Topics
جواب:
جب ہم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے اندر تفکر کرتے ہیں، ایک تو اس طرح
مطالعہ کرنا ہے کہ پڑھتے جائیں اور ایک یہ کہ قرآن پاک میں غور و فکر کر کے اس کی
حکمت کو تلاش کیا جائے۔ یہ اصل میں قرآن کا منشاء ہے۔ جو بندے قرآن پاک کو ترجمہ
کے ساتھ پڑھ کر اس کی حکمت تلاش کرتے ہیں ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ قرآن پاک
میں بے شمار علوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1.
ان
میں سے ایک حصّہ اس بارے میں ہے کہ حیوان میں اور انسان میں کس طرح امّتیاز قائم
ہو اور اس امّتیاز کو قائم کرنے کے لئے انسان کو کیا کرنا ہے مثلاً جہاں تک زندہ
رہنے کا تعلق ہے ایک بھینس بھی زندہ رہتی ہے، اسے بھی بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے،
وہ بھی پانی پی کر پیاس بجھاتی ہے۔ بھینس کے بھی بچے ہوتے ہیں۔ بھینس اپنے بچے کو
دودھ بھی پلاتی ہے۔ جس طرح انسان اپنے بچے کو دودھ پلاتا ہے بھینس اپنے بچے کی
تربیت کرتی ہے، پرورش بھی کرتی ہے۔ بھینس کو گرمی، سردی بھی لگتی ہے اور اس کو
نہانے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب ہم انسان کی اور بھینس کی زندگی کا تجزیہ کرتے
ہیں تو ہمیں ساری باتیں ایک ہی نظر آتی ہیں لیکن جب ہم قرآن پاک کی آیات میں تفکر
کرتے ہیں تو باوجود یہ کہ انسان اور حیوان کی زندگی یکساں ہے۔ انسان ایک ممتاز
مخلوق بن کر سامنے آتا ہے اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ انسان کس طرح زندگی گزارے، کس
طرح پاکیزگی اختیار کرے، کس طرح ہمسایوں کے حقوق پورے کرے، حُصول معاش میں اس بات
کا خیال رکھے کہ دوسروں کا حصّہ نہ مارا جائے۔ دوسروں کی حق تلفی نہ ہو، بے ایمانی
نہ ہو۔ بچوں کی تربیت کیسے ہو؟ انسان عبادات کیسے کرے؟ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرے حصّہ میں
تاریخ بیان کی گئی کہ نوعِ انسانی میں کس قسم کے لوگ پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے
پیغمبروں کی باتیں ان پیغمبروں کی کیا تعلیمات تھیں لوگوں نے ان پیغمبروں کو کس حد
تک سنا اور کس حد تک رد کیا۔ نہ صرف یہ کہ اللہ کی بات سامنے آئی کہ قوموں کا عروج
و زوال اس بات پر منحصر ہے کہ قومیں کتنی جدّ و جہد کرتی ہیں، کتنی کوشش کرتی
ہیں۔تیسرا حصّہ مُعاد کہلاتا ہے، روح کیا ہے؟ اس حصّہ میں ساری گفتگو روح پر ہے۔
کہاں بنی؟ کیسے بنی؟ روح کے کتنے روپ ہیں؟ عالمِ ارواح میں اگر روح تھی تو زمین تک
آنے تک اس کو کن کن مدارج سے گزرنا پڑا؟ پھر اس دنیا میں آنے کے بعد کن کن مدارج
سے آدمی گزر کر بوڑھا ہوا اور بالآخر مر گیا؟ مرنے کے بعد کہاں چلا گیا اور مرنے
کے بعد کی زندگی کا نقشہ؟ دوبارہ پھر انسان اس طرح زندہ ہو جائے گا جس طرح مرنے سے
پہلے تھا۔ حساب کتاب ہو گا، حشر نشر ہو گا، جنّت دوزخ وغیرہ وغیرہ تو قرآن کے تین
حصے ہمارے سامنے آئے۔
ایک حصّہ یہ کہ
انسان اللہ کی منشاء پر چلتے ہوئے پاکیزہ زندگی کس طرح گزارے۔ دوسرا تاریخ، اور تیسرا مُعاد۔مُعاد کا جو حصّہ ہے اس
میں سب سے پہلی بات یہ کہ انسان فی الواقع گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں ہے بلکہ
یہ جان لینے کے بعد کہ گوشت پوست کا جسم اصل نہیں بلکہ اس کی روح اس کا اصل ہے۔ یہ
علم جاننا ضروری ہے کہ روح کیا ہے؟ جب آپ نے روح کو سمجھ لیا تو یہاں یہ سوال پیدا
ہوا کہ روح بنانے والا کون ہے؟ جب روح کے بنانے والے کے بارے میں آپ سوچیں گے تو
اس ہستی کو آپ ڈھونڈیں گے۔ یہ کھوج لگانا اور تلاش کرنا یہ سب طریقت کے دائرے میں
آتا ہے۔
انسان
حیوانات سے ممتاز ہو کر زندگی گزارے۔ اچھائی، برائی، حرام، حلال وغیرہ وغیرہ۔ یہ
سب شریعت ہے۔ شریعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے لئے وہ لائحہ عمل منتخب کرے جس
لائحہ عمل سے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کو متعارف کرایا ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے انسان کو عقلِ سلیم عطا کی وہ عقلِ سلیم اس کو بتاتی ہے کہ بھئی اپنے
وجود کو تلاش کر… تُو پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟ اور پیدا ہونے کے بعد
تُو کہاں چلا جاتا ہے؟ اور تُو پیدا کیوں ہوتا ہے؟ اور چاہتا یہ ہے کہ میں کبھی نہ
مروں مگر تو مر جاتا ہے؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ اپنی مرضی سے تُو پیدا بھی نہیں ہو
سکتا ہے، اپنی مرضی سے تُو زندہ بھی نہیں رہتا؟ آخر پھر تیرے آنے کا یہاں مقصد کیا
ہے؟ تیرا تو اپنا کوئی اختیار ہی نہیں ہے! پیدائش پر تجھے اختیار نہیں ہے، موت
کو کچھ وقفہ کیلئے ملتوی کرنے کا تجھ کو اختیار نہیں ہے۔ جب کوئی ہستی چاہتی ہے تو
تُو پیدا ہو جاتا ہے اور جب کوئی ہستی چاہتی ہے تو تُو مر جاتا ہے۔ اب لامَاکلہ
ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ گورکھ دھندا کیا ہے؟ ہمیں پیدا کیوں کیا گیا ہے؟ اگر
ہمیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ کھانا کھائیں، ہماری اولاد ہو، ہم ماں باپ بنیں تو
چڑیا بھی ماں باپ بن رہی ہے، چڑیا بھی کھا پی رہی ہے، چڑیا بھی سارے کام کر رہی
ہے، چڑیا بھی عبادت کر رہی ہے۔ اگر انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ گھر
بنائے تو چڑیا بھی گھونسلہ بنا رہی ہے۔ چوہے بھی اپنا بل بناتے ہیں۔ عقلِ سلیم کے
تحت جب انسان اپنا اور حیوانات کا موازنہ کرتا ہے کہ میں بھی پیدا ہو رہا ہوں
حیوان بھی پیدا ہو رہا ہے، میں بھی بچہ ہوں، حیوان بھی بچہ ہے، حیوان بھی جوان ہے،
میں بھی جوان ہوں۔ حیوان بھی مر رہا ہے، میں بھی مر رہا ہوں تو اس کے پیچھے کیا
بات ہے؟
تو یہ
جو تلاش ہے، اپنی تلاش، اپنی روح کی تلاش، اپنے پیدا کرنے والے کی تلاش، کائنات کی
تلاش، یہ جو ہے یہ سب طریقت ہے۔
اِس
تلاش کے نتیجے میں جب آپ اُس ہستی کو پہچان لیتے ہیں، اُس ہستی سے واقف ہو جاتے
ہیں، اُس ہستی کا آپ تعارف حاصل کر لیتے ہیں جس ہستی نے آپ کو بنایا ہے، اِس کا
نام معرفت ہے۔
شریعت،
طریقت اور معرفت یہ تینوں چیزیں اس طرح ہیں۔ اب یہ کہ کوئی انسان شریعت کے بغیر
حیوانات سے ممتاز نہیں ہو سکتا۔ شریعت کے بغیر کسی انسان میں عقلِ سلیم نہیں پیدا
ہوتی۔ مثال ہمارے سامنے ہے۔
ہمارے
سامنے جو سائنٹسٹ ہیں، کیا ٹھکانہ ہے ان کے دماغوں کا کہ وہ آسمانوں میں بھی چلے
گئے اور جِین جیسی چیز انہوں نے دریافت کر لی لیکن چونکہ عقلِ سلیم ابھی پیدا نہیں
ہوئی اس لئے ہر چیز کو وہ اتّفاقی کہتے ہیں۔ ہر چیز حادثاتی اور اتفاقی طور پر ہو
گئی۔ باوجود اس کے کہ نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کا برملا اظہار
نہیں کرتے کہ کوئی ہستی ایسی ہے کہ جس نے ہر چیز بنائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اُن کا
زندگی کا جو رہن سہن ہے، زندگی گزارنے کا اُن کا جو پروگرام ہے، اُس میں پیغمبروں
کی وہ تعلیمات نہیں ہیں جن تعلیمات کا نام شریعت ہے۔
عقلِ
سلیم حاصل کرنے کے لئے پیغمبروں اور حضورﷺ کا دیا ہوا پروگرام ضروری ہے۔ شریعت کا
علم اور عقلِ سلیم حاصل ہونے کے بعد کائنات کا کھوج لگانا ضروری ہے اور کائنات کا
کھوج لگانے کے بعد اللہ کا عرفان ضروری ہے۔
بڑے
پیر صاحبؒ کا ایک بڑا مشہور واقعہ ہے۔ وہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک دم
آسمان میں چکاچوند ہوئی اور ذہن میں یہ بات آئی کہ میں نے نور دیکھا ہے، روشنی
دیکھی ہے۔ اس میں سے آواز آئی کہ اے عبدالقادرؒ ! ہم نے تم پر نماز معاف کر دی۔
تھوڑی دیر انہوں نے سوچا اور سوچ میں پڑ گئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ کے اوپر
تو نماز معاف نہ ہوئی جبکہ وہ معصوم بھی ہیں۔ میرے اوپر نماز کیسے معاف ہو گئی؟
اگر ان کو شریعت کا علم نہ ہوتا تو کبھی بھی اُن کے ذہن میں یہ بات نہ آتی کہ
حضورﷺ معصوم ہیں اور جب ان کے اوپر نماز معاف نہ ہوئی تو کسی اور کے اوپر نماز
کیسے معاف ہو سکتی ہے۔ تو کہا… تُو شیطان ہے۔ انہوں نے لاحَول پڑھی
پھر آواز آئی کہ تجھے تیرے علم نے بچا لیا۔ پھر یہ خیال آیا کہ حضورﷺ کے متعلق یہ
خیال اگر اللہ میرے ذہن میں نہیں ڈالتا تو میں کیسے بچتا؟ میرا تو علم ناقص ہے اور
یہ خیال میرے ذہن میں نہیں آتا۔ انہوں نے پھر توبہ استغفار کی تو بڑے پیرصاحب کے
واقعے سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ جس طرح شریعت کا علم ہمارے لئے ضروری ہے
اسی طرح طریقت کا علم بھی ضروری ہے۔ نماز ایک بنیادی رکن ہے۔ ۷۰۰ دفعہ نماز کے بارے میں قرآن میں تذکرہ آیا
ہے۔ اب اس کے بعد جب آپ نے نماز کی نیّت باندھی یہ شریعت ہے۔ اب نماز میں اللہ
تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہو جانا یہ طریقت ہے۔
اگر
اللہ تعالیٰ کے ساتھ نماز میں تعلق قائم نہیں ہوا وہ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق
ہرگز نماز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
’’اور
ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔‘‘ (سورۃ الماعون)
اللہ
نے یہ نہیں کہا کہ ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو نماز نہیں پڑھتے۔ وہ تو بات ہی
الگ ہے نماز تو ایک رکن ہے بات تو یہ ہے کہ ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی
نمازوں سے بے خبر ہیں۔ حالانکہ وہ نماز تو پڑھ رہے ہیں لیکن ان کو کچھ پتہ نہیں کہ
وہ کیا کر رہے ہیں تو نماز کا پڑھنا اور نماز کے لئے کھڑے ہوجانا۔ نماز کے آداب
پورے کرنا یہ سب شریعت ہے اور نماز کے اندر ذہنی یکسوئی قائم ہو جانا اور اللہ
تعالیٰ کے ساتھ رابطہ قائم ہو جانا حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دیکھنا
یا اللہ کا بندہ کو دیکھنا اللہ کو پکارنا اور اللہ کو اس پکار پر سن کر جواب دینا
یہ سب طریقت ہے۔ صرف اسلام قبول کر لینے سے کوئی انسان مومن کے درجہ پر فائز نہیں
ہو سکتا۔
اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
’’یہ
کہتے ہیں یہ مسلمان ہیں مسلمان بے شک ہیں لیکن ابھی ان کے دلوں میں ایمان داخل
نہیں ہوا۔‘‘ (سورة الحجرات)
مسلمان
ہونا شریعت پر عمل کرنا ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ قائم کر
لیاا، تمام ارکان کو پورے کرتے ہوئے ، یہ ایمان ہے اور ایمان کی تکمیل کے بعد جو مرحلہ
ہے وہ عرفان ہے، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے ۔ تو یہ جو شریعت، طریقت اور تصوّف
کی بات ہے یہ کوئی لمبی چوڑی نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے شریعت آداب ہیں اس راستہ پر
چلنے کے جو راستہ آدمی کو عرفان تک لے جاتا ہے۔ آپ راستے کے آداب سے واقف نہ ہوں،
یہ پتہ نہ ہو کہ کہاں سے مڑنا ہے، کہاں جانا ہے، کیا سائن ہے، سگنل کہاں ہے، آپ
سارے راستے چلتے رہیں منزل تک نہ پہنچیں گے۔ راستے کے آداب یہ ہیں کہ آپ کو معلوم
ہونا چاہئے کہ سڑک کدھر جاتی ہے اور اگر آپ دائیں بائیں مڑ گئے تو کہاں پہنچیں گے
اور اگر آپ راستے کے آداب سے واقف نہیں ہیں تو آپ کا پہنچنا مشکوک ہے۔ پنچھ ہی
نہیں سکتے، کبھی اِدھر مڑ جائیں گے، کبھی اُدھر مڑ جائیں گے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کا
مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ آپ سیدھے راستے کی ہدایت
مانگتے ہیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں آپ الحمد شریف پڑھتے ہیں۔ تو جب آپ نماز کے
لئے کھڑے ہو گئے تو کیا آپ صراط مستقیم پر نہیں ہیں۔ تو کیا آپ نماز پڑھنے کے
باوجود سیدھے راستے پر نہیں ہیں؟
مقصد
یہ ہے کہ ہم شریعت کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے تیرے حضور میں کھڑے ہو گئے ہیں۔
یا اللہ اب ہم کو طریقت کے راستے پر چلا، تا کہ ہم طریقت کے راستے پر چلتے ہوئے آپ
کا عرفان حاصل کر لیں اور ہمارے اوپر انعام کر، ہمیں ان لوگوں میں شمار نہ کیجئے
جن سے آپ ناراض ہیں، بلکہ ہمیں ان لوگوں میں شمار کر لیجئے جن سے آپ راضی ہیں۔
یہ
کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں مگر ابھی ان کے دلوں میں ایمان تو داخل ہی نہیں ہوا ہے
… (سورۃ الحجرات(… تو اسلام لانا الگ چیز ہے اور ایمان دل میں داخل ہونا
الگ چیز ہے۔ آپ دن میں کتنی بار دوسرا کلمہ پڑھتے ہیں جس کا مطلب گواہی دینا ہے۔
کیا آپ بغیر دیکھے گواہی دے رہے ہیں؟ جھوٹی گواہی دے رہے ہیں؟ آپ کی یہ دنیاوی اعتبار
سے تو بغیر دیکھے گواہی تسلیم نہیں کی جاتی ہے۔ یہ دنیاوی معاملات بغیر دیکھے
گواہی عدالت تسلیم نہیں کرتی تو اللہ آپ کی گواہی کیسے تسلیم کرے گا؟
اصل
بات یہ ہے کہ آپ اللہ کو دیکھ چکے ہیں اور سب اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو پیدا کیا تو… أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (سورۃ
الاعراف) کہہ کر خود کو آپ کو دکھا دیا اور آپ نے دیکھ کر اس کی آواز سن کر یہ کہا
کہ قَالُوا بَلَىٰ )سورۃ الاعراف) ۔ ہاں ہم اس بات کا
اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے ربّ ہیں۔
آپ
دیکھیں تو سہی، بات کیا ہے نظروں پر ہماری پردہ پڑا ہوا ہے، نفس کا پردہ….
اِسی
کو حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ:
جس نے
اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔
تو
اپنے آپ کو جان لو، پہچان لو، اِس پردہ کو دیکھ لو، جس پردہ نے تم کو اور تمہارے
ربّ کو الگ کر دیا ہے اور جیسے ہی اس پردہ کو جان کر ہٹاؤ گے، ربّ تمہارے سامنے ہو
گا۔ شریعت کے بغیر طریقت کی تکمیل نہیں ہوتی اور شریعت اور طریقت کے بغیر عرفان کی
تکمیل نہیں ہوتی۔
اپنے
آپ کو پہچاننے اور اپنے ربّ کو پہچاننے کے لئے یہ تینوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔