Topics

فجر،عصر، جمعہ

            

                فجر کی نماز میں دو رکعات فرض اور دو رکعات سنت ادا کی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ فجر میں فرض کے ساتھ ساتھ دو رکعات سنت کی ادائیگی کا خاص طور پر اہتمام فرماتے۔ فجر یا جماعت ادا کرنے والے کو دو رکعات سنت بھی ضرور ادا کرنی چاہئے۔ فجر کی باجماعت نماز میں پہلی رکعت میں امام صاحب طویل قرأت کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے جماعت سے قبل دو رکعت سنت ادا نہ کی ہوں اور وہ پہلی رکعت سے ہی جماعت میں شامل ہو رہا ہو تو اسے چاہئے کہ پہلے دو رکعت سنت ادا کر لے اس کے بعد جماعت میں شامل ہو۔ پہلی رکعت میں امام صاحب کی طویل قرأت کی وجہ سے دو رکعت سنت کی ادائیگی کے باوجود جماعت میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر وقت کی کمی کے باعث دو رکعت سنت ادا نہ کی جا سکیں لیکن فجر کی باجماعت نماز دونوں رکعتوں کے ساتھ ادا کی گئی ہو تو اسے چاہئے کہ فرض کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر انتظار کرے اور سورج نکلنے پر دو رکعت سنت ادا کرے۔

            عصر کی سنت نماز

                عصر کی نماز میں فرض سے پہلے چار رکعات سنت ادا کی جاتی ہیں۔ اگر سنت ادا کرنے کا وقت نہ ہو اور عصر کی جماعت ہو جائے تو صرف چار رکعات فرض ادا کرنے چاہئیں اب چار رکعات سنت ادا نہ کی جائیں۔ عصر کی جماعت کے بعد مغرب کی اذان تک کوئی نفل نماز بھی ادا نہ کی جائے۔

            جمعہ     

                جمعہ میں دو رکعات فرض با جماعت ادا کرنا لازمی ہیں۔ ان دو فرض رکعات کی ادائیگی افرادی طور پر نہیں ہوتی۔ جمعہ کی نماز میں دوبار اذان ہوتی ہے۔ ایک بار اس وقت جو ظہر کی نماز کے لئے مخصوص ہے۔ اس اذان کے بعد لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ایک مقررہ وقت پر امام صاحب حاضرین سے خطاب کرتے ہیں۔ ان کا یہ خطاب جمعہ کا خطبہ کہلاتا ہے۔ جمعہ کے خطبہ سے پہلے دو بارہ اذان ہوتی ہے۔ یہ اذان اس بات کا اعلان ہے کہ اب جمعہ کا خطبہ شروع ہو رہا ہے۔ خطبہ کے اختتام پر جمعہ کی باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ چونکہ جمعہ کا خطبہ نماز باجماعت کا حصہ سمجھا جاتا ہے اس لئے جمعہ کی نماز ادا کرنے والوں کو خطبہ سے قبل مسجد پہنچ جانا چاہئے اور صف میں بیٹھ کر ادب و احترام اور توجہ کے ساتھ خطبہ سننا چاہئے۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے جمعہ کی نماز باجماعت ادا نہ کر سکے تو اسے مسجد میں، گھر پر یا کسی اور جگہ ظہر کی نماز ادا کرنا چاہئے۔

            سجدہ سہو، مفسدات نماز

                اس گفتگو کے دوران ہی مسجد سے ظہر کی اذان سنائی دی۔ اذان کے بعد قاری صاحب نے وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آیئے نماز کے لئے مسجد چلیں۔ مدرسے سے مسجد جاتے ہوئے قاری صاحب نے نعمان کو بتایا کہ ظہر کی نماز کے بعد مدرسے میں آدھا گھنٹہ تک مزید کلاس ہوتی ہے۔

                مسجد میں ایک حصہ خواتین نمازیوں کے لئے ہے۔ درمیان میں پارٹیشن ہے۔ مسجد میں داخل ہو کر بچیاں خواتین والے حصے میں چلی گئیں اور بچے مردوں والے حصے میں آ گئے۔

                نماز باجماعت میں بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی لیکن کوئی وہاں شرارتیں نہیں کر رہا تھا۔ ان کی تربیت اس طرح کی گئی تھی کہ نماز کا ادب سب جانتے تھے۔ امل نے سنت نماز ادا کرنے والی ایک لڑکی کو دیکھا کہ اس نے قعدہ میں ایک سلام کے بعد دو سجدے کئے اور پھر قعدہ میں بیٹھ کر معمول کے مطابق نماز مکمل کی۔ جب سب بچے دوبارہ مدرسے میں پہنچے تو امل نے قاری صاحب کو اس کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا وہ لڑکی سجدہ سہو کر رہی ہو گی؟

                یہ بات دوسرے کئی بچوں کے لئے بھی نئی تھی۔ اس لئے کئی بچوں کی ایک ساتھ آواز آئی۔

                سجدہ سہو کیا ہوتا ہے۔

                قاری صاحب نے کہا۔ میں آپ کو اس بارے میں بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے مفسدات نماز کے متعلق کچھ کہوں گا۔

                مفسدات نماز کسے کہتے ہیں؟ کئی بچوں نے معلوم کرنا چاہا۔

                نماز کی ادائیگی کے دوران اگر کھانسی اٹھ جائے، چھینک آ جائے، جمائی آ جائے یا جسم میں کسی جگہ خارش ہو اور کھجا لیا جائے تو اس سے نماز کی ادائیگی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا لیکن بعض کام ایسے ہیں جو اگر نماز کی ادائیگی کے دوران ہو جائیں تو نماز قائم نہیں ہوتا لیکن بعض کام ایسے ہیں جو اگر نماز کی ادائیگی کے دوران ہو جائیں تو نماز قائم نہیں رہتی۔ ان باتوں کو مفسدات نماز کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دوبارہ نیت کر کے نئے سرے سے نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اس عمل کو نماز کو دہرانا بھی کہا جاتا ہے۔ مفسدات نماز میں بات کرنا، کسی کے سوال کا جواب دینا، قہقہہ مار کر ہنسنا، کھانا پینا، قبلہ کی طرف سے ہٹ جانا، دیکھ کر قرآن پاک پڑھنا، قرآن پاک کی آیات کی تلاوت میں کوئی ایسی غلطی کر جانا جس سے آیت کے معنی تبدیل ہو جائیں، نماز میں چلنا، کوئی ایسا کام کرنا جس سے دوسرے سمجھیں کہ یہ نماز ادا نہیں کر رہا۔ مثلاً دونوں ہاتھوں سے بال سنوارنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کی جان بوجھ کر یا بھول سے انجام دہی سے نماز قائم نہیں رہتی۔ ایسی صورت پیش آ جائے تو نماز دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے۔

                کسی کام کی انجام دہی میں انسان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ اللہ کے رسول محمد مصطفیٰﷺ انسانی فطرت اور انسانی ذہن کی استعداد کو دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ آپ کے علم میں تھا کہ بھول چوک انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ آپﷺ نے نماز کی ادائیگی میں بھول چوک کی رعایت رکھی۔ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کو اپنی نماز کی رکعتوں میں شک پڑ جائے اور یاد نہ رہے کہ تین پڑھیں یا چار تو اسے پہلے اپنا شک دور کرنا چاہئے پھر یقین حاصل ہونے کے بعد اپنی نماز پوری کرنی چاہئے اور سلام سے پہلے دو سجدے ادا کرنے چاہئیں۔

                نماز کی ادائیگی کے دوران کسی چیز کی ادائیگی کے بارے میں شک پڑ جائے یا کچھ بھول ہو جائے تو سلام سے پہلے دو سجدے کئے جاتے ہیں۔ انہیں سجدہ سہو کہا جاتا ہے۔

                سجدہ سہو کس طرح ادا کیا جاتا ہے؟ سندس نے سوال کیا۔

                سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری رکعت کے قعدہ میں التحیات پڑھی جائے پھر اشھد ان لا الہ پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیر کا السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہیں اور دو سجدے کئے جائیں۔ ان سجدوں کے بعد قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر دائیں طرف اور بائیں سلام کہہ کر نماز پوری کر لی جائے۔

            باجماعت نماز میں سجدہ سہو

                مساجد میں نماز کی امامت کرنے والے حضرات عام طور پر عالم فاضل لوگ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان سے بھی تو کبھی بھول چوک یا کوئی غلطی ہو سکتی ہے۔ نعمان نے قاری صاحب سے کہا۔

                آپ نے ٹھیک کہا ایسا ہو سکتا ہے۔

                مثال کے طور پر امام صاحب دو سجدوں کے بجائے ایک سجدہ کے بعد اگلی رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں یا تشہد میں بیٹھنے کے بجائے اٹھ کر کھڑے ہو جائیں یا کچھ اور ضروری عمل بھول جائیں تو ان کی اقتداءکرنے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟ نعمان ہی نے سوال کیا۔

                اقتداءکرنے والوں پر امام کی پیروی لازمی ہے۔ اگر امام صاحب نماز کا کوئی رکن بھول کر آگے بڑھ جائیں تو مقتدی انہیں بلند آواز سے سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے ہوئے متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔ اگر امام صاحب متوجہ نہ ہوں اور نماز کے اگلے حصے کی تکمیل میں مصروف ہو جائیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو چاہئے کہ وہ کمانڈر کے ہر حکم کی تعمیل کے جذبہ کے ساتھ امام صاحب کی پیروی کرتے رہیں۔ مسلم معاشرہ کے لوگوں کو ڈسپلن اور نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تربیت کے لئے باجماعت نماز ایک خصوصی کورس ہے۔

                امام صاحب سے قرأت کے دوران کوئی بھول چوک یا غلطی ہو جائے تو ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟

                مساجد کے امام صاحبان دن بھر کی نمازوں میں عام طور پر ایسی آیات تلاوت کرتے ہیں جو انہیں خوب اچھی طرح یاد ہوتی ہیں۔ ان آیات کی تلاوت کے دوران بھولنے یا غلطی کر جانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ البتہ رمضان کے مہینے میں تراویح میں قرآن سناتے وقت بھولنے یا غلطی کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بہرحال پنج وقتہ نماز میں یا تراویح کی نماز میں اگر امام صاحب کے قرآن سنانے میں کوئی غلطی ہو جائے تو جن نمازیوں کو وہ آیات بالکل ٹھیک یاد ہوں انہیں بلند آواز سے قرأت کر کے امام صاحب کو یاد دلا دینا چاہئے۔ اگر ایک بار توجہ دلانے پر بھی امام صاحب کو ٹھیک طور پر یاد نہ آئے تو اس آیت کو امام صاحب کے لئے بار بار دہرانا چاہئے حتیٰ کہ انہیں یاد آ جائے۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن پاک کا صحیح طور پر پڑھا جانا فرض ہے۔ اس ایک کام کے علاوہ دوران نماز امام کی تابع داری اس طرح کی جانی چاہئے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو بھی ان کی پیروی جاری رکھنی ہے۔ نماز کی تکمیل کے بعد انہیں بتانا چاہئے کہ جناب آپ نے نماز میں فلاں غلطی کر دی اور نمازیوں کی طرف سے احساس دلانے کے باوجود آپ اس طرف متوجہ نہ ہوئے۔ اگر امام صاحب نماز میں آگے بڑھ چکے ہوں اور اس وقت انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ نماز کے آخر میں سجدہ سہو ادا کریں گے۔ تمام مقتدی امام کے ساتھ سجدہ سہو ادا کریں۔ اگر باجماعت نماز میں مقتدی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے جماعت میں تنہا سجدہ سہو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

            قضا نماز

                طٰہٰ نے بتایا کہ مسجد میں نماز ادا کر رہا تھا۔ میرے برابر میں ایک صاحب تھے۔ سب لوگوں نے نماز ادا کر لی مگر وہ بار بار نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ مسجد سے نکلتے ہوئے بھی میں نے پلٹ کر دیکھا تو انہوں نے نیت کر لی تھی۔ انہوں نے ظہر کی نماز سے زیادہ رکعات ادا کی تھیں۔

                وہ قضا نماز ادا کر رہے ہوں گے۔ قاری صاحب نے کہا۔

                قضا نماز!

                قضا نماز کیا ہوتی ہے؟ بچوں نے پوچھا۔

                نماز اپنے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کی جا سکے تو جیسے ہی وقت ملے فوراً ادا کر لینی چاہئے فرض نماز اپنے وقت پر ادا نہ کی جائے تو اسے نماز کا قضا ہونا کہتے ہیں۔ وقت ملنے پر اس نماز کی ادائیگی قضا نماز کی ادائیگی کہلاتی ہے۔ قضا نماز ادا کرتے وقت اوقات کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً کسی کی ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں قضاءہوئی ہیں اور وہ ان قضاءنمازوں کو عشاءکے بعد ادا کر رہا ہو تو اسے اوقات کی ترتیب کا خیال رکھنا چاہئے یعنی پہلے ظہر، پھر عصر پھر مغرب کی قضا نماز ادا کرنا چاہئے۔

                فجر کی قضاءنماز اگر ظہر سے پہلے ادا کی جا رہی ہے تو دو رکعات فرض اور دو رکعات سنت ادا کی جائیں۔ ظہر، عصر اور مغرب کی قضاءنماز میں بالترتیب چار چار اور تین فرض ادا کئے جائیں۔ عشاءکی قضاءنماز میں چار فرض اور تین وتر ادا کئے جائیں۔

                قضاءنمازوں کو فوراً ادا کرناچاہئے۔ اگر آخر عمر تک قضا نمازیں ادا نہ کی جا سکیں تو ان نمازوں کا فدیہ دینے کی وصیت کر دی جائے۔ اگر وصیت بھی نہ کی جا سکے اور مرحوم ورثاءکو معلوم ہو تو وہ اپنی طرف سے بطور احسان و سلوک فدیہ ادا کریں۔

                ایک قضاءنماز کے بدلے پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت ادا کر دی جائے۔ ایک دن کی چھ نمازیں (مع وتر) قابل فدیہ ہوں گی۔ یہ فدیہ ان لوگوں کو دیا جائے جو زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے مستحق ہیں۔

                اگر کسی کو یاد نہ ہو کہ اس کی کتنی نمازیں قضا ہیں تو وہ محتاط اندازہ لگا کر ان کو ادا کرتا رہے۔

مسافر کی نماز

                ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا عمل سفر کہلاتا ہے۔ اپنے گھر سے اسکول، کالج، دفتر یا اپنے شہر کے اندر کسی سے ملنے کے لئے کئے جانے والا سفر تھوڑی دور کا سفر کہلاتا ہے۔اپنی معاشی ضروریات کے لئے، سیر و سیاحت کے لئے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کے لئے، سرکاری یا دفتری فرائض کی انجام دہی کے لئے، دین کی دعوت و تبلیغ، مشن کے کاموں یا دیگر کاموں کے لئے اپنے شہر یا گاؤں سے دور سفر کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ یہ طویل مسافت کا سفر کہلاتا ہے۔

                اویس کے ایک دیرینہ دوست الٰہ دین صاحب حیدر آباد میں رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا نام امینہ ہے، لوگ محبت و احترام سے الٰہ دین صاحب کو حاجی صاحب اور امینہ صاحبہ کو امینہ آپا کہتے ہیں۔ حاجی صاحب اور امینہ آپا نے اویس کو اسماءاور بچوں کے ساتھ حیدر آباد آنے کی دعوت دی۔ اس پر انہوں نے کچھ وقت حیدر آباد میں گزارنے کا پروگرام بنایا۔ سپر ہائی وے پر کار مناسب رفتار سے چلائی جائے تو کراچی سے حیدر آباد کا راستہ دو گھنٹے سے کچھ کم وقت میں طے ہوتا ہے۔ اویس اور اسماءبچوں کے ساتھ عصر سے کچھ پہلے کراچی سے روانہ ہوئے۔ یہ لوگ آپس میں باتیں کرتے ہوئے لطیفے سناتے، پہیلیاں بوجھتے، ہنستے بولتے محو سفر تھے۔ آسمان پر ہلکے ابر اور ٹھنڈی ہوا  نے شام کے سہانے پن میں اضافہ کر دیا تھا۔

                کیوں نہ کچھ دیر کے لئے کہیں ٹھہر جائیں عصر پڑھیں گے اور موسم کا لطف بھی اٹھائیں گے۔ اسماءنے تجویز پیش کی۔

                سپرہائی وے کے اطراف قائم ایک ریسٹورنٹ میں اویس نے کار روکی یہ لوگ کار سے باہر آ کر ریسٹورنٹ سے متصل مسجد میں چلے گئے۔ یہاں انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی۔ اویس نے امامت کی۔ نماز کے بعد فیضان نے کہا۔

                ابو! آپ نے یہ کس وقت کی نماز پڑھی ہے؟

                عصر کی۔ اویس نے جواب دیا۔

                عصر میں تو چار رکعت فرض ہیں۔

                اللہ تعالیٰ نے طویل مسافت کے مسافروں کو فرض نماز کی ادائیگی میں رعایت دی ہے۔ دوران سفر نماز کو قصر نماز کہا جاتا ہے۔

                واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناھ ان تقصرومن الصلوٰۃ

                (سورہ النسائ۔ آیت 101)

                ترجمہ: اور جب تم سفر کرو زمین میں تو تم پر گناہ نہیں کہ کچھ کم کرو نماز میں۔

                سفر میں نماز کو کتنا مختصر کیا جاتا ہے۔ امل نے پوچھا۔

                رسول اللہﷺ جب مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے قصر ادا فرماتے۔

                قصر نماز میں ظہر، عصر اور عشاءمیں چار رکعت فرض کے بجائے دو رکعات فرض ادا کرنا ہے۔

                فجر اور مغرب میں حسب معمول دو اور تین رکعات ادا کرنا ہیں جبکہ قصر میں فجر کی دو سنتیں اور عشاءکے تین وتر بھی ادا کرنا ہیں۔

                کتنی دور کا سفر طویل مسافت کا سفر شمار ہو گا اور اس کی مدت کیا ہو گی؟ سندس نے سوال کیا۔

                کوئی شخص اگر اپنے شہر سے پچہتر(۷۵) کلومیٹر کے فاصلے سے زیادہ سفر کے لئے نکلے تو اسے راستے میں اور دوسرے شہر میں قیام کے دوران قصر ادا کرنا چاہئے۔ قصر کی ادائیگی کے لئے دوسرے شہر میں قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہے۔ اگر دوسرے شہر میں قیام کا ارادہ پندرہ دن سے زیادہ ہے تو وہاں قصر کے بجائے معمول کے مطابق نماز ادا کی جائے۔

                سفر کے دوران وضو میں بھی کوئی رعایت ہے؟

                اپنے شہر میں قیام کے دوران موزوں پر مسح کی مدت ایک روز ہے۔ سفر میں موزوں پر مسح کی مدت تین روز تک ہے۔ یعنی تین روز تک وضو کے دوران موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ تین روز بعد وضو کرتے ہوئے موزے اتار کر پیر پانی سے دھوئے جائیں۔ سفر میں اس وضو کے بعد مزید تین روز تک موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔

                قصر کی نیت کیسے کریں؟ سندس نے پوچھا۔

                سفر کے دوران فرض نماز کی ادائیگی کے لئے نیت اس طرح کی جائے۔

                نیت کرتا ہوں میں دو رکعات نماز عصر قصر کی۔

                سفر کے دوران جمعہ کی نماز کا وقت آ جائے تو کیا کیا جائے؟

                مسافر پر جمعہ کی نماز اور عید کی نماز واجب نہیں ہے لیکن اگر ادا کرے تو افضل ہے۔

                مسافر باجماعت نماز کس طرح ادا کرے گا؟

                مسافر اگر باجماعت نماز ادا کرے تو اسے امام کی پیروی میں پوری نماز ادا کرنی چاہئے۔ مثلاً امام ظہر کے چار رکعات ادا کر رہے ہیں ان کے پیچھے مسافر کو بھی چار رکعات ادا کرنے چاہئیں۔ بالفاظ دیگر جماعت میں مقامی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہوئے مسافر نماز مختصر نہ کرے۔

                اگر امام اور مقتدی دونوں مسافر ہوں تو ظہر، عصر اور عشاءکی دو رکعات فرض ادا کریں گے۔ مسافر کو مقامی افراد کی جماعت کا امام بنایا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں امام ظہر، عصر یا عشاءکی امامت کرتے ہوئے خود دو رکعات نماز ادا کریں گے جبکہ ان کے پیچھے مقامی مقتدی اپنی نماز مزید دو رکعات ادا کر کے پوری کریں گے۔نبی کریمﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر چند روز مکہ میں قیام کیا۔ چونکہ آپﷺ نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں سکونت اختیار فرما لی تھی۔ اس لئے اب مکہ میں دوبارہ تشریف آوری پر آپ نے مسافر کی حیثیت سے نماز قصر ادا فرمائی۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نماز مغرب کے سوا دو دو رکعتیں ادا فرماتے۔ نماز قصر میں آپﷺ دو رکعت فرض کی ادائیگی کے بعد اپنی اقتداءمیں نماز ادا کرنے والے مکہ کے لوگوں سے فرماتے۔ مکہ والو! اٹھو اپنی نماز پوری کر لو۔ ہم مسافر ہیں۔

                سفر کی حالت میں ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاءکی نماز اکٹھی ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز انفرادی طور پر بھی ادا کی جا سکتی ہے اور باجماعت بھی۔

                اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سفر ظہر کے وقت شروع کرنا ہو تو پہلے ظہر اور پھر عصر کی دو دو رکعات ادا کی جائیں۔ اگر سفر ظہر سے پہلے شروع کر دیا ہو تو ظہر کو موخر کر کے عصر کے وقت دونوں نمازوں کی دو دو رکعات ادا کی جائیں۔ اسی طرح مغرب کے وقت سفر کرنا ہو تو مغرب اور عشاءاکٹھے ادا کر لی جائیں۔ اگر سفر مغرب سے پہلے شروع کرنا ہو تو مغرب موخر کر کے عشاءکے وقت دونوں نمازیں اکٹھی ادا کی جائیں۔

            دو نمازیں باجماعت ادا کرنے کا طریقہ

                سفر میں دو نمازیں اکٹھی ادا کرنے کے لئے ایک بار اذان ہو گی۔ ہر نماز کے لئے علیحدہ اقامت کہی جائے گی۔ یعنی ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاءادا کی جائیں گی۔

                نبی کریمﷺ سفر کے دوران مزدلفہ تشریف لائے تو ایک اذان اور دو اقامت سے نماز مغرب اور عشاءجمع کیں اور دونوں نمازوں کے دوران کوئی سنت نماز ادا نہیں کی۔

 


 


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی