Topics
ہم دنیا اور دنیا کے معاملات، دین اور
دین کی مبادیات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں شہادت ملتی ہے کہ یہ سارا نظام الگ الگ نہیں
ہے۔ ایک ہی نظام ہے لیکن طرز فکر کی وجہ سے نظام میں بے شمار شعبے بن گئے ہیں۔
انبیاءکی
طرز فکر
شیطان
کی طرز فکر
انبیاء
کی طرز فکر انسان کو اس گروہ میں شامل کر دیتی ہے جس گروہ کے افراد اللہ کے پسندیدہ
ہیں۔ یہ اراد خوشی خوشی ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ کی قربت کا احساس اجاگر
ہوتا ہے اور ہر اس کام سے ا جتناب کرتے ہیں جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔
انسان
ازل سے اللہ سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود کہ وہ اللہ سے واقف ہے اس بات پر اصرار
کرتا ہے کہ وہ اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس سے ہمکلام ہونا اس دنیا میں ممکن نہیں
ہے۔
اللہ
کو نہ دیکھنے کی وجہ اور اللہ کی قربت سے دوری اس لئے ہے کہ ہم نے یقین کو شک کے
پردوں میں چھپا دیا ہے۔ جب ہمارے اندر یقین ہی نہیں ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ سکتے ہیں
اور اللہ سے ہمکلام ہو سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے خود اپنے اور اللہ
کے درمیان دیوار بنا دی ہے۔
ازل
کے ابتدائی مراحل میں قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق جب اللہ نے ’’الست بربکم‘‘ کہا
تو ہم ’’بلیٰ‘‘ کہہ کر اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے۔
دنیا
کا ہر فرد جانتا ہے کہ کافی دیر تک بیدار رہنے کے بعد طبیعت آدمی کو مجبور کرتی
ہے کہ وہ سو جائے۔ پھر مجبور کرتی ہے کہ وہ بیدار ہو جائے۔ یہ سونا جاگنا ہی زندگی
ہے۔
آدمی
جب سو جاتا ہے تو ناسوتی دنیا سے قطع تعلق ہو جاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو
ماورائی یا لاشعوری دنیا سے تعلق قائم نہیں رہتا۔ ہر انسان کی مجبوری ہے کہ وہ
دونوں دنیاؤں میں الٹ پلٹ ہوتا رہے۔ ناسوتی دنیا ایک قید خانہ ہے۔ اس قید خانے میں
ہر ہر قدم پر پابندی ہے۔ پیروں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں۔ نہ ہم بیڑی
اتار سکتے ہیں اور نہ ہی ہتھکڑی سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ دوسری دنیا میں جس کو
لاشعوری دنیا یا ماورائی عالم کہا جاتا ہے، بیڑی اور ہتھکڑی نہیں ہیں۔ وہاں آدمی
آزاد ہے۔ پرواز کرتا ہے لیکن ایروپلین کی محتاجی نہیں ہے۔ کھانا کھاتا ہے مگر کچن
اور چولہے وہاں نہیں ہوتے۔ کپڑے پہنتا ہے مگر ٹیکسٹائل مل اور فیکٹریاں وہاں نہیں
ہیں۔ ہر چیز دستیاب ہیں۔ لیکن زر مبادلہ کا کوئی تصور نہیں……
رحمٰن
اور
شیطان
دو
حدیں ہیں۔ دو راستے ہیں۔ دو طرز فکر ہیں۔
شیطان
چونکہ خود راندۂ درگاہ ہے۔ اس لئے اس سرحد کے اندر جو بھی چلا جاتا ہے وہ راندۂ
درگاہ ہو جاتا ہے۔ شیطان کا اعزاز چونکہ طوقِ لعنت ہے۔ اس لئے اس کے بہت ساتھی اس
کے سارے پیروکار، طوقِ لعنت میں گرفتار ہیں……
اللہ
رب العالمین نے، جو رحمٰن ہیں اپنی رحمت نچھاور کرنے کے لئے اپنے دوست، برگزیدہ
بندے، اپنے قاصد، اپنے رسول دنیا میں اس لئے بھیجے ہیں کہ بندہ، بندہ بن کر آزادی
کی زندگی گزارے……آدمی شیطان کی پیروی کر کے طوقِ لعنت نہ پہنے……
پیغمبروں
نے بتایا ہے اور عمل کر کے دکھایا ہے کہ اللہ کے ساتھ قریبی تعلق استوار کیا جا
سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام……اور ان کی جماعت کے پیغمبروں نے خالق کائنات کی
بادشاہی میں معزز رکن بننے کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے برملا اعلان کیا ہے کہ اللہ
نے آدمی کو اپنی صفات پر تخلیق کیا ہے۔ اللہ آدمی کی رگ جان سے زیادہ قریب ہے۔
اللہ آدمی کے اندر بستا ہے۔ اللہ کے محبوب بندے آخری نبی باعث تخلیق کائنات محمد
رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق……
اللہ
کے محترم دوست، قریب ترین دوست، اللہ کے محبوب، اللہ کے تمام علوم کے امین رحمت
للعالمین جب اپنے خالق سے ملنے مقام محمود گئے تو امت کے لئے اللہ نے صلوٰۃ (نماز)
کا تحفہ عطا کیا……صلوٰۃ(نماز) خالق اور مخلوق ایک گائیڈ میپ ہے۔ یہ میپ صراط مستقیم
کے لئے مشعل راہ اور جنت کے لئے نشان منزل ہے۔
وقار
یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے
ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی
سرپرستی حاصل رہی ہے۔
مجھے
خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام
پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔
کسی
کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے
وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں
میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز
قلمکار ہے۔
میں
سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے
کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔
آمین
خواجہ
شمس الدین عظیمیؔ
مرکزی
مراقبہ ہال
سرجانی
ٹاؤن۔ کراچی
ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ
وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔
کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمیؔ
مرکزی
مراقبہ ہال
سرجانی
ٹاؤن۔ کراچی