Topics

صلوٰۃ


                ایک روز اویس کی بڑی بہن اور اسماءکے دو بھائیوں کے بچے ان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ سب بچوں کے کھیل کود اور ہنسی مذاق کی وجہ سے گھر میں خوب رونق تھی۔ رات کھانے کے بعد اویس اور اسماءاپنے بچوں کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھنے کے لئے لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئے۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے نعمان بار بار دیوار پر لگی گھڑی کو بھی دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبا کر ٹی وی کا چینل بدل دیا۔ اس چینل پر سعودی ٹیلی ویژن کی نشریات آ رہی تھیں۔ اسکرین پر مسجد الحرام دکھائی جا رہی تھی۔ چند لمحوں بعد مسجد الحرام سے عشاءکی اذان ہوئی۔ اذان کے کچھ دیر بعد مسجد الحرام مکتہ المکرمہ سے عشاءکی نماز براہ راست دکھائی گئی۔ یہ ایک پر عظمت اور روح پرور منظر تھا۔

                خانہ کعبہ کے سامنے عجز و نیاز کے ساتھ کھڑے ہو کر تکبیر، فرزندان توحید کا قیام، رکوع اور سجود۔ نجانے کتنی بار یہ منظر دیکھا ہے لیکن اس منظر میں کچھ ایسی تاثیر اور کشش ہے کہ یہ ہر بار پوری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا احساس روح کو سرشاری اور قلب و ذہن کو اطمینان و سکون عطا کر دیتا ہے۔

                نماز کیسے ادا کی جائے، مسلمانوں کو یہ بات کس طرح معلوم ہوئی؟ اویس کی بھتیجی خلدہ نے پوچھا۔

                اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے مسلمانوں کو صلوٰۃ قائم کرنے کاحکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے امت مسلمہ کو دیا۔

                صلوٰۃ کے اوقات کیا ہوں اور صلوٰۃ کس طرح قائم کی جائے۔ اس کا طریقہ اللہ کے رسول محمدﷺ نے بتایا اور خود اس پر پابندی سے عمل کر کے دکھایا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ

                صلوٰۃ اس طرح قائم کرو جس طرح مجھے صلوٰۃ قائم کرتے دیکھا ہے۔

                صلوٰۃ کا مطلب کیا ہے؟ خلدہ کے چھوٹے بھائی بسام نے پوچھا۔

                صلوٰۃ عربی زبان کا لفظ ہے اس لفظ کے معنی ہیں دعا، تسبیح، استغفار، رحمت، تعریف اور طلب رحمت۔ اس لفظ کا ایک مطلب تعظیم بھی ہے۔ اگر لفظ صلوٰۃ کے معنی جامع طور پر لئے جائیں تو اس طرح کہاجا سکتا ہے کہ صلوٰۃ وہ عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم، بڑائی اور تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رحمت اور برکت مانگی جاتی ہے۔ اس عبادت کے دوران اللہ کے آخری رسول محمد مصطفیٰﷺ پر سلام بھیجا جاتا ہے اور آپ کے لئے رحمت و برکت کی دعا کی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ اور آل محمدﷺ پر دعا کے ساتھ ساتھ صلوٰۃ قائم کرنے والے بندے کو بھی دعا میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ امت مسلمہ کے تمام نیک بندوں کو اس موقع پر دعا میں یاد رکھا گیا ہے۔ نماز میں اپنے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام نیک بندوں کے لئے خواہ آپ انہیں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک مومن دوسرے مومن کا خیر خواہ ہے۔ اس کی فکر کرنے والا اور اس کا خیال رکھنے والا ہے۔

                ہم نماز کے وقت کی پہچان کیسے کریں؟ خلدہ کی بہن عاتکہ نے سوال کیا۔

            اوقات صلوٰۃ

                رسول اللہﷺ نے دن میں پانچ بار صلوٰۃ کے لئے مندرجہ ذیل اوقات اس طرح مقرر فرمائے ہیں۔

                فجر۔ فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلنے تک ہے۔ سورج کا ذرا سا کنارہ بھی نکل آئے تو فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

                صبح صادق کسے کہتے ہیں؟ بسام نے درمیان میں سوال کیا۔

                سورج نکلنے سے تقریباً ڈیڑھ یا دو گھنٹے پہلے جو وقت ہوتا ہے اسے صبح صادق کہتے ہیں۔

                ظہر۔ دوپہر کو سورج ڈھلنے یا دن ڈھلنے کے بعد۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کر جتنا اونچا ہو گا ہر چیز کا سایہ اتنا ہی گھٹتا جائے گا۔ سورج بڑھتے بڑھتے سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا رک جائے تو یہ ٹھیک دوپہر کا وقت ہے۔ اس کے بعد جب مشرق کی طرف سایہ بڑھنے لگے تو یہ دن ڈھلنے کا آغاز ہے۔ اس وقت سے ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے۔

                عصر۔ دن ڈھلنے کے تقریباً 3گھنٹے بعد اور سورج ڈھلنے سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔

                مغرب۔ سورج غروب ہونے سے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جب تک مغرب کی سمت آسمان پر سرخی باقی رہے مغرب کا وقت رہتا ہے۔

                عشائ۔ جب سورج غروب ہوئے کچھ وقت گذر جائے اور رات کی تاریکی اور اندھیرا چھا جائے تو یہ عشاءکا وقت ہوتا ہے۔ عشاءکا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔

                ہم جمعہ کی نماز بھی تو پڑھتے ہیں؟ فیضان نے معصومانہ انداز میں یاددہانی کرائی۔ اویس نے اسے مسکرا کر دیکھا اور کہا۔

                رسول اللہﷺ نے جمعہ کو سید الایام یعنی دنوں کا سردار قرار دیا ہے۔ آپﷺ جمعہ کے روز مسجد نبوی میں خصوصی طور پر ایک خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ بھی تھے۔ آپﷺ جمعہ کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءبیان کرنے کے علاوہ امت کو درپیش اہم معاملات کی نشاندہی، قوم کو ان حالات سے نمٹنے کے طریقوں اور حکمت عملی سے بھی آگاہ فرماتے تھے۔ کبھی آپ مختلف لوگوں کو درپیش انفرادی مسائل کا ذکر کر کے ان کے بارے میں احکامات سے لوگوں کو آگاہ فرماتے کیونکہ انفرادی و اجتماعی ہر طرح کے معاملوں میں رہنمائی عطا فرمانا منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

                اس زمانے میں عوام تک اپنی بات پہنچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ اجتماعات تھے۔ عوام کو امور مملکت اور تازہ ترین صورتحال سے باخبر رکھنے کے لئے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور خبروں کی تیز ترین فراہمی کے لئے ٹیلی فون، ٹیلکس، فیکس، انٹرنیٹ، ای میل جیسے ذرائع موجود نہیں تھے۔ اللہ کے رسولﷺ اسلامی ریاست کے باشندوں کو مملکت کو لاحق خطرات سے آگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پالیسیوں اور مختلف اقدامات سے زیادہ سے زیادہ باخبر رکھتے تھے۔ آپ اس کام میں ایک خاص نظم و ضبط بھی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اجتماعی خطاب کے لئے جمعہ کا دن مقرر فرمایا۔ ویسے تو آپ عموماً ہر روز ہی لوگوں سے خطاب فرماتے اور ان کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے لیکن جمعہ کے دن خطاب میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ اس روز مدینہ اور آس پاس کے لوگ خاص اہتمام سے مسجد نبوی میں جمع ہوتے تھے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ ایک وقت میں براہ راست آپ کے ارشادات سے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔

                جمعہ کے اس خطبہ کو ہم ہیڈ آف اسلامک اسٹیٹ کا اپنے عوام سے ہفتہ وار خطاب بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ نے جمعہ کے روز ظہر کا وقت مقرر فرمایا۔

            قبلہ

                محمد رسول اللہﷺ اعلان نبوت کے بعد دس سال تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ مکہ میں مسجد الحرام یعنی حرمت والی مسجد میں اللہ کا گھر خانہ کعبہ واقع ہے۔ خانہ کعبہ ابو الانبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر تعمیر کیا۔ روایت ہے کہ اسی مقام پر خانہ کعبہ کی سب سے پہلے تعمیر حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر کے نشانات مٹ گئے، ہزاروں برس بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی مقام پر اللہ کی عبادت کے لئے گھر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

                اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے برگزیدہ انبیاءکی تعمیر کردہ ایک عمارت عرب کے علاقہ فلسطین میں ہے۔ اس مقام کو بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔

                اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ جب تک مکہ میں مقیم رہے اس طرح نماز ادا فرماتے کہ آپ کا چہرہ مبارک بیک وقت مسجد اقصیٰ اور خانہ کعبہ کی جانب ہوتا۔ اعلان نبوت کے دسویں سال آپﷺ اللہ کے حکم پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ مدینہ منورہ کا محل وقوع اس طرح ہے کہ یہاں سے خانہ کعبہ جنوب مشرق کی سمت میں ہے اور بیت المقدس شمال مغرب کی سمت میں یعنی مدینہ منورہ سے خانہ کعبہ اور بیت المقدس ایک دوسرے سے مخالف سمت میں۔ یعنی مدینہ منورہ سے خانہ کعبہ اور بیت المقدس ایک دوسرے سے مخالف سمت میں ہیں۔ اس صورتحال میں بیک وقت دونوں جگہ رخ کر کے نماز ادا کرنا ممکن نہ رہا۔ مدینہ منورہ میں تشریف لا کر نبی کریمﷺ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی۔ آپﷺ کی خواہش یہ تھی کہ مسلم امت کا قبلہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کا تعمیر کردہ اللہ کا گھر خانہ کعبہ ہو۔

                لیکن آپﷺ نے اپنی اس خواہش پر از خود عمل نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر رہے۔ اس انتظار میں کئی بار آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف بھی جاتیں کہ شاید جبرائیل علیہ السلام اس بارے میں کوئی حکم لے کر اتریں۔

                ہجرت کے دوسرے سال رجب یا شعبان کے مہینہ میں مدینہ منورہ کے مضافات میں رہنے والے ایک صحابی نے اپنے گھر پر آپﷺ کے لئے دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت کے دوران وہاں ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اللہ کے رسول محمدﷺ نماز کی امامت فرما رہے تھے۔ ظہر کی دو رکعات ادا کی جا چکی تھیں۔ مسلمان اپنے ہادی اور اپنے آقا محمدﷺ کی اقتداءمیں ظہر کی تیسری رکعت میں قیام میں تھے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ پر وحی کا نزول فرمایا۔

                قدنری تقلب وجھک فی السماءفلنولینک قبلۃ ترضھا فول وجھک شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولو وجوھکم شطرہ و ان الذین اوتو الکتاب لیعلمون انہ الحق من ربھم و ما اللّٰہ بغافل عما یعملونo

                (سورہ بقرہ۔ آیت 144)

                ترجمہ: ہم نے آپ کے چہرہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھ لیا ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں اب اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے اور جہاں کہیں بھی تم ہو اپنا منہ اس کی طرف پھیر لیا کرو اور بے شک یہ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے برحق ہے اور اللہ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ کرتے ہیں۔

                اللہ تعالیٰ کا حکم آ چکا تھا۔ نبی کریمﷺ نے دوران نماز رخ انور خانہ کعبہ کی طرف کر لیا۔ آپﷺ کا اقتداءمیں نماز ادا کرنے والے تمام مسلمانوں نے بھی آقا کی پیروی کرتے ہوئے اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف کر لیا۔ جس مقام پر قبلہ کی تبدیلی کا حکم آیا اسے مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔ سن دو ہجری کے اس دن نماز ظہر سے مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ قرار پایا۔ تمام مسلمان دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے لگے۔ اب قیامت تک مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ رہے گا۔

            استقبال قبلہ

                ہم مسلمان خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے ہمیشہ اسی سمت رخ کر کے صلوٰۃ قائم فرمائی ہے؟ نعمان نے پوچھا۔

                اپنے محلہ، شہر یا کسی بھی مقام پر جو مساجد تم دیکھتے ہو وہ سب خانہ کعبہ کے رخ پر ہیں۔ مسجد تعمیر کرتے وقت اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ مسجد کا رخ خانہ کعبہ کی طرف ہو۔ مسجد کی عمارت تعمیر کرتے وقت کئے جانے والے اس عمل کو تحویل قبلہ یا استقبال قبلہ کہتے ہیں۔ اویس نے بتایا۔

                پاکستان سے خانہ کعبہ کس طرف ہے؟ خالد کے بھائی یاسر نے پوچھا۔

                جہاں سورج غروب ہوتا ہے وہ سمت مغرب کہلاتی ہے۔ اگر مغرب کی سمت منہ کر کے کھڑا ہوا جائے تو دائیں ہاتھ پر شمال، بائیں ہاتھ پر جنوب اور پشت کی طرف مشرق کی سمت ہو گی۔ خانہ کعبہ عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے۔ مکہ پاکستان کے مغرب میں ہے۔ چنانچہ پاکستان میں قبلہ مغرب کی طرف ہے۔ نماز کا وقت ہو جائے اور آپ کو قبلہ کی سمت کا درست علم نہ ہو تو آپ مغرب کی طرف رخ کر کے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کسی نئے مکان میں محلہ کی مسجد سے قبلہ کی سمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

                کیا خانہ کعبہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کسی قسم کے آلات دستیاب ہیں؟ نعمان نے پوچھا۔

                قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے اب قبلہ کا کمپاس بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ اسے قبلہ نما کہتے ہیں۔ اس کمپاس کے استعمال کا طریقہ سمجھ کر اس سے دنیا میں ہر جگہ قبلہ کی سمت معلوم کی جا سکتی ہے۔

                قدرت نے بھی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائی ہے۔ وہ اس طرح کہ سورج سے قبلہ کی سمت معلوم کی جا سکتی ہے۔ اسماءنے بچوں کو بتایا۔

                اس کا طریقہ کیا ہے؟ نعمان ہی نے دوسرا سوال کیا۔

                اس کے کئی طریقے ہیں۔ ایک بہت آسان طریقہ سال میں دو مرتبہ سورج کے سایہ سے قبلہ کی سمت کا تعین ہے۔ اسماءنے کہا۔

                وہ کس طرح؟ اسماءکی بہن کے بیٹے تہمید نے معلوم کیا۔

                سال میں دو مرتبہ یعنی 18مئی کو اور 16جولائی کو سورج عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوتا ہے۔ مکہ میں مقامی وقت 12بج کر 18منٹ اور 12بج کر 26منٹ ہوتا ہے۔ وہاں اس وقت ہر چیز کا سایہ مکمل طور پر گھٹ چکا ہوتا ہے اور کچھ دیر بعد سایہ مشرق کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہ مکہ میں دن ڈھلنے کا وقت ہوتا ہے۔

                پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں دو گھنٹہ کا فرق ہے۔ ان تاریخوں میں پاکستان میں دوپہر کے بعد ایک لکڑی بالکل سیدھی زمین میں گاڑھ دی جائے۔ 18مئی کو 2بج کر 18منٹ کے بعد اور 16جولائی کو 2بج کر 26منٹ کے بعد لکڑی کا سایہ مشرق میں جس طرف بڑھے گا اس کے مخالف یعنی مغرب کی طرف ایک سیدھی لکیر کھینچ دی جائے۔ یہ لکیر عین قبلہ کی سمت میں ہو گی۔ اس طریقہ کے ذریعے آپ اپنے گھر، محلہ کے کھلے میدان، باغ یا کسی اور جگہ قبلہ کی درست سمت معلوم کر سکتے ہیں۔

            طریقہ صلوٰۃ

                ایک دن اویس اور اسماءبچوں کو ساتھ لے کر خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب سے ملنے کے لئے گئے۔ عظیمی صاحب مسجد کے برآمدے میں چند لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اویس تو عظیمی صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اسماءاور بچے مسجد کے بیرونی احاطہ میں چلے آئے۔

                مسجد کے احاطہ میں چند کمروں میں عظیمی صاحب نے ایک مدرسہ قائم کیاہے۔ یہاں ناظرہ قرآن اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ خواہشمند طالب علموں کو اسکول ایجوکیشن اور کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

                مدرسہ میں کسی کلاس کا وقت ہونے والا تھا۔ بہت سے خوبصورت بچے ہاتھوں میں کتابیں لئے مدرسہ کی جانب آ رہے تھے۔

                نعمان بھی اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ جماعت کے معلم سے اجازت لے کر کلاس روم میں بیٹھ گیا۔

                چند منٹ بعد مدرسہ کے معلم نے جنہیں بچے قاری صاحب کہہ کر پکار رہے تھے ایک رجسٹر نکال کر طالب علموں کی حاضری لی اور کہا۔

                بچو! آپ وضو کا طریقہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں؟

                جی قاری صاحب! بچوں نے جواب دیا۔

                اب ہم نماز ادا کرنے کا طریقہ سیکھیں گے۔

                دن رات میں کسی بھی وقت نماز ادا کرنا ہو اس کے لئے چند باتوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔ نماز ادا کرنے والا بندہ پاک و صاف اور باوضو ہو۔ مناسب کپڑے پہنے ہوئے ہو۔ جس جگہ نماز ادا کی جائے وہ پاک ہو۔ نماز ادا کرنے والے بندہ کا چہرہ خانہ کعبہ کی طرف یعنی قبلہ رخ ہو۔

                 نماز ادا کرنے کے لئے خانہ کعبہ کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہو جائیں اور نماز کی نیت کریں کسی مرض یا کمزوری کی حالت میں بیٹھ کر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

                صلوٰۃ قائم کرتے وقت یہ نیت کرنا کافی ہے کہ میں اتنی رکعتیں ادا کرنے کے لئے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔ نیت کرنے سے پہلے اگر یہ آیت پڑھ لی جائے تو انشاءاللہ یکسوئی میں مدد ملے گی تا ہم یہ آیت پڑھنا نیت کے لئے ضروری نہیں۔

                انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا و ما انا من المشرکین

                (سورہ الانعام۔ آیت 80)

                ترجمہ: میں نے اپنے آپ کو اس کا ہو کر اس ذات کے سامنے پیش کر دیا جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

                اگر عربی نہ آتی ہو تو نیت کے الفاظ اپنی مادری زبان میں بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً عصر کی نماز کی نیت اس طرح کی جا سکتی ہے۔

                نیت کرتا ہوں میں چار رکعات صلوٰۃ فرض کی۔ واسطے اللہ کے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف وقت صلوٰۃ العصر کا۔

                نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں کاندھوں سے اوپر لائیں ہتھیلیاں سیدھی رکھ کر انگوٹھے کان کی لو تک لائیں اور کہیں

                اللہ اکبر

                اب دونوں ہاتھ نیچے لا کر ناف کے اوپر اس طرح باندھ لیں کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے سے بائیں کلائی کو پکڑا ہوا ہو۔

                ایک پیاری سی بچی تحریم نے جو ہلکا گلابی اور سفید رنگ کا اسکارف سر پر پہنے ہوئی تھی سوال کی اجازت چاہی۔ کل آپ نے بتایا تھا کہ لڑکے اور لڑکیوں کی نماز میں تھوڑا سا فرق ہے۔ کیا لڑکیاں بھی اسی طرح کریں؟

                لڑکیاں نیت کے بعد دونوں ہتھیلیاں کندھوں تک رکھیں۔ دونوں ہاتھ چا دریا دوپٹے سے باہر نہ نکالیں اور کہیں اللہ اکبر۔ پھر دونوں ہاتھ سینہ پر اس طرح باندھیں کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ہو۔

                نماز کی نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد اس طرح کھڑے ہونے کو قیام کہا جاتا ہے۔ قیام میں سب سے پہلے ثناءپڑھی جاتی ہے۔

            ثناء:

                سبحانک اللّٰھم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

                ترجمہ: پاک ہے تیری ذات اے میرے معبود اور تُو ہی حمد کے لائق ہے اور بابرکت ہے تیرا نام اور بلند و اعلیٰ ہے تیری بزرگی اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

                ثناءکے بعد تعوذ اور تسمیہ پڑھیں۔

                تعوذ:

                اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم

                ترجمہ: اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے۔

                تسمیہ:

                بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

                ترجمہ: اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

                اب سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔

                سورہ فاتحہ:

                الحمد للّٰہ رب العالمینoالرحمٰن الرحیمoملک یوم الدینoایاک نعبد و ایاک نستعینoاھدنا الصراط المستقیمoصراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالینo

                ترجمہ: سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد مہربان، نہایت رحم والا۔ روز جزا کامالک ہے۔ ہم تیری بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو سیدھی راہ دکھا اور چلا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور وہ گمراہ ہوئے۔

                سورہ فاتحہ پوری ہو جائے تو کہیں۔

                آمین

                اس کے بعد قرآن کی کوئی بھی سورت یا کسی سورت کی چند آیات پڑھی جائیں۔ سورہ اخلاص، سورہ کوثر اور سورہ عصر یا کوئی اور سورت سورہ فاتحہ کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔

                سورہ اخلاص:

                قل ھواللّٰہ احدoاللّٰہ الصمدoلم یلد و لم یولدoو لم یکن لہ کفواً احدo

                ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے احتیاج ہے۔ اس کی اولاد نہیں۔ اور نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کا خاندان ہے۔

                سورہ کوثر:

                انا اعطینک الکوثرoفصل لربک وانحرoان شانئک ھوالابترo

                ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔ پس اپنے رب کے لئے صلوٰۃ قائم کرو اور قربانی دیا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارے دشمن ہی ابتر رہیں گے۔

                سورہ عصر:

                والعصرoان الانسان لفی خسرoالاالذین امنو و عملوالصلحت وتواصو بالحق وتواصو بالصبرo

                ترجمہ: زمانہ کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور صالح عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید اور صبر کی وصیت کی۔

                اس کے بعد کہیں

                اللہ اکبر

                اور رکوع میں چلے جائیں۔

                رکوع میں جانے کا طریقہ یہ ہے کہ پیر سیدھے جما کر رکھے جائیں۔ گھٹنوں کو خم نہ دیا جائے۔ نمازی سامنے کی طرف نیچے جھک کر دائیں ہاتھ سے دائیں گھٹنے اور بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو اچھی طرح مضبوطی سے پکڑ لے۔ اس دوران سرگردن اور کمر ایک سیدھ میں رہیں۔ کمر میں خم نہ آنے دیا جائے۔ گھٹنے بھی سیدھے ہوں اور ان میں خم نہ آئے۔ کہنیاں پہلو سے الگ رکھیں۔

                لڑکیوں کے لئے رکوع میں اتنا جھکنا کافی ہے کہ ان کے ہاتھ باآسانی گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔ کہنیاں پہلو سے ملا کر رکھیں۔

                سبحان ربی العظیم۔ سبحان ربی العظیم۔ سبحان ربی العظیم

                ترجمہ: میرا رب بڑی عظمت والا پاک ہے۔ میرا رب بڑی عظمت والا پاک ہے۔ میرا رب بڑی عظمت والا پاک ہے۔

                اس کے بعد

                سمع اللّٰہ لمن حمدہ

                ترجمہ: اللہ اس کی بات سنتا ہے جو اس کی تعریف کرے۔

                کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور کہیں

                ربنا لک الحمد

                ترجمہ: اے ہمارے رب! تیری ہی سب تعریف ہے۔

                یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لئے ساکت کھڑے رہیں۔ رکوع کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے اس طرح کھڑے ہونے کو قومہ کہا جاتا ہے۔ پھر

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں۔

                سجدہ میں جانے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پیر اچھی طرح جما کر زمین پر جھکتے ہوئے پہلے دونوں گھٹنے زمین پر رکھیں۔ اس کے بعد دونوں ہاتھ زمین پر رکھیں پھر ماتھا زمین پر ٹکائیں۔ سجدہ کے دوران ماتھا اور ناک زمین پر ٹکے ہوئے ہوں۔ دونوں ہتھیلیاں کندھے کی سیدھ میں زمین پر ہوں لیکن کلائی اور کہنیاں زمین پر ٹکی ہوئی نہ ہوں نہ ہی بازو زمین پر بچھائیں۔ سجدہ میں دونوں گھٹنے اور دونوں پیروں کی انگلیاں زمین پر ٹکی ہوئی ہوں۔ پنڈلیاں زمین پر نہ ٹکیں۔ سجدہ میں ران اور پیٹ کو ساتھ نہ ملائیں بلکہ ران پیٹ سے علیحدہ رکھیں۔

                لڑکیاں سجدہ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ کلائی اور کہنی بھی زمین پر رکھیں۔ جبکہ ران اور پیٹ ملے ہوئے ہوں۔ پنڈلیاں زمین پر ٹکی ہوئی ہوں اور دایاں پیر انگوٹھے سے تلوے تک اور بایاں پیر چھوٹی انگلی سے انگوٹھے تک زمین سے لگا ہوا ہو۔

                سجدہ میں تین، پانچ یا سات بار پڑھیں۔

                سبحان ربی الاعلی ۔ سبحان ربی الاعلی ۔ سبحان ربی الاعلی ۔

                ترجمہ: میرا رب بڑی شان والا پاک ہے۔میرا رب بڑی شان والا پاک ہے۔میرا رب بڑی شان والا پاک ہے۔

                اس کے بعد

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے سجدے سے اٹھ کر دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں اور ہتھیلیاں دونوں زانو پر رکھیں۔ چند لمحے اس طرح بیٹھیں۔ دو سجدوں کے درمیان اس طرح بیٹھنے کو ’’جلسہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جلسہ میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں پیر کی انگلیاں زمین پر ٹکی ہوئی ہوں جبکہ بایاں پیر اس طرح بچھا ہوا ہو کہ ایڑی اور چھوٹی انگلی زمین پر ہو۔

                لڑکیاں دونوں پیر زمین پر بچھا کر بیٹھیں۔

                تھوڑی دیر بیٹھ کر

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے دوبارہ سجدے میں چلے جائیں اور پہلے کی طرح

                سبحان ربی الاعلی

                پڑھیں اس کے بعد

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے سجدے سے اٹھ جائیں۔ سجدہ سے اٹھ کر کھڑے ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سر، گردن اور کندھے یعنی جسم کا اوپری حصہ اٹھاکر تقریباً بیٹھنے کی حالت پر آ جائیں اس کے بعد پیر کے پنجوں پر زور ڈالتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ لڑکیوں کے لئے بھی سجدہ سے اٹھ کر کھڑے ہونے کا یہی طریقہ ہے۔

                یہ دوسری رکعت ہے اس رکعت میں تسمیہ یعنی بسم اللہ شریف کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں۔

                الحمد للّٰہ رب العالمینoالرحمٰن الرحیمoملک یوم الدینoایاک نعبد و ایاک نستعینoاھدنا الصراط المستقیمoصراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالینo

                آمین

                اب کوئی سورہ پڑھیں۔

                سورہ نصر:

                اذا جاءنصر اللّٰہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللّٰہ افوا جا فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان تواباo

                سورہ قریش:

                لایلف قریشoالفھم رحلتہ الشتاءوالصفoفلیعبد وا رب ھذا البیتoالذی اطعمھم من جوع و امنھم من خوفo

                پڑھ کر

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے رکوع میں چلے جائیں رکوع میں تین بار یا پانچ بار یا سات بار پڑھیں۔

                سبحان ربی العظیم ۔ سبحان ربی العظیم ۔ سبحان ربی العظیم ۔

                اس کے بعد

                سمع اللّٰہ لمن حمدہ

                یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لئے قومہ میں ساکت کھڑے رہیں۔ پھر

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں۔

                سجدہ میں تین بار یا پانچ بار یا سات بار پڑھیں۔

                سبحان ربی الاعلی ۔ سبحان ربی الاعلی ۔ سبحان ربی الاعلی ۔

                اس کے بعد

                اللہ اکبر کہہ کر جلسہ میں بیٹھ جائیں۔ تھوڑی دیر بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسرے سجدہ میں جائیں۔ سجدے میں پہلے کی طرح

                سبحان ربی الاعلی

                پڑھیں اس کے بعد سجدہ سے اٹھ کر دو زانو بیٹھ جائیں۔

                دو رکعات کے بعد اسطرح بیٹھنے کو قعدہ یا تشہد کہتے ہیں۔ تشہد میں دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے اور ٹانگ پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے اور ٹانگ پر رکھنا چاہئے۔ اس طرح کہ ہر ہاتھ کی انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوں۔ قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پنڈلیاں اور گھٹنے زمین پر ٹکے ہوئے ہوں دایاں پیر انگلیوں پر کھڑا رکھیں اور بایاں پیر بچھا کر اس پر بیٹھیں۔ لڑکیاں دونوں پیروں پر اس طرح بیٹھیں کہ پیر سیدھی طرف نکلے ہوئے ہوں۔

                اگر نماز دو رکعات سے زائد ہو تو اسے پہلا تشہد یا قعدہ کہتے ہیں۔ تشہد میں پڑھا جاتا ہے۔

                التحیات للّٰہ والصلوٰت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللّٰہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ

                ترجمہ: ہر طرح کی تعریف ، عبادات (صلوٰۃ) اور پاکیزگی اللہ کے لئے ہے۔ سلام ہو آپ پر اے نبیﷺ اور اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو۔ سلامتی ہو۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

                پڑھتے ہوئے جب اشھد ان لا الہ پر پہنچیں تو سیدھے ہاتھ کی پہلی انگلی یعنی شہادت کی انگلی اوپر اٹھائیں اور الا اللّٰہ کہہ کر انگلی نیچے کر لیں۔

                التحیات پڑھ کر اللہ اکبر کہتے ہوئے تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں۔

                اس رکعت میں تسمیہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں اور

                اللہ اکبر

                کہتے ہوئے رکوع میں چلے جائیں۔ پہلی رکعت کی طرح رکوع اور سجدہ کریں۔ اور پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ چوتھی رکعت میں بھی پہلے کی طرح تسمیہ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع میں جائیں۔ اس کے بعد سجدہ کریں۔ چوتھی رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تشہد یا قعدہ میں بیٹھ جائیں اور پہلے التحیات پھر درود شریف اور پھر دعا پڑھیں۔

            التحیات:

                التحیات للّٰہ والصلوٰت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللّٰہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ

                پھر درود شریف پڑھیں۔

                اللّٰھم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم انک حمید مجید

                ترجمہ: اے اللہ رحمت نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی آل پر جس طرح تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر بے شک تو مستحق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

                اللّٰھم صل علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم انک حمید مجید         

                ترجمہ: اے اللہ برکت نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی آل پر جیسا کہ برکت نازل فرمائی تو نے ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر بے شک تو مستحق تعریف بزرگی والا ہے۔

                اس کے بعد دعا پڑھیں۔

                رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ و من ذریتی ربنا تقبل دعا ربنا اغفرلی ولوالدے واللمومنین یوم یقوم الحسابo

                ترجمہ: اے میرے رب مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ قائم کرنے والا بنا۔ اے میرے رب قبول کر میری دعا۔ اے میرے رب بخش دے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن یوم حساب قائم ہو گا۔

                یا یہ دعا پڑھیں۔

                ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرۃ حسنتہ و قنا عذاب النارo

                ترجمہ: اے میرے رب میری دنیا اچھی فرما اور میری آخرت بھی اچھی فرما اور مجھے آگ کے عذاب سے بچا۔

                یا قرآن پاک یا حدیث نبویﷺ میں سے کوئی سی بھی دعا پڑھی جائے۔

                پھر اپنا چہرہ دائیں طرف گھماتے ہوئے اس طرح سلام کہا جائے۔

                السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ

                اس کے بعد چہرہ بائیں طرف گھماتے ہوئے سلام کہا جائے

                السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ

                اب یہ نماز پوری ہو گئی۔

                اگر نماز دو رکعات پر مشتمل ہے مثلاً فجر کی فرض نماز تو دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تشہد میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام کہا جائے اگر نماز تین رکعت کی ہے یعنی مغرب کی فرض نماز تو تیسری رکعت کے دو سجدوں کے بعد دوسرے تشہد میں بیٹھا جائے اور التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام کہا جائے۔

                ظہر، عصر ، عشاءکی فرض نماز میں چوتھی رکعت کے بعد دوسرے تشہد میں بیٹھ جائے اور التحیات، درود شریف اور دعا کے بعد سلام کہا جائے۔

                نماز کے بعد ہم کیا پڑھیں؟

                نبی کریمﷺ فرض نماز کی تکمیل کے بعد اونچی آواز سے ایک بار اللہ اکبر اور تین بار استغفراللہ کہا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفراللہ کے بعد فرماتے:

                اللّیھم انت السلام ومنک السلام و الیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام واذخلنا دارالسلام تبارکت ربنا و تعالیت یا ذالجلال والاکرام

                ترجمہ: اے اللہ تو ہی سلامتی دینے والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی مل سکتی ہے اور تیری ہی طرف سلامتی لوٹتی ہے اور اے ہمارے رب تو ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور ہمیں سلامتی کے مقام میں داخل فرما۔ اے ہمارے رب تو بابرکت ہے اور تو ہی بلند ہے اے صاحب عظمت و بزرگی۔

                نبی کریمﷺ کے ارشادات سے ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کی بھی بڑی فضیلت کا علم ہوتا ہے۔

                آیت الکرسی

                اللہ لا الہ الا ھوالحی القیوم لا تا خذہ سنتہ ولا نوم لہ ما فی السموات و ما فی الارض من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ یعلم ما بین ایدیھم و اما خلفھم ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاءوسع کرسیہ السموات والارض ولا یودہ حفظھما و ھوالعلی العظیمo

                ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہمیشہ قائم رہنے والا نہ اسے اونگھ آ سکتی ہے اور نہ نیند اسی کا ہے سب جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس بغیر اس کی اجازت کے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور ان کے پیچھے کے حالات ہیں اور احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا بھی اس کے علم میں سے مگر جس قدر وہ چاہے۔ گھیر رکھا ہے اس کی کرسی نے تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں گزرتی اس کو ان دونوں کی حفاظت اور وہ عالی شان اور عظیم الشان ہے۔

                نبی کریمﷺ نے نماز کے بعد مندرجہ ذیل ذکر کی بھی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ 33بار اللہ اکبر۔ 33بار سبحان اللہ۔ 33الحمد للہ۔ ایک بار لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و لہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیرo

                اس ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ جن فرض کے بعد سنت نماز نہیں ہے یعنی فجر اور عصر کی نماز……ان میں فرض کے بعد یہ ذکر کیا جائے اور ظہر، مغرب اور عشاءمیں سنت نماز کی ادائیگی کے بعد یہ ذکر کیا جائے۔


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی