Topics

اظہار خیال۔روحانی مرداور عورت

جب کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے تفکر کیا جاتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں شعور کی سطح پر اُبھر آتی ہیں کہ جن کا تجزیہ اگر کیا جائے تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔
عفت و عصمت کا تذکرہ آتا ہے تو وہاں عورت اور صرف عورت زیر بحث آتی ہے۔ کیا مرد کو عفّت و عصمت کے جوہر کی ضرورت نہیں ہے؟ عورت کے تقّدس کو یہ کہہ کر پا مال کیا جاتا ہے کہ وہ کمزور ہے، عقل و شعور سے اسے کوئی واسطہ نہیں۔ علم و ہنر کے شعبے میں اب تک عورت کو عضو معطل بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ دانشور، واعظ، گدی نشین حضرات کچھ ایسے تاثرات بیان کرتے کہ جن سے عورت کا وجود بہرحال مرد سے کم تر ظاہر ہوتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز جوڑے جوڑے بنائی۔ مذہبی حلقہ کہتا ہے کہ عورت کو مرد کی اُداسی کم کرنے اور اس کا دل خوش کرنے کیلئے پیدا کیا گیا۔ بلا شبہ یہ کھلی نا انصافی اور احسان فراموشی ہے۔ ناشکری اور نا انصافی کا ردعمل اس قدر بھیانک اور المناک ہوتا ہے کہ تاریخ اس سے لرزہ براندام ہے۔ دنیاوی علوم سے آراستہ دانشوروں کا یہ وطیرہ کم عقلی پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ روحانی علوم کے میدان میں بھی عورت کو نظر انداز کیا گیا ہے تو اعصاب پر موت کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سینکڑوں سال کی تاریخ میں مشہور و معروف اولیا اللہ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک عورت کی نشاندہی ہوتی ہے اور اسے بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورت اور مرد کے اندر الگ الگ روحیں کام کرتی ہیں، کیا روح میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔ کیا روح بھی کمزور اور ضعیف ہوتی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عورت کی روحانی اقدار کو کیوں محجُوب رکھا گیا ہے؟ مردوں کی طرح ان خواتین کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا جو اللہ کی دوست ہیں۔
وہ کون سی ایسی صفات ہیں جو قرآن میں مردوں کیلئے بیان ہوئی ہیں اور عورتوں کو ان سے محروم رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی مرد اور عورتوں کی یکساں صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
"تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن پڑھنے والے مرد اور قرآن پڑھنے والیاں اور سچ بولنے والے اور سچ بولنے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات دینے والے اور خیرات دینے والیاں اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں اور نگہبانی کرنے والے شرم گاہ اپنی کی اور نگہبانی کرنے والیاں اور یاد کرنے والے اللہ کے بہت اور یاد کرنے والیاں، تیار کیا ہے اللہ نے واسطے ان کے بخشش اور اجر بڑا"۔ سورۃ احزاب
" اے انسانوں تم سب کو اللہ نے ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں اس لئے بنایا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، یقیناً اللہ کے نزدیک وہ شریف ہے جو پرہیزگار ہے۔" سورۃ الحجرات
صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالی نے اکثر عورتوں کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کیا ہے، چنانچہ سورہ نساء سورہ انبیاء اور سورہ آل عمران میں حضرت مریم کا ذکر خیر موجود ہے۔ سورہ طٰہٰ میں حضرت موسٰی ؑکی بہن کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی خوش تدبیری سے اپنی والدہ کو حضرت موسٰی ؑ کی پرورش کیلئے شاہی محل میں پہنچایا۔ ” توریت نے حضرت موسٰی ؑ کی اس بہن کو نبیہّ قرار دیا ہے۔ اسی طرح سورہ القصص اور سورہ تحریم میں آسیہ کا ذکر اور سورہ ھود میں حضرت سارہ کو حضرت ابراہیم ؑ کی اہل بیت اور سورہ نساء میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو قرآن نے خود مخاطب کیا ہے۔
آج سے ڈیرھ ہزار سال قبل ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی عظمت کا برسرعام اعلان کیا اور اسے ہر جگہ اور ہر لحاظ سے مرد کے برابر اور مساوی حقوق کا حقدار ٹھہرایا۔ نبی آخرالزماں کی رسالت برحق کے سلسلے میں سب سے پہلے ایک عورت، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کی گواہی کو معتبر مانا گیا۔ مسلمانوں کو تیمم کی سہولت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی کی بدولت حاصل ہوئی۔ واقعہ افک میں خود اللہ تعالٰی نے ان کی تربیت کیلئے آیت نازل کی۔ اسلام کی پہلی شہید ایک خاتون سمعیہ رضی اللہ تعالٰی تھیں۔
ایک بڑی تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے قرآن نے تاریخ کی مظلوم ترین عورت والدہ یسوع مسیح ، حضرت مریم ؑ کو وہی تقدس عطا کیا جو ابراہیم علیہ السلام ، یونس علیہ السلام ، ھود علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کو دیا  اور جس طرح ان کے تذکرے سے مزین سورتیں ان کے نام سے منسوب ہوئیں۔ اسی طرح جس سورہ میں حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا اس کا نام سورہ مریم ہے۔ اگر قرآن حکیم کے نزدیک عورت کا مقام مرد سے کم تر ہوتا اور اس کی بزرگی اور عظمت مرد کے مساوی نہ ہوتی تو قرآن پاک کی یہ سورہ حضرت مریم ؑ کی بجائے حضرت عیسیٰؑ سے منسوب کی جاتی۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غار حرا کی کیفیات و واردات میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی نہ کرتیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس گھبراہٹ کی کیا صورت ہوتی۔ خولہ بنت ازور عورت تھیں لیکن ان کی شمشیر خار شگاف  بڑے بڑے جیالوں کا پتہ پانی کر دیتی تھیں۔ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دینوی معاملات میں تو عورت مرد کے برابر ہو سکتی ہیں لیکن روحانی صلاحیتوں اور ماورائی علوم میں وہ مردوں سے کم تر ہے حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے عورت کے معاملے میں انتہائی بخل سے کام لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قلم اور کاغذ پر ہمیشہ مردوں کی اجارہ داری قائم رہی ہے۔
عورت مرد کا وہ نصف ہے جس کے خون کا ایک ایک قطرہ مرد کا ایک ایک عضو بن جاتا ہے۔ یہ عورت وہ عورت ہے جو اپنے اندر موجود تخلیقی فارمولوں سے دماغ کے بارہ کھرب خلیوں(CELLS)  کو جنم دیتی ہے۔  یہ عورت وہ عورت ہے جو پیغمبروں کی ماں ہے یہ عورت وہ عورت ہے جو مرد کی روح کیلئے زندگی میں کام آنے والی انرجی(ENERGY) کے تانے بانے سے جسمانی خدوخال کا لباس تیار کرتی ہے ۔ یہ عورت وہ ماں ہے جو نو ماہ اور دو سال تک اپنا خون جگر بچے کے اندر انڈیلتی رہتی ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی اور نا شکری ہے کہ وہ مرد جس کی رگ رگ میں عورت کی زندگی منتقل ہوتی رہتی ہے، مرد اس کو تفریح کا ذریعہ سمجھتا ہے اور مردوں کے مقابلہ میں کم تر ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔ بے روح معاشرے میں عورت کو مرد کے مقابلے میں ایسا کردار بنا دیا ہے جس کو دیکھ کر ندامت سے گردن جھک جاتی ہے۔ ہائے یہ کیسی بے حرمتی ہے اس ہستی کی جس نے اپنا سب کچھ تج کر مرد کو پروان چڑھایا۔
قرآن پاک کے ارشادات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔
کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔
خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔







Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔