Topics
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین
کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی
ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ
سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری
آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو
درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے۔
خاکی دنیا کے ساتھ ایک اور دنیا آباد ہے۔ اس دنیا میں زندگی بھر انسان کا
آنا جانا ہوتا رہتا ہے۔بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے
لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔اگر سونے کی حالت میں کچھ دیکھتا ہے
تو اس میں معنی نہیں پہناسکتایعنی شعور اس طرح کام نہیں کرتاجس طرح بیداری میں کرتا
ہے۔ اگر حافظہ کسی طرح اس لائق ہو جائے کہ اس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے ریکارڈ
رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اس وقت یاد رکھتا ہے جب وہ گہرا ہو…………
ہر انسان جانتا ہے کہ ہر لمحہ زندگی
فنا ہورہی ہے مثلاً دودھ پینے کا زمانہ ،گھٹنوں سے چلنا،گرنا، اُٹھنا، کھڑے ہونا ،
پھر گرنا اور پھر چلنے کے قابل ہوجانا۔لڑکپن کے بعد جوانی آتی ہے…………جوانی کے
بعدانحطاط یعنی بڑھاپا آجاتا ہے۔اور آدمی تجربات کی دنیا سے گذر کر غائب ہوجاتا
ہے۔یہ زندگی کا لامتناہی سلسلہ ہے جو ازل سے چل رہا ہے اور جو ابد تک جاری و ساری
ہے۔
سونا اور سونے کے بعد آدمی جس طرح پیدا ہونے کے بعد ،بیدار اور بیدار ہونے کے
بعد پھر سوجانا ایسی حقیقت ہے جو ہر ذی روح کے لئے لازم ہے اس کے بغیر زندگی کی
تکمیل نہیں ہوتی ۔
یہ ایک چکر ہے یعنی شعوری طور پر حاضر ہونا اور پھر لاشعور میں جاکرا س دنیا
سے آزاد ہونا یا غیب میں چلے جانا۔
کوئی اس سے واقف ہو یا نہ ہو مگر ہر ذی
روح زندگی کا یہ چکر پورا کرتا ہے۔
نوع انسانی کا تجربہ ہے کہ جب شعور
اوپر کی سطح میں ہوتا ہے تو اس کے حواس بظاہر کام کرتے ہیںاور وہ راحت و آرام
،تکلیف اور رنج کو نہ صرف محسوس کرتا بلکہ اس کا تدارک بھی کرتا ہے۔لیکن وقت (Time ) اپنی جگہ قائم رہتا ہے ۔
ہم وقت کی نفی نہیں کرسکتے ……ہاںوقت کی اکائی کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
ہر انسان کا تجربہ ہے کہ (Time)کی نفی ہوتی ہے مگر اسکی مقداروں کا تعین نہیں ہوتا ہے یعنی آدمی
کا ذہن کسی ایک نقطے پر ٹھہر جاتا ہے تو وقت کا احساس ختم ہوجاتا ہے…… اس کا مطلب
ہر گز یہ نہیں ہے کہ وقت غائب ہوگیا… ہوتا یہ ہے کہ ذہن کی (Speed) اگر 3میل فی گھنٹہ ہے تو ذہن کی رفتار 3ہزار میل فی گھنٹہ کی
ہوجاتی ہے۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ رفتار کا اعتدال میں رہنا یارفتار کی
کمی سے ہم وقت کی نفی نہیں کرسکتے ۔یہ ایسا عجیب راز ہے کہ اسکی پردہ کشائی ابھی
تک نہیں ہوئی ۔
ایک آدمی کی سوچ 15منٹ کی توجہ چاہتی ہے اس ہی آدمی کی سوچ کی رفتار15منٹ میں
30ہزار میل کی ہوسکتی ہے۔ بات مشکل نہیں ہے ۔بیدار آدمی ایک گھنٹے میں اعتدال کی
رفتار3میل چلتا ہے لیکن وہی آدمی جب سوجاتا ہے تو اس کی رفتار ایک گھنٹے میں 60ہزار
گنا بھی ہوسکتی ہے اور اس فارمولے کو آسمانی کتابوں،بھگوت گیتا،توریت،بائبل اور
آخری کتاب قرآن مجید اور آسمانی صحیفوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اگر
ہم عام ذہن سے اس بات کی کھوج لگائیں تو اس کیفیت سے کم وبیش ہر آدمی گزرتا رہتا
ہے۔
جب وہ کسی ایک یا دو خیالات میں اُلجھ
جاتا ہے تو یہ ایک اور دوخیال گھنٹوں پر بھی محیط ہوجاتے ہیں۔اس وقت سائنس کے
سامنے یہ مرحلہ ہے کہ وقت پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کس طرح ہو۔ تیز رفتاری کا زیادہ
سے زیادہ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وقت کی مسلسل نفی ہورہی ہے لیکن غور
طلب امر یہ ہے کہ نفی نہیں ہورہی۔
انسانی زندگی میں خواب ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں بلا تخصیص ہر انسان کی زندگی
میں مکاں و زماں (Time
& Space ) لیس (Lessness) ہو جاتے ہیں۔یعنی شعوری حالت میں جو حدبندیاں ہیں وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔
ہم کسی الجھن کا شکار ہوتے ہیں تو ایک
نقطے پر ذہن اس طرح چپک جاتا ہے کہ اسی خیال میں آدمی گرفتار ِ بلا ہوجاتا ہے لیکن
جب اس کیفیت سے آزاد ہوتا ہے تو پھر اس کو Normalانسان سمجھا جاتا ہے۔
٭٭٭
تلاش یہ کرنا ہے کہ کیا زندگی کے شب و روز میں ہمارے اوپر ایسی کیفیت ہوتی ہے
جس میں ہم تقریباً سارے کام کرتے ہیں لیکن شعوری حد بندیاں
ہمارے راستے میں مزاحم نہیں ہوتیں۔ہاں ہرذی روح کی زندگی میں آدھی زندگی حد بندی
کے شعور سے آزادی میں بسر ہوتی ہے۔اس کیفیت کو مذہب اور آسمانی کتابیں ’’رویا‘‘
کہتے ہیں۔
آدمی کی زندگی کے دو رخ متعین ہیں ۔
۱۔ آدمی جاگتا ہے
،جاگنے کی کیفیات ایسی ہیں جس سے ہر آدمی اچھی طرح واقف ہے اور اسے شعور کا نام دیتا
ہے۔
۲۔دوسری کیفیت یہ ہے
کہ آدمی سوتا ہے ۔سونے کی حالت میں کھاتا پیتا ہے،چلتا پھرتا ہے،خوش ہوتا ،خوف
زدہ ہوتا ہے، سفر کرتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ جنسی تلذذکے بعد اس کے اوپر غسل واجب
ہوجاتا ہے۔اس قسم کے حالات بھی پیش آتے ہیں کہ کسی سوتے ہوئے آدمی نے کوئی کھانا
کھایا،یکایک آنکھ کھل گئی مگر اسکی زبان پر ذائقہ ہوتا ہے اور انگلیوں میں کھانے
کی خوشبو اسے محسوس ہوتی ہے…
اس کیفیت کو جس میں آدمی ہر وہ کام کرتا ہے جو وہ شعور میں کرتا ہے لیکن وقت
اور مکانیت (Time &
Space)کی
گرفت نہیں ہوتی۔اس کیفیت کو ہم لاشعور کہتے ہیں ۔۷ارب کی معلوم آبادی میں ایک فرد ِ واحد بھی اس بات سے انکار نہیںکرسکتا…
مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے دو رخ متعین ہیں … ایک رخ میں مکاں و زماںکی پابندی
ہے۔دوسرے رخ میں مکانیت اور زمانیت تو دونوں ہیں لیکن مکانیت کی پابندی نہیں ہے جو
بیدار حواس میں ہوتی ہے ۔
آسمانی کتابوں میں بالوضاحت اس کا
تذکرہ موجود ہے۔جیسے پیغمبروں میں حضرت یوسف ؑ کاایک خواب ہے ۔جس کی تعبیر ان کے پیغمبر
باپ حضرت یعقوب ؑ نے یہ بتائی کہ ……
حضرت یوسف ؑ نے اپنے والد حضرت یعقوب ؑ سے کہا!
’’اے میرے باپ ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے
سجدہ کررہے ہیں۔‘‘
حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا! ’’میرے
بیٹے! جس طرح تونے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہوئے
ہیں اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔‘‘
حضرت یوسف ؑ کے سوتیلے بھائیوں نے
پروگرام بنایا کہ یوسف ؑ کو باپ سے دور کردیں۔ سب بھائیوں نے باپ سے کہا!
’’ ہم یوسف کو سیر کرانے کیلئے اپنے ساتھ جنگل میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
حضرت یعقوب ؑ نے بیٹوں کے اصرار کے بعد نیم دلی سے اجازت دے دی۔ سوتیلے بھائی
حضرت یوسف ؑ کو ساتھ لے گئے اور اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور روتے ہوئے گھر
واپس آئے۔ باپ کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ حضرت یوسف ؑ کو بھیڑیا کھاگیا ہے۔ ثبوت
کے طو ر پر بکری کا خون لگے ہوئے کپڑے حضرت یعقوب ؑکو دکھائے۔
جس کنوئیں میں حضرت یوسف ؑ کو پھینکا
گیا تھا۔ یہ کنواں حبرون (موجودہ الخلیل) کی وادی سیکم کے قریب ہے۔ اسماعیلی
تاجروں کا ایک قافلہ مصر جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تو قافلے کے لوگوں نے ایک کنواں دیکھا۔
پانی پینے کے لئے قافلہ رک گیا۔ قافلے والوں نے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف
ؑ اسے پکڑ کر کنویں سے باہر نکل آئے۔ تاجر آپؑ کو ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں
نیلام کردیا۔
عربی نسل ’’عمالیق‘‘ جو دو ہزار قبل مسیح میں فلسطین
اور شام سے آکر مصر پر قابض ہوگئے تھے اس وقت حکمران تھے۔ اپوفیس (Apophis) نامی
بادشاہ تھا۔ مصری فوج کے سپہ سالار ’’فوطیفار‘‘ نے بیس درہم (اس وقت کے تقریباً54
ڈالر) میں حضرت یوسف ؑ کو خرید لیا۔
خریدار کا تعارف عزیز مصر کے نام سے
کرایا جاتا ہے۔ عزیز مصر کے معنی ایسے صاحب اقتدار کے ہیں جس کے خلاف کوئی مزاحمت
نہ ہوسکے۔ عزیز مصر کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ایک عہدے کا نام ہے۔ بائبل اور
تلموذ کے مطابق عزیز مصر شاہی محافظوں کا افسر اعلیٰ تھا۔ عزیز مصر نے اپنی بیوی
سے کہا !
’’اس کو اچھی طرح رکھنا بعید نہیں کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا
بنالیں۔‘‘ (سورۃ یوسف۔ 21)
حضرت یوسف ذہین اور زیرک تھے۔ آپ کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ حسن اور خوبروئی
کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو ان کے اندر نہیں تھا۔ عزیز مصر کی بیوی ’’زلیخا‘‘ دل
پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف ؑ پر فریفتہ ہوگئی۔
زلیخا کی طرف سے برائی کی ترغیب اور بات پوری نہ ہونے کی صورت میں قید کرادینے
کی دھمکی سن کر حضرت یوسف ؑ نے اللہ رب العزت کو مدد کے لئے پکارا۔
’’اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے
چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس
جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہوجاؤں گا۔‘‘ (سورۃ یوسف: ۳۳)
حضرت یوسف ؑ راست روی اور عفت و عصمت
قائم رکھنے کے لئے کڑے امتحان سے گزر رہے تھے۔ بالآخر طرح طرح کے الزامات لگا کر
آپ کو پابند سلاسل کرادیا گیا ۔
حضرت یوسف ؑ سات برس جیل میں رہے۔قید کے دوران آپ ؑ قیدیوں کو وحدانیت کی راہ
اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ نیک عمل کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی نصیحت
کرتے تھے۔
دو قیدیوں نے خواب دیکھے۔ ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا اور وہ
بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ دونوں نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے
اپنے خواب سنائے ایک نے بتایا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ انگور نچوڑ رہا
ہوں۔‘‘ دوسرے نے کہا’’میں نے دیکھا کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے
کھارہے ہیں۔‘‘
حضرت یوسف ؑ نے تعبیر بتائی کہ انگور نچوڑنے والا بری ہوجائے گا اور اسے پھر
ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھا دیا جائے گااور اس کا گوشت مردار
جانور کھائیں گے۔
قابل ِ تذکرہ خواب بادشاہِ مصر کا ہے
تیسرا خواب بادشاہ مصر ’’ملک الریان‘‘ کا ہے۔ درباریوں کو جمع کرکے بادشاہ نے
کہا، ’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں انھیں سات دبلی گائیں نگل رہی
ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات بالیں سوکھی۔‘‘
بادشاہ کے دربار میں ماہرین نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی قرار دیا۔ لیکن
بادشاہ کواطمینا ن نہیں ہوا اور وہ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ بادشاہ کو پریشان دیکھ
کر ساقی کو اپنا خواب اور اس کی تعبیر یاد آگئی۔ اس نے حضرت یوسف ؑ کے علم اور
حکمت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔
بادشاہ نے خواب کی تعبیر معلوم کرنے
کے لئے ساقی کو حضرت یوسف ؑ کے پاس بھیجا۔
حضرت یوسف ؑ نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک تم لگا تار کھیتی کرتے
رہو گے۔ ان سات سالوں میں غلے میں خوب فراوانی ہوگی اور اسکے بعد سات سال بہت مصیبت
کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی نہیں اُگے گا۔ ان سات سالوں میں
وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا گیا ہوگا۔
خواب میں مستقبل بینی اور حضرت یوسف ؑ کی بیان کردہ تعبیر سے بادشاہ بے حد
متاثر ہوا۔ اس نے حضرت یوسف ؑ کو رہا کرکے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ لیکن
حضرت یوسف ؑ نے رہا ہونے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ اس الزام کی تحقیق کی
جائے جس کے تحت وہ قید کئے گئے تھے۔ بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ قیدی صاحب حکمت بزرگ
ہے اور یہ برگزیدہ شخص یقینا بے گناہ ہے ورنہ الزام کی تحقیق کا مطالبہ نہ کرتا
اور جیل سے باہر بخوشی آجاتا۔
خواب کی تعبیر معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف ؑکے مشورہ کے مطابق
دربار میں موجود معاشیات کے ماہرین کو اس مصیبت سے محفوظ رہنے کی ہدایت کی۔ یہ
خواب جس طرح انوکھا تھا اسی طرح تعبیر بھی عجیب تھی اور سارے دربار میں ایک بھی
شخص ایسا نہ تھا جو اس کام سے عہدہ بر آ ہوسکتا۔ جب حضرت یوسف ؑ نے قحط سالی سے
بچنے کی تدابیر بتائیں، بادشاہ جو ان کے علم و حکمت اور بزرگی کا پہلے ہی معترف
ہوچکا تھا اس کے دل میں حضرت یوسف ؑ کی عظمت مزید بڑھ گئی۔ بادشاہ نے نہ صرف ان
تدابیر کو قبول کیا بلکہ حضرت یوسف ؑ کو ان پر عمل کرانے کا اختیار بھی دے دیا… ……اور
کہا: ’’تو میرا نائب ہے۔ آج سے تیرا حکم میری رعایا پر چلے گا۔‘‘
بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ حضرت یوسف ؑ نے قحط سالی سے بچنے کی جو تدابیر بتائی ہیں
وہ خود ہی ان پر عمل درآمد کرائیں۔ بادشاہ نے شاہی کونسل سے منظوری لے لی۔
بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ سے نہایت عزت و
احترام سے کہا کہ آپؑ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پیش بندی کریں۔ حضرت یوسف ؑ نے
عمل درآمد کے لئے بادشاہ سے مملکت کے مکمل اختیارات مانگ لئے۔
’’یوسف نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجئے۔
میں حفاظت کرنے والا ہوں اور علم بھی
رکھتا ہوں۔‘‘ (سورۃ یوسف۔ آیت55)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہماری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تغیر ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ آخر الزمان پیغمبر ؐپر پیغمبری کی تکمیل ہوچکی
ہے۔لیکن پیغمبروں کی تعلیمات کا تسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا ۔
اب کوئی شخص پیغمبر نہیں ہوگا۔یہ اللہ
تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی سنت میں تبدل اور تغیر
نہیں ہوتا ۔ (القرآن)
علم لدنی (روحانی علوم)کے۴۶ باب ہیں ان میں سے
ایک باب خواب کے اوپر ہے ۔
خواب اور بیداری میں جب انسانی ارادہ اور شعور ایک نقطے پر جمع ہوجاتا ہے یا
توجہ مرکوز ہوتی ہے تو وہ خیال تصور سے عمل میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ شے مظہر بن
جاتی ہے۔کیمیکل امپلس (Chemical Impulse) ان
تصورات کو خدوخال دے کر مظہربن جاتے ہیں۔ الیکٹرک امپلس (Electric Impulse) جب کیمیکل امپلس میں تبدیل ہو تے ہیں تو تصور مادی شکل وصورت کے
روپ میں ظاہر ہوتا ہے جسے آنکھیں دیکھ لیتی ہیں۔
جو چیز الیکٹرک امپلس سے کیمیکل امپلس
میں بدل جاتی ہے۔اس کا اثر خواب کی طرح بیداری کے حواس میں ظاہر ہوتا ہے۔خواب یا بیداری
دونوں حالتوں میں یہ دونوں ایجنسیاں برسر عمل رہتی ہیں۔
فرق یہ ہے کہ خواب میں الیکٹرک امپلس کی کارکردگی زیادہ ہوتی ہے اور بیداری میں
کیمیکل امپلس کی کارکردگی نمایاں ہوتی ہے۔ اگر بیداری کی طرح خواب میں بھی کیمیکل
امپلس نمایاں ہو جائیں تو ایسی صورت میں خواب میں دیکھی ہوئی، محسوس کی ہوئی یا
چکھی ہوئی کوئی چیز بیداری میں خواب کی طرح نظر آتی ہے اور یاد رہتی ہے۔
خواب میں ہم سنگترہ کھاتے ہیں اور اس کا مزہ بھول جاتے ہیں۔
کیوں بھول جاتے ہیں؟
اس لئے کہ سنگترہ اور سنگترے کا مزہ ہمیں الیکٹرک امپلس کے ذریعہ ملتا ہے…لیکن
یہی مزہ اگر خواب میں الیکٹرک امپلس سے کیمیکل امپلس میں بدل جائے۔ تو ہم سنگترہ
اور سنگترے کے ذائقے کو بیداری میں بھی محسوس کرتے ہیں۔
انسان بیداری میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کے شعور کا اظہار احوال ہے۔ جو کچھ
خواب میں دیکھتا ہے وہ اس کے لاشعور کا اظہار احوال ہے۔ جب لاشعور میں کوئی اظہار
احوال ہوا ہے تو وہ شعور میں آ کر تصاویر کی شکل میں منعکس ہونے لگتا ہے۔ ایسا
ہونے سے لاشعوری تقاضے کی کچھ تسکین ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک سمبل (Symbol) پرواز ہے۔ چاہے آدمی جدوجہد نہ کرے۔ پھر بھی اس کی خواہش یہی
ہوتی ہے کہ تیزی سے مستقبل کی مسافت طے کرتارہے۔ لیکن ذہن میں منزل ضرور ہوتی ہے۔
چاہے آدمی اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔ جس دور میں ایسے کسی تقاضے کی شدت ہوتی ہے تو
پرواز کے خواب نظر آنے لگتے ہیں۔ البتہ پس پردہ لاشعور کا یہ اشارہ ضرور ہوتا ہے
کہ جدوجہد میں کمی ہے اسے پورا کیا جائے۔ انتھک کوشش اور محنت سے کامیابی حاصل ہو
سکتی ہے۔ لاشعور یہ ساری باتیں اسلئے بتاتا ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں زندگی کی
شاہراہ سے واقف ہے اور انسان کو باخبر کرنا چاہتا ہے۔
’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ ( مئی 2013)
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.