Topics

نام کس سے رکھوائے جائیں؟



 جس طرح نام احسن بھی ہوتے ہیں اور قبیح بھی اسی طرح بعض نام بعض کے لئے موزوں بھی ہوتے ہیں اور بعض کے لئے غیر موزوں نام شخصیت پر خوشگوار اثرات ڈالتے ہیں اور نصرت و کامرانی کی نوید ثابت ہوتے ہیں جبکہ غیر موزوں نام ہر عتبار سے شخصیت پر ناگوار اثرات ڈالتے ہیں اور ناکامی و نا مرادی کے نقیب ثابت ہوتے ہیں لیکن ناموں کے حسن و قبح کو پرکھنا اور کسی کے لئے ان کی موزونیت اور غیر موزونیت کو جانچنا صرف انہی کا حصہ ہے جو علم و معرفت رکھتے ہوں ۔ اس لئے اس سوال کا جواب کہ نام کس سے رکھوائے جائیں یہی ہو سکتا ہے کہ ”جو علم رکھتا ہو۔“

 اچھا نام اگرچہ سعادت و نیک بختی کا امین ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نام کے ذریعے بچہ کی شخصیت پر جو پرتو پڑتا ہے وہ کسی ایسی شخصیت کا ہو جو درغ و تقویٰ کے اعتبار سے مومن وصالح بھی ہو۔ کیونکہ فی الحقیقت علم و معرفت کے یہی دو پیکر ہیں جن کے لیے ارشاد نبوی ؐیہ ہے کہ فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اور یہی وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کی شان یہ ہے کہ۔

        (مولانا روم)

 یہی وہ لوگ ہیں جو کہ فدائے علم و خبر کے دریا کے علم معرفت کے شناور ہیں۔ ان کی نظر وہ کچھ دیکھتی ہے جو کہ کوئی نہیں دیکھ سکتا اور یہ جو کچھ جانتے ہیں جو ہر کوئی نہیں جان سکتا۔ بہرحال نام کی اہمیت و افادیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا انتخاب کسی ایسی شخصیت سے کرایا جائے جو علوم شرعیہ کے جملہ حقائق و معارف پر دستگاہ رکھتا ہو تاکہ نام کی وہ ساری اچھائیاں اور برکتیں جو سعادت مندی اور سرخروئی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں حاصل ہو سکیں۔

 شرعیت مطہرہ کے نزدیک جو نام احسن ہیں ان میں کسی بھی نام کا انتخاب اپنی پسند کے مطابق کیا جا سکتا ہے پھر بھی نام رکھنے کے متعدد طریقے ہیں اور کسی بھی طریقے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آئندہ صفحات میں انہیں بیان کیا جائے گا ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ اچھے نام وہی ہو سکتے ہیں جو شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہوں اور ان میں کوئی اسلامی قباحت موجود نہ ہو مگر یہ صرف اچھے نام ہوں گے۔ والدین اس انتخاب کے لئے ماجور اس وقت ہوں گے جب اس انتخاب سے ان کی نیت بھی اسلامی ہو اور وہ بچہ کو اچھائیوں کا خوگر بنانے کا ارادہ بھی کریں۔چونکہ عموماً والدین اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر پاتے اس لیے اگر یہ مشورہ دے دیا جائے کہ وہ ناموں کا انتخاب کسی مرد صالح سے کرائیں یا کریں اس سے وہ جمیع مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جن کی ضرورت والدین اور بچہ کو ہوتی ہے۔

 نام رکھنے کے متعدد طریقے:

 زمانہ قدیم سے نام رکھنے کے متعدد طریقے رائج ہیں اس لئے ناموں کی تجویز و انتخاب میں ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بنیادی طور پر ان تمام طریقوں میں افادیت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور موجود ہے لہذا ان سے استفادہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ان طریقوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔

تفاؤل کے ذریعے:

 بچہ کی پیدائش کے بعد گھر کا کوئی بڑا بوڑھا رکھنے کے ارادے سے قرآن مجید سے تفاؤل کرتا ہے اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ کہہ کر قرآن مجید کو درمیان سے کہیں کھولا جاتا ہے اور پہلے صفحہ کی پہلی سطر سے کوئی مناسب لفظ نام کے لیے چن لیا جاتا ہے۔ پھر اس میں اللہ، محمد، احمد ، عبد وغیرہ کے اضافہ سے نام کو مکمل کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اس پہلی سطر کے پہلے حرف کو لے لیا جاتا ہے اور اسی حرف سے کوئی مناسب نام رکھ لیا جاتا ہے اگرچہ شرعاً اس تفاؤل کی کوئی اصل نہیں ہے لیکن عقیدت کے طور پر اس نام کو قرآن مجید سے نکلا ہوا نام تصور کیا جاتا ہے۔ بہرحال اس کے متعدد طریقے ہو سکتے ہیں جن سے نکالے ہوئے ناموں کے بارے میں اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے تحت رکھے گئے ہیں۔

قرعے کے ذریعے:

 کبھی ایسا کیا جاتا ہے کہ بہت سارے نام جو سب کے سب پسندیدہ ہوتے ہیں ان کو علیحدہ علیحدہ لکھ لیا جاتا ہے پھر ان میں سے ایک نام پر آنکھ بند کر کے انگلی رکھی جاتی ہے یا ان کی پرچیاں بنا کر ایک پرچی اٹھا لی جاتی ہے اور پھر اسی نام کو رکھ دیا جاتا ہے، یہ تقدیری نام کہلاتا ہے اور اس فیصلہ کو قبول کرنا پر خدائی فیصلہ قرار دیا جاتا ہے۔

قافیہ بندی:

 کبھی اپنی پسند سے کوئی ایک قافیہ چن لیا جاتا ہے اور سارے بچوں کے نام اسی قافیہ سے ملا کر رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً جلیل، خلیل، شکیل، عقیل وغیرہ یا سلیم، کلیم علیم وغیرہ یا وحید ، حمید ، سعید، رشید وغیرہ چنانچہ یہ نام تنہا اور کبھی اللہ ، محمد، احمد ، علی، حسن، حسین وغیرہ کی ردیف پر رکھے جاتے ہیں اور ہر نومولود کا نام اسی ردیف پر قافیے ملا کر رکھ لیا جاتا ہے اس سے والدین کے نزدیک یہ فائدہ مقصود ہوتا کہ ایک گھرانے کے افراد کو اس قافیے کی مدد سے باآسانی اور امتیازی طور پر پہچانا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے نام حدود و تعلیمات اسلامی کے اندر ہوں تو ان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

استخارہ کے ذریعے:

 کبھی نام کے انتخاب کے لیے استخارہ کیا جاتا ہے استخارہ چونکہ اللہ تعالیٰ سے مشورے کا ایک مسنون طریقہ ہے اس لئے کسی پسندیدہ نام کو ذہن میں رکھ کر استخارہ کیا جاتا ہے اور اطمینان کی کیفیت پا کر اسی کو منتخب تصور کیا جاتا ہے یا خواب کے ذریعے اس کا اشارہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ بہرحال استخارہ کے طریق کو نہایت مستحسن طریقہ کہا جاسکتا ہے۔

 علم الاعدا پر نام :

 اس علم کی بنیاد حروف کے ابجدی اعداد پر رکھی گئی ہے چنانچہ جب نومولود کا نام رکھنا ہوتا ہے تو تاریخ پیدائش وغیرہ کے اعداد کو جمع کر کے ایسے 9 تک اعداد میں سے کوئی ایک اکائی کا عدد حاصل کر لیا جاتا ہے اور پھر کوئی ایسا نام منتخب کر لیا جاتا ہے جس کا مجموعی عدد اس عدد کے مطابق ہو۔ اس پورے طریقہ کی تفصیل اگلے صفحات میں دی جارہی ہے تاکہ اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ ماہرین علم الاعداد نے اس علم پر بہت کچھ لکھا ہے نیز اعداد کی خصوصیات کو بھی بیان کیا ہے اس لئے اس کے دلچسپ ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے مگر شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسے بھی صرف قیاسی علم تصور کرنا چاہیئے جیسے علم نجوم وغیرہ ہیں۔

 والدین پر نام:

 فی زمانہ ایسے ناموں کو بھی پسند کیا جاتا ہے جو والدین کی نسبت سے رکھے گئے ہوں جیسے والد کا نام اگر محمد عادل ہے تو بیٹوں کے نام ہیں عادل کے ساتھ مختلف نام ملا کر رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً اختر عادل، انور عادل، اکبر عادل، اصغر عادل وغیرہ ۔ یا انیس احمد کے بیٹوں کے نام انیس مجتبیٰ، انیس مرتضیٰ اور انیس مصطفیٰ وغیرہ یا رفعت انیس، عظمت انیس، صولت انیس، شوکت انیس وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ماں کے نام بتول پر بنت بتول، در بتول، امتہ البتول اور شاداں بتول وغیرہ یا ماں کے نام زہرا پر زہرا قمر، زہرا نظر، زہرا ثمر،زہرا کوثر، زہرا منظر کے نام رکھے جاتے ہیں البتہ لڑکیوں کے نام والدین کا ملحقہ نام عارضی ثابت ہوتا ہے جو اس قسم کے ناموں کا نقص ہے کیونکہ شادی کے بعد والدین کا نام ہٹا کر شوہر کا نام لگ جاتا ہے مثلاً رفعت انیس کی شادی جمال آفاق سے ہوئی تو رفعت انیس کا نام رفعت جمال ہو گیا اور والدین کا نام انیس متروک ہو گیا ۔ اس لئے لڑکیوں پر شخصیت کے دوہرے اثرات پڑنے سے بچانے کے لئے بہتر ہے کہ ان کے نام عام اس طرز پر نہ رکھے جائیں۔

 

تاریخی نام:

 تاریخی ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن کے تمام حروف کی عددع قیمت بحساب ابجد سنہ پیدائش کے مطابق ہو۔ خواہ سنہ ہجری ہوں یا سنہ عیسوی یا مختلف ممالک میں رائج مختلف سنین ان کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے سنہ پیدائش کو یاد رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ مغلیہ تاجدار ظہیر الدین محمد بابر کا نام تاریخی تھا۔ علم الاعداد کی رو سے بھی اس قسم کے نام نومولود کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ آئندہ صفحات میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

 اسلاف پر نام:

 بعض خاندانوں میں مخصوص قسم کے نسبتی ناموں کا رواج ہے جنہیں ہر نام کے ساتھ دہرایا جاتا رہتا ہے یا دینی، تاریخی اور خاندانی بزرگوں کے ناموں پر نام رکھ لئے جاتے ہیں جن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس مماثلت سے بچہ اپنے اسلاف کے ذریعے برکت و سعادت حاصل کر سکے گا۔ چنانچہ انبیاء ، صلحا، امت، عمائدین قوم اور خاندان کی نامور ہستیوں کے نام رکھنے کا رواج ہر ملک و قوم میں پایا جاتا ہے نیز اسلامی تعلیمات میں بھی اس کو سراہا گیا ہے۔

حروف پر نام:

 وقت پیدائش کی مناسبت سے مقررہ حروف سے شروع ہونے والے نام بھی رکھے جاتے ہیں چنانچہ علم الحروف میں ان کے متعدد خصائص اور کیفیات بیان کی جاتی ہیں اس طرح مختلف حروف سے شروع ہونے والے ناموں کی شخصیت پر اثرات کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ آگے بیان ہوگا۔

 نام اوقات پیدائش کے مطابق رکھے جائیں تو یہ نومولود کی شخصیت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور زندگی کے دشوار مراحل میں انسان کے معاون اور سچے ہمدرد اور مدد گار ساتھی کا کردار ادا کرتے ہیں۔


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔