Topics

اللہ کی آواز



خلاء میں ایک سمت جگنو چمکتے ہوئے نظر آئے۔ غور سے دیکھا تو یہ چھوٹے چھوٹے روشن نقطے فرشتوں کی ٹولیوں میں بدل گئے۔ گروہ در گروہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ قریب جا کر سلام کیا اور فرشتوں سے مصافحہ کیا۔ فرشتوں نے مجھ سے باتیں بھی کیں مگر میری سمجھ میں ان  کی کوئی بات نہیں آئی۔
ملائکہ عنصری سے ملاقات کر کے نیچے اترا اور ایک خوبصورت باغ میں خود کو موجود پایا۔ اس باغ میں ایک چھوٹا بچہ کھیل رہا تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باغ سے باہر لے گیا۔ اب دیکھا کہ میں اور وہ لڑکا کسی عمارت میں ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ عمارت ” خانہ کعبہ” ہے۔ لوگ جوق در جوق طواف کرتے نظر آئے۔ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے اللہ اللہ کر رہے ہیں۔ اگلی نشستوں میں بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہوگئے اور حمد و ثنا کے بعد سلام پڑھنا شروع کر دیا۔ شریکِ محفل ہونے پر محسوس ہوا کہ میرے منہ میں پان ہے۔ تھوکنا چاہا تو غیب سے وہاں اگالدان موجود ہو گیا۔ لیکن منہ میں انڈے کے برابر ایک گولہ بن گیا۔ یہ گولہ انتہائی درجہ متعفّن اور لیس دار تھا۔ تھوکنا چاہا تو یہ تعفّن منہ سے باہر نہیں آیا۔ بالآخر منہ میں انگلی ڈال کر باہر نکالا۔  اور اگالدان میں ڈال دیا۔ منہ میں اب بھی لیس دار رطوبت بھری ہوئی تھی۔ اس حالت میں  درودسلام کی مجلس میں شریک ہوگیا۔ یکایک خانہ کعبہ سمٹنا شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ ایک نورانی بساط میں تبدیل ہو گیا اور وہاں موجود تمام لوگ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اب دیکھا کہ یہ بساط عرش ہے۔ عرش نورانی لہروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں ان لہروں اور نورانی بساط کے علاوہ کسی اور چیز کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ تھوڑی دیر کے بعد ساکت و جامد لہروں میں ارتعاش ہوا اور لہریں “صوت  سرمدی ” کے ساتھ سے الگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
کس منہ سے کہوں اور کیوں کر بیان کروں کہ ان لہرں کے حجاب میں اللہ تعالےٰ جلوہ افروز ہیں۔ احساس بندگی حرکت میں آگیا۔ خمیدہ کمر، سر جھکائے آگے بڑھا اور اللہ کے قدموں میں گر گیا۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ میرا سر اللہ تعالےٰ کے پیروں پر رکھا ہوا ہے۔ کان میں آواز آئی۔ ” ہمارے بندے؛ اٹھ کھڑا ہو“۔
میں مودّب کھڑا ہو گیا۔ اور اللہ تعالےٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے لگا۔ دیکھا کہ میرے بائیں طرف ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا ہے اور دائیں طرف ایک لڑکی۔ لڑکے کی عمر میرے خیال سے چار اور لڑکی کی عمر ڈھائی سال ہے۔ اللہ تعالےٰ کے لئے چھوٹی بچی زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتی ہے۔ میں نے لڑکے سے پوچھا” اللہ کہا ں ہیں“؟
وہ جواب میں  بچوں کی طرح شرما کر خاموش ہو گیا۔
پھر میں نے چھوٹی بچی سے کہا” تم اللہ کو جانتی ہو؟”
اس نے انگشتِ شہادت سے بتایا”  یہ ہیں اللہ تعالےٰ”
دل کی آنکھ کھلی اور دیکھا کہ اللہ تعالےٰ نے تبسّم فرمایا اور ارشاد کیا”  لڑکے کی طرف اشارہ کر کے”  اسے پتا نہیں ہے۔“ پھر ارشاد کیا۔ ” مانگ کیا مانگتا ہے“؟
بندہ نے عرض کیا” باری تعالےٰ: اب کچھ نہیں چاہیئے۔ آپ مل گئے تو پوری کائنات مل گئی”
فرمایا۔” نہیں ۔ یہ لو اور کھاؤ“۔
میں نے کیا چیز کھائی یہ بتانے سے قاصر ہوں مگر مزہ اس کا سیب اور انگور سے ملتا جلتا تھا۔ اللہ تعالےٰ نے مجھے نصیحت فرمائی) جو ذہن میں بالکل محفوظ نہیں رہی۔ (بہت یاد کرتا  ہوں کہ ایک لفظ ہی یاد آجائے) اور فرمایا
” اب تم زمین پر واپس جاؤ“
صحابی جن کی زیارت

مراقبہ میں دیکھا کہ ایک مکان  ہے۔ مکان کے اندر دو سہ دریاں ہیں۔ سہ دریوں کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ وسیع و عریض صحن  میں امرود کا درخت ہے۔ اس درخت میں اتنا پھل ہے کہ ہر  طرف امرود ہی امرود نظر آتے ہیں۔ گلہریاں اور طوطے  امروود کتر کتر کر نیچے پھینک رہے ہیں ۔ میں اور میرا دوست سہ دری کی چھت پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔کہ نظر آیا صحن میں فوارّے کے پاس طاق کے اندر ایک شمعدان جل رہی ہے۔  شمع پر پروانے نثار ہو رہے ہیں۔ میرے دوست نے اس منظر سے متاثر ہو کر سرمد کا ایک شعر سنایا
سرمد غم عشق بوالہوس رانہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس رانہ دہند
یہ شعر سنکر میرے اوپر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس ہی حالت میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ ایک گھوڑا پرواز کر رہا ہے۔ دُم سے گردن تک زرّین لباس میں ملبوس یہ گھوڑا مکان کے چاروں طرف فضا میں چکر لگا رہا ہے۔ میں نے دوست سے کہا” دیکھو گھوڑا اڑ رہا ہے۔“
اس نے کئی مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا مگر وہ  نہیں دیکھ سکا۔ چار پانچ چکّر لگا کر وہ گھوڑا صحن میں اتر گیا حیرت ناک  بات یہ ہے  کہ جیسے ہی گھوڑے نے زمین پر قدم رکھے پورے صحن میں قالین کا فرش بچھ گیا۔ ایک آدمی تیزی کے ساتھ مکان میں داخل ہوا اور گھوڑے کے منہ میں لگام دے دی۔ اس کے بعد نہایت حسین، مہ جبین دو شیزہ آئی اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے زینے کے راستے اوپر لے گئی۔ گھوڑے کے کان میں کچھ کہا اور وہ پھر ہوا میں پرواز کر گیا۔ خوبصورت دوشیزہ نے ہم دونوں کو اپنے ساتھ نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم تینوں سہ دری میں پہنچ گئے تو میں نے اپنے دوست کا تعارف کرایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ حسینہ نے آگے بڑھ کر اس کے رخسار چوم لئے۔ جواباً دوست نے بھی حسینہ کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اس حرکت سے وہ غیض و غضب میں آ گئی۔ معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا۔” ہم انسانوں کے ہاں یہ دستور ہے کہ ہم اپنی ماں اور بہن کو پیار کر سکتے ہیں۔ یہ بات سنکر حسینہ مسکرا دی۔
میں نے پوچھا ” تم کون ہو اور یہ گھر کس کا ہے؟“
حسینہ نے کہا ” میں شہنشاہِ جنات عفریت کی بیوی ہوں“
سوال کیا ” آپ کے شہنشاہ کہاں ہے؟“
جواب دیا” آج کل ان کے اوپر شادیاں رچانے کا بھوت سوار ہے۔میں تیسری بیوی ہوں اور وہ اب تک نو شادیاں کر چکے ہیں۔“
میں نے استفسار کیا ” تم یہاں اکیلی رہتی ہو؟“
اس نے کہا ” میرے ساتھ میری نانی اور نانا رہتے ہیں ۔ چلو ملاقات کرادوں۔“
دیکھا کہ ایک کمرے میں بڑی بی قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہیں۔نہ معلوم کس طرح میرے ہاتھ میں دو قرآن پاک آگئے۔ ایک نسخہ بطور ہدیہ میں نے بڑی بی کی خدمت میں پیش کیاا اور ساتھ ہی دریافت کیا” آپ نے قرآن پاک کہاں پڑھا ہے؟“
بڑی بی نے کہا” میرے استاد تمہاری طرح ایک انسان ہیں۔“
دوسرے کمرے میں سفید ریش  بزرگ چوکی پر تشریف فرما تسبیح پڑھ رہے تھے۔ سلام کے بعد عرض کیا ” قبلہ میں آپ کے لئے  قرآن پاک لایا ہوں۔“
یہ سنکر وہ  خوش ہو گئے اور قرآن پاک کو پہلے چوما، آنکھوں سے لگایا اور پھر سر پر رکھ کر گویا ہوئے“ اللہ تعالےٰ تمہیں خوش رکھیں اور قرآن پاک  کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔“
میں نے عرض کیا ” حضور آپ کی عمر کیا ہے؟”
فرمایا پندرہ سو سال اب پورے ہو جائیں گے۔ میں نے رحمت الّلعالمین حضور سرور کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے اور قرآن کریم بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پڑھا ہے۔“
نوع جناّت کے بزرگ صحابی کی زبانِ مبارک سے یہ بات سن کر میرے اوپر رقّت طاری ہوگئی۔ آگے بڑھا اور ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ اس گناہ گار اور سیاہ کار بندے کا یہ نصیب کہ ایک صحابی   کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہو!
بزرگ نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا۔
اس ہی عالم میں مراقبہ تمام ہوا۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور گلے کے پاس قمیض کا پورا حصّہ بھیگا ہوا تھا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے  کہ جنات کی شکل بھی ہم انسانوں کی طرح ہوتی ہے  البتہ آنکھ میں فرق ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی آنکھیں مچھلی یا سانپ کی طرح گول ہوتی ہیں۔



Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔