Topics

ارکانِ اسلام


                حقوق اللہ میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے۔

                اللہ کا یہ حق کہ اس کی عبادت کی جائے کس طرح پورا کیا جائے۔ نعمان نے سوال کیا۔

                یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنی عبادت کا طریقہ اپنے محبوب رحمتہ اللعالمینﷺ کے ذریعے انسانوں کو بتا دیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے مختلف درجوں میں تقسیم فرمایا ہے۔

                عبادت کا ایک درجہ یا طریقہ وہ ہے جسے ارکان اسلام کے تحت بیان فرمایا گیا ہے۔ ارکان اسلام پانچ ہیں۔

                ۱۔ کلمہ      ۲۔ صلوٰۃ(نماز)          ۳۔ صوم(روزہ)         ۴۔ زکوٰۃ   ۵۔ حج

                کلمہ طیبہ

                اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ ان میں سب سے پہلا رکن ایمان کا اقرار ہے۔ ایمان کا اقرار کلمہ طیبہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

                لا الہ الا اللّٰہ

                محمد رسول اللہ

                یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔

                پہلا حصہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

                دوسرا حصہ حضرت محمدﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے کا اقرار و اعلان ہے۔

                کلمہ طیبہ باب الاسلام ہے۔ اس دروازے سے گزرے بغیر اللہ کے پسندیدہ دین، اسلام میں داخلہ ممکن نہیں۔

                اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو مسلمان نہ ہو دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے۔ نعمان نے کہا۔

                تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ اویس نے نعمان کی تائید کی۔

                لیکن ہم تو مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح ہم تو پیدائشی طور پر مسلمان ہوئے۔ نعمان نے کہا۔

                یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے کہ ہمیں اس کائنات کے خالق و مالک اللہ کے پسندیدہ دین میں داخلے کے لئے جستجو اور تلاش کے مراحل سے گزرنا نہیں پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کرم فرماتے ہوئے ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفیٰﷺ کی امت میں پیدا فرما دیا۔

                اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں نبی آخر الزماں حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں پیدا فرمایا۔ سندس نے دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

                ابو! کیا ایک پیدائشی مسلمان کے لئے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنا ضروری ہے؟ کیا اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ اس کے والدین مسلمان ہیں اور انہوں نے اسے یہ بتا دیا کہ تم مسلمان ہو۔

                کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو رہا ہو یا کوئی پیدائشی مسلمان ہو، اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمدﷺ کی رسالت کا اقرار دونوں کے لئے ضروری ہے۔

                لیکن ہم تو پہلے ہی مسلمان ہیں۔ نعمان نے دوبارہ وضاحت چاہی۔

                ایک پیدائشی مسلمان کے لئے عمر کے کسی خاص حصے میں کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے ایمان کا اقرار کرنا ضروری ہے؟ سندس نے پوچھا۔

                میرا بھی یہی سوال ہے کہ کیا ایک پیدائشی مسلمان کے لئے کسی خاص عمر مثلاً پندرہ سولہ سال، اٹھارہ سال یا اکیس سال کی عمر میں خاص طور پر کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرنا ضروری ہے؟ نعمان نے سوال کیا۔

                کسی خاص عمر کی یا کسی خاص موقع کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یاد رکھو! کلمہ طیبہ ایک طرف جہاں اعلان و اقرار ہے وہاں دوسری طرف اپنے آپ کو یاد دہانی کرانا اور تجدید عہد بھی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے  خود کو اس یاد دہانی کی ضرورت عمر کے ہر حصے میں ہے۔ ہر مسلمان ماں اور مسلمان باپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو ان کے بچپن سے ہی اس عہد و اقرار کے بارے میں بتائیں۔ جب بچے بولناسیکھ رہے ہوں تو انہیں کلمہ طیبہ سکھایا جائے اور بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے جائیں والدین انہیں کلمہ طیبہ کے معنی اور مفہوم سے روشناس کرائیں۔

                 کلمہ طیبہ کے معنی اور مفہوم سے روشناسی کا کیا مطلب ہے؟ نعمان نے سوال کیا۔

                کلمہ طیبہ کے معنی اور مفہوم سے مراد یہ ہے کہ کلمہ طیبہ پڑھ کر زبان سے اقرارکیا جائے اور دل میں یہ یقین پیدا کیا جائے کہ تمام کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے۔ تمام زندگی صرف اللہ کی عبادت ہو گی۔

                اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا رسول بنا کر نوع انسانی کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ اللہ کی وحدانیت اور محمدﷺ کی رسالت پر یقین رکھنے والے کے قلب و ذہن میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ وہ اپنی زندگی محمدﷺ پر نازل ہونے والی اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور آپﷺ کی طرف سے جاری ہونے والے احکامات کے تحت بسر کرے گا۔ کلمہ طیبہ زندگی کی ہر حرکت، ہر عمل، ہر معاملہ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مرضی و منشاءکے مطابق سر انجام دینے کے اقرار و اعلان کا نام ہے۔

وضو

                ایک دن شام کے وقت اویس نے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب سے ٹیلیفون پر بات کی۔ سلام دعا کے بعد عظیمی صاحب نے کہا کہ کل چند بچوں کے ساتھ ایک نشست ہے۔ آپ بھی بچوں کو لے کر آ سکیں تو ضرور آئیں۔

                اویس نے پوچھا۔ بابا جی کس وقت؟

                عصر سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے۔

                اگلے روز اویس اور اسماءبچوں کو ساتھ لے کر عظیمی صاحب کی طرف گئے تو معلوم ہوا کہ وہ مسجد میں ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ مسجد چلے گئے۔

            وضو کا طریقہ

                یایھاالذین امنوا اذاقمتم الی الصلوٰۃ فاغسلو و جوھکم و ایدیکم الی المرافق و امسحو ابرءو سکم و ارجلکم الی الکعبینo

                اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو، اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو اور مسح کرو اپنے سروں اور اپنے پیروں کا ٹخنوں تک۔

                (سورہ المائدہ)

                مسجد کے صحن کے ساتھ ایک بڑے کمرہ میں وضو خانہ تھا۔ اویس بچوں کو لے کر وضو خانہ میں چلے گئے۔ جہاں قریب قریب بیٹھ کر ان لوگوں نے وضو کیا۔ ننھا فیضان اویس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اویس خود وضو کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کو وضو کا طریقہ بھی بتا رہے تھے۔

                وضو کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جائے۔

                فیضان نے پڑھا۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

                اس کے بعد دونوں ہاتھ اچھی طرح تین بار دھو لئے جائیں اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ تین بار دھوئیں پھر بایاں ہاتھ تین بار دھوئیں۔

                ہاتھ دھونے کے بعد کُلّی کی جائے اور دانتوں کو انگلی، مسواک یا برش سے اچھی طرح صاف کیا جائے۔ کُلّی تین بار کی جائے۔

                کُلّی کرنے کے بعد ہتھیلی کا پیالہ سا بنا کر ناک میں چڑھایا جائے اور ناک کو صاف کیا جائے۔ ناک میں بھی پانی تین بار چڑھایا جائے اس کے بعد ہاتھ دھو کر اور ہاتھوں میں پانی لے کر پورا چہرہ تین بار دھویا جائے۔ اس کے بعد ہاتھوں کو پانی سے دوبارہ گیلا کر کے دونوں ہاتھ سر پر پھیر لئے جائیں۔ دونوں ہاتھوں کو باہم ملا کر انگلیوں کی طرف سے گردن پر پھیر لیا جائے۔ سر، کان اور گردن پر اس طرح گیلے ہاتھ اور انگلیاں پھیرنے کا یہ عمل مسح کہلاتا ہے۔ مسح کے بعد دونوں پیر پانی سے اچھی طرح تین بار دھو لئے جائیں۔ اب وضو مکمل ہو گیا۔ وضو کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وضو میں جن اعضاءکا دھونا ضروری ہے وہ خشک نہ رہ جائیں۔

                ایک بار وضو کرنے کے بعد اگر دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت ہو اور جوتے یا موزے پہنے ہوئے ہوں تو اب موزے اتار کر پانی سے پیر دھونے کی بجائے موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ مسح کے لئے مدت ایک دن ہے یعنی آج صبح وضو کرنے کے بعد پیروں میں موزے پہن لئے جائیں تو اگلی صبح تک ان موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ مسافر کے لئے موزوں پر مسح کی مدت تین روز ہے۔

                وضو کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ نعمان نے پوچھا۔

                پہلی بات یہ ہے کہ ہاتھ منہ دھونے سے گرد و غبار دھل جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ پورے جسم میں توانائی آ جاتی ہے۔ یہ توانائی وضو کرنے والے کے دماغ کو سکون فراہم کرتی ہے۔ کُلّی کرنے سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اس طرح منہ کی کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ دانت چمکدار اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔ آئے دن بچوں کے گلے خراب رہتے ہیں۔ کُلّی کرنے سے ٹونسلز ٹھیک رہتے ہیں۔

                ناک میں تین مرتبہ پانی کیوں ڈالتے نکالتے ہیں۔

                ناک میں صاف پانی چڑھانے اور نکالنے سے پھیپھڑوں کو صاف ہوا فراہم ہوتی ہے۔ ناک انسانی جسم میں ایک ایسا عضو ہے جس کے اوپر ہوا کی آمد و رفت کا انحصار ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ ہر آدمی کے اندر روزانہ تقریباً پانچ سو مکعب فٹ ہوا ناک کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔ یہ ہوا کی اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے ایک بڑا کمرہ بھر جاتا ہے۔ اللہ میاں نے ناک کے اندر روئیں دار ایک جھاڑو بنائی ہوئی ہے۔ یہ جھاڑو جسم کے اندر داخل ہونے والے گرد و غبار اور کئی جراثیم کو روکتی ہے۔ ہاتھوں میں پانی لے کر چہرہ دھونے میں یہ حکمت ہے کہ چہرہ با رونق، پُر کشش اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔ وضو کرنے سے آنکھوں میں ایک نورانی کشش پیدا ہو جاتی ہے۔

                بچو! آپ جانتے ہیں کہ ہمیں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں۔ آپ نے ٹیلیویژن دیکھا ہے، جب سوئچ آن کرتے ہیں تو اسکرین پر فلم چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ فلم کہیں سے آ رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ میں بھی فلم کی طرح ہر وقت خیالات آتے رہتے ہیں۔ سر کا مسح کرنے سے خیالات میں پاکیزگی شامل ہو جاتی ہے۔ ہم وضو اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اب اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اس لئے وضو سے ہمارا ذہن اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

                ابو! گردن کا مسح کیوں کرتے ہیں؟ نعمان نے سوال کیا۔

                آپ نے سنا ہو گا کہ اللہ میاں بندوں کی رگ جان سے قریب ہے۔ رگ جان سر اور گردن کے جوڑ پر واقع ہے۔ جب ہم اللہ کے دربار میں حاضری کے احساس کے ساتھ وضو کرتے ہوئے گردن پر مسح کرتے ہیں تو ہمارا تعلق رگ جان سے جڑ جاتا ہے اور ہم اللہ کے نور سے قریب ہو جاتے ہیں۔

                اور پیر کیوں دھوتے ہیں؟ نعمان نے پوچھا۔

                اللہ تعالیٰ نے انسان کو روشنیوں سے بنایا ہے۔ روشنیاں سارے جسم میں سے گزر کر پیروں کے ذریعہ زمین میں ارتھ ہوتی رہتی ہیں۔ جب وضو کے لئے پیر دھوئے جائے ہیں تو وہ روشنیاں جو کثافت زدہ ہو جاتی ہیں۔ زمین میں ارتھ ہو جاتی ہیں اس طرح انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

            تمیم

                اگر کسی وقت پانی دستیاب نہ ہو تو وضو کس طرح کی جائے؟

                اس وقت وضو نہیں بلکہ تمیم کیا جاتا ہے۔ تمیم پانی کے بجائے پاک مٹی سے کیا جاتا ہے۔ تمیم ضرورت کے وقت وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے ۔تمیم کرتے وقت دل میں یہ نیت ہو کہ ناپاکی دور کرنے اور نماز قائم کرنے کے لئے تمیم کرتا ہوں۔

                اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر اچھی طرح لگا کر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے جائیں۔ پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ مٹی پر لگا کر داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اور بائیں کو داہنے ہاتھ پر کہنیوں تک پھیرا جائے۔ ہاتھ اس طرح پھیرے جائیں کہ چہرہ اور کہنی کی کوئی جگہ خالی نہ رہے۔

                وضو خانہ سے باہر آتے ہوئے فیضان نے اپنے والد سے پوچھا۔

                ابو! آپ نے مجھے وضو کرنا سکھایا۔ آپ نے وضو کرنا کس سے سیکھا؟ فیضان نے اپنے والد سے معلوم کیا۔

                مجھے آپ کے دادا اور دادی نے وضو کرنا اور نماز پڑھنا سکھایا تھا۔

                اور دادا اور دادی کو کس نے سکھایا ہو گا؟ فیضان نے اگلا سوال کیا۔

                ان کے امی ابو نے یا ان کے کسی استاد نے۔

                ابو! سب سے پہلے اس طریقہ پر کس نے وضو کیا تھا؟ فیضان نے پوچھا۔

                اس طریقہ پر سب سے پہلے اللہ کے رسول محمدﷺ نے وضو کیا اور پھر آپﷺ نے سب لوگوں کو وضو کرنا سکھایا۔ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو وضو کا طریقہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا تھا۔

الصلوٰۃ معراج المومنین

                اویس اور فیضان مسجد کے ہال میں داخل ہوئے جہاں ایک طرف عظیمی صاحب کے ارد گرد بہت سے بچے بیٹھے ہوئے ان کی باتیں سُن رہے تھے۔ بچوں کے ساتھ ان کے والدین یا عزیز و اقارب بھی تھے۔ اویس نے اپنے بچوں کو بھی اس اجتماع میں بٹھایا اور خود خاموشی سے دوسری طرف ایسی جگہ جا کر بیٹھ گیا جہاں عظیمی صاحب کی آواز صاف آ رہی تھی۔ وہ بیان کر رہے تھے:

                ’’اللہ کے رسول محمدﷺ کا ارشاد ہے ’’صلوٰۃ مومنین کی معراج ہے۔‘‘ مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے۔ مومن کی جمع مومنین ہے۔ معراج لفظ عروج سے نکلا ہے۔ عروج کا مطلب ہے انتہائی بلندی۔ زندگی کے کسی شعبے میں کوئی شخص بہت زیادہ کامیابی حاصل کر لے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے شعبے میں معراج حاصل کر لی ہے۔ دانشوروں، شاعروں، کھلاڑیوں، فنکاروں وغیرہ میں سے جو لوگ اپنے علم یا فن کی وجہ سے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں اور اس بناءپر عوام میں بہت زیادہ مشہور و مقبول ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مقبولیت کی معراج پر ہے۔ چنانچہ لفظی اعتبار سے تو معراج کا مطلب ہوا آخری درجہ تک بلندی یا عروج حاصل کر لینا۔ تا ہم اسلامی علوم میں معراج کا لفظ بطور اصطلاح بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی علم و ادب میں معراج کا لفظ ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اعلان نبوت کے چند سال بعد ظہور پذیر ہوا۔ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ نبی  کریمﷺ ایک رات مکہ میں اپنے گھر سے جو مسجد الحرام کے قریب واقع تھا، مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ وہاں سے آسمانوں کی طرف گئے اور آسمانوں سے بھی آگے تشریف لے جا کر اللہ کے دربار میں جا کر اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ ہم مسلمان اس سفر کو، اس واقعہ کو معراج کہتے ہیں۔

                 انسانی تاریخ کا یہ ایک حیرت انگیز اور عجیب واقعہ ہے۔ اس واقعہ سے جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی عظمت اور دنیا کے تمام انسانوں میں سب سے بڑھ کر آپﷺ کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اللہ تعالیٰ کی صفت قادریت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جیسے چاہے اپنی تخلیقات میں تغیر و تبدیلی لا سکتا ہے۔ ان تخلیقات میں ’’وقت‘‘ بھی شامل ہے۔

                وقت یا ’’زمانہ‘‘ قدیم دور ہی سے دانشوروں اور سائنس دانوں کے لئے معمہ رہا ہے۔ سائنسدان بتاتے ہیں جب کائنات تخلیق ہوئی تب سے ہی زمان یعنی ٹائم کی ابتداءہوئی۔ سائنسدانوں کے مطابق کشش ثقل اور کثافت، وقت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ وقت کی رفتار مختلف ماحول میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً ہماری زمین پر وقت جس رفتار سے گزرتا ہے خلاءمیں وقت گزرنے کی رفتار اس سے زیادہ ہو گی۔ اسی طرح جیسے جیسے کثافت کم سے کم ہو گی۔ اس رفتار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق اس دنیا میں سب سے تیز رفتار چیز روشنی ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیالیس ہزار دو سو بیالیس میل فی سیکنڈ بتائی جاتی ہے۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ روشنی کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی جانب سفر کرے تو وہ اپنا سفر تین ارب سال میں مکمل کرسکے گی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ سائنس ہنوز دریافت کے مراحل طے کر رہی ہے۔ انسان نے روشنی کی رفتار کا اندازہ تو لگایا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ روشنی کی رفتار ہی کائنات کی تیز ترین رفتار ہے۔ روشنی سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتار بے شمار اقسام کی لہریں ابھی انسان کے مادی حواس کے ادراک سے صدیوں دور ہیں۔

                 اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا مالک ہے۔ پوری کائنات پر اللہ کی مکمل حاکمیت ہونا ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ اور رسول محمدﷺ کو منفرد سکت عطا فرمائی اور آپﷺ نے جسمانی طور پر روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے سفر کے مراحل طے فرمائے۔معراج کے واقعے کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتے ہیں:

                سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا انہ ھو السمیع البصیرo

                ’’پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا جس کے گرداگرد برکتیں رکھتی ہیں کہ اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائے۔ بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔‘‘

                جو معراج حضورﷺ کو حاصل ہوئی وہ صرف آپﷺ کی ذات گرامی کے لئے ہی مخصوص تھی۔معراج کے سفر میں حضورﷺ کے ہمسفر حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے لیکن آسمانوں سے گزر کر ایک مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی رک گئے اور اس سے آگے حضورﷺ تنہا تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ سے باتیں کیں۔ اس واقعہ کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۃ نجم میں ہے۔

                معراج میں ملاقات کے دوران اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پانچ وقت صلوٰۃ کا حکم دیا۔ اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنے والے تمام لوگ حضورﷺ کی امت یا امت مسلمہ کہلاتے ہیں۔ حضورﷺ اپنی امت پر ہمیشہ بہت مہربان رہے۔ جو معراج حضورﷺ کو حاصل ہوئی وہ تو صرف آپﷺ کے ساتھ ہی مخصوص ہے لیکن حضورﷺ نے خصوصی کرم فرماتے ہوئے اپنی امت کے لوگوں کو معراج کی برکات میں بھی شریک فرما لیا۔ آپﷺ نے ا مت کو اس فیض اور برکت کے حصول کا راستہ بتا دیا اور اس راستے پر چلنے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔

                معراج میں اللہ تعالیٰ کی جو قربت محمدﷺ کو حاصل ہوئی وہ تو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی لیکن حضورﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کر کے ہر مسلمان کسی نہ کسی درجہ میں اللہ کی قربت حاصل کر سکتا ہے۔

                یہ کہہ کر عظیمی صاحب تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئے۔ ہال میں کچھ دیر خاموشی رہی۔ اس خاموشی کو ایک بچے کی آواز نے توڑا۔ اس بچے نے ایک بہت اچھا سوال کیا۔

                آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت محمدﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کر کے ہر مسلمان اللہ کی قربت حاصل کر سکتا ہے۔ وہ طریقہ کیا ہے؟

                ہال میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ تمام بچے جواب سننے کے مشتاق تھے۔ بڑے بھی زیادہ توجہ کے ساتھ انتظار کرنے لگے۔

                وہ طریقہ ہے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ارشاد کے مطابق صلوٰۃ قائم کرنا۔ عظیمی صاحب نے ایک بہت بڑی بات کو اختصار سے بیان کر دیا۔

                اس بچے نے دوبارہ پوچھا۔ اس بارے میں حضورﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟

                جواب میں عظیمی صاحب نے کہا:

                ’’حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم صلوٰۃ قائم کرو تو یہ محسوس کرو تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم یہ محسوس نہ کر سکو تو یہ محسوس کرو کہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے اور اللہ تو سب کو ہر لمحہ اور ہر آن دیکھ رہا ہے۔‘‘

                حدیث نبویﷺ سنانے کے بعد عظیمی صاحب نے کہا:

                ایک مومن کے لئے یہ احساس کہ وہ اللہ کے دربار میں حاضر ہے۔ اللہ کے سامنے کھڑا ہے اور اللہ کو دیکھ رہا ہے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس ہے۔ صلوٰۃ کا قیام اس احساس کے حصول کا سب سے بڑا اور سب سے موثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے ایسی صلوٰۃ کو مومن کی معراج قرار دے دیا ہے۔

اذان

                حضورﷺ کی تعلیمات کے مطابق صلوٰۃ کا قیام ایک فرد کے لئے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہے اور پورے معاشرے کے لئے بھی۔ صلوٰۃ زندگی گزارنے کے لئے مادی ضروریات کی تکمیل میں بھی معاون بنتی ہے اور روحانی ضروریات کی تکمیل میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ گویا صلوٰۃ کی مادی غرض و غایت بھی ہے اور روحانی بھی۔

                صلوٰۃ کے موضوع پر عظیمی صاحب گفتگو کر رہے تھے۔ فیضان کافی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ اس مرحلے پر بول پڑا۔

                بابا جی! صلوٰۃ کسے کہتے ہیں؟

                بیٹا یاد کیجئے آپ یہ لفظ صلوٰۃ دن میں کئی بار سنتے ہیں۔ عظیمی صاحب نے بہت پیار سے کہا۔

                کب بابا جی؟!

                پانچ وقت کی اذان میں۔ اللہ کی عبادت کے لئے پکارنے والا آپ کو صلوٰۃ کے لئے بلاتا ہے۔

                وہ تو نماز کیلئے بلاتے ہیں۔

                دراصل صلوٰۃ کا ترجمہ نماز کر لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ترجمہ اتنا زیادہ استعمال ہونے لگا کہ اصل لفظ صلوٰۃ یا تو بہت سے لوگوں خصوصاً بچوں کے علم میں ہی نہیں یا پھر لوگوں کے ذہن میں نہیں رہتا۔ آپ کو اذان یاد ہے؟ انہوں نے بچوں سے دریافت کیا۔

                جی! بابا جی۔ کئی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

                اور اذان کے کلمات کا ترجمہ کس کس کو یاد ہے؟

                مجھے!

                مجھے!

                مجھے بھی! نعمان اور کئی دوسرے لڑکوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔

                ہر نماز سے پہلے اذان ہوتی ہے۔ دن میں پانچ بار نماز معراج کے موقع پر فرض ہوئی۔ اذان کب سے شروع ہوئی؟

                میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ اذان کے الفاظ کا انتخاب کس ہستی نے کیا؟

                سب سے پہلے اذان کس نے کہی تھی؟

                پہلی بار اذان کہاں ہوئی تھی؟

                اذان کا مطلب کیا ہے؟

                بچے اذان کے بارے میں تفصیلات جاننے کے بہت خواہشمند تھے۔ اسی لئے پہلے سوال کے جواب سے پہلے ہی دوسرا سوال کر دیتے تھے۔ عظیمی صاحب بچوں کے ذوق علم اور شوق و جستجو کے اس مظاہرہ پر خوش نظر آ رہے تھے۔ چند لمحوں تک آپ بچوں کو محبت و شفقت کے ساتھ دیکھتے ہوئے مسکراتے رہے پھر بولے۔

                لفظ اذان کا مطلب ہے کسی چیز کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا۔ اسلامی شریعت میں اذان کا مطلب ہے فرض نماز کے وقت کے بارے میں مخصوص کلمات کے ساتھ اعلان کرنا اور لوگوں کو صلوٰۃ قائم کرنے کے لئے بلانا۔

            اذان کب سے شروع ہوئی؟

                حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ یہ دعوت لوگوں کے اپنے فائدے میں تھی۔ اس کے باوجود مکہ کے بعض دولت مند سرداروں نے آپﷺ کی سخت مخالفت کی حتیٰ کہ آپﷺ کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔ اعلان نبوت کے دس سال بعد آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر مکہ چھوڑ دیا اور مکہ کے شمال میں تقریباً 600کلومیٹر دور واقع شہر یثرب تشریف لے گئے۔ رسول اللہﷺ کا اللہ کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں منتقل ہو جانے کا عمل ہجرت کہلاتا ہے۔

                اللہ کے نبی محمدﷺ کی یثرب تشریف آوری اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد یثرب کا نام مدینۃ النبیﷺ پڑ گیا۔ لفظ مدینہ کا مطلب ہے شہر۔ مدینۃ النبیﷺ کا مطلب ہوا نبی کا شہر۔ اس شہر کو اب مدینہ منورہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے مکہ میں قیام کے دوران یثرب اور قرب و جوار کے کئی باشندوں نے مکہ آ کر آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں اور قبیلوں میں واپس آ کر اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے تھے۔ حضورﷺ کی یثرب کی طرف ہجرت کے وقت اس خطہ میں مسلمانوں کی کافی تعداد موجود تھی۔

                ہجرت کے بعد یثرب تشریف لا کر رسول اللہﷺ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کا نام مسجد النبویﷺ ہے۔ جب نماز کا وقت آتا تو مدینۃ النبیﷺ میں رہنے والے صحابہ کرام مسجد نبوی میں آجاتے اور رسول اللہﷺ کی امامت میں نماز قائم کرتے۔ ان دنوں نماز کے وقت سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے کسی اعلان وغیرہ کا کوئی اہتمام نہ کیا جاتا۔ آہستہ آہستہ اس ضرورت کو محسوس کیا جانے لگا کہ نماز کے وقت اعلان کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔

                نماز کے وقت اعلان کس طرح کیا جائے؟ اس معاملہ پر کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اللہ کے رسول محمدﷺ نے اپنے صحابہ کو مشورے کے لئے جمع کیا۔ اس موقع پر صحابہ کرام کی جانب سے مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔ ایک صحابی نے رائے دی کہ نماز کے وقت مسجد پر ایک جھنڈا لہرا دیا جائے اسے دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ ایک صحابی نے رائے دی کہ نماز کے وقت بگل بجایا جائے جسے سن کر لوگ نماز کے لئے جمع ہو جائیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ نماز کے وقت ناقوس پھونکا جائے۔ غرض کئی اصحاب نے اپنی اپنی رائے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کی۔ اس اجتماع میں صحابی رسولﷺ عمرؓ بن خطاب بھی موجود تھے۔ آپ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ مناسب نہیں کہ نماز کا وقت ہو تو ایک شخص بلند آواز سے اس کا اعلان کر دے۔ رسول اللہﷺ نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔

                اس مجلس میں صحابی رسولﷺ بلالؓ بھی رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ گہری سیاہ رنگت والے بلال ایک حبشی نسل شخص تھے جو مکہ کے ایک مشرک رئیس تاجر کے غلام تھے۔ بلالؓ کے اسلام قبول کر لینے پر اس مشرک رئیس نے بلالؓ پر جبر و تشدد کی انتہا کر دی لیکن بلالؓ صبر و استقامت سے تمام مظاہم سہتے رہے۔ آخر ایک روز صحابی رسول ابو بکرؓ نے اس مشرک رئیس کو منہ مانگی قیمت دے کر بلال کو آزاد کرا لیا۔ اس موقع پر ابو بکرؓ نے بلالؓ سے کہا کہ اب آپ آزادانہ طور پر زندگی گزار سکتے ہیں جو چاہیں فیصلہ کریں۔ یہ بلالؓ کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا لیکن آپ نے فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ بلالؓ نے کہیں اور جانے کے بجائے رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ کائنات کے سب سے بڑے انسان حضرت محمدﷺ انہی بلالؓ کو اپنے پاس بٹھاتے تھے۔

                یہ بات تو طے ہو گئی تھی کہ نماز کے لئے بلانے کا طریقہ کیا ہو گا۔ اب یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں تھا کہ رسول اللہﷺ نماز کے لئے بلانے کی ذمہ داری کسے عطا فرماتے ہیں۔ اس مجلس اور اس وقت کی یادیں ساری زندگی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ رسول اللہﷺ کا ہاتھ ان کے کندھوں پر ہے۔ آپﷺ نے بلال کے چہرے پر نظر ڈالی اور فرمایا۔ بلالؓ تم۔ بلالؓ پہلے تو یہ سمجھ نہ پائے کہ رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا ہے۔ کچھ دیر بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ بلال تمہاری آواز بہت اچھی ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا اوپر جاؤ اور وہاں سے لوگوں کو بلاؤ۔ بلال نے نظر دوڑائی تا کہ یہ سمجھ سکیں کہ رسول اللہﷺ انہیں کہاں بھیج رہے ہیں۔ مسجد نبوی کے قریب ایک مٹی کی چھت تھی۔ رسول اللہﷺ کے حکم پر بلالؓ کوشش کر کے اس پر چڑھے۔ یہ بلالؓ کی زندگی کا ایک عجیب لمحہ تھا۔ انہیں رہتی دنیا تک کے لئے ایک انتہائی معزز اور باوقار مقام ملنے والا تھا۔ بلالؓ نے پیچھے مڑ کر دیکھا مسجد کے صحن میں رسول اللہﷺ تیسرے ستون کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ ابو بکرؓ اور عمرؓ ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے بلالؓ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے بلندی کا اشارہ کیا۔ اس اشارہ میں ہمت افزائی بھی تھی اور اذان شروع کر دینے کا حکم بھی۔ بلالؓ نے اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیئے اور پکارا۔

                الصلوٰۃ۔ ولصلوٰۃ

                یہ تھے وہ الفاظ جو بلال نے پہلے پہل اذان کے لئے ادا کئے۔ اس طرح سیاہ فام بلال تاریخ اسلام میں سب سے پہلے اذان کہنے والی ہستی بن گئے۔

                حضرت بلالؓ کو بہت سے دوسرے اعزازات کے ساتھ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ مدینہ میں فجر کی اذان سے پہلے آپ ہی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ بلال صبح سویرے رسول اللہﷺ کے کمرہ کا دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹاتے اور بہت ادب و احترام کے ساتھ دھیمی آواز سے پکارتے۔

                وقت صلوٰۃ یا رسول اللہ!

            اذان کے کلمات

                ایک بچہ جو توجہ سے بات سن رہا تھا بولا ہماری مسجد کے موذن صاحب تو اذان میں کئی کلمات ادا کرتے ہیں؟

                عظیمی صاحب نے بہت شفقت سے اسے دیکھا اور حاضرین کو بتایا۔

                وقت نماز سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے غور و خوض کرنے والے صحابہ کرام کے اس اجتماع میں رسول اللہﷺ کے ایک صحابی عبداللہ بن زیدؓ بھی موجود تھے۔ آپ نے اس معاملہ میں رسول اللہﷺ کی گہری دلچسپی کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس مجلس کے اختتام کے بعد بھی عبداللہ بن زیدؓ اسی غور و فکر میں مصروف رہے۔ ان کا ذہن مسلسل ایک ہی نکتہ پر مرکوز رہا۔ ایک روز رات کو سونے کے لئے لیٹے تو اس معاملہ پر غور و فکر میں مصروف بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ بیداری سے خواب کے عالم میں چلے گئے۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ سبز چادریں اوڑھے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک ناقوس ہے۔ عبداللہ بن زیدؓ نے اس شخص سے کہا۔ اے بندہ خدا! کیا یہ ناقوس بیچو گے؟ اس نے شخص نے پوچھا۔ تم اس کا کیا کرو گے۔ عبداللہ بن زیدؓ نے کہا کہ ہم اس کے ذریعے لوگوں کو صلوٰۃ کی دعوت دیں گے۔ اس شخص نے کہا کیا تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں۔ رسول اللہﷺ کی خدمت میں جا کر صلوٰۃ کی دعوت کے لئے یہ کلمات بتاؤ۔

                عبداللہ بن زیدؓ کی آنکھ کھل گئی۔ خواب کا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں نقش تھا۔ عبداللہ بن زیدؓ اپنا یہ کواب اپنے آقا رسول اللہﷺ کو سنانے کے لئے بیتاب ہو گئے اور منہ اندھیرے ہی رسول اللہﷺ کے گھر کی طرف چل دیئے۔ رسول اللہﷺ کی رہائش مسجد نبوی کے ساتھ بنے ہوئے کمرہ میں تھی۔ عبداللہ بن زیدؓ نے وہاں پہنچ کر رسول اللہﷺ کو اپنا خواب سنایا۔ یہ خواب سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ یہ خواب سچا ہے انشاءاللہ تعالیٰ۔ عبداللہ بن زیدؓ اپنا یہ خواب سنانے کے بعد رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ فجر کا وقت ہو گیا۔ بلال بھی مسجد نبوی میں موجود تھے۔ رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن زیدؓ کو حکم دیا۔ بلالؓ کو ساتھ لے جاؤ تم اسے یہ کلمات سناتے جاؤ وہ اذان کہتا جائے گا۔ سرور کائناتﷺ کے حکم پر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور ان کلمات کے ساتھ اذان شروع کی۔

اذان

                اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ                                                  اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ

                میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے                                     میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے

                سوا کوئی معبود نہیں                                                     سوا کوئی معبود نہیں

                اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ                                                              اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ

                میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ                                      میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ

                کے رسول ہیں                                                            کے رسول ہیں

                حی علی الصلوٰۃ                                                                             حی علی الصلوٰۃ

                صلوٰۃ کی طرف آؤ                                                       صلوٰۃ کی طرف آؤ

                حی علی الفلاح                                                            حی علی الفلاح

                کامیابی کی طرف آؤ                                                    کامیابی کی طرف آؤ

                اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                لا الہ الا اللّٰہ

                اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

                چنانچہ اس روز فجر کے وقت حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز میں اللہ کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے صلوٰۃ اور فلاح کے بلاوے پر مشتمل اذان کے کلمات سب سے پہلے اس دھرتی پر گونجے اور مدینۃ النبیﷺ میں رہنے والے مبارک و مسعود اہل ایمان نے زمین پر اذان سننے والے اولین افراد ہونے کا شرف حاصل کیا۔

                یہ کب کا واقعہ ہے؟ نعمان نے پوچھا۔

                یہ رسول اللہﷺ کے ہجرت فرمانے کے دوسرے سال کا واقعہ ہے۔ عظیمی صاحب نے حاضرین کو بتایا۔

                عصر کا وقت ہو چلا تھا۔

                اسی وقت مسجد سے مؤذن کی آواز ابھری اور دور افق پر پھیلتی چلی گئی۔

                مؤذن کے ساتھ ساتھ عظیمی صاحب اور مسجد میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ آہستگی کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے جاتے۔ ان سب کی دھیمی آواز مسجد کے ہال میں گونجتی جس سے دل میں ایک عجیب کیف و سرور محسوس ہوتا۔ اذان مکمل ہوئی۔ وہاں موجود سب لوگوں نے دعا پڑھی۔

                اذان کے بعد عظیمی صاحب نے فیضان سے پوچھا۔

                ’’بیٹے! یہ عصر کی اذان تھی۔

                آپ کو فجر کی اذان یاد ہے؟

                فیضان خاموش رہا۔

                عظیمی صاحب نے کہا۔

                ظہر، عصر، مغرب اور عشاءکی اذان ان کلمات پر مشتمل ہے جو ابھی آپ نے سنے۔ فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد یہ کلمات بھی شامل ہوتے ہیں۔

                الصلوٰۃ خیر من النوم                                   الصلوٰۃ خیر من النوم

                صلوٰۃ نیند سے بہتر ہے                                  صلوٰۃ نیند سے بہتر ہے

                فجر کی اذان میں ان کلمات کا اضافہ پہلی اذان کے کچھ عرصہ بعد ہوا تھا۔

                نعمان بولا۔ بابا جی! جب آپ اور مسجد میں موجود دوسرے لوگ دھیرے دھیرے اذان کے الفاظ دہرا رہے تھے تو مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔

                عظیمی صاحب نے کہا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اذان سننے والے مؤذن کے ساتھ ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے جائیں۔ حضورﷺ کے اس فرمان پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ چکے اور الگے الفاظ ادا کرنے کے لئے تھوڑی دیر وقفہ دے تو اس دوران اذان سننے والے آہستہ آہستہ اللہ اکبر اللہ اکبر دہرائیں۔ اسی طرح جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ کہہ کر خاموش ہو تو سننے والے ان الفاظ کو دہرائیں اس طرح پوری اذان کے الفاظ دہراتے جائیں۔ تاہم حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں سننے والے کہیں۔

                لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہo

                ترجمہ: طاقت اور قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

                فجر کی اذان میں

                الصلوٰۃ خیر من النوم کے جواب میں اذان سننے والے صدقت و بررت (ترجمہ: تم نے سچ کہا اور اچھا کہا) کہیں۔

                ایک بچے نے کہا۔ بابا جی! اذان مکمل ہونے پر آپ لوگوں نے کیا پڑھا؟

                اذان مکمل ہونے پر اذان سننے والوں کو یہ دعا پڑھنی چاہئے۔

                اللّٰھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ القائمۃ ات محمدا ن الوسیلۃ والفضیلۃ والدرجتہ رفیعہ وابعثہ مقاما محمودا ن الذی وعدتہ و ارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ انک لا تخلف المیعاد

                ترجمہ: اے اللہ! اس دعوت کامل اور قائم کی جانے والی نماز کے رب تُو محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو مقام محمود عطا فرما جس کا تُو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور ہم کو قیامت کے دن ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرما۔ بے شک تُو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

                مسجد کے ہال میں ایک ایک کر کے کافی لوگ آ چکے تھے۔ عصر کی جماعت کا وقت ہو گیا تھا۔ امام صاحب اپنی جاءنماز پر جا کھڑے ہوئے۔ ان کے پیچھے لوگوں نے صفیں بنا لیں۔ امام صاحب کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک صاحب نے تکبیر پڑھنا شروع کی۔ عظیمی صاحب بچوں کو بتا چکے تھے کہ باجماعت نماز سے قبل ایک صاحب یہ جملے ادا کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ نماز با جماعت شروع ہو رہی ہے۔ تکبیر مکمل ہونے پر امام صاحب اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور نماز باجماعت شروع ہو جاتی ہے۔ نعمان کو تکبیر کے معنی بھی یاد تھے۔ وہ تکبیر کا جواب دیتے ہوئے اپنے دل میں اس کے معنی بھی دہراتا جاتا۔

تکبیر

                 اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ                                                  اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ

                میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے                                     میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے

                سوا کوئی معبود نہیں                                                     سوا کوئی معبود نہیں

                اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ                                                              اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ

                میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ                                      میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ

                کے رسول ہیں                                                            کے رسول ہیں

                حی علی الصلوٰۃ                                                                             حی علی الصلوٰۃ

                صلوٰۃ کی طرف آؤ                                                       صلوٰۃ کی طرف آؤ

                حی علی الفلاح                                                            حی علی الفلاح

                کامیابی کی طرف آؤ                                                    کامیابی کی طرف آؤ

                قدقامت الصلوٰۃ                                                        قدقامت الصلوٰۃ

                الصلوٰۃ شروع ہو گئی                                                     الصلوٰۃ شروع ہو گئی

                اللّٰہ اکبر                                                                    اللّٰہ اکبر

                اللہ سب سے بڑا ہے                                                   اللہ سب سے بڑا ہے

                لا الہ الا اللّٰہ

                اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

                تکبیر سننے والے بھی اذان سننے والوں کی طرح تکبیر سن کر آہستگی سے تکبیر کے الفاظ کو دہرائیں تاہم قدقامت الصلوٰۃ کے جواب میں کہیں

اقامھا اللّٰہ وادامھا

ترجمہ: اللہ اس کو قائم رکھے اور ہمیشہ رکھے۔


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی