Topics

ہپناٹزم

حضرت جنید بغدادیؒ کے ایک مرید پر شیطان نے اس طرح حملہ کیا کہ ہر روز رات کے وقت ایک زرافہ لے کر اس کے گھر جاتا اور اس سے کہتا میں ایک فرشتہ ہوں تجھے جنت میں لے جانے آیا ہوں۔ زرافہ کی گردن میں جو رسی تھی اسے پکڑ کر ایک جگہ لے جاتا۔ وہ ایک جگہ ایک کوڑے کا ڈھیرتھی ‘ حقیقت میں شیطان مرید کو ہپناٹائز کرتا تھا، کوڑے کے ڈھیر کو جنت کہہ کر اسے خوش کرتا اور طرح طرح کے پھل‘ میوہ جات اسے کھلاتا۔ حقیقت میں زرافہ‘ زرافہ نہ تھا بلکہ گدھا تھا۔

ایک دن اس مرید نے حضرت جنید بغدادیؒ سے یہ بات بڑی خوشی خوشی گوش گزار کی تو اس پر حضرت جنید بغدادیؒ نے اس سے فرمایا کہ آج جب وہ (فرشتہ۔۔۔۔۔۔شیطان) آئے تو فلاں آیت پڑھنا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ عمل جنت میں پہنچنے کے بعد کرنا۔ وہ مرید جب جنت میں پہنچا تو اس نے وہ آیت پڑھی تو دیکھتا ہے کہ جس پر وہ بیٹھا ہے وہ گدھا ہے اور جس جنت میں وہ پہنچا ہے وہ کوڑے کا ڈھیر ہے۔ دراصل یہ صرف وہم کا کرشمہ تھا۔ اسے انگریزی میں (ILLUSION) کہتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ہپناٹزم کا رواج ہے۔ لیکن ہر شخص ہپناٹائز نہیں ہوتا۔ مگر کچھ لوگ اس کے اثر میں آ جاتے ہیں اور یہاں تک ہپناٹائز ہو جاتے ہیں کہ ڈاکٹر مریض کا آپریشن کر لیتے ہیں۔ ہپناٹزم کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جو چیز بتائی جائے وہی ’’معمول‘‘ کو تسلسل میں نظر آئے۔ 

اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ عامل لوگ جب تماشہ دکھاتے ہیں تو معمول سے الگ الگ کام لیتے ہیں یعنی عامل کا ذہن اس وقت معمول کے اس گیٹ میں چلا جاتا ہے جن (GATES) کا رشتہ وہم سے ہے۔ ایک (GATE کے اطراف میں جو پانچ GATESہیں ان کے مجموعے کو ایک ہی گیٹ مانا جائے گا)۔ 

قانون یہ ہے کہ پہلے وہم کا گیٹ اوپن ہوتا ہے لیکن دوسرا سوچ‘ تیسرا علم‘ چوتھا حرکت‘ پانچواں عمل اور چھٹا نتیجہ اور اس طرح پانچوں GATESکلوز ہو جاتے ہیں۔ عامل کچھ اس طرح ذہن پر زور لگاتا ہے کہ پانچوں GATESکلوز رہتے ہیں اور ایک گیٹ جو کہ وہم کا ہے اوپن رہتا ہے۔ وہم کے گیٹ کی نیچر (NATURE) ہے کہ جو کچھ کہا جائے وہی دکھاتا ہے۔ اور جو کچھ وہ دیکھتا ہے دراصل وہ دماغ دیکھتا ہے۔ وہم کے گیٹ میں جو کچھ بات ڈالی جائے وہی آنکھوں سے نظر آئے گی اس طرح ہپناٹزم ہوتا ہے۔ کسی بیمار کو ہپناٹائز کرنے والا عامل پہلے کسی چیز پر اسے یکسو کرتا ہے اور پھر (OPERATE) کر دیتا ہے۔

ہپناٹزم کرنے کے لئے محاورہ‘ عادت‘ مشق کرنی پڑتی ہے۔ تاش کے پتوں کو سامنے رکھ کر ان کو عامل بنائے اور خود معمول بن جائے۔ اگر وہ اکیلا ہو تو اسے بادشاہ کہے۔ جو بادشاہ دیکھ رہا ہے اس کا ذہن ایک طرف ہوتا ہے وہ آنکھیں نہیں جھپکاتا اس وجہ سے اس کے حواس سکڑ جاتے ہیں اور گیٹ کلوز ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اکا‘ اکا نہیں ہے۔ بادشاہ ہے تو بادشاہ ہی کو دیکھے گا۔

دوسری پریکٹس یہ کرے کہ ایک ایسی میز بنائے جس میں ڈھلان ہو۔ اس میز پر نمبر لکھے ہوئے گٹکے (پانسے) اس طرح پھینکے کہ اس کے ذہن میں ایک نمبر ہو۔ جب یہ پانسے ٹیبل پر پھینکے جائیں گے تو وہی نمبر بتائیں گے جو عامل کے ذہن میں ہو گا۔ لیکن یہ بات مشق سے حاصل ہو گی۔ پیراسائیکالوجی یا ہپناٹزم کی یہ دوسری مشق ہے۔

تیسری ورزش یہ کرے کہ ایک بچے کو معمول بنائے اور بچے کے اوپر اپنا ذہن مرکوز کرے۔ جب عامل کسی عورت کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اس بچے سے کہے گا کہ تمہاری ماں جا رہی ہے تو وہ بچہ اس عورت کو اپنی ماں کی شکل میں دیکھے گا۔ دراصل ہپناٹزم اور پیراسائیکالوجی ایک ہی بات ہے۔

چوتھی مشق یہ کرے کہ کسی بڑے شخص کو معمول بنائے اور اس کے حواس اپنی گرفت میں لے اور اپنے ذہن کو اس کے وہم کے گیٹ میں داخل کر دے۔ اس طرح حواس کند ہو جائیں گے اور نتیجہ میں ذہن صرف ایک گیٹ کی طرف ہو گا اور اس گیٹ میں سارے حواس آ جائیں گے۔ اب معمول وہی کرے گا جو اسے کرنے کے لئے کہا جائے گا۔



Qudrat Ki Space

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ

سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا