Topics
نعمان
کے اسکول میں ٹیسٹ ہونے والے تھے۔ ان دنوں وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے رہا
تھا۔ ایک روز اویس اور سمیرا نے شام کے وقت بچوں کے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے باہر
جانے کا پروگرام بنایا۔ نعمان سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ گھر پر رہ کر ٹیسٹ کی تیاری
کرے گا۔ نعمان اپنے کمرہ میں بیٹھا مطالعہ میں مصروف تھا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی
بجی گھر میں کوئی اور تو تھا نہیں نعمان نے کمرہ سے باہر آ کر فون سنا۔
السلام
علیکم
وعلیکم
السلام اویس صاحب گھر پر ہیں۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
جی
نہیں وہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ آپ کون صاحب ہیں۔ نعمان نے پوچھا۔
میں
ان کا دوست عمران احمد بات کر رہا ہوں۔ آپ کون ہیں۔
میں
اویس صاحب کا بیٹا نعمان بات کر رہا ہوں۔
نعمان
بیٹے اویس صاحب گھر آئیں تو انہیں بتانا کہ ان کے دوست منور صاحب کا انتقال ہو گیا
ہے۔ نماز جنازہ عشاءکے بعد ہے۔
جی
بہت بہتر۔
تھوڑی
دیر بعد اویس اور سمیرا بچوں کے ساتھ گھر لوٹے تو نعمان نے انہیں بتایا کہ ان کے
دوست منور صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔
انا
للّٰہ و انا الیہ راجعونoاللہ
تعالیٰ منور صاحب کی مغفرت فرمائیں۔
خبر
سنتے ہی اویس کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ اس خبر پر دکھ اویس کے چہرہ اور لہجہ سے
عیاں تھا۔
ابو
جان کیا ہوا۔ ننھے فیضان نے اپنے باپ کو غمزدہ دیکھ کر فکر مندی سے پوچھا۔ بیٹے میرے
ایک بہت اچھے دوست انتقال کر گئے ہیں۔
انتقال
کا کیا مطلب ہے۔ فیضان نے پوچھا۔
اللہ
تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ جب
کسی کا وقت پورا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس دنیا سے اپنے پاس واپس
بلا لیتے ہیں۔ اسے انتقال کرنا، مرنا یا فوت ہونا کہتے ہیں۔
انکل
عمران نے فون پر بتایا تھا کہ منور صاحب کی نماز جنازہ عشاءکے بعد ہے۔ نعمان نے
کہا۔
نماز
جنازہ کیا ہے۔ فیضان نے پوچھا۔
نماز
جنازہ اس دنیا سے چلے جانے والے کے لئے دعا ہے۔ دنیا کے معاشروں میں زندگی گزارنے
کے لئے مختلف ضابطے اور طریقے متعین ہیں۔ ان میں جامع اور مکمل ترین ضابطہ حیات
اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔
مرنا
روح کا جسم سے تعلق کر لینا ہے۔ جسم سے روح نکل جائے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے اور
اس جسم کی حیثیت محض ایک ڈیڈ باڈی کی رہ جاتی ہے۔ اہل اسلام اس ڈیڈ باڈی کو ایک
خاص طریقہ سے نہلا کر کفن پہنا کر زمین میں دفناتے ہیں۔ میت کو دفن کرنے سے پہلے
نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ نماز اس میت کے لئے لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے
حضور دعائے مغفرت ہے۔
انتقال
کر جانے والے ہر مسلمان کی نماز جنازہ ادا کرنا لازمی ہے۔ ہر مسلمان مرد عورت حتیٰ
کہ پیدائش کے بعد ایک منٹ زندہ رہ کر فوت ہو جانے والے بچہ کی نماز جنازہ ادا کرنا
اس شہر کے تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ لیکن اس کی حیثیت فرض کفایہ کی ہے۔
فرض
کفایہ کا کیا مطلب ہے؟
فرض
کفایہ کا مطلب ایسا فرض ہے جو اگر چند لوگ ادا کر لیں تو شہر کے تمام افراد کی
جانب سے فرض پورا ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو شہر کے سب افراد
جوابدہ ہوتے ہیں۔
بابا
جان کیا نماز جنازہ بھی دوسری فرض نمازوں کی طرح ادا کی جاتی ہے؟
فرض
نماز اور جنازہ کی نماز کی ادائیگی میں فرق ہے۔ نماز جنازہ میں رکوع، سجود، قعدہ
ور جلسہ نہیں کیا جاتا۔ حالت قیام میں امام صاحب چار تکبیر کہتے ہیں ہر تکبیر کے
بعد کچھ نہ کچھ پڑھا جاتا ہے۔
سب
سے پہلے اس طرح نیت کرتے ہیں۔
میں
نیت کرتا ہوں چار تکبیر نماز جنازہ کی، ثناءاللہ کے لئے، درود رسول اللہﷺ پر اور
دعا اس میت کے لئے۔ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف، پیچھے اس امام کے۔
نیت
کے بعد امام پہلی تکبیر کہیں گے۔
اللہ
اکبر
تکبیر
کے بعد ہاتھ باندھ کر ثناءپڑھی جائے۔
ثنائ،
تعوذ، تسمیہ پڑھنے کے بعد امام دوسری تکبیر کہیں گے۔
اللہ
اکبر
اس
تکبیر کے بعد تمام مقتدی درود شریف پڑھیں گے۔ پھر امام تیسری تکبیر کہیں گے۔
اللہ
اکبر
اس
تکبیر کے بعد مقتدی میت کے لئے دعا پڑھیں گے۔ جنازہ بالغ مرد و عورت کا ہو تو یہ
دعا پڑھی جائے گی۔
اللّٰھم
اغفرلحینا و میتنا و شاھدنا و غائبنا و صغیر نا و کبیرنا و ذکرنا وانثنا اللّٰھم
من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام و من توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان
ترجمہ:
اے اللہ! مغفرت فرما ہمارے زندوں کی اور مرحومین کی اور حاضر کی اور غائب کی اور
چھوٹوں کی اور بڑوں کی اور مرد کی اور عورت کی۔ اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ
رکھنا چاہے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو موت دینا چاہے اسے ایمان پر موت دے۔
دعا
پڑھ کر امام چوتھی تکبیر کہیں گے۔
اللہ
اکبر
اس
تکبیر کے بعد نماز کی طرح سے دائیں اور پھر بائیں طرف منہ پھیر کر سلام کہیں۔
اگر
میت نابالغ کی ہو تو تیسری تکبیر کے بعد بالغ مرد و خاتون والی دعا کے بجائے دوسری
دعا پڑھی جائے گی۔ نابالغ لڑکے اور لڑکی کی دعاؤں میں عربی زبان کے قواعد کی وجہ
سے کچھ فرق ہے۔ اگر نابالغ لڑکا ہے تو یہ دعا پڑھیں گے۔
اللّٰھم
اجعلہ لنا فرطا و اجعلہ لنا اجرا و ذخرا واجعلہ لنا شافعا و مشفعا
ترجمہ:
اے اللہ اس (لڑکے) کو ہمارے لئے پیش رو بنا اور اس کو ہمارے لئے اجر بنا اور ذخیرہ
اور اس کو بنا ایسا سفارش کرنے والا جس کی سفارش قبول کی جائے۔
اگر
میت نابالغ لڑکی کی ہو تو یہ دعا پڑھیں گے۔
اللّٰھم
اجعلھا لنا فرطا و اجعلھا لنا اجرا وذخراواجعلھا لنا شافعتہ و مشفعہ
ترجمہ:
اللہ اس (لڑکی) کو ہمارے لئے پیش رو بنا اور اس کو ہمارے لئے اجر بنا اور ذخیرہ
اور اس کو بنا ایسی سفارش کرنے والی جس کی سفارش مقبول ہو۔
ان
باتوں کے دوران مغرب کا وقت ہو گیا۔ نعمان نے تمام دعاؤں کو اچھی طرح یاد کر لیا۔
مغرب کے بعد اویس اور نعمان منور صاحب کے جنازے میں شرکت کے لئے چل دیئے۔ نعمان نے
راستے میں کہا نماز جنازہ کے بعد قبرستان تک جانے کے دوران ہمیں کیاکرنا ہو گا؟
جنازہ
اٹھانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے اگلا داہنا پایہ اپنے بائیں کندھے پر رکھا جائے
اور تقریباً دس قدم چلے۔ اس کے بعد پیچھے کا داہنا پایہ بائیں کندھے پر رکھ کر دس
قدم چلے۔ اس کے بعد آگے کا بایاں پایہ پھر پچھلا بایاں پایہ۔ اس طرح چاروں پایوں
کو ملا کر چالیس قدم چلنا سنت ہے۔ میت کو قبر میں رکھتے وقت
بسم
اللّٰہ و علی ملتہ رسول اللّٰہ پڑھنا مستحب ہے۔
ترجمہ:
ہم نے تجھے اللہ کے نام کی برکت حاصل کرتے ہوئے اور رسول اللہﷺ کے دین پر قبر میں
رکھا۔
میت
کو قبر میں رکھ دینے اور قبر بند کر دینے کے بعد جو مٹی قبر کھودتے وقت نکالی تھی
وہ قبر پرڈال دیں۔ مٹی ڈالنے کا مستجب طریقہ یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے ابتدا کی
جائے اور ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں میں تین مرتبہ مٹی بھر کر قبر پر ڈالے۔
پہلی
مرتبہ پڑھے منھا خلقنکم
دوسری
مرتبہ پڑھے وفیھا نعید کم
تیسری
مرتبہ پڑھے و منھا نخرجکم
تارۃ اخری
مٹی
پوری طرح ڈال دینے کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر قبر
پر ٹھہر کر میت کے لئے دعائے مغفرت کی جائے۔ قبرستان میں ہنسی مذاق، سگریٹ نوشی وغیرہ
اچھی بات نہیں ہے۔
رسول
اللہﷺ کا فرمان ہے کہ جنازے کے شرکاءمیں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو ذکر اللہ میں
مشغول رہے اور جب تک جنازہ کندھوں سے نیچے نہ رکھا جائے اس وقت تک نہ بیٹھے۔
کسی
کے انتقال پر ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہئے۔ نعمان نے پوچھا۔
اویس
نے جواب دیا۔
اپنے
پیاروں میں سے کسی کی بھی موت بہت دکھ اور صدمہ کا سبب ہوتی ہے۔ ایسے میں دل و
دماغ پر رنج و غم کے اثرات بہت شدت کے ساتھ چھا جاتے ہیں اور بہت دیر تک رہتے ہیں۔
ماں باپ بہن بھائی کو ئی عزیز یا دوست ان میں سے کسی کے انتقال کی صورت میں انسان
شدید غم محسوس کرتا ہے لیکن اگر کسی ماں باپ کو اولاد کی موت کا صدمہ سہنا پڑے۔
خاص طور پر بوڑھے والدین کو جوان اولاد کی موت کا صدمہ سہنا پڑ جائے تو ان کے غم و
اندوہ کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
نبی
کریم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو دیگر بہت سی تکالیف اور مصائب کے علاوہ اپنے صاحبزادے کی
موت کا صدمہ سہنا پڑا تھا۔ اس وقت شدت غم سے آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
رسول
اللہﷺ کے ایک صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کے ایک صاحبزادہ کا انتقال ہو گیا۔ روایت ہے
کہ اپنے صحابی کے دکھ کی اس گھڑی میں رسول اللہﷺ نے تعزیت کے لئے ان کے نام ایک خط
تحریر کروایا۔ تاریخ نے یہ تعزیتی خط
محفوظ رکھا۔ کسی کے انتقال پر اس کے لواحقین سے اظہار افسوس کرنے اور تسلی دینے کے
لئے اس خط کے مندرجات ہمیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اس تعزیتی
خط میں فرمایا۔
بسم
اللّٰہ الرحمن الرحیم
محمد
رسول اللہ کی جانب سے
معاذ
بن جبل کے لئے
سلام
علیک
میں
تمہاری طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف تعریف پہنچاتا ہوں۔ جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
اما
بعد اللہ تعالیٰ تمہیں بہت اجر عطا کرے اور صبر کی توفیق دے۔ ہمیں اور تمہیں شکر کی
توفیق دے۔ بے شک ہماری جان مال ہمارے اہل و عیال اللہ کے عطا کردہ اور اللہ کی
امانت ہیں۔ ایک مقررہ وقت تک ہم اس سے متمتع ہوتے ہیں اور ایک معلوم وقت پر وہ
اٹھا لیتا ہے پھر اللہ نے ہم پر اپنی عطا پر شکر اور ابتلاءپر صبر فرض کیاہے۔تمہارا
بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور رکھوائی ہوئی امانتوں میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ
نے تمہیں اس سے رشک اور خوشی کی حالت میں بہرہ مند کیا اور تمہارے لئے بہت بڑے اجر
کے بدلہ اٹھا لیا۔ وہ اجر دعا، رحمت اور ہدایت ہے۔ اگر یہ اجر چاہتے ہو تو صبر کرو
اور تمہاری گریہ و زاری تمہارے اجر کو ضائع نہ کر دے اور خوب سمجھ لو کہ گریہ و
زاری نہ تو کسی واقعہ کو ہونے سے روک سکتی ہے اور نہ غم کو دور کر سکتی ہے۔ جو
ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔
والسلام
ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ
وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔
کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمیؔ
مرکزی
مراقبہ ہال
سرجانی
ٹاؤن۔ کراچی