Topics
اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
’’یومنون بالغیب‘‘
’’جو ایمان لائے ہیں بغیر دیکھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے لئے تو کچھ بھی غیب نہیں ہے۔ یہ غیب بندوں کے لئے ہے اور بندوں کی تفصیل میں غیب کی تفصیل ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور جنہیں انسان کے ذہن میں ڈال دیا ہے۔ اور انسانوں کے دلوں میں ان چیزوں کے لئے رغبت پیدا کر دی۔ اس لئے انسان ان کی ایجاد کر لیتا ہے۔ پھر چاہے ایجاد میں کتنی ہی محنت کرنی پڑے اور جب نتیجہ تک پہنچتا ہے تو خوش ہو جاتا ہے اور دوسروں کے لئے یہ سبق چھوڑ جاتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح جو چیزیں غیب ہیں اور غیب سے انسانوں کے خیالوں میں آتی ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح ایجاد کر لیں۔ پھر چاہے وہ ایجاد کتنی ہی خوفناک ہو اس کی پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ان کو عام عقل کے علاوہ ایک خاص عقل بھی دیتا ہے جو اس چیز کی طرف ان کا دھیان کھینچتی ہے جنہیں اللہ صورت شکل دینا چاہتا ہو۔
آخر ایک نہ ایک دن وہ اس چیز کو پا لیتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں اور پرزم کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نعمتیں نازل کرتا ہے۔ آیت نمبر 22میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جس نے آپ کے لئے زمین کو بستر اور آسمان کو عمارت بنا دیا۔‘‘
یعنی آسمان کو عمارت کی شکل بنا دی جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتی ہے مگر یہ بہت بڑی تعمیر ہے۔ جس میں ستارے اور سیارے اپنی اپنی بیلٹ پر چل رہے ہیں۔ یہ بیلٹ ہمارے علم سے باہر ہے مگر یہ وہی بیلٹ ہے جو آسمان کو عمارت کی شکل دیتا ہے۔ یہاں عمارت کے معنی بہت وسیع ہیں۔ عمارت سے مراد انسان بھی ہے۔ دریا اور پہاڑ بھی ہیں، اڑنے والے پرندے بھی ہیں اور ان کی جبلت، ضروریات، خواص، کیفیات وغیرہ سب لفظ ’’عمارت‘‘ میں آ جاتا ہے۔ یعنی کہ اللہ نے اتنی مخلوق بنا دی ہے جن کی ہم گنتی نہیں کر سکتے۔ اور یہی مخلوق اس کی تعمیر ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس مخلوق کے لئے فرماتاہے کہ:
’’میں نے اس مخلوق کیلئے زمین کو بستر بنایا اور آسمان کو عمارت بنا دیا ہے۔‘‘
ہم کبھی ان باتوں کے بارے میں سوچتے نہیں ہیں اگر ذرا بھی تفکر کریں تو احساس ہو گا کہ یہ سب پرزم کی کاریگری ہے جس کی تفصیل میں نے کہی ہے۔ آگے چل کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’نافرمان لوگ ان چیزوں کو توڑتے ہیں جن کو جوڑنے کا میں نے حکم دیا ہے اور فساد کرتے ہیں۔ کبھی وہ لوگ سوچتے نہیں کہ یہ انہیں کا نقصان ہے وہ میرا کچھ نقصان نہیں کرتے۔ اگر وہ سوچیں تو یہ وہ نقصان ہے جو پرزم کی کاریگری کو بگاڑنا چاہتاہے۔‘‘
حقیقت میں وہ بگڑتی نہیں ہے بلکہ اسی حالت میں رہتی ہے، جس حالت میں اسے رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ آیت نمبر 31میں فرماتا ہے:
’’میں نے آدم کو سب نام سکھائے اور وہ بتائے فرشتوں کو کہا بتاؤ مجھے وہ نام اگر سچے ہو، فرشتوں نے کہا تو برتر ہے، ہمیں معلوم نہیں، مگر وہ جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ بے شک تو جاننے والا ہے۔‘‘
آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کہا اے آدم! بتا دے نام ان کو پھر جب اس نے انہیں نام بتا دیئے تو کہا کیا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے زمین و آسمان کی خبر ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اس کی بھی خبر ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ اس کائناتی پرزم کی تفصیل کرتا ہے جس میں اس نے ظاہری مخلوق اور باطنی مخلوق دونوں بنا دیں ہیں۔ اگر پرزم کی یہ خاصیت نہ ہوتی تو یا تو تمام مخلوق ظاہر ہوتی یا تمام مخلوق غائب ہوتی۔ اصل زور اس آیت پر ہے کہ:
’’میں نے سکھائے آدم کو سب کے سب نام اور وہ بتائے فرشتوں کو۔‘‘
چیزیں نہیں، نام بتائے اب نام بتانے سے ہی پرزم کی ہستی ثابت ہوتی ہے۔
آیت نمبر 37میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’آدم نے اپنے رب سے بہت سی باتیں سیکھ لیں پھر ان پر تفکر کیا۔ برحق ہے وہ معاف کرنے والا۔‘‘
آیت نمبر 63میں اللہ فرماتا ہے:
’’جب میں نے تم سے عہد لیا اور اونچا کیا تم پر پہاڑ، پکڑو جو میں نے تمہیں دیا ہے مضبوطی سے اور یاد کرتے رہو جو اس میں ہے شاید تمہیں ڈر لگتا ہو۔‘‘
یہ بھی پرزم کی تفصیل ہے غور کرنے کے بعد یہ آیت سمجھ میں آتی ہے، غور کئے بغیر کوئی اسے سمجھ نہیں سکتا۔
آیت نمبر 66میں اللہ فرماتا ہے:
’’اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کیلئے اور جو ان کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کیلئے نصیحت بنا دیا۔‘‘
یہ جو ڈر خوف انسان کی کیفیت میں ملتا ہے کبھی وہ کچھ سوچتا ہے اور کبھی کچھ اور جو باتیں اس کے روبرو ہیں اس سے ڈرتا ہے اور جو معاشرے کے اندر ہیں اس سے بھی ڈرتا ہے کہ اس کی پیٹھ پیچھے کیا ہونے والا ہے۔ یہ ان باتوں پر غور کرتا ہے تو نصیحت پاتا ہے اور بری باتوں سے دور رہتا ہے۔ یہ پرزم کی ہی تفصیل ہے۔ یہاں تک کہ چلتے چلتے آگے پیچھے وہ ڈرتا رہتا ہے۔
آیت نمبر 115میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اور مشرق اورمغرب سب خدا ہی کا ہے تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحب وسعت اور باخبر ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ سمتوں کا انکار کرتا ہے وہ خود فرماتا ہے کہ جس طرف آپ رخ کریں گے اللہ تعالیٰ دھیان دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت ہے جس نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔
آیت نمبر 116میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’’جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، سب اسی کا فرمانبردار ہے۔‘‘
اس آیت پر غور کیا جائے تو انسان کو پرزم بتاتا ہے کہ اس کا سر آسمان کی طرف ہے اور جب وہ جھکتا ہے تو اللہ ہی کو جھکتا ہے۔ آیت نمبر 117میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
آسمان اور زمین کو اس طرح پیدا کرنے والا ان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہر پل یا اس کے ہزارویں حصے میں پرزم کے اندر ہوتی رہتی ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ اس کے ارادے سے ہر چیز ہو جاتی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کا سر آسمان کی طرف ہے اور جب وہ سر جھکاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ زمین کی طرف جھکتا ہے۔ مگر یہ سب پرزم کا کرشمہ ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے پاس کوئی سمت نہیں ہے مشرق نہ مغرب نہ شمال اور نہ جنوب، نہ اوپر نہ نیچے اس کے باوجود انسان تمام سمتوں کو دیکھتا ہے، وہ اس پرزم کے ذریعے ہی دیکھتا ہے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا