Topics

الہام اور خواب 2

 

شاہی پہرہ دار بن یامین کو گرفتار کر کے لے جانے لگے تو ان سب کو باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا انہوں نے داروغہ کی منت سماجت شروع کر دی کہ بن یامین کو چھوڑ دیا جائے اور اس کی جگہ جس بھائی کو چاہیں گرفتار کر لیں۔ معاملہ حضرت یوسف علیہ السلام والیٔ مصر کے سامنے پیش ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس امر سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو گا کہ اصل مجرم کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیا جائے۔

ناکام و نامراد برادران یوسف وطن واپس ہوئے۔ لیکن اس سفر میں ان کا بڑا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا کیونکہ اس نے خاص طور پربن یامین کی بحفاظت واپسی کا ذمہ اپنے سرلیا تھا اور بار ندامت سے باپ کا سامنا کرنے کی ہمت اس کے اندر موجود نہ تھی اس لئے وہ وہیں رہ گیا۔

باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے باپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرط غم سے ایک آہ کھینچی اور غمزدہ آواز سے بولے، ’’میں جانتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے لیکن تم جو کچھ کہتے ہو مان لیتا ہوں۔ اب سوائے صبر کے اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جو غلہ لائے تھے، ختم ہو گیا۔ وہ پھر مصر جانے کے بارے میں سوچنے لگے لیکن بن یامین کی حرکت سے جو شرمندگی انہیں اٹھانا پڑی تھی اس کی وجہ سے جاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں تسلی دی اور مصر جانے پر آمادہ کیا تا کہ غلہ کے حصول کے ساتھ ساتھ بن یامین کی قید سے رہائی کے لئے والیٔ مصر سے معافی کی التجا کی جا سکے۔

باپ کی ہمت دلانے پر بیٹے دربار میں حاضر ہوئے اورکہا: ’’ہمیں قحط سالی نے پریشان کر دیا ہے۔ اب معاملہ خرید و فروخت کا نہیں ہے۔ ذرائع آمدنی ختم ہوگئے ہیں۔ ہم غلہ کی پوری قیمت ادا نہیں کر سکتے ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے حاضر ہے۔ اگر تو ہمیں غلہ نہیں دے گا تو ہمارے گھروں میں فاقے شروع ہو جائیں گے۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور آبدیدہ ہو کر کہا۔

’’نہیں نہیں میں تمہیں اور اپنے باپ کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

برادران یوسف اس بات پر کہ عزیز مصر ہمارے باپ کو اپنا باپ کہہ رہاہے حیرت زدہ ہو رہے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مزید کہا۔

’’تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی بن یامین کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘

یہ جملہ سن کر ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عزیز مصر کو یوسف اور بن یامین سے کیا واسطہ ہے۔

’’میرے بھائیو! میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں۔ جسے تم نے حسد کی بناء پر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس انکشاف سے ان کے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ خوف، شرمساری اور ندامت کے احساس سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ طرز فکر سے درگزر سے کام لیا۔ فرمایا:

’’میں تمہارا بھائی ہوں۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم سے کوئی سرزنش نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔‘‘

فرعون مصر کو بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی آمد کا پتہ چلا اور یہ کہ ان کے والد اللہ کے برگزیدہ بندے حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان میں اسرائیل کے نام سے پکارے جاتے تھے اور آپ سے کئی معجزے منسوب تھے جن سے فرعون بھی واقف تھا۔ فرعون کو جب یہ پتہ چلا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس برگزیدہ ہستی کے بیٹے ہیں تو اس نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے پورے خاندان سمیت مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور سہولت کے لئے فوج کا ایک دستہ برادران یوسف کے ہمراہ کنعان بھیجا جس میں مال برداری کے جانور بھی شامل تھے۔

قافلے کی کنعان روانگی سے قبل حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا پیراہن بھائیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے محترم و مقدس باپ کی آنکھوں سے لگانا، خداوند قدوس اپنا فضل کرے گا۔

قافلہ ابھی کنعان میں داخل نہیں ہوا تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اہل خاندان سے کہا کہ مجھے اپنے گمشدہ بیٹے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ اہل خاندان نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اس بات کو پیرا نہ سالی کی وجہ سے ضعف دماغ پر محمول کیا اور کہا کہ برسوں کا گمشدہ بیٹا جس کو بھیڑیا لے گیا تھا بھلا اس کی خوشبو کیسے آنے لگی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا۔ ’’تم لوگ وہ بات نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔‘‘

شاہی دستہ کے ہمراہ قافلہ شہر میں داخل ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے سر جھکائے ان کے پاس پہنچے حضرت یعقوب علیہ السلام نے خوشی اور بے قراری سے کہا۔’’تم سب آ گئے۔ مجھے یوسف کی مہک محسوس ہو رہی ہے……‘‘

’’یوسف ہمارے ساتھ نہیں آیا۔‘‘ ایک بھائی نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ جواب دیا اور پیراہن نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’یوسف نے یہ بھیجا ہے۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے پیراہن ہاتھ میں لیا اور یہ کہتے ہوئے چومنا اور آنکھوں سے لگانا شروع کر دیا۔’’میرا یوسف زندہ ہے۔ میں نہ کہتا تھا میرا یوسف زندہ ہے۔ مجھے اس کی مہک آ رہی ہے۔‘‘ پیراہن آنکھوں سے مس ہو رہا تھا اور رفتہ رفتہ بینائی لوٹ رہی تھی۔

بھائیوں نے اول تا آخر سارا قصہ کہہ سنایا…… حضرت یعقوب علیہ السلام تمام خاندان والوں کے ہمراہ جن کی تعداد ستر(۷۰) بتائی جاتی ہے مصر روانہ ہو گئے۔

توریت کی تصریح کے مطابق والد سے بچھڑتے وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ۱۷ سال تھی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نوے سال کے تھے۔ جس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام مصر تشریف لائے اس وقت ان کی عمر ۱۳۰ سال تھی گویا باپ بیٹا چالیس سال ایک دوسرے سے جدا رہے۔

اس دوران فوطیفار کا انتقال ہو گیا۔ اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کو دوبارہ جوانی عطا کی اور دونوں کی شادی ہو گئی۔

انجیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے خواب کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

’’اور خدا نے رات کو خواب میں اسرائیل سے باتیں کیں۔ اور کہا اے یعقوب! اے یعقوب! اس نے جواب دیا میں حاضر ہوں۔ اس نے کہا میں خدا، تیرے باپ کا خدا ہوں۔ مصر میں جانے سے نہ ڈر کیونکہ میں وہاں تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔ میں تیرے ساتھ مصر کو جاؤ ں گا (یعنی میری نگہبانی تیرے ساتھ ہے) اور پھر تجھے ضرور لوٹا کر بھی لاؤ ں گا۔یوسف اپنا ہاتھ تیری آنکھوں پر لگائے گا۔‘‘

تاریخ شاہد ہے کہ حالات و واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح خوابوں میں نشاندہی کی گئی تھی۔

انبیاء علیھم السلام کے خواب:

سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں ہی سچے خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام جو خواب بھی دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح صادق کی طرح ظاہر ہو جاتی تھی۔ خواب کو جزو نبوت کہا گیا ہے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔

’’خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘

مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ا کی عمر مبارک چالیس سال تھی تو آپ ا پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ وحی کے نزول کا زمانہ ۲۳ سال ہے۔ ابتدائی چھ ماہ کا عرصہ خوابوں پر مشتمل تھا۔ ۶ ماہ کو ۲۳ سال سے وہی نسبت ہے جو ایک کو چھیالیس سے ہے۔

۱۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خواب کے ذریعے اللہ کریم خواب دیکھنے والے کو اس بھلائی یا برائی سے مطلع فرمادیتاہے جو اس کو پہنچنے والی ہوتی ہے۔ تا کہ وہ شخص دنیا میں مغرور نہ ہو جائے اور خدائے ذوالجلال کے حکم سے غافل نہ رہے اور وحدانیت اور اللہ تعالیٰ کے قانون اور حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔

سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

۲۔’’بشارتوں کے سوانبوت کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔‘‘

صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ بشارتوں سے کیا مراد ہے؟

آپ ا نے فرمایا……’’سچا خواب‘‘

جب رسول خدا ا بیمار ہوئے تو صحابہ کرامؓ غمگین ہو کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کار خیر سے مطلع فرماتے ہیں۔ خدانخواستہ آپ اگر ہمارے درمیان موجود نہ رہے تو کون مطلع کرے گا۔ دینی اور دنیاوی امور کی بھلائی ہمیں کس طرح معلوم ہو گی؟

۳۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

’’میری وفات کے بعد وحی تو منقطع ہو جائے گی لیکن مبشرات بند نہیں ہوں گے۔‘‘

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ’’مبشرات‘‘ کیا ہیں؟

’’مبشرات وہ اچھے خواب ہیں جو نیک بندوں کو نظر آتے ہیں۔‘‘

ایک روز ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھا خواب دیکھے تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس خواب کو اپنے مومن دوستوں اور بھائیوں کے سامنے بیان کرے اور اگر نیک آدمی برا خواب دیکھے تو چند بار یہ کہے:

’’میں راندۂ درگاہ شیطان سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

۴۔رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے گویا مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر کے بعد عموماً صحابہ کرامؓ سے دریافت فرماتے کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہے تو بیان کردیتا اور سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی تعبیر بیان فرماتے تھے۔

 صحابہ کرامؓ کے اقوال

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

’’اللہ کریم کے عجائبات خلق میں سے ایک خواب بھی ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے کہ سب سے پہلی نعمت جو اللہ نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائی وہ یہ تھی کہ آپ ا نے خواب میں ایک مقرب فرشتے کو دیکھا جو آپ ا سے اس طرح ہمکلام ہوا کہ، اے محمد ا ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ ا کو اللہ نے اپنے انبیاء کے گروہ میں ممتاز فرمایا ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا ہے اور آپﷺ کے حق میں یہ ارشاد ہوا ہے:

’’محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘

 بزرگان دین کے اقوال

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں:

۱۔ دلی خیالات کا انعکاس

۲۔ شیطانی وسوسے

۳۔ مبشرات خداوندی

 خواب میں ا ٓدمی خیر، منفعت اور راحت دیکھتا ہے یا شر اور آفت دیکھتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہی چیز سامنے آ جاتی ہے۔ کند ذہن و کند فہم لوگ جو بیداری میں پڑھی ہوئی شاعری یا دنہیں کر سکتے بحالت خواب سنی ہوئی پوری پوری غزل بیدار ہونے پر سنا دیتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ان پڑھ شخص عالم خواب میں کسی علمی محفل میں شریک ہوتا ہے اور بیدار ہونے پر علم و حکمت کی باتیں بیان کرنے لگتا ہے۔

بعض حالات میں شعور اس حد تک بیدار ہوجاتا ہے کہ خواب میں بھی تخلیق کا کام جاری رہتا ہے اور یہ تخلیق بیداری میں کی گئی تخلیق سے عمدہ ہوتی ہے۔ دنیائے ادب میں بہت سے شاہکار خواب میں تخلیق ہوئے مثلاً جلال الدین رومیؒ نے اپنے بعض بہترین اشعار نیند کی حالت میں کہے۔ یہی حالت رابندرناتھ ٹیگور کی تھی۔ کولرج(Coleridge)نے اپنی مشہور نظم ’’قبلائی خان‘‘ خواب میں لکھی۔ جاگتے ہی اس نے اشعار کاغذ پر لکھ لئے۔ ابھی نظم پوری نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دستک کی آواز سنتے ہی باقی سب اشعار حافظہ سے نکل گئے۔(امام محمد بن سیرین)

مصر کے صوفی شاعر ابن فارض نے سارے قصائد خواب میں کہے اور بیدار ہونے پر لکھے۔ شیخ سعدی کا وہ شہرۂ آفاق شعر جو انہوں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق خواب میں فرمایا تھا، بہترین مثال ہے:

بلغ العلیٰ بکمالہ

کشف الدجیٰ بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلّوا علیہ و آلہ

۱۔ ایک شخص پرجنسی جذبات کا اس قدرغلبہ ہوا کہ اس نے بہت آہ و زاری کے ساتھ دعا کی۔ اس شخص نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا کہ بزرگ سینے پر ہاتھ پھیر رہے ہیں جب بیدار ہوا تو طبیعت کو پرسکون پایا۔ ایک سال بعد پھر شہوت کا زور ہوا۔ پھر انہی بزرگ کو خواب میں دیکھا۔ بزرگ نے پوچھا کیا تو یہ چاہتا ہے کہ تیرے اندر شہوت ختم ہو جائے۔ اس شخص نے کہا کہ ہاں میں یہی چاہتا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا۔’’گردن جھکا لے۔‘‘ جب گردن جھکائی تو بزرگ نے تلوار سے گردن پر وار کیا۔ جس کے باعث اس کی شہوت کافی عرصہ کے لئے ختم ہو گئی۔

۲۔’’دل آئینے کی مانند ہے اور لوح محفوظ اس آئینہ کی مانند ہے جس میں تمام موجودات کی تصویریں موجود ہیں۔ اور صاف آئینے کو جب تصویروں کے سامنے کرتے ہیں تو تصویریں دکھائی دیتی ہیں اسی طرح غیب میں دیکھنے کی صلاحیت بیدار ہوجاتی ہے۔‘‘(حضرت امام غزالی ؒ)

جو شخص اپنے خواب کو علامت اور دلیل کے ساتھ اچھی طرح جاننا چاہتا ہے، حتی المقدور طہارت کے ساتھ دائیں پہلو پر سو جائے۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور کھانا آدھا پیٹ کھائے۔(حضرت ابراہیم کرمانی ؒ )

اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنے کی سات تعبیرات ہیں۔

۱۔ معافی اور بخشش

۲۔ بلا اور مصیبت سے امن

۳۔ ہدایت اور دین میں ترقی

۴۔ ظالموں پر فتح

۵۔ آخرت کے عذاب سے امن

۶۔ رعایا اور عادل بادشاہ

۷۔ دنیا وآخرت میں عزت و شرف۔(حضرت جعفر صادق ؒ )

 ہر انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے خواب دیکھتا ہے۔

۱۔ جس شخص کے مزاج میں حرارت کا غلبہ ہو وہ خواب میں آگ یا دھوپ دیکھتا ہے۔

۲۔ جس شخص کے مزاج میں سردی کا غلبہ ہو وہ خواب میں برف یا خود کو ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگاتے ہوئے دیکھتا ہے۔

۳۔ غرضیکہ جس شخص میں جس خلط کا غلبہ ہوتا ہے وہ اسی کے موافق خواب دیکھتا ہے۔(شیخ الرئیس ابو علی حسین بن عبداللہ بن سینا )

خوب پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے ڈراؤ نے خواب نظر آتے ہیں۔ شکم سیر ہو کر کھانے سے معدے میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ جس سے اعصاب متاثر ہوتے ہیں اور اعصاب متاثر ہونے سے قوت متخیلہ اور قوت متصورہ دماغ کو بھاری کر دیتی ہے اور آدمی ڈراؤ نے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جب تک معدہ غذا سے بھرا ہوا ہو، سویا نہ جائے۔(حکیم بو علی سینا)



’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ ( جولائی 2013ء)

Topics


Aap ke Khwab aur tabeer

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.