Topics

نیک آدمی کا سفرِ آخرت


خدا آپ کے اوپر اپنی رحمتیں نازل  فرمائے۔ آج کے خط میں وہ کیفیات اور واردات بیان کرتی ہوں جو مجھے موت کے بارے میں دکھائی گئی ہیں۔

جب انسان مرتا ہے تو موت کے وقت ایک فرشتہ خدا کے حکم سے اس کے پاس آتا ہے، پھر وہ روح کو جسم کی قید سے آزاد کرتا ہے لیکن روح اس وقت آسمان پر نہیں جاتی بلکہ اس شخص کے ساتھ رہتی ہے پھر مردے کو جب دفن کرتے ہیں تو روح بھی ساتھ ساتھ قبر میں جاتی ہے۔ یہاں منکر نکیر دو فرشتے آتے ہیں۔ اس آدمی کے کاندھوں کے فرشتے کراماً کاتبین اس شخص کا اعمال نامہ جو وہ ساری زندگی لکھتے رہے منکر نکیر کو دے دیتے ہیں۔ اسی وقت  اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ آتا ہے جو کراماً کاتبین کو اللہ کا حکم سناتا ہے کہ خدا کا فرمان ہے کہ فلاں شخص دنیا میں آنے والا ہے اس کے پاس پہنچو پھر یہ فرشتے کراماً کاتبین اس بچے کے پاس پہنچتے ہیں اور بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کاندھوں پر اپنا مسکن بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا اعمال نامہ لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس یوں سمجھو کہ ان کی ڈیوٹی دوسرے شخص پر لگ جاتی ہے۔ یہ فرشتے نہایت برق رفتاری سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ اب منکر نکیر اس شخص کے اعمال نامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو باقاعدہ رجسٹر قسم کی کاپی ہوتی ہے۔ یہ فرشتے ایک نظر ڈال کر پڑھ سکتے ہیں پھر اس مردے سے سوال پوچھتے ہیں کہ تم کس کے بندے ہو وغیرہ وغیرہ۔ بندہ صحیح جواب دے دے تو منکر نکیر انسان کا اعمال نامہ اس فرشتے کے ہاتھ دے دیتے ہیں جو آسمان سے اترتا ہے ۔ اگر وہ شخص نیک ہو تو اس کو لینے کے لیے آسمان سے مختلف تعداد میں فرشتے آتے ہیں اور ایک سونے کی طرح بنی ہوئی گاڑی بھی ساتھ لاتےہیں۔ یہ نہایت ہی خوبصورت سنہری گاڑی ہوتی ہے جس میں صرف ایک ہی شخص بیٹھ سکتا ہے۔ اس گاڑی میں گھوڑے کی طرح ایک خوبصورت پرندہ جتا ہوا ہوتا ہے۔ ان فرشتوں میں جو سب سے آگے ہوتا ہے اسے منکر نکیر اعمال نامہ پکڑا دیتے ہیں۔ اب اس نیک شخص کو یہ  فرشتے پہلے تو جھک کر نہایت ہی تعظیم سے سلام کرتے ہیں اور وہ آدمی بھی مسکرا کر جواب دیتا ہے۔ یہ تمام باتیں روح کو پیش آتی ہیں۔ جسم اسی طرح قبر میں لیٹا ہوتا ہے۔

اب وہ فرشتے اس شخص کو نہایت ہی تعظیم کے ساتھ اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ پاس ادب سے ساتھ نہیں چلتے بلکہ دائیں بائیں چلتے ہیں۔ یہاں سے بہت دور جانے کے بعد ایک خاص راستہ ہے جس میں وہ گاڑی بمعہ اس شخص کے اور فرشتے کے آن کی آن میں آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ پہلے آسمان کا دروازہ کھلتا ہے، اس پہلے آسمان کے دروازے پر ایک فرشتہ  جو آسمان کا گیٹ کیپر یا داروغہ ہوتا ہےکھڑا ہوتا ہے یہاں ایک لمحہ کو وہ گاڑی رکتی ہے، و ہ فرشتہ جس کے پاس اعمال نامہ ہوتا ہے اس داروغہ کو دکھاتا ہے وہ ایک نظر دیکھ کر کہتا ہے کہ ٹھیک ہے جاؤ۔ اب دوسری لفٹ یا سیڑھی سے دوسرے آسمان پر روح  بمعہ فرشتوں کے پہنچتی ہے۔ یہاں بھی دوسرے آسمان کا داروغہ اعمال نامہ ایک نظر دیکھ کر آگے جانے کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح سفر کرتی ہوئی نیک روح چھٹے آسمان پر پہنچتی ہے۔ یہ باغِ جنت کا داروغہ جس کا نام رضوان مسکرا کر گاڑی کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے اور نہایت ادب سے اس نیک روح پر سلامتی بھیجتا ہے۔ اب جو فرشتے قبر سے اس روح کے ساتھ آئے تھے وہ اس چھٹے آسمان کے دروازے کے باہر ہی جھک کر سلام کر کےواپس چلے جاتے ہیں اور خدا کے حکم سے کسی دوسرے انسان کی قبر میں جاتے ہیں اور اسی طرح ان  کی ڈیوٹی پھر شروع ہو جاتی ہے۔

اب چھٹے آسمان سے جنت کے اندر داخل ہوتے ہی کئی فرشتے اس برق رفتار رتھ کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور ہر طرف سے روحیں سلام بھیجتی ہیں۔ بس یہ شخص جنت کے جس درجے کا ہو اس درجے میں فرشتے اس کو نہایت ادب اور تعظیم کے ساتھ چھوڑ آتےہیں۔ سلامتی اور مبارک باد دیتے ہیں اور وہاں کے آداب بتاتے ہیں۔ یہ تھا نیک آدمی کا سفرِ آخرت۔


گناہ گار کا سفرِآخرت


اب سنو گنہگار شخص کا سفرِ آخرت۔

بالکل اسی طرح ہے کہ منکر نکیر سوال کرتے ہیں، پھر آسمان کا فرشتہ جو اوپر سے آتا ہے اس کا اعمال نامہ لیتا ہے اور نظر ڈالتا ہے، پھر جو فرشتے بھی اس کو لینے آتے ہیں وہ ان سے ڈرتا ہےاور فرشتے بھی بُری طرح گھسیٹتے ہوئے اس کو لے جاتےہیں۔ وہ اسے لے جانے کے لیے دوسرا راستہ یا لفٹ استعمال کرتے ہیں۔ ہر آسمان کا داروغہ نامہ اعمال چیک کرتا ہے اور پھر دوزخ کے جس درجے کا وہ شخص ہو  (یہ اعمال نامہ دیکھ کر ان کو پتہ چل جاتا ہے) اس آسمان پر اسے لے جا کر وہ فرشتے یہ کہہ کر پھینک دیتے ہیں کہ یہ تمہارے اعمال کی سزا ہے۔

ہر روز دوزخ اور جنت کی روحوں کے اعمال نامے کی چیکنگ ہوتی رہتی ہے۔ گناہوں یا اعمال کے لحاظ سے اگر اس روح نے اتنی سزا بھگت لی جتنی اس کو بھگتنی ضروری تھی تو پھر اس کو جنت کے اونچے درجے میں بتدریج پہنچایا جاتا ہے یا دوزخ کے سب سے اونچے درجے سے (جو سخت ترین عذاب ہے) نچلے درجے میں بتدریج لایا جاتا ہے۔ حساب کے دن جب حساب کتاب ہو گا تو سب کا اعمال نامہ خود اللہ تعالیٰ جل شانہ بنفسِ نفیس ملاحظہ فرمائیں گےاور جس کی جتنی سزا باقی ہو گی اس لحاظ سے اس کو دوزخ اور جنت کے درجے دئیے جائیں گے۔

شفاعت کیا ہے؟

شفاعت کو سمجھنے کے لیےیہ مثال سمجھو کہ جیسے کسی کو امتحان میں پاس کرنے کے لیے 100 میں سے 33 نمبر ضروری ہیں۔ اس سے کم ملے تو وہ فیل ہو گا۔ اب اس کے صرف 30 نمبر آئے تو ممتحن اس کو تین نمبر رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیتا ہے جس کا اس کو قانون کی رُوسے اختیار ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ پیغمبروں اور نبیوں اور جن لوگوں کو بھی شفاعت کی اجازت فرمائیں گے وہ نیک لوگ یا پیغمبر جن کی شفاعت کرنا مقصود ہو گی اس کا اعمال نامہ چیک کریں گے اگر موت کے بعد سے قیامت تک اس نے تقریباً پون حصہ سزا بھگت لی ہو گی تو پھر اس کی سفارش خدا سے کر کے اسے جنت میں داخل کروا دیں گے۔ روح کا احساس ہم لوگوں کی نسبت ستر ہزار گنا زیادہ ہے اسی لیے وہاں کے عذاب بھی سخت ترین ہیں۔یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کا حکم دیتے ہیں کہ فلاں کام ہو جائے اور وہ ہو جاتا ہے لیکن اس کا ہر حکم بجا لانے  کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور ہر کام کرنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے ہر کام نہیں ہو جاتا۔ ہر کام اور ہر چیز کی مثال دنیا میں موجود ہے۔ دنیا میں کروڑ ہا لوگ ہیں جو ہر وقت خدا سے کسی نہ کسی چیز کی دعا کرتےرہتے  ہیں ، خدا ان کا کام کرتا ہے، سب کی سنتا ہے لیکن ہر کام کے لیے وقت درکار ہے اسی لیے خدا نے صبر کی تلقین کی ہے۔

یہ خط لکھ کر میں سو گئی۔ مجھے پھر سخت نیند آ رہی تھی، سونے میں خواب دیکھا اب یہ خواب اور اس کی تشریح جو مجھے الہامی ذریعے سے بتائی گئی ہے پیشِ خدمت ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں  وادیِ واحدانیت میں اُڑ رہی ہوں۔ ایک مردِ حق مجھ سے آگے آگے جا رہا ہے ، یہ تن درست اور خوبصورت جوان ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان لڑکی اُڑ رہی ہے وہ مردِ حق اس وادی کا ایک راستہ اس لڑکی کو بتاتا جا رہا ہے۔ میں اور وہ لڑکی اس کے کہنے کے مطابق اسی سمت اُڑتے جا رہے ہیں اور راستے میں سب کچھ دیکھتے جا رہے ہیں۔ وہ دونوں مجھ سے آگےہیں اور میں ان کے پیچھے ہوں۔ یہاں یارانِ طریقیت کا بازار گرم ہے اور مرغِ بسمل ٹکے ٹکے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ایک دکان پر میں رکی، دیکھا کہ ایک عورت  اور ایک آدمی جو اس دکان کے مالک ہیں مجھے آواز دے کر کہہ رہے ہیں کہ یہ مرغِ بسمل لے جاؤ، یہ بہت اچھا ہے، بڑا سستا ہے، مجھے بڑا سستا لگا کیونکہ اس کی قیمت صرف دو پیسے تھی۔ وہ بہت تندرست مرغ تھا جس کی پیٹھ کے بال و پر غائب تھے جیسے نُچے ہوئے ہوں اور گلابی کھال نظر آ رہی تھی۔ مجھے بڑا ترس آیا کہ اچھا خاصا مرغ ہے، قیمت صرف دو پیسے ہے۔ دنیا میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ سوچتی ہوں خرید لوں پھرسوچا کیا کروں گی۔ میرے پاس تو پہلے ہی سب کچھ موجود ہے۔ ہم یہاں سے آگے اُڑے۔ جگہ جگہ دیواریں سی تھیں۔ ان دیواروں کے ساتھ ساتھ جڑوں کی شکل کی نلکیاں نظر آئیں۔ وہ اوپر چھت سے جُڑی ہوئی تھیں، ان نلکیوں میں سے سیال قسم کی کوئی چیز بہہ کر نیچے سے اوپر جا رہی تھی۔ ہر طرف نور ہی نور تھا۔ وہاں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ یارانِ طریقت کا بازار تو بالکل شروع میں تھوڑی سی جگہ میں تھا۔ سیر کرتے کرتے آگے چلے تو ایک جگہ کچھ اونچے چبوترے پر ککڑی کی بیل چھائی ہوئی تھی۔ وہ نوجوان ہمیں اس بیل کے پاس لے گیا، کہنے لگا یا وادی وحدانیت کا پھل ہے۔ دیکھو کوئی ککڑی شاید ثابت مل جائے۔ جگہ جگہ ککڑیاں لگی ہوئی تھیں لیکن کوئی صحیح سالم نہ تھی۔ کسی میں کیڑا لگا ہوا تھا اور کوئی کٹی پھٹی تھی۔ بڑی مشکل سے میری نظر ثابت ککڑیوں پر پڑی جو پتوں کے نیچے چھپی ہوئی تھیں۔ وہ چبوترے کے بیچ میں تھیں۔ میرا ہاتھ ان تک نہ پہنچتا تھا۔ وہ نوجوان کہنے لگا ٹھہرو میں چبوترے پر جا کر لے آتا ہوں۔ وہ گیا اور تین بالکل ثابت ککڑیاں لےآیا۔ خوب تروتازہ ، خوب موٹی اور لمبی لمبی اور انہیں سینے سے لگا کر کہنے لگا یہ میری ہیں۔ میں نے کہا یہ میری ہیں میں یہاں اسی لیے آئی ہوں۔ اس کے ساتھ والی لڑکی بولی ہاں یار محمد یہ ککڑیاں اسی کو دے دو، یہ اسی کی ہیں تمہارے لیے تو پورا باغ لگ رہا ہے۔ اس قدر وسیع و عریض باغ۔ اس باغ کا سارا پھل تم کو ہی  ملے گا۔ ذرا انتظار کرو اللہ نے یہ ککڑیاں اسی کےلیے تو رکھی تھیں۔ اس نوجوان نے حسرت اور رشک سے میری طرف دیکھا اور ککڑیاں یہ کہہ کر دے دیں میں یہاں لاکھوں برس سے اُڑ رہا ہوں یہاں کے چپے چپے سےواقف ہوں، باوجود تلاش  بسیار کے یہاں کا پھل مجھے اب تک نہیں ملا۔ اس لڑکی نے میرا تعارف اس سے کروایا، وہ مجھے واپس باہر لے گئی اور اس نے پہلے ایک ککڑی دے  کر کہا ” یہ اللہ کی رحمت ہے”۔ پھر دوسری دے کر کہا ” یہ شفقت ہے”۔ پھر تیسری جو سب سے زیادہ لمبی تھی بل کھا ئی ہوئی تھی ، دے کر کہا “یہ اللہ کی محبت ہے اسے  سنبھال کر رکھنا”۔ میں نے کہا انشآاللہ میں انہیں خوب سنبھال کر رکھوں گی۔



Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔