Topics
سوال:
خواجہ صاحب ! میں نے روحانی سلسلہ کی بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ آپ کی بے شمار
تحریروں کا ذخیرہ میرے پاس محفوظ ہے اب تک جو کچھ میں اخذ کر پایا ہوں وہ یہ ہے کہ
آپ کا مشن دنیا والوں کو سکون آشنا زندگی سے واقف کرنا اور سکون بانٹنا ہے۔
انفرادی حیثیت میں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر اجتماعی طور پر ہم سب دیکھ رہے
ہیں کہ دنیا میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہے، ہر شخص کسی نہ کسی الجھن میں
گرفتار ہے، ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس سے حزن و ملال کے سائے
گہرے اور دبیز ہو گئے ہیں۔ اخبارات میں آئے دن حادثات اور انسانوں کی قیمتی جانیں
ضائع ہونے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کبھی بموں کے دھماکے کبھی فلک بوس عمارتوں
کے سرنگوں ہونے اوران کے نیچے بندگان خدا کے ہلاک ہونے کی دلدوز اور وحشت اثر
خبریں ہمارے سامنے آتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان اجتماعی تباہ کاریوں
کا عقدہ بھی تو کھولئے شاید قوموں کے افراد کو آپ کی بات سمجھ آ جائے اور دنیا میں
پیار و محبت اور یگانگت جگہ لے لے اور اس طرح اجتماعی سکون مل سکے۔
جواب:
جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ہم آفات
ارضی و سماوی کی یلغار کی زد میں ہیں بظاہر ان المناک واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی
یہ توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے کہ تعمیر کنندگان کی ہوس زر کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے
یا زمین کے اندر رد و بدل اس کا سبب ہے۔ یہ باتیں بظاہر کتنی ہی معقول اور وزنی
ہوں لیکن اگر ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو فرمان خداوندی کے
بموجب انسانی معاشرہ میں آباد لوگوں کے جرائم اور خطاکاریاں ارضی و سماوی آفات اور
ہلاکتوں کو دعوت دیتی ہیں۔ جب کوئی قوم قانون خداوندی سے انحراف و گریز کرتی ہے
اور خیر و شر کی تفریق کو نظر انداز کر کے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو
افراد کے یقین کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ
یقین کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی
قوت بالکل معدوم ہو جاتی ہے اور عقائد میں شک اور وسواس در آتے ہیں۔ اس تشکیک اور بے
یقینی کی بناء پر قوم توہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ توہماتی قوتوں کے غلبے سے
انسان کے اندر طرح طرح کے اندیشے اور وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ
حرص و ہوس پر منتج ہوتا ہے۔ یہ حرص و ہوس انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں بے
یقینی اور توہماتی قوتیں مکمل طور پر اس کو شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔ یہی وہ مقام
ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی حیات کا محور
اللہ تعالیٰ کی بجائے ظاہری اور مادی وسائل بن جاتے ہیں اور جب کسی قوم کا انحصار
دروبست مادی وسائل پر ہو جاتا ہے تو آفات ارضی و سماوی کا لامتناہی سلسلہ عمل میں
آنے لگتا ہے۔ نتیجتاً افراتفری کا عالم برپا رہتا ہے۔ قوموں کے افراد کسی نہ کسی
شکل میں الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بھائی
بھائی سے خوف کھانے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنا سایہ بھی اسے ایک ڈراؤنا ہیولا نظر آتا
ہے۔ خونوں کی رنگت میں سفیدی آ جاتی ہے اور بھائی بھائی کی قیمتی جان ضائع کرنے
میں بہانہ تلاش کرتا ہے اور اس طرح ایک جرم اسے کئی زیادہ جرم کرنے کا مرتکب کرتا
ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ، ذہنی سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
ہمیں
یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شک و بے یقینی کو دماغ میں جگہ دینے سے منع
فرماتے ہیں۔ یہ وہی شک اور وسوسہ ہے جس سے آدمؑ کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
بالآخر شیطان نے بہکا کر آدمؑ کو شک اور بے یقینی میں گرفتار بلا کر دیا جس کے سبب
آدمؑ کو جنت کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑا۔ شکوک و وسواس ہی دراصل انفرادی اور
اجتماعی زندگیوں کی تباہ کاریوں کا سبب ہیں۔