Topics

اسمائے حسنہ



 جس طرح بُرے نام انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح اچھے نام انسان کے شرف و احترام کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم  ؐاچھے ناموں کو سن کر مسرور ہوتے۔

 حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:

 رسول اللہ  ؐاچھے نام ہی پسند فرماتے۔

 اچھے ناموں سے جو شغف آپ کو تھا اور جس حد تک آپ ان کا لحاظ فرماتے اس کا کچھ اندازہ اس حدیث سے ہوسکتا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

 ” ترجمہ : میری بارگاہ میں جب کوئی قاصد بھیجا جائے تو اچھی صورت اور اچھے نام ہی کا بھیجا جائے ، آپ  ؐاچھے ناموں کی اچھائی کو پسند فرماتے اور لوگوں کو اچھے نام رکھنے کی تاکید فرماتے ۔ آپ ؐفرماتے کہ دنیا ہی میں نہیں آخرت میں بھی انہی ناموں سے پکارا جائے گا۔ اس لئے نام اچھے رکھا کرو۔

 اسی طرح آپ  ؐنے والدین کو حکم دیا ہے:

 ترجمہ : جس کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیئے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے چنانچہ احادیث مندرجہ بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام صرف اچھے اور پسندیدہ ناموں کی تعلیم دیتا ہے اور برے ناموں کو تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہے اسلام میں جن ناموں کو اسمائے حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے ان کا میعار یہ ہے کہ وہ معنوی حیثیت سے اچھے ہوں، خدا کی بندگی اور اس کی تعریف و توصیف پر مبنی ہوں انبیاء کے ناموں کی مثل ہوں اور سچے ہوں جیسا کہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوگا۔

اچھے نام:

 اسلامی تعلیمات کی رو سے ناموں کے حسن قبح پر جو گفتگو سابقہ صفحات میں کی گئی ہے اگر ان کو مد نظر رکھ کر ناموں کا انتخاب کیا جائے تو ان ناموں کو اسلامی نام کہا جائے گا چنانچہ اسلام نے یہ ذمہ داری والدین پر عائد کی ہے کہ وہ بچوں کی ولادت کے بعد ان کے اچھے نام رکھا کریں جیسا کہ آنحضرت  ؐنے ارشاد فرمایا:

 ترجمہ : جس کے ہاں کوئی بچی پیدا ہو تو اسے چاہیئے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کو بہترین تربیت دے اور جب وہ بالغ ہو تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر سن بلوغ پر پہنچنے کے باوجود نکاح نہ کیا گیا اور وہ گناہ میں ملوث ہو گیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔ چنانچہ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ناموں کے انتخاب کے وقت تعلیمات اسلامی کوسامنے رکھتے ہوئے اچھے سے اچھا نام منتخب کیا جائے تاکہ بچے پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہو سکیں اور ناموں کا اسلامی تشخص برقرار رہ سکے۔ اگرچہ اسلامی ناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ان سب کا احاطہ ممکن نہیں لیکن جس قسم کے اسلامی ناموں کو احسن کہا جا سکتا ہے ان کااجمالی تذکرہ یہاں مناسب ہوگا۔

 اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام:

 یوں تو تمام تعریفیں اللہ ہی کو ۔۔۔۔۔۔ ہیں اور ہر نام جو شریعت اسلامیہ کے مطابق رکھا جائے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہےلیکن ان تمام ناموں میں سے بھی جو نام اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ  ؐکا ارشاد گرامی یہ ہے ۔

وحب الا سما الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمان

 (رواۃ ابی داؤد ۔ ونسائی۔ و بخاری فی ادب المفرد)

 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سب سے پیارے نام عبداللہ اور عبدالرحمان ہیں۔

 آنحضرت  ؐکے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام نام جو اسمائے حسنیٰ پر رکھے جائیں اور ان سے خدا تعالیٰ کی عبدیت کا اظہار ہوتا ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ ہیں چنانچہ عبد اللہ ۔ عبدالرحمان ۔ عبدالرحیم۔ عبد الخالق، عبدالقادر، عبدالمالک، عبدالقدوس، عبدالسلام، عبدالعزیز۔ عبدالباری وغیرہ سبھی نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں جیسا کہ اس دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ۔

 ترجمہ : اچھے نام وہ ہیں جو حمد اور عبد سے بنائے جائیں۔

 گویا وہ تمام نام جن سے اللہ تعالیٰ کی حمد ثناء کا اظہار ہو اور ان سے اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا ظاہر ہو خیر الاسماء قرار دئیے گئے ہیں۔ان ناموں کی اس فضیلت کے علاوہ ان کا افادی پہلو یہ بھی ہے کہ ان سے دعوت توحید اور تبلیغ اسلامی کا منشاء بھی پورا ہوتا ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؓ صاحب محدث دہلویؓ نے اس افادے کو بیان کیا ہے۔

 ” معلوم ہونا چاہیئے کہ شریعت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام ارتنافات ضرور یہ اور تدابیر مماثبات و اقتصادیات میں بھی ذکر الہی شامل کر دیا جائے اور اسے دو چند کر دیا جائے تا کہ یہ امور بھی دعوت اسلامی کی زبان بن کر حق کی دعوت دیں اور نومولود بچے کو عبد اللہ اور عبدالرحمان سے منسوب کرنا در حقیقت تو جہ سے آگاہ کرنا ہے۔“ (حجۃاللہ البالغہ۔ج۲ ۔ ۲۹ ے)

 اسمائے حسنیٰ پر رکھے جانے والے ناموں سے نہ صرف تبلیغ دعوت اسلامی کا منشا ء پورا ہوتا ہے بلکہ جس طرح اخلاق خداوندی کا علم اسمائے الہیہ سے ہوتا ہے اسی طرح ان صفات الہیہ سے کہ جس پر مسمی کو موسوم کیا جاتا ہے انصاف و خلق خداوندی بھی حاصل ہونا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اسم کو اپنے مسمی سے جو گہری نسبت ہوتی ہے اس کا یہ عین تقاضہ ہے کہ اسم اپنی صفات سے موصوف و موسوم کو متعصف اور متاثر کرے اور جیسا کہ اخلاق الہیہ حصول کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

تخلو باخلاق اللہ۔

 یعنی اپنے آپ کو اخلاق خداوندی کا خوگر بناؤ۔

 بہر کیف اگر اسمائے الہیہ پر نام رکھے جائیں تو نہ صرف ان سے یہ فوائد مذکورہ حاصل ہوں گے بلکہ والدین اپنے فرائض سے بطریق احسن عہدہ برہ ہونے کے علاوہ اجر و ثواب کے مستو جب بھی ہوں گے۔

ایک خطرناک غلطی:

 اسمائے حسنیٰ پر رکھے جانے والے ناموں کا ”احب الاسماء“ اور ”خیرالاسماء“ ہونا لاریب ہے۔ لیکن بدقسمتی سے فی زمانہ روز مرہ زندگی میں جو اختصار پسندی رواج پا رہی ہے اس کے نتیجہ میں ان احب الاسماء کا اختصار بھی کر لیا گیا ہے چنانچہ عبدالرب کا اب رب صاحب ، عبدالمعبود کا معبود صاحب عبدالحق صاحب کا حق صاحب ، عبدالسبحان کا سبحان صاحب ، عبدالخالق صاحب اور عبد الباری صاحب کا باری صاحب ہو کر رہ گئے ہیں۔ جس کا نام اور منصب ”عبد“ لقا اس اختصار پسندی نے ان کو منصب ”معبود “ عطا کرنے والا ۔ خدا کا بندہ خدا کہا جائے اور مخلوق کو خالق کا نام دے دیا جائے تو الزام کس کو دیا جائے گا؟ توہین کس کی ہوگی اور گناہ گار کون ہوگا یہ پہلو غور کے قابل ہے اور اگر احساس کر لیا جائے تو اس کی اصلاح ضروری ہے۔

انبیاءاور برگزیدہ بندوں پر نام:

 اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب اور برگزیدہ بندے وہ ہیں جنہیں انسان کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے منصب نبوت سے سرفراز فرمایا گیا ہے اور ان میں سے کچھ تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی کیا ہے نہ صرف یہ انبیاء و رسل اللہ تعالیٰ کو محبوب تھے بلکہ ان کے نام بھی اللہ تعالیٰ کو پسند تھے اس لئے آنحضرت  ؐنے مسلمانوں کو ان کے ناموں پہ نام رکھنے کی طرف تحریص دلائی ہے کہ تاکہ ان ناموں کی برکت و سعادت سے مسلمان بھی بہرہ یاب  ہو سکیں۔ چنانچہ آپ  ؐنے ارشاد فرمایا ہے۔

 ترجمہ : اپنے نام نبیوں کے نام پر رکھو۔

 جن انبیاء کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ان کے میں حضرت آدم ؑ۔ حضرت شیت ؑ۔ حضرت نوح ؑ۔ حضرت یعقوب ؑ۔ حضرت یحیی ؑ ۔ حضرت شعیب ؑ۔ حضرت ذکریا ؑ۔ حضرت ابراہیمؑ ۔ حضرت عیسی ٰ ؑ۔ حضرت اسحاق ؑ۔ حضرت یونس ؑ۔ حضرت خضر ؑ۔ حضرت موسیٰ ؑ۔ حضرت ہارون ؑ۔ حضرت عیسیٰ ؑاور خود نبی کریم  ؐشامل ہیں۔ ان انبیاء کے ناموں پر نام رکھنا آنحضرت  ؐکی حکمی سنت ہے اور مسلمانوں کا اس سنت پر ہر زمانے میں عمل بھی ہو رہا ہے۔

 انبیاء کرام کے بعد مسلمانوں کے نزدیک وہ تمام نام بھی متبرک رہے ہیں جو صحابہ کرام کے تھے چنانچہ صحابہ اور صحابیات کے ناموں پر بھی ہر دور میں مسلمانوں نے اپنے نام رکھنے کو سعادت و برکت کا ذریعہ تصور کیا ہے ان پاکیزہ ہستیوں کی بعد وہ تمام نام بھی مسلمانوں میں رکھے جاتے رہے ہیں۔ جو اولیاء اللہ اورامت مسلمہ کی نامور ہستیوں سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ آنحضرت  ؐنے مسلمانوں کو اس طرف بھی رغبت دلاتی ہے اور فرمایا ہے۔

 ترجمہ : اپنے بہترین لوگوں کے ناموں پر نام رکھو۔

 سچے نام:

 ارشاد نبوی  ؐہے۔

 ترجمہ : سب سے سچے نام تو حاؔرث اور ہماؔم ہیں۔

 آنحضرت ؐکے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نام رکھے جائیں جو حقیقی اوصاف پر مبنی ہوں چونکہ کسب اور ارادہ دونوں ہی انسانی اوصاف ہیں اس لئے آپ ؐ نے ان پر مبنی ناموں کو امتثالاً ذکر فرمایا ہے لہذا وہ تمام صفات جن کا انسان خوگر یا معتصف ہے تو ان اوصاف پر مبنی تمام نام سچے نام کہے جائیں گے اور جیسا کہ ہم نام کی سچائی پر خود بھی یقین رکھتے ہیں اور اپنے اداروں، تجارتی مراکز ، کتابوں اور ادویہ وغیرہ کے نام ان کے حقیقی اوصاف اور مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی تجویز کرتے ہیں، چنانچہ اسی مطابقت کو سچائی سے تعبیر کیا جاتا ۔ تعجب ہوگا اگر انسان خود اپنے ناموں میں اس حقیقی اصول کو فراموش کر دے اور اس سے انحراف کرتے ہوئے غیر موزوں ، خلاف حقیقت ناموں پر اصرار کرے۔

اسم گرامی محمد  ؐاور احمد  ؐپر نام:

 یوں تو سبھی انبیاء کے ناموں پر نام رکھنے کو باعث فضیلت قرار دیا گیا ہے لیکن جس طرح دوسرے انبیاء پر نبی اکرم  ؐکے فضائل و کمالات کو تفوق و برتری حاصل ہے اسی طرح آپ کے نام نامی پر نام رکھنے کی فضیلت و برکت بھی سب سے زیادہ ہے چنانچہ اس سخاوت وبرکت کے حصول کے لئے آنحضرت  ؐنے خود بھی مسلمانوں کو تحریص دلائی اور ارشاد فرمایا:

 ترجمہ : میرے نام پر نام رکھو۔

 یہی نہیں کہ آپ  ؐنے اپنے نام پر اس حکم کے ذریعے نام رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس نام کے ذریعہ سعادت حاصل نہ کرنے کو جہالت سے بھی تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

 ترجمہ : جس کے تین بیٹے ہوئے اور اس نے ان میں سے ایک کا بھی نام محمدؐ کے نام پر نہ رکھا تو اس نے جہالت کا ثبوت دیا کہ اس کے فائدہ و ثواب کو نہ جانا۔

 چنانچہ ایک اور موقع پر آپ ؐنے ارشاد فرمایا:

 ترجمہ : تم میں سے کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک محمد یا تین محمد ہوں اس لئے نہ صرف آپ کے نام پر نام رکھنا باعث فضیلت ہے بلکہ ذیل احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسم گرامی پر نام نہ رکھنا باعث محرومی ہے نیز یہ کہ تین بیٹوں میں سے کم از کم ایک بیٹے کا نام آپ ؐکے نام نامی پر رکھنا ضروری ہے۔

 اسم گرامی پر نام رکھنے کے فضائل کے سلسلہ میں جو احادیث روایت کی گئی ہیں ان میں آپ  ؐنے ارشاد فرمایا:

 ترجمہ : جس کے لڑکا پیدا ہو اور میری محبت اور میرے نام سے برکت کے لیے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں داخل ہوں گے۔

 اسی معنی میں ایک حدیث قدسی یہ ہے۔

 ترجمہ : بیشک میں نے اپنے آپ پر ٹھیرالیا ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد پر ہو گا اس کو ہرگز آگ میں داخل نہ کروں گا۔

 ایسی ہی ایک دوسری حدیث یہ مروی ہے۔

 ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم کہ جس کسی کا نام آپ کے نام پر ہوگا اسے آگ کے عذاب میں مبتلا نہ کروں گا۔

 اسی طرح ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس گھر میں احمد اور محمد نام کا کوئی شخص ہوتا ہے اس مکان میں دو بار رحمت کا نزول ہوتا ہے چنانچہ ایک حدیث یہ بھی ہے۔

 ترجمہ : جس دستر خوان پر لوگ بیٹھ کر کھانا کھائیں اور ان میں سے کوئی محمد نام کا ہو وہ لوگ ہر روز مقدس کئے جائیں گے۔ حضرت امام مالک ؓ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔

 ترجمہ : جس گھر والوں میں کوئی محمد نام کا ہوتا ہے اس گھر میں برکت زیادہ ہوتی ہے۔

 مندرجہ بالا ارشادات نبوی  ؐکا تقاضہ یہ ہے کہ بچوں کا نام رکھتے وقت اسم گرامی کی اہمیت و افادیت اور برکت و فضیلت کے پیش ِ نظر زیادہ سے زیادہ بچوں کے نام آپ کے نام پر رکھے جائیں گے تاکہ دنیا و آخرت میں خیر و برکت حاصل ہو سکے ۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ دورِ نبوت سے لے کر اس وقت تک مسلمانوں میں جس کثرت سے محمد اور احمد کے ناموں کا رواج رہا کوئی اور نام اس قدر عروج پذیر نہیں ہوا۔

 اسم گرامی کا ادب:

 یوں تو اسم گرامی کا جس قدر بھی ادب کیا جائے کم ہے کیونکہ یہی وہ نام ہے جو اللہ تبارک و تعالی کے نام کے بعد سب سے زیادہ قابل تعظیم ہے اور اسی لئے اس کا احترام مسلمانوں کے لئے ایسا ہی جزو ایمان ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کے بعد آپ نبی کریم ؐکی رسالت پر ایمان ضروری ہے اسی ایمان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب نبی کریم محبت دنیا کی ساری محبتوں پر غالب آجائے۔

 ترجمہ : تم میں سے کوئی بھی اس وقت صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک اسے اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے زیادہ نبی کریم  ؐسے محبت نہ ہو۔

 آپ کی جس تعظیم کا حکم ”ولو قروہ“ کے ذریعے دیا گیا ہے اس کا تعلق جس طرح آپ کی ذات والا صفات سے ہے اسی طرح آپ  ؐکے اسم گرامی سے بھی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم کسی موقعہ پر اس ادب و احترام سے غافل نہ رہیں بلکہ اس کا ہر لحظہ خیال رکھیں اور اسی میں اپنی نجات سمجھیں ۔ جیسا کہ صحابہ کرامؓ اور اکابرین امت کا عمل رہا ہے اور جیسا کہ خدا اور رسول  ؐنے اس کا حکم دیا ہے۔


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔