Topics

یوم

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ میں نے دنیا کو چھ یوم میں پیدا کیا ہے۔ یوم کے معنی کیا ہیں؟ یوم حقیقت میں (ILLUSION)نظر کے دھوکے کو کہتے ہیں۔ اس کے دو حصے ہوتے ہیں:

(CONCEPT) یعنی خیال اور دوسرا (CHROMOSOME) جسم۔ یہ دو حصے چھ حصوں میں بٹ جاتے ہیں:

۱۔ وہم

۲۔ خیال

۳۔ علم

۴۔ حرکت

۵۔ عمل

۶۔ نتیجہ

کائنات کی تمام حرکت اس محور کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے۔

تمام کائنات جانور‘ نباتات‘ ندیاں‘ نالے‘ پہاڑ‘ زمین سب اس میں آ جاتے ہیں۔  یہ تمام چیزیں مختلف ہواؤں کی بنی ہوئی ہیں۔ ان ہواؤں کو ہم برقی رو یا بجلی کا بہاؤ (ELECTRIC CURRENT) سمجھیں۔ یہ بہاؤ ایسا ہے جو جمادات‘ نباتات‘ حیوانات وغیرہ کا ایک دوسرے سے رشتہ قائم رکھتا ہے۔

یہ بہاؤ ہر شئے میں کام کر رہا ہے۔ یہ بجلی کا بہاؤ یا  برقی رو سب کی زندگی ہے۔ یہ برقی رو روشنی ہے۔ جو ایک طرف آنکھ کے ذریعے دماغ کے پردے کے اوپر اپنا عکس ڈالتی ہے اور دوسری طرف ہماری آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہوتا ہے وہ عکس بن جاتا ہے حالانکہ اس منظر کو ہم دماغ کے پردے پر دیکھتے ہیں اور جو منظر ہم دیکھتے ہیں وہ اسی برقی رو کا حصہ ہے جس کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں۔

دماغ کے خلیوں میں یہی برقی رو گھومتی ہے۔ اور اسی برقی رو کے ذریعے خیالات ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک خیال ہو یا مختلف خیالات کا مجموعہ سب اسی برقی رو کے ذریعے احساسات میں جاتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مادہ (خلیہ) کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ خلیے برقی رو سے بنتے ہیں۔ اگر کسی انسان کا دماغ نکال لیا جائے تو اس کے سر میں ایک خالی جگہ باقی رہ جائے گی مگر وہ تمام خلئے جس رو کے بنے ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ قائم رہیں گے اور کام کرتے رہیں گے۔ اس شخص کے احساسات اسی طرح قائم رہیں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی حیثیت آخر میں ایک مائکروفلم کی سی ہو جاتی ہے اور اس شخص کی جو مائکروفلم ہوتی ہے اسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس شخص کے سب احساسات قائم رہتے ہیں اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے اور دیکھتا بھی ہے مگر بولنے‘ سننے اور دیکھنے کی وہ (WAVE LENGTH) طول موج ہماری فہم تک نہیں پہنچتی۔

ہمارے فہم کے تناسب سے اس کے خیال‘ سامعہ یا باصرہ کی طول موج (WAVE LENGTH) کی فریکوئنسی یا تو بیس (۲۰) سائیکل فی سیکنڈ سے کم ہوتی ہے یا پھر اس کی فریکوئنسی بیس ہزار (۰۰۰،۲۰) سائیکل فی سیکنڈ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی چیز ایک جگہ رکتی نہیں ہے۔ یا تو وہ چیز اتنی چھوٹی ہو جاتی ہے کہ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے اور ہماری نظر کی (WAVE LENGTH) سے باہر نکل جاتی ہے یا پھر وہ اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ ہماری نظر کے طول موج میں وہ سما نہیں سکتی یا داخل نہیں ہو سکتی۔ طول موج برقی رو کا وہ حصہ ہے جسے ہماری عقل سمجھ سکتی ہے اور جس حصے کو ہماری عقل نہیں سمجھ سکتی اس کی طول موج الگ ہوتی ہے اور وہ بدل جاتی ہے۔ طول موج کے بارے میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ فرعون نے مصر میں جو پیرامڈ(PYRAMID) بنائے ہیں وہ انہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر ایک‘ دو‘ تین‘ چار‘ دس‘ بیس کمروں کی شکل میں بنائے ہیں مگر ان کو بنانے میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کمرے کی جیومیٹریکل (GEOMETRICAL) شکل ایک جیسی رہے۔ اگر آج بھی کوئی ایسا مکان بنائے جس میں ویولینتھ کی فریکوئنسی ایک جیسی ہو تو اس میں پچاس ہزار سال‘ ایک لاکھ سال اور دس لاکھ سال تک لاش خراب نہیں ہوتی، نا تو وہ سڑتی ہے اور نا تو چمڑی سوکھتی ہے بلکہ وہ ویسی ہی رہے گی۔

عقل کبھی واحد نہیں ہوتی۔ وہ دہری (DUAL) ہوتی ہے۔ ایک ظاہر اور ایک باطن۔ ظاہر ہمارے شعور میں آتا ہے اور دوسرا وہ جو ہمارے شعور میں نہیں آتا پھر یہ کہ عقل کے حصہ نہیں ہوتے لیکن اس کا ایک مرکزی نقطہ ہوتا ہے جس کو اکثر لوگ چھٹی حس (SIXTH SENSE) کہتے ہیں۔

یہ چھٹی حس برقی رو کا مرکزی نقطہ ہے۔ دماغ کے ہر خلئے کے مجموعے میں اس کا نقطہ ہوتا ہے۔ نقطے کے معنی یہ کہ دماغ کے ہر خلئے میں روح (SOUL)     یا  (CONCEPT) ہوتا ہے جو اس برقی رو کا دوسرا حصہ ہے۔ اس حصے میں (رخ میں) ایک دوسرا حصہ یا رخ (CHROMOSOME) مادہ ہے جو اڑتالیس (48) نقطوں  یا اڑتالیس (48) دائروں پر بنا ہوا ہے۔

کروموسوم کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو فرشتوں کو (SPIRIT) (جان) سے الگ کرتا ہے اکیلے بنتا ہے۔ اس کروموسوم میں جنسی خواہش نہیں ہوتی اور وہ روح کے ساتھ ازل میں پیدا ہوا اور روح کے ساتھ ابد تک رہے گا۔ یہ کروموسوم روح کی طرح عام آدمی کی نگاہ کو نظر نہیں آتا۔

دوسرا کروموسوم جنات کا ہے۔ اس میں جنسی خواہش اور تناسل دونوں ہوتے ہیں۔ اس میں فرق یہ ہے کہ جنات بھی عام آدمی کو نظر نہیں آتے اس کروموسوم کی زندگی محدود ہوتی ہے۔

تیسرا کروموسوم انسان کا اپنا ہے۔ اس میں جنسی خواہش اور تناسل دونوں نظر آتے ہیں اس کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ وہ نظر بھی آتے ہیں مگر روح نکل جانے کے بعد مٹی میں مل جاتے ہیں۔

حقیقت میں کروموسوم کو بھی (ILLUSION) نظر کا دھوکا کہنا چاہئے۔ اس میں روح چھپی ہوئی ہوتی ہے جو پردے میں رہتی ہے۔ کروموسوم کی نظر اسے دیکھ نہیں سکتی۔ (CONCEPT) روح یا (SOUL) کی نظر البتہ خود کو دیکھ سکتی ہے مگر یہ دیکھنا باطنی ہے۔ باطن (INNER) میں دیکھنے سے مراد مستقبل میں دیکھنا ہے۔ ہر انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک تجربہ خواب ہے۔ بہت سے خواب مستقبل میں اس طرح سامنے آتے ہیں جس طرح نیند میں دیکھے ہیں۔ بہت سارے خواب انسان بھول جاتا ہے۔ اکثر خواب اس طرح دیکھتا ہے جنہیں وہ سمجھ نہیں سکتا۔ اکثر خواب الٹی شکل میں نظر آتے ہیں۔ خواب کی بھی بہت ساری اقسام ہیں پھر بھی یہ ایک ایسا تجربہ ہے جوباطن میں دیکھنے سے متعلق ہے۔

ایک دوسرا تجربہ کابوس (SOMNAMBULISM) کی بیماری کا ہے۔ جسے عام لوگ بیماری کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں وہ بیماری نہیں ہے۔ لوگ اس لئے ڈرتے ہیں کہ حادثے کا خوف رہتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان سو جاتا ہے‘ نیند میں اٹھتا ہے‘ کپڑے بدلتا ہے‘ آفس جاتا ہے‘ چابی سے آفس کھولتا ہے‘ کرسی پر بیٹھتا ہے‘ کچھ نہ کچھ لکھتا ہے اور پھر گھر واپس آتا ہے۔ کپڑے بدلتا ہے‘ سونے کے کپڑے پہن کر سو جاتا ہے۔ مگر اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یاد نہیں رہتا‘ یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی کہ کیا کیا وہ سب بھول جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی یادداشت کے پردے پر سب کچھ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اگر یادداشت کا فوٹو لیا جائے تو اول سے لے کر آخر تک سب تحریریں ملیں گی۔ ایک تجربہ تو یہ ہوا۔

ایک اور تجربہ دن میں باطن میں دیکھنا ہے جو کہ جاگنے کی حالت میں ہوتا ہے اسے مراقبہ کہتے ہیں۔ اگر انسان کے ذہن کو مراقبہ میں یکسوئی حاصل ہو جائے تو بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ اور وہ اکثر مستقبل کے بارے میں ہوتی ہیں۔ مراقبے میں ایک خاص روشنی جو کہ نور سے ہٹ کر ایک دوسری روشنی ہوتی ہے اس ہی روشنی میں سب کچھ نظر آتا ہے مگر اس کے لئے یکسوئی حاصل ہونا اول شرط ہے۔ یہ بھی باطن میں دیکھنا ہے۔

ایک اور بھی تجربہ ہے کبھی کوئی شخص غیر ارادی طور پر ایک شہر سے دوسرے شہر چلا جاتا ہے ایسی مثالیں بہت  ہی کم ہیں مگر ہوتی ہیں، ایسا تجربہ باطن میں دیکھنے سے ہوتا ہے ایک وقت کبھی نہ کبھی ایسا تجربہ ہوتا ہے اگر ایسا تجربہ ارادہ کر کے کیا جائے تو اس کے ساتھ شرط ہے کہ انسان آہستہ آہستہ اپنے بدن کو ہلکا کرے جو کہ باطن بینی سے متعلق ہے۔ ہلکا ہوتے ہوتے بدن بالکل ہلکا ہو جاتا ہے جیسا کہ روشنی۔ لیکن اس کے لئے بہت مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے پھر انسان اپنے ارادے اور اختیار سے کسی بھی شہر میں جا سکتا ہے چاہے فاصلہ کچھ بھی ہو۔ اس کام میں صرف ایک سیکنڈ (یا وقت کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ جو کہ ہم کر سکتے ہیں) لگتا ہے۔ یہ بھی باطن میں دیکھنا ہے۔ دراصل باطن میں دیکھنا سوچ بچار سے ہوتا ہے۔ یہ سوچ انتہائی گہری ہوتی ہے۔ دماغ بہت ہی گہرائی میں کام کرتا ہے اور گہرائی کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسےجیسے وہ گہرائی میں جاتا ہے اس کا بدن ہلکا ہوتا جاتا ہے اور غائب بھی ہو جاتا ہے اس کو روحانی اصطلاح میں ’’فتح‘‘ کہتے ہیں۔



Qudrat Ki Space

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ

سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا