Topics
باعث تخلیق کائنات سیدّنا حضور علیہ الصّلٰوۃ والسلام کی بارگاہِ اقدس میں حاضری ہوئی اور حضور ﷺ کی قدم بوسی کا شرف نصیب ہوا۔ اللہ کے حبیب ﷺ کے پائے مبارک آنکھوں سے لگانے اور لزرتے ہونٹوں سے چومنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پیر کی انگلیوں کے نیچے جو گوشت ہوتا ہے، اسے دیر تک آنکھیں لگائے رکھیں جتنی دیر یہ عمل جاری رہا، میرے اندر آنکھوں کے راستے نور کی لہریں منتقل ہوتی رہیں۔ اور میں سرورو کیف کی مدہوش کن لّذت سے مستفیض ہوتا رہا۔ دل میں خیال آیا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا سراپائے اقدس غور سے دیکھنا چاہیئے۔ تاکہ مہر نبوت کا مشاہدہ ہوجائے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں کی خاک کا یہ زرّہ سراپا اقدس و مطہر و مکرّم میں اس قدر غرق ہو گیا کہ خود کو بھول گیا۔ اور عالم کیف و وجدان میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پشت مبارک پر جا کھڑا ہوا اورنہایت ادب و عقیدت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کُرتا مبارک اوپر اُٹھا دیا۔ اور اس فقیر کو اللہ تعالٰی نے مہر نبوت کا مشاہدہ کرایا۔
مہر نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر سیدھے کندھے اور گردن کے درمیان ایک گول دائرہ نشان کی صورت میں ہے۔ گول دائرے کے اندر گوشت یا کھال سرخ رنگ کی ہے۔ اور گوشت عام جسم سے قدر اُبھرا ہوا ہے۔ اور اس دائرے کے اندر نہایت لطیف و نرم پروں کی مانند رُؤا ں ہے اس روئے کا رنگ سفید بھورا ہے اور یہ رُؤا ں اتنا خوش نماں اور دیدہ زیب ہے جس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ دائرہ کا قطر تقریباً روپیہ کے برابر ہے۔ میں نے مہر نبوت کو دیکھ کر والہاناں انداز سے بوسہ دیا اور آنکھوں سے چھوا۔
کمر
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پشت مبارک سیدھی اور چوڑی ہے۔ شانے قدر ے اوپر کو اُٹھے ہوئے ہیں۔ اس سعادت ازلی کے بعد اس بندے نے سراپا کا مشاہدہ کیا جو حسب ذیل ہے۔
سر
سر مبارک گول اور بڑا ، پیشانی کھلی ہوئی ۔ پُر عظمت اس قدر کہ نظر بھر کر دیکھنا ممکن نہیں ،نظر اٹھتی ہے تو پلک جھپک جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی سر تسلیم خم ہو جاتا ہے۔ باعث تخلیق کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک گھنے اور مضبوط، رنگ سیاہ، بالوں میں ایسی عجیب و غریب چمک جو کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ کھلتا ہوا گندمی۔ بھنویں گھنی اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست۔
آنکھیں
آنکھیں روشن اور بڑی۔ نہ بہت بڑی نہ بہت چھوٹی۔بہت حسین، اتنی خوبصورت کہ بےمثال۔ خاص بات جو آنکھوں میں نظر آئی یہ ہے۔ آنکھ کا ڈھیلا سفید چمکدار اور پتلی کا رنگ کالا لیکن گہرائی میں نیلا۔ پُتلی کے چاروں طرف ڈورے اس طرح جیسے سورج کے چاروں طرف شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شعاعیں یا لہریں براہِ راست ذات باری تعالٰی پر جا کر ٹہرتی ہیں۔ آنکھ کے ڈھیلے میں جو سفیدی ہے اس میں سچے موتی جیسی چمک ہے۔ پتلی کی گہرائی میں جو نیلا پن ہے اس میں بھی سچے موتیوں کی چمک نمایاں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکیں گھنی اور سیاہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پلک مبارک جب جھپکتی ہے تو فضا اور ماحول میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ پلک جھپکتے وقت میں نے اپنے اندر کرنٹ کی طرح رو دوڑتی ہوئی محسوس کی۔
ناک
ناک مبارک لانبی اور نیچے سے چوڑی۔ دیکھ کر گلدستے کی تشبیہ ذہن میں آئی۔
دہانہ
اوپر کا ہونٹ پتلا اور نیچے کا ہونٹ قدرے موٹا۔ دہانہ نسبتا بڑا اور انتہائی خوبصورت۔ گفتگو فرماتے ہیں تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ تعالٰی ہم کلام ہیں۔
آواز کے بارے میں کوئی وضاحت اس لئے نہیں کر سکتا کہ ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں رہی۔
داڑھی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلّام کی ریش مبارک گھنی، گول اور چھوٹی یعنی ایک مُشت سے تقریباً نصف کم۔ ۔۔۔۔۔ باریک اس طرح کہ ریش مبارک سے ملی ہوئی ہیں۔
سینہ اور گردن
گردن مبارک بھری ہوئی، قدرے لانبی نہ زیادہ لمبی نہ زیادہ چھوٹی۔
سینہ مبارک اُبھرا ہوا۔ سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی ایک لمبی لکیر۔ نظر آتا ہے جیسے الف بنا ہوا ہے۔
پائے مبارک
پنڈلی میں گوشت بھرا ہوا ہے۔ لیکن پیر کے جوڑسے اوپر پتلی اور بالکل سیدھی ہے۔ پائے مبارک کے اوپر کا حصّہ اُٹھا ہواکہ پہلی نظر میں محسوس ہو جاتا ہے۔ اوپر کا حصہ اُٹھا ہوا ہونے کی وجہ سے پیر کے نیچے تلووں میں خلا ءہے۔ میں نے زمین پر لیٹ کر یہ دیکھا کہ اگر آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لیٹ جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ہوں تو پیر مبارک کے نیچے سے آرپار نظر آتا ہے۔
دندان
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک سیدھے اور نمایاں۔ دانتوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ دانتوں میں چمک ایسی کہ نظر خیرہ ہوجائے ۔ مسکراہٹ دل آویز۔ ہنستے وقت دندانِ مبارک ظاہر نہیں ہوتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہیں تو آنکھیں بھی مسکراتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔
کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔
خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔