ٹائم اسپیس سے منسوب ہے۔ اسی
طرح حواس بھی اسپیس سے منسوب ہیں۔ اس لئے حضرت آدم علیہ السلام اور جنات حوا کو
احساس ہوا کہ ہم برہنہ ہیں۔ کیونکہ ان کے حواس بدل چکے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے
حکم دیا کہ:
’’آپ سب اتر جائیں۔‘‘
اس کے معنی یہ ہوئے
کہ جس اسپیس میں آپ آ گئے ہیں وہ جنت کے لائق نہیں ہے۔ یہ عالم ناسوت (مادی دنیا)
کی اسپیس ہے۔ اس لئے آپ سب جائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر آئے، اس کے دوسرے
معنی یہ ہوئے کہ انہیں احساس ہوا کہ ہم برہنہ ہیں۔ زمین کی اسپیس میں ہیں۔ اس لئے
کہ انہیں عالم ناسوت میں یعنی کہ زمین کی اسپیس میں بھیجا گیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ
حضرت آدم علیہ السلام کو اس اسپیس میں آنے پر بہت رنج ہوا، انہوں نے توبہ کی،
روئے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اعلیٰ اور ادنیٰ اسپیس میں کتنا فرق ہے۔ وہ سکون جو
انہیں جنت کی اسپیس میں تھا وہ ادھر چھن گیا اور بار بار اس سکون کے بدلے تکلیف کا
احساس ہوتا تھا، اس لئے جوانی بیتی، بڑھاپا آیا اور اس کے بعد موت آئی یہ سب
تبدیلیاں عالم ناسوت کی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو نبی کی
حیثیت میں ان تمام تبدیلیوں کا احساس نہیں تھا تو ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے۔
انہیں ایک رنج تو نافرمانی کی اسپیس کی وجہ سے ہوا اور دوسرا عالم ناسوت کی ادنیٰ
اسپیس سے کہ غلطی میں پھنس کر اعلیٰ اسپیس سے رشتہ ٹوٹنے کی وجہ سے ہوا۔ ان کو اس
اسپیس میں داخل ہونا پڑا جو موت کے بعد کا ہوتا ہے۔ یہ مثال اسپیس کی حس، حواس کے
ساتھ منسوب ہونے کی ہے۔
ایک پروانہ چھ
گھنٹے میں اپنی زندگی کے تمام مراحل طے کر لیتا ہے۔ جو وہیل مچھلی ایک ہزار سال
میں طے کرتی ہے۔ یہ مثال حواس کے اسپیس کے ساتھ منسوب ہونے کی ہے۔ یہ ہماری غلطی
ہے کہ ہم ٹائم اور اسپیس سے اسپیس کا ناپ لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے بلی کی مثال موجود
ہے۔ بلی دن میں اور رات میں یکساں دیکھتی ہے۔ اس کے لئے اجالہ اور اندھیرا دونوں
برابر ہیں۔ یہ اس لئے کہ اس کی آنکھوں کی اسپیس الگ ہے۔ ایک سانپ جس کی اسپیس
معمولی ہوتی ہے ایک بڑے چوہے کو نگل جاتا ہے اور ہضم کر جاتا ہے۔ یہ بھی اسپیس کی
وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر چوہا اسے اتنا بڑا نظر آئے جتنا ہمیں نظر آتا ہے تو وہ اسے
نگلنے کی ہرگز ہمت نہ کرے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ وہ بغیر کسی جھجک کے چوہے کو پکڑتا
ہے اور نگل جاتا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ چوہا سانپ کو اتنا بڑا نظر نہیں
آتا جتنا بڑا ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ بھی حواس کے اسپیس کے ساتھ منسوب ہونے کی مثال
ہے۔ صرف آنکھوں کی نہیں مگر سوچنے کی اسپیس بھی منسوب ہے اور ہضم کرنے کی اسپیس
بھی منسوب ہے۔
ہمیں کچھ انسان
چھوٹے قد کے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ یہ چھوٹے قد کا انسان
ہے اور یہ بڑے قد کا انسان ہے۔ اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹے قد کا انسان
بڑے قد کے انسان سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پہلوانوں میں کشتیاں ہوتی ہیں تو
یہ بات سامنے آ جاتی ہے۔
شیر اور ہاتھی کی
طاقت کا اندازہ تو ہمیں نہیں ہے مگر ظاہری طور پر ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ
ہاتھی شیر سے ڈرتا ہے۔ ہمارا یہ احساس بھی اسپیس سے منسوب ہے۔ حالانکہ ہماری نظروں
کو ہاتھی بہت بڑا اور بھاری نظر آتا ہے اور شیر اس کے تقابل میں کوئی حیثیت نہیں
رکھتا۔ یہ آنکھوں کی اسپیس ہے جو تمام چیزیں بتاتی ہے کہ ہاتھی اتنا بڑا ہے اور شیر
اتنا چھوٹا ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ شیر، ہاتھی کے مقابلہ میں زیادہ ہمت اور
طاقت رکھتا ہے۔ اور اکثر ہاتھی اس کا مقابلہ نہیں کرتا مگر ڈر کر بھاگ جاتا ہے اس
کے معنی یہ ہوئے کہ یہ تیسری اسپیس یعنی کہ سمجھنے کی اسپیس ہے جو ہمیں بتاتی ہے
کہ شیر ہاتھی سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اب وہ خوف جو ہاتھی کے دل میں شیر کو دیکھ
کر پیدا ہوتا ہے ہماری سوچنے کی اسپیس ہی ہمیں بتاتی ہے۔ اب اگر شیر ہاتھی پر حملہ
کر دے تو ہاتھی کی چیخ ہمارے کانوں میں آتی ہے اور یہ آواز ہمارے ذہن میں پہنچتی
ہے۔ یہاں تک کہ سمجھنے کی اسپیس ہمیں بتاتی ہے کہ ہاتھی ڈر گیا ہے۔
اعلیٰ اسپیس میں
جنت کی اسپیس علیین کی اسپیس اور برزخ کی اسپیس شامل ہیں۔ ادنیٰ اسپیس میں محشر کی
اسپیس، سجیین کی اسپیس اور ناسوت کی اسپیس شامل ہیں۔ یہ بات پھر سوچنے کے قابل ہے
کہ حضرت آدم علیہ السلام اعلیٰ اسپیس سے علیین کی اسپیس کو چھوڑ کر ناسوت کی اسپیس
میں آئے۔ ان کی تمام نسل بھی اسی طرح عالم ناسوت میں آتی ہے۔ سجیین کی اسپیس یا
علیین کی اسپیس اس کے بعد آتی ہے۔ جنت کی اسپیس، ناسوت کی اسپیس سے بالکل مختلف
ہے۔ جنت کی اسپیس میں آرام، خوشی اور تندرستی ہے۔
ناسوت کی اسپیس میں
تکلیف ہے، رنج ہے، بیماری ہے اور مختلف اقسام کی پریشانیاں ہیں جو انسان کے اوپر
ہیں۔ یہ بہت تھوڑی مدت ہے۔ انسان کی عمر کم ہوتی ہے، اس لئے اس اسپیس میں جتنی تکالیف
اور پریشانیاں ہوتی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے مگر جس کے اوپر وہ بیتی ہیں اسے
ایسا لگتا ہے کہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ آہستہ آہستہ انسان اس اسپیس سے گزر
جاتا ہے۔ اب اسے اس اسپیس میں جانا پڑتا ہے جو اس نے اپنے لئے تجویز کی ہوتی ہے۔
تجویز کرنے سے مراد خیال میں تجویز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ عمل میں تجویز کرنا ہے جو
اس کا ضمیر اسے بتاتا ہے کہ انسانی افعال یہ ہیں اور غیر انسانی افعال یہ ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ
تعالیٰ نے سورۃ القمر میں چار جگہ فرمایا ہے:
’’ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل
من مدکر‘‘
میں نے قرآن کو
سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ ہے کوئی سمجھنے والا؟
یہ غیرمعمولی لیکن آسان سوال ہے اس میں کسی جگہ یہ شرط نہیں
کہ مخاطب عربی جانتا ہو یا اس نے عربی پڑھی ہو۔ مگر اس کے معنی بہت ہی سادہ ہیں کہ
چاہے وہ کسی بھی ملک کا رہنےوالا ہو، چاہے اس کی مادری زبان کوئی بھی ہو، چاہے اس
نے عربی کا ایک لفظ بھی نہ سنا ہو، اللہ تعالیٰ نے قرآن کے معنی ضمیر کے ذریعہ اس
کے لئے صاف کر دیئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذہن میں وہ
باتیں ڈال دیتا ہے جو انسانیت کے مطابق ہیں اور یہ اس کا باطن ہے۔ یہ نہیں سمجھنا
چاہئے کہ قرآن پاک عربی جاننے والوں کے لئے یا صرف مسلمانوں تک محدود ہے۔ اس لئے
کہ بہت سارے ایسے مسلمان ملیں گے جو عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے مگر جب ان کا
دھیان اس ان دیکھی طاقت کی طرف جاتا ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں یا جسے وہ مانتے
ہیں یا جسے وہ خدا کہتے ہیں یا جسے وہ اپنا باطن سمجھتے ہیں یا جسے وہ اپنے ضمیر
کی آواز کہتے ہیں۔ دیگر الفاظ میں وہ کبھی سیلف(SELF) کہتے ہیں۔ جس کے سامنے وہ بالکل برہنہ ہیں جس سے وہ خود کو چھپا
نہیں سکتے۔ جسے وہ حاضر و ناظر کہتے ہیں اور قدم بقدم اللہ تعالیٰ انہیں ان کے
ضمیر کے ذریعہ سمجھاتا ہے کہ یہ افعال انسانی ہیں یا غیر انسانی ہیں۔ اگر انسان وہ
آواز نہیں سنتا اور اس کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ شخص سجیین میں اپنا گھر بناتا ہے۔
پہلے وہ ادنیٰ میں آیا یعنی عالم ناسوت میں آیا پھر زیادہ ادنیٰ میں گیا یعنی
سجیین میں چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ سجیین سے سب راستے سجیین میں ہی کھلتے ہیں، علیین
میں کھل نہیں سکتے۔ یہ بات ادنیٰ اسپیس کی تھی۔ ادنیٰ اسپیس کے بارے میں آپ کو تجربہ
ہے۔ اس لئے کہ آپ عالم ناسوت میں رہتے ہیں جہاں جو پریشانیاں ہیں جو تکالیف ہیں وہ
ظاہر ہیں۔ ہم اس اسپیس سے خوش تو بہت ہوتے ہیں مگر ہماری خوشی ناخوشی میں تبدیل ہو
جاتی ہے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا