Topics
ابو!
آپ نے ہمیں اتنی ساری اچھی اچھی باتیں بتائی ہیں۔ آپ کو یہ سب باتیں کس طرح
معلوم ہوئیں؟ سندس نے سوال کیا۔
دنیا
کے سارے انسانوں کو تمام اچھی باتیں اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے ذریعے معلوم
ہوئیں۔ اللہ کے یہ خصوصی اور مبارک بندے تمام اچھائیوں کا منبع اور خیر کا سرچشمہ
ہیں۔ انسانی معاشروں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے۔ تہذیب نے جتنے بھی سفر طے کئے ہیں
ان سب کے پیچھے اللہ کے پیغمبروں کے علوم کی روشنی کارفرما ہے۔ پیغمبروں کے علم کا
سورس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ
انسانی معاشروں نے اپنے قیام، بقا اور ترقی کے لئے فہم و ادراک نور الٰہی اور نور
نبوت سے حاصل کئے ہیں۔
امل
نے یہ لفظ کتابوں میں تو پڑھا تھا لیکن صحیح مفہوم سے واقف نہیں تھی۔
پیغمبر
کا مطلب ہے پیغام لانے والا۔ اللہ کے پیغمبر کا مطلب ہوا ’’اللہ کا پیغام لانے
والا۔‘‘ اللہ کا پیغام لانے والے ان مقدس اور محترم بندوں کو اللہ کا رسول یا اللہ
کا نبی کہتے ہیں۔
حضرت
محمد اللہ کے رسول ہیں۔ امل نے کہا۔
محمدﷺ
اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہو گیا۔اب قیامت تک
کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔
مجھے
پہلا کلمہ یاد ہے۔ سناؤں؟ فیضان نے کہا۔
جی
بیٹے! اسلام کا پہلا کلمہ سناؤ۔
پہلا
کلمہ طیب، طیب معنی پاک۔
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
حضرت
محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی نہیں۔ اللہ نے آپﷺ سے پہلے اس دنیا میں کتنے پیغمبر
بھیجے؟ سندس نے پوچھا۔
جب
سے انسان اس دنیا میں آیا اس وقت سے حضرت محمد مصطفیٰﷺ تک اللہ تعالیٰ نے تقریباً
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھیجے۔ محمدﷺ
اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپﷺ پر نازل ہونے والی کتاب ’’قرآن‘‘ اللہ کی آخری
اور مکمل کتاب ہے۔ اب قیامت تک کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا اور کوئی کتاب نازل نہیں
ہو گی۔
اس
سلسلے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ امل نے پوچھا۔
اللہ
تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو تخلیق کیا ان کا نام ’’آدم‘‘ ہے۔ ان کے بعد ان
کی بیوی ’’حوا‘‘ کی تخلیق ہوئی۔ نوع انسانی کی ابتداءحضرت آدم اور حضرت حوا سے ہوئی
ہے۔ اس دنیا کے تمام انسان حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں۔ حضرت آدم کو
اللہ نے سب سے پہلا انسان بنایا اور سب سے پہلا نبی اور رسول بھی بنایا۔
اللہ
کے رسولوں نے کون سے کام کئے ہیں؟
اللہ
کے نبی اور رسولوں نے نوع انسانی کو اللہ کا پیغام سنایا۔ اللہ نے ان کے ذمہ یہ
کام لگایا کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
لوگوں کو سکھائیں کہ اللہ کی بندگی کیسے کی جائے لوگوں کو بتائیں کہ اللہ کو کون
کون سی باتیں پسند ہیں اور کون کون سی باتیں نا پسند ہیں۔اللہ کے رسولوں کا کام یہ
تھا کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کریں، اللہ کے بتائے ہوئے
راستوں پر چلیں اور جو کام اللہ کو پسند نہیں وہ نہ کریں۔ اللہ کے رسول لوگوں میں
اچھائی اور برائی کا تصور اجاگر کرتے تھے تا کہ لوگ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے
اچھے کام کریں اور برائیوں سے بچیں۔
اللہ
کے رسولوں کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ کون سے کام اللہ کو پسند ہیں اور کون سے کام
ناپسند ہیں۔ امل نے بڑا گہرا سوال کیا۔
اللہ
اپنے رسولوں کو وحی کے ذریعے ان تمام باتوں سے آگاہ کرتا تھا۔
وحی
کسے کہتے ہیں؟ امل نے دوبارہ پوچھا۔
وحی
کا مطلب ہے اللہ کا اپنے نبی یا رسول سے کوئی بات کہنا۔ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل
علیہ السلام کے ذریعے انبیاءپر وحی بھیجتے تھے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر وحی کے ذریعے
قرآن نازل ہوا۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن اللہ کی آخری
کتاب ہے۔ اس لئے اب اس وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
حضرت
محمدﷺ پر قرآن وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے؟ کیا دوسرے کسی رسول پر بھی اللہ نے کوئی
کتاب نازل کی؟ امل اس گفتگو میں گہری دلچسپی لے رہی تھی اور ایک کے بعد ایک سوال
پوچھ کر اپنے اور بہن بھائیوں کے علم میں اضافہ کر رہی تھی۔
اللہ
نے اپنے کئی پیغمبروں پر کتابیں نازل فرمائی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیغمبروں میں سے تین سو پندرہ صاحب کتاب تھے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن پاک
میں بھی ہے۔ کچھ پیغمبروں پر اللہ تعالیٰ نے جو پیغام نازل فرمایا انہیں صحیفہ کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ
لفظ امل کے لئے غیر مانوس تھا۔ وہ بولی ابو! صحیفہ کسے کہتے ہیں؟
اللہ
تعالیٰ نے اپنے کئی پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو اس دنیا اور آخرت کی زندگی کے
بارے میں ہدایات و رہنمائی عطا فرمائی۔ بعض پیغمبروں کو مختصر پیغامات پر مشتمل وحی
کے ذریعے ہدایات ملیں انہیں صحیفہ کہا جاتا ہے۔ صحیفہ کا مطلب ہے ورق یا رسالہ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض پیغمبروں کو وحی کے ذریعے مختلف معاملات میں تفصیلاً اپنی
مرضی اور ارادہ سے آگاہ فرمایا۔ ان پیغامات میں دنیا اور آخرت کی زندگی کے بارے
میں ہدایات و رہنمائی کے ساتھ کائنات میں موجود نظام کی تشریح، کائنات میں جاری و
ساری فارمولوں کی نشاندہی، آدم کی پیدائش، فرشتوں، جنات اور دوسری مخلوقات کا
تذکرہ تاریخی واقعات وغیرہ شامل ہیں، ان تفصیلی پیغامات پر مشتمل وحی کے مجموعہ کو
کتاب کہا جاتا ہے۔
قرآن
پاک میں کتنے انبیاءکا ذکر ہوا ہے؟ نعمان جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا گویا
ہوا۔
قرآن
پاک میں محمد رسول اللہﷺ سے قبل 27انبیاءاور رسولوں کا ذکر آیا ہے۔
قرآن
پاک عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ کیا حضرت محمدﷺ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کا
تعلق بھی سرزمین عرب سے تھا اور قرآن سے پہلے نازل ہونے والی کتابیں بھی عربی
زبان میں تھیں؟ سندس نے پوچھا۔
دنیا
کے ہر خطے اور قوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور رہنمائی سے نوازا ہے۔ نبی اور
رسول صرف سرزمین عرب میں ہی نہیں آئے بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ
نے اپنے نبی اور رسول بھیجے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اور صحائف بھی
مختلف زبانوں میں نازل فرمائے۔
یہ
کتابیں اور صحائف کن کن پیغمبروں پر نازل ہوئے؟ سندس نے اگلا سوال کیا۔
اس
سلسلے میں حضرت آدمؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت داؤدؑ،
حضرت عیسیٰ ؑ کے اسمائے گرامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ بعض تاریخ دان ان کے علاوہ چند
اور نام بھی بتاتے ہیں۔
ان
کتابوں کے نام کیا تھے اور یہ کتابیں کن نبیوں پر نازل ہوئیں؟ امل نے استفسار کیا۔
قرآن
کے ذریعے جن کتابوں کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے ان کے نام توریت، زبور اور انجیل
ہیں۔ توریت اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ زبور اللہ کے نبی
حضرت داؤد علیہ السلام پر اور انجیل اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل
ہوئی۔
اللہ
کی جانب سے نازل کی گئی کتابوں میں کیا کہا گیا تھا؟ سندس نے دلچسپی سے پوچھا۔
ان
کتابوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے اس زمین پر زندگی گزارنے کے لئے
ہدایت و رہنمائی فراہم کی گئی۔ معاشرہ کو پیش آنے والے مختلف مسائل اور معاملات
طے کرنے کے لئے ضابطے اور قوانین بنائے گئے۔ انسان کی تخلیق اور ساری کائنات کی
تخلیق کا ذکر کیا گیا۔ مرنے کے بعد اللہ کے حکم سے دوبارہ زندہ کئے جانے اور یوم
آخر کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
ان
سب باتوں کا ذکر تو قرآن میں بھی ہے نا؟ نعمان نے کہا۔
بالکل!
قرآن میں بھی ان سب باتوں کا ذکر موجود ہے۔
جب
ان ساری باتوں کا ذکر پہلے سے موجود اللہ کی کتابوں میں تھا تو قرآن کی ضرورت کیوں
پیش آئی؟ نعمان نے پوچھا۔
سندس
نے خوفزدہ سی ہو کر کہا ارے نعمان بھائی! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک دن اسلامیات
کے پیریڈ میں ہماری کلاس میں ایک لڑکی نے ایسا ہی کوئی سوال پوچھ لیا تھا۔ مِس نے
اسے ڈانٹا اور کہا خبردار! ایسے سوالات مت پوچھا کرو۔ اللہ ناراض ہو جائے گا، تمہیں
بہت گناہ ملے گا۔ بیٹی! ایسا
سوچنا درست نہیں۔ اویس نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی نشانیوں میں غور و فکر کی
دعوت دی ہے۔ اگر ذہن میں سوالات آئیں تو ضرور پوچھنا چاہئے۔ ذرا سوچو تو اللہ کی
دعوت پر لبیک کہنا، اللہ کی خوشی کا سبب بنے گا یا بندہ گناہگار ہو گا؟
بچے
خاموش رہے۔ کمرہ میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
سوچ
کر بتاؤ کہ اللہ کی دعوت پر عمل کرنا نیکی ہے یا گناہ؟
سندس
بولی۔ اللہ تعالیٰ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرنا نیکی ہی کہلائے گا۔ یہ بات تو ٹھیک
ہے مگر بچوں کو زیادہ تر یہی کہا جاتا ہے کہ یہ مت کرو گناہ ملے گا، وہ مت کرو
گناہ ملے گا۔ دوزخ میں جلنا پڑے گا۔ اپنے بچے کو کسی کام سے باز رکھنے کے لئے بجائے
اس کے کہ اسے پیار اور اچھے طریقے سے سمجھایا جائے اسے کہا جاتا ہے کہ یہ کام یا
عادت چھوڑ دو ورنہ تمہیں گناہ ملے گا۔
سندس
نے بتایا چند سال پہلے کی بات ہے۔ ہم ٹرین میں لاہور جا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ والے
حصے میں بھی بچے تھے۔ وہ بہت اچھل کود کر رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ ان کی امی
نے انہیں دو تین بار منع کیا۔ تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو جاتے لیکن پھر شرارتیں شروع
کر دیتے۔ آخر کار ان کی امی نے زور سے چلا کر کہا۔’’چپ ہو کر سو جاؤ ورنہ تم
لوگوں کو بہت گناہ ملے گا اور تمہیں جن اٹھا کر لے جائے گا۔‘‘
ابو!
کیا بچوں کا شور کرنا اور شرارتیں کرنا گناہ ہے؟ سندس کے ذہن میں یہ سوال بہت دن
سے تھا۔
چھوٹے
بچوں کا شور مچانا یا شرارتیں کرنا ہرگز گناہ نہیں ہے۔
کیا
سوال پوچھنا گناہ ہے؟ سندس نے ہی دوبارہ پوچھا۔
نہیں!
سوال پوچھنا تو اچھی بات ہے۔ تم پوچھ رہے تھے کہ جب قرآن سے پہلے کی کتابیں بھی
اللہ کی بھیجی ہوئی ہیں تو پھر قرآن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اویس نے نعمان سے
کہا۔
جی!
تم
یہ تو جان گئے ہو کہ کسی بھی علاقے میں رہنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت
اور رہنمائی سے محروم نہیں رکھا۔
جی!
ہم جان گئے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں رہنے والے لوگوں کو اللہ نے ہدایت
اور رہنمائی سے محروم نہیں رکھا۔
دنیا
میں مختلف علاقوں میں اور مختلف وقتوں میں اللہ کے رسول اور نبی آتے رہے اور
لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ بعض رسولوں پر کتابیں بھی نازل ہوئیں۔ ان کے
ماننے والوں نے ان کتابوں کو یاد کر کے یا لکھ کر محفوظ رکھنے کی کوشش کی مگر وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے یہ کتابیں اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہیں۔
وہ
کیا وجوہات تھیں؟ نعمان نے پوچھا۔
مختلف
وجوہات پیش آتی رہیں۔ مثلاً توریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہودی
قوم فلسطین میں رہا کرتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ایک مخالف قوم نے فلسطین پر حملہ کیا۔
اس قوم کا مذہب یہودیوں سے مختلف تھا۔ ان لوگوں نے صرف ملک فتح کرنے پر ہی بس نہیں
کیا بلکہ مفتوح قوم کے مذہب پر بھی حملہ آور ہوئے۔ ان حملہ آوروں نے توریت کے
تمام نسخوں کو ایک جگہ جمع کر کے آگ لگا دی۔ اس واقعے کے تقریباً سو سال بعد توریت
کو حافظے کی مدد سے دوبارہ لکھا گیا۔ بعض دوسری کتابوں میں سے کسی کے ساتھ یہ
معاملہ پیش آیا کہ وہ جن زبانوں میں تھیں کچھ صدیوں بعد وہ زبان ہی تبدیل یا ختم
ہو گئی۔ چند نسلوں بعد پرانی زبان لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے اس زبان کا
تمام علمی سرمایہ بھی ختم ہو گیا۔ اس کے ساتھ تحریری شکل میں کتاب کا محفوظ نہ
رکھنا بھی ایک سبب بنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ کا جو بھی کلام نازل ہوا،
انہوں نے اسے لکھوایا ہی نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی نازل کردہ ان
کتابوں کو یا تو بھلا دیا گیا یا ان کے الفاظ میں بعد میں آنے والے مذہبی پیشواؤں
نے اپنی جانب سے اضافہ یا کمی کرنا شروع کر دی۔
اللہ
کی کتابوں میں لوگوں نے اپنی طرف سے تبدیلیاں کر لیں؟ یہ بات سندس کے لئے بہت حیرت
انگیز تھی۔
ہاں!
ایسا ہی ہوا۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اللہ کے بھیجے ہوئے اصل پیغام
سے محروم ہوتا گیا۔ چنانچہ یہ چیز انسانوں کی ضرورت بن گئی کہ ان کے پاس اللہ کا پیغام
اپنی صحیح حالت میں ہو۔
اس
وجہ سے اللہ نے قرآن نازل کیا؟ نعمان نے درمیان میں کہا۔
نزول
قرآن کی دوسری بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پچھلے زمانوں کی کتابیں عام
طور پر کسی ایک قوم یا کسی ایک خطے کے لوگوں کے لئے نازل کی گئی تھیں۔
مثال
کے طور پر۔ امل نے کہا۔
مثال
کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
توریت میں زیادہ تر ہدایات بنی اسرائیل کے لئے تھیں۔ چنانچہ آخر میں ایک ایسی
کتاب کی ضرورت تھی جو ساری دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہو۔ اس میں کسی ایک قوم یا
کسی ایک خطے کے لوگوں سے ہی خطاب نہ کیا گیا ہو بلکہ اس کا مخاطب پوری نوع انسانی
ہو۔ نوع انسانی کی اس ضرورت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر کرم فرماتے
ہوئے اپنا ابدی پیغام اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعے قرآن کی
شکل میں عطا فرمایا۔
ابدی
پیغام کا مطلب کیا ہے؟ نعمان نے سوال کیا۔
دیکھو!
قرآن کی ایک خاص صفت تو یہ ہے کہ یہ ساری دنیا کے تمام انسانوں کو ہر طرح کی ہدایت
و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دوسرے جس طرح قرآن صرف کسی ایک خطے یا کسی ایک قوم کے لئے
نہیں ہے اسی طرح قرآن صرف کسی ایک دور یا مخصوص وقت کے لئے نہیں۔ قرآن محمد رسول
اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے دور سے لے کر قیامت تک انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی
فراہم کرتا ہے۔ نبوت کا سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ختم ہو چکا ہے، اللہ نے وحی کا
سلسلہ ختم کر دیا ہے اور اب قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہیں ہو گی اس لئے قرآن انسانوں
کے لئے اللہ کا ابدی پیغام ہے۔
ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ
وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔
کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمیؔ
مرکزی
مراقبہ ہال
سرجانی
ٹاؤن۔ کراچی